Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پیشین گوئی ۔ جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر قضینا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت ( وقضینا الیہ ذالک الامر ) میں یہی معنی ہیں ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بےخوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بےدریخ قتل کیا ۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بےفائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بےنیاز کر دینے والی ہے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزرا مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بید ردی سے قتل کیا ان میں کوئی بہی حافظ تورات نہ بچا ۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے ۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے ۔ آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ 46؀ ) 41- فصلت:46 ) جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بےباکی اور بےحیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، بہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الہٰی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ ۔۔ : ” لَتُفْسِدُنَّ “ اور ” وَلَتَعْلُنَّ “ اصل میں ” لَتُفْسِدُوْنَنَّ “ اور ” لَتَعْلُوُوْنَنَّ “ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کی طرح محدود نہیں کہ اسے صرف گزشتہ اور موجودہ باتوں ہی کا علم ہو، بلکہ اسے آئندہ کسی بھی وقت ہونے والی ہر بات کا اسی طرح علم ہے جس طرح گزشتہ یا موجودہ کا پوری طرح علم ہے اور ہر گزشتہ یا آنے والا کام اس کے کمال علم و حکمت کے مطابق طے شدہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی محکم و مضبوط تدبیر و تقدیر کی وجہ سے کوئی خرابی، کوئی حادثہ پیش نہیں آتا۔ اسی تقدیر کے مطابق انسان کو کچھ اختیار دے کر آزمایا گیا ہے اور وہ اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرے گا، اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی پہلے سے علم ہے۔ اس علم کے مطابق اس نے بنی اسرائیل کو تورات سے پہلے ہی آگاہ کردیا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو پہلے بتانے کا اور ہماری امت کو یہ خبر دینے کا کیا فائدہ ؟ تو جواب یہ ہے کہ مقصد انھیں بتانے کا اور ہمیں اس کی خبر دینے کا یہ ہے کہ فساد اور سرکشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، تاکہ ہر شخص اس سے بچنے کی پوری جدوجہد کرے۔ ” اَلْاَرضِ “ سے مراد سرزمین شام ہے اور لام عہد کا ہے۔ پچھلی تفسیری آیات یعنی سورة انبیاء (٨١) میں مذکور ” اَلْاَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فیھَا “ سے بھی شام ہی مراد ہے، یا مراد ساری زمین ہے اور یہودیوں کا فساد اور ان کو ملنے والی سزا شام میں بھی واقع ہوئی اور دوسرے علاقوں میں بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں (خواہ توریت میں یا دوسرے انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے صیحیفوں میں) یہ بات (بطور پیشن گوئی کے) بتلادی تھی کہ تم سر زمین (شام) میں دو مرتبہ (گناہوں کی کثرت سے) خرابی کرو گے (ایک مرتبہ شریعت موسویہ کی مخالفت اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی مخالفت) اور دوسروں پر بھی بڑا زور چلانے لگو گے (یعنی ظلم و زیادتی کرو گے اس طرح لَتُفْسِدُنَّ میں حقوق اللہ کے ضائع کرنے کی طرف اور لَتَعْلُنّ میں حقوق العباد ضائع کرنے کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ دونوں مرتبہ سخت سزاؤں میں بتلا کئے جاؤ گے) پھر جب ان دو مرتبہ میں پہلی مرتبہ کی میعاد آئے گی تو ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کردیں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے پھر وہ (تمہارے) گھروں میں گھس پڑیں گے (اور تم کو قتل و قید اور غارت کردیں گے اور یہ (وعدہ سزا) ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا پھر (جب تم اپنے کئے پر نادم وتائب ہوجاؤ گے) تو ہم پھر ان پر تمہارا غلبہ کردیں گے (گو بواسطہ سہی کہ جو قوم ان پر غالب آئے گی وہ تمہاری حامی ہوجائے گی اس طرح تمہارے دشمن اس قوم سے اور تم سے دونوں سے مغلوب ہوجائیں گے) اور مال اور بیٹوں سے (جو کہ قید اور غارت کئے گئے تھے) ہم تمہاری امداد کریں گے (یعنی یہ چیزیں تم کو واپس مل جائیں گی جن سے تمہیں قوت پہنچے گی) اور ہم تمہاری جماعت (یعنی تابعین) کو بڑھا دیں گے (پس جاہ ومال اور اولاد ومتبعین سب میں ترقی ہوگی اور اس کتاب میں بطور نصیحت یہ بھی لکھا تھا کہ) اگر (اب آئندہ) اچھے کام کرتے رہو گے تو اپنے ہی نفع کے لئے اچھے کام کرو گے (یعنی دنیا وآخرت میں اس کا نفع حاصل ہوگا) اور اگر (پھر) تم برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لئے (برائی کرو گے یعنی پھر سزا ہوگی چناچہ ایسا ہی ہوا جس کا آگے بیان ہے کہ) پھر جب (مذکورہ دو مرتبہ کے فساد میں سے) آخری مرتبہ کا وقت آئے گا (اور اس وقت تم شریعت عیسویہ کی مخالفت کرو گے) تو پھر ہم دوسروں کو تم پر مسلط کردیں گے تاکہ (وہ تمہیں مار مار کر) تمہارا چہرہ بگاڑ دیں اور جس طرح وہ (پہلے) لوگ مسجد (بیت المقدس) میں (لوٹ مار کے ساتھ) گھسے تھے یہ (پچھلے) لوگ بھی اس میں گھس پڑیں گے اور جس طرح وہ (پہلے) لوگ مسجد (بیت المقدس) میں (لوٹ مار کے ساتھ) گھسے تھے یہ (پچھلے) لوگ بھی اس میں گھس پڑیں گے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے سب کو (ہلاک و برباد کر ڈالیں (اور اس کتاب میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اس دوسری مرتبہ کے بعد جب دور شریعت محمدیہ کا ہو تم مخالفت و معصیت سے باز کر شریعت محمدیہ کا اتباع کرلو تو) عجب نہیں (یعنی امید بمعنی وعدہ ہے) کہ تمہارا رب تم پر رحم فرماوے (اور تم کو ادبار وذلت سے نکال دے) اور اگر تم پھر وہی (شرارت) کرو گے تو ہم بھی وہی (سزا کا برتاؤ) کریں گے (چنانچہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں انہوں نے آپ کی مخالفت کی تو پھر قتل وقید اور ذلیل ہوئے یہ تو دنیا کی سزا ہوگئی) اور (آخرت میں) ہم نے جہنم کو (ایسے) کافروں کا جی خانہ بنا ہی رکھا ہے۔- ربط آیات :- اس سے پہلی آیات (آیت) جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ میں احکام شرعیہ اور ہدایات الہیہ کے اتباع و اطاعت کی ترغیب تھی اور مذکور الصدر آیات میں ان کی مخالفت سے ترہیب وزجر کا مضمون ہے ان آیات میں بنی اسرائیل کے دو واقعے عبرت و نصیحت کے لئے ذکر کئے گئے کہ انہوں نے ایک مرتبہ معاصی اور حکم ربانی کی مخالفت میں انہماک کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کو تباہ کیا پھر ان کو کچھ تنبہیہ ہوگئی اور شرارت کم کردی تو سنبھل گئے کچھ عرصہ کے بعد پھر وہی شرارتیں اور بداعمالیاں ان میں پھیل گئیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دشمن کے ہاتھ سے سزا دلائی قرآن کریم میں دو واقعوں کا ذکر ہے مگر تاریخ میں اس اس طرح کے چھ واقعات مذکور ہیں۔- پہلا واقعہ : حضرت (علیہ السلام) بانی مسجد اقصی کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد پیش آیا کہ بیت المقدس کے حاکم نے بےدینی اور بدعملی اختیار کرلی تو مصر کا ایک بادشاہ اس پر چڑھ آیا اور بیت المقدس کا سامان سونے چاندی کا لوٹ کرلے گیا مگر شہر اور مسجد کو منہدم نہیں کیا۔- دوسرا واقعہ : اس سے تقریبا چار سو سال بعد کا ہے کہ بیت المقدس میں بسنے والے بعض یہودیوں نے بت پرستی شروع کردی اور باقیوں میں نااتفاقی اور باہمی جھگڑے ہونے لگے اس نحوست سے پھر مصر کے کسی بادشاہ نے ان پر چڑھائی کردی اور کسی قدر شہر اور مسجد کی عمارت کو بھی نقصان پہنچایا پھر ان کی حالت کچھ سنبھل گئی۔- تیسرا واقعہ : اسکے چند سال بعد جب بخت نصر شاہ بابل نے بیت المقدس پر چڑھائی کردی اور شہر کو فتح کر کے بہت سا مال لوٹ لیا اور بہت سے لوگوں کو قیدی بنا کرلے گیا اور پہلے بادشاہ کے خاندان کے ایک فرد کو اپنے قائمقام کی حیثیت سے اس شہر کا حاکم بنادیا۔- چوتھا واقعہ : اس نئے بادشاہ نے جو بت پرست اور بدعمل تھا بخت نصر سے بغاوت کی تو بخت نصر دوبارہ چڑھ آیا اور کشت وخون اور قتل و غارت کی کوئی حد نہ رہی شہر میں آگ لگا کر میدان کردیا یہ حادثہ تعمیر مسجد سے تقریبا چار سو پندرہ سال کے بعد پیش آیا اس کے بعد یہود یہاں سے جلاوطن ہو کر بابل چلے گئے جہاں نہایت ذلت و خواری سے رہتے ہوئے ستر سال گذر گئے اس کے بعد شاہ ایران نے شاہ بابل پر چڑھائی کر کے بابل فتح کرلیا پھر شاہ ایران کو ان جلاوطن یہودیوں پر رحم آیا اور ان کو واپس ملک شام میں پہنچا دیا اور ان کا لوٹا ہوا سامان بھی واپس کردیا اب یہود اپنے اعمال بد اور معاصی سے تائب ہوچکے تھے یہاں نئے سرے سے آباد ہوئے تو شاہ ایران کے تعاون سے پھر مسجد اقصی کو سابق نمونہ کے مطابق بنادیا۔- پانچواں واقعہ : یہ پیش آیا کہ جب یہود کو یہاں اطمینان اور آسودگی دوبارہ حاصل ہوگئی تو اپنے ماضی کو بھول گئے اور پھر بدکاری اور بد اعمالی میں منہمک ہوگئے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے ایک سو ستر سال پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ جس بادشاہ نے انطاکیہ آباد کیا تھا اس نے چڑھائی کردی اور چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا چالیس ہزار کو قیدی اور غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور مسجد کی بھی بہت بےحرمتی کی مگر عمارت مسجد کی بچ گئی مگر پھر اس بادشاہ کے جانشینوں نے شہر اور مسجد کو بالکل میدان کردیا اس کے کچھ عرصہ کے بعد بیت المقدس پر سلاطین روم کی حکومت ہوگئی انہوں نے مسجد کو پھر درست کیا اور اس کے آٹھ سال بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔- چھٹا واقعہ : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صعود اور رفع جسمانی کے چالیس برس بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ یہودیوں نے اپنے حکمران سلاطین روم سے بغاوت اختیار کرلی رومیوں نے پھر شہر اور مسجد کو تباہ کر کے وہی حالت بنادی جو پہلے تھی اس وقت کے بادشاہ کا نام طیطس تھا جو نہ یہودی تھا نہ نصرانی کیونکہ اس کے بہت روز کے بعد قسطنطین اول عیسائی ہوا ہے اور اس کے بعد سے حضرت عمر بن خطاب کے زمانہ تک یہ مسجد ویران پڑی رہی یہاں تک کہ آپ نے اس کی تعمیر کرائی یہ چھ واقعات تفسیر بیان القرآن میں بحوالہ تفسیر حقانی لکھے گئے ہیں ،- اب یہ بات کہ قرآن کریم نے جن دو واقعوں کا ذکر کیا ہے وہ ان میں سے کون سے ہیں اس کی قطعی تعیین تو مشکل ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ ان میں جو واقعات زیادہ سنگین اور بڑے ہیں جن میں یہود کی شرارتیں بھی زیادہ ہوئیں اور سزا بھی سخت ملی ان پر محمول کیا جائے اور وہ چوتھا اور چھٹا واقعہ ہے تفسیر قرطبی میں یہاں ایک طویل حدیث مرفوع بروایت حذیفہ نقل کی ہے اس سے بھی اس کی تعیین ہوتی ہے کہ ان دو واقعوں سے مراد چوتھا اور چھٹا واقعہ ہے اس طویل حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔- حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ بیت المقدس اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظیم القدر مسجد ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دنیا کے سب گھروں میں ایک ممتاز عظمت والا گھر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے لئے سونے چاندی اور جواہرات یا قوت و زمرد سے بنایا تھا اور یہ اس طرح کہ جب سیلمان (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر شروع کی تو حق تعالیٰ نے جنات کو ان کے تابع کردیا جنات نے یہ تمام جواہرات اور سونے اور چاندی جمع کر کے ان سے مسجد بنائی حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر بیت المقدس سے یہ سونا چاندی اور جواہرات کہاں اور کس طرح گئے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور گناہوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوگئے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر بادشاہ کو مسلط کردیا جو مجوسی تھا اس نے سات سو برس بیت المقدس پر حکومت کی اور قرآن کریم میں (آیت) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ ۔ سے یہی واقعہ مراد ہے بخت نصر کا لشکر مسجد قدس میں داخل ہوا مردوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو قید کیا اور بیت المقدس کے تمام اموال اور سونے چاندی جواہرات کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں میں بھر کرلے گیا اور اپنے ملک بابل میں رکھ لیا اور سو برس تک ان بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا کر طرح طرح کی بامشقت خدمت ذلت کے ساتھ ان سے لیتا رہا - پھر اللہ تعالیٰ نے فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو اس کے مقابلے کے لئے کھڑا کردیا جس نے بابل کو فتح کیا اور باقیماندہ بنی اسرائیل کو بخت نصر کی قید سے آزاد کرایا اور جتنے اموال وہ بیت المقدس سے لایا تھا وہ سب واپس بیت المقدس میں پہنچا دئیے اور پھر بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اگر تم پھر نافرمانی اور گناہوں کی طرف لوٹ جاؤ گے تو ہم بھی پھر قتل وقید کا عذاب تم پر لوٹا دیں گے آیت قرآنی (آیت) عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا سے یہی مراد ہے۔- پھر جب بنی اسرائیل بیت المقدس میں لوٹ آئے (اور سب اموال و سامان بھی قبضہ میں آگیا) تو پھر معاصی اور بداعمالیوں کی طرف لوٹ گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر شاہ روم قیصر کو مسلط کردیا (آیت) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ سے یہی مراد ہے شاہ روم نے ان لوگوں سے بری اور بحری دونوں راستوں پر جنگ کی اور بہت سے لوگوں کو قتل اور قید کیا اور پھر تمام ان اموال بیت المقدس کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں پر لاد کرلے گئے اور اپنے کنیسۃ الذہب میں رکھ دیا یہ سب اموال ابھی تک وہیں ہیں اور وہیں رہیں گے یہاں تک کہ حضرت مہدی پھر ان کو بیت المقدس میں ایک لاکھ ستر ہزار کشتیوں میں واپس لائینگے اور اسی جگہ اللہ تعالیٰ تمام اولین وآخرین کو جمع کردیں گے۔ (الحدیث بطولہ رواہ القرطبی فی تفسیرہ)- بیان القرآن میں ہے کہ دو واقعے جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اس سے مراد دو شریعتوں کی مخالفت ہے پہلے شریعت موسوی کی مخالفت اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد شریعت عیسویہ کی مخالفت ہے اس طرح پہلی مخالفت میں وہ سب واقعات درج ہو سکتے ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں واقعات کی تفصیل کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر دیکھئے۔- معارف و مسائل :- مذکورہ الصدر واقعات کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا تھا کہ وہ جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے دین و دنیا میں فائز المرام اور کامیاب رہیں گے اور جب کبھی دین سے انحراف کریں گے ذلیل و خوار کئے جاویں گے اور دشمنوں کافروں کے ہاتھوں ان پر مار ڈالی جائے گی اور صرف یہی نہیں کہ دشمن ان پر غالب ہو کر ان کی جان ومال کو نقصان پہنچائیں بلکہ ان کے ساتھ ان کا قبلہ جو بیت المقدس ہے وہ بھی اس دشمن کی زد سے محفوظ نہیں رہے گا ان کے کافر دشمن مسجد بیت المقدس میں گھس کر اس کی بےحرمتی اور توڑ پھوڑ کریں گے یہ بھی بنی اسرائیل کی سزا ہی کا ایک جز ہوگا قرآن کریم نے ان کے دو واقعے بیان فرمائے پہلا واقعہ شریعت موسویہ کے زمانے کا ہے دوسرا شریعت عیسویہ کے زمانہ کا ان دونوں میں بنی اسرائیل نے اپنے کی شریعت الہیہ سے انحراف کر کے سرکشی اختیار کی تو پہلے واقعہ میں ایک مجوسی کافر بادشاہ کو ان پر اور بیت المقدس پر مسلط کردیا گیا جس نے تباہی مچائی اور دوسرے واقعہ میں ایک رومی بادشاہ کو مسلط کیا جس نے ان کو قتل و غارت کیا اور بیت المقدس کو منہدم اور ویران کیا اسی کے ساتھ یہ بھی ذکر کردیا گیا ہے کہ دونوں مرتبہ جب بنی اسرائیل اپنی بداعمالیوں پر نادم ہو کر تائب ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ملک و دولت اور آل واولاد کو بحال کردیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا ۝- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین سب درہم برہم ہوجائیں ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) اور ہم نے توریت میں بنی اسرائیل کو یہ بات بتادی تھی کہ تم زمین میں دوبارہ خرابی کرو گے اور بڑا زور چلانے لگوگے اور بہت زیادتیاں کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا)- یعنی تم پر دو ادوار ایسے آئیں گے کہ تم زمین میں سرکشی کرو گے فساد برپا کرو گے دین سے دور ہوجاؤ گے لہو و لعب میں مبتلا ہوجاؤ گے اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے تم پر عذاب کے کوڑے برسیں گے۔ - یہاں پر بین السطور یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل پر ایک بہتر دور بھی آیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا تھا۔ سورة البقرۃ میں ان کے اس اچھے دور کی کچھ تفصیلات ہم پڑھ آئے ہیں۔ یاد دہانی کے طور پر اہم واقعات اختصار کے ساتھ یہاں پھر تازہ کرلیں۔ حضرت موسیٰ 1400 قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔ صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔ وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اور فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔ جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میں فلسطین فتح ہوگیا۔ فلسطین کا جو شہر سب سے پہلے فتح ہوا وہ اریحا ( ) تھا۔ فلسطین کی فتح کے بعد ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ایک مضبوط مرکزی حکومت بنانے کے بجائے یہ علاقہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں نے آپس میں بانٹ لیا اور ہر قبیلے نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں نہ صرف بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں بلکہ بہت جلد انہوں نے آپس میں بھی لڑنا جھگڑنا شروع کردیا ‘ جس کے نتیجے میں ان کے زیر تسلط علاقے بہت جلد انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہوگئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے شام اور اردن کے ہمسایہ علاقوں میں بسنے والی مشرک اقوام نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کی بیشتر آبادی کو اس علاقے سے نکال باہر کیا۔- اس حالت کو پہنچنے پر انہوں نے اپنے نبی حضرت سموئیل سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے ایک بادشاہ یا سپہ سالار مقرر کردیں تاکہ اس کی قیادت میں تمام قبیلے اکٹھے ہو کر جہاد کریں۔ اس مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ حضرت طالوت نے دشمن افواج کے خلاف لشکر کشی کی ‘ جن کا سپہ سالار جالوت تھا۔ اس جنگ میں حضرت داؤد بھی شامل تھے۔ آپ نے جالوت کو قتل کردیا ‘ جس کے نتیجے میں دشمن لشکر پر بنی اسرائیل کو فتح نصیب ہوئی اور وہ علاقے میں ایک مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حضرت طالوت کے بعد حضرت داؤد ان کے جانشین ہوئے اور حضرت داؤد کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان بادشاہ بنے۔- حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کے فتح ہونے سے لے کر طالوت اور جالوت کی جنگ تک تین سو سال کا وقفہ ہے۔ حضرت سلیمان کا عہد حکومت اس تین سو سالہ دور کا نقطہ عروج تھا۔ حضرت طالوت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا دور اقتدار تقریباً ایک سو سال کے عرصے پر محیط تھا۔ سولہ برس تک حضرت طالوت نے حکومت کی ‘ اس کے بعد چالیس برس تک حضرت داؤد اور پھر چالیس برس تک ہی حضرت سلیمان برسر اقتدار رہے۔ یہ دور گویا بنی اسرائیل کی خلافت راشدہ کا دور تھا جو ہمارے دور خلافت راشدہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگرچہ ان کی پہلی تین خلافتیں ایک سو برس کے عرصے پر محیط تھیں اور ہماری امت کی پہلی تین خلافتوں کا عرصہ چوبیس برس تھا لیکن جس طرح ان کے پہلے خلیفہ کا دور اقتدار مختصر اور بعد کے دونوں خلفاء کا دور نسبتاً طویل تھا اسی طرح ہمارے ہاں بھی حضرت ابوبکر کا دور خلافت مختصر جبکہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کا دور نسبتاً طویل تھا۔ اس کے بعد حضرت علی کی خلافت کو امیر معاویہ نے قبول نہیں کیا تھا چناچہ شام اور مصر کے علاقے علیحدہ رہے تھے بالکل اسی طرح بنی اسرائیل کی مملکت بھی حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کے دو بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ شمالی مملکت کا نام اسرائیل تھا جس کا دار الخلافہ سامریہ تھا جبکہ جنوبی مملکت کا نام یہودیہ تھا اور اس کا دار الخلافہ یروشلم تھا۔ - اس عظیم سلطنت کی تقسیم کے بعد بھی مادی اعتبار سے ایک عرصے تک بنی اسرائیل کا عروج برقرار رہا لیکن رفتہ رفتہ عوام میں مشرکانہ عقائد اوہام پرستی اور ہوس دنیا جیسی نظریاتی و اخلاقی بیماریاں پیدا ہوگئیں اور احکام شریعت کا استہزا ان کا اجتماعی وطیرہ بن گیا۔ چناچہ اخلاق و کردار کا یہ زوال منطقی طور پر ان کے مادی زوال پر منتج ہوا۔ بنی اسرائیل کا یہ عہد زوال بھی تقریباً تین سو سال ہی کے عرصے میں اپنی انتہا کو پہنچا۔ سب سے پہلے آشوریوں کے ہاتھوں ان کی شمالی سلطنت ” اسرائیل “ (سات آٹھ سو قبل مسیح کے لگ بھگ) تباہ ہوئی۔ اس کے بعد 587 قبل مسیح میں عراق کے نمرود بخت نصر ( ) نے ان کی جنوبی سلطنت ” یہودیہ “ پر حملہ کیا اور پوری سلطنت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ کسی عمارت کی دو اینٹیں بھی سلامت نہیں رہنے دی گئیں۔ ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے اس کی بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں۔ اس دوران بخت نصر نے چھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا جبکہ چھ لاکھ مردوں عورتوں اور بچوں کو جانوروں کی طرح ہانکتا ہوا بابل لے گیا جہاں یہ لوگ سوا سو سال تک اسیری ( ) کی حالت میں رہے۔ ذلت و رسوائی کے اعتبار سے یہ ان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔ - بنی اسرائیل کے دوسرے دور عروج کا آغاز حضرت عزیر کی اصلاحی کوششوں سے ہوا۔ آپ کو بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ ( ) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ کیخورس ( ) یا ذوالقرنین نے عراق (بابل) فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ چناچہ یہودیوں کے قافلے فلسطین جانے شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ 458 ق م میں حضرت عزیر بھی ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ یروشلم پہنچے اور اس شہر کو آباد کرنا شروع کیا اور ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر کی۔ اس سے قبل حضرت عزیر کو اللہ تعالیٰ نے سو برس تک سلائی بھی رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سو سال کے لیے موت طاری کردی تھی اور پھر انہیں زندہ کیا اور انہیں بچشم سر ان کے مردہ گدھے کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرایا جس کے بارے میں ہم سورة البقرۃ (آیت ٢٥٩) میں پڑھ آئے ہیں۔ بہر حال حضرت عزیر نے توبہ کی منادی کے ذریعے ایک زبردست تجدیدی اور اصلاحی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ان کے نظریات اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہونا شروع ہوئی۔ حضرت عزیر نے تورات کو بھی یادداشتوں کی مدد سے ازسرنو مرتب کیا جو بخت نصر کے حملے کے دوران گم ہوگئی تھی۔ - ایرانی سلطنت کے زوال سکندر مقدونی کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے شدید دھچکا لگا۔ یونانی سپہ سالار انیٹوکس ثالث نے 198 ق م میں فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یونانی فاتحین نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنا چاہی ‘ لیکن بنی اسرائیل اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں ” مکابی بغاوت “ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح دینداری کا اثر تھا کہ انہوں نے بالآخر یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک عظیم آزاد ریاست قائم کرلی جو ” مکابی سلطنت “ کہلاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے دوسرے دور عروج میں قائم ہونے والی یہ سلطنت 170 ق م سے لے کر 67 ق م تک پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی۔ مکابی سلطنت اپنے وقت کی معلوم دنیا کے تمام علاقوں پر محیط تھی۔ چناچہ رقبے کے اعتبار سے یہ حضرت سلیمان کی سلطنت سے بھی وسیع تھی۔ اس زمانہ عروج میں پھر سے ان کی نظریاتی و اخلاقی حالت بگڑنے لگی۔ مشرکانہ عقائد سمیت بہت سی اخلاقی برائیاں پھر سے ان میں پیدا ہوگئیں جن کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر یہ قوم عذاب خداوندی کی زد میں آگئی۔ - مکابی تحریک جس اخلاقی ودینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بےروح ظاہر داری نے لے لی۔ آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑگئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپئی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چناچہ پومپئی نے 63 ق م میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کردیا۔ رومیوں نے فلسطین میں اپنے زیرسایہ ایک دیسی ریاست قائم کردی جو بالآخر 40 ق م میں ہیرود نامی ایک ہوشیار یہودی کے قبضے میں آئی۔ یہ شخص ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے اور اس کی فرماں روائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر 40 سے 4 ق م تک رہی۔ اس شخص نے رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ گئی تھی۔ ہیرود اعظم کے بعد اس کی ریاست اس کے تین بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ لیکن 4 ء میں قیصر آگسٹس نے ہیرود کے بیٹے ارخلاؤس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کردی اور 41 ء تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اٹھے تو یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں واجب القتل قرار دے کر رومی گورنر پونٹس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی اور اپنے خیال کے مطابق تو ان کو سولی پر چڑھوا ہی دیا۔- رومیوں نے 41 ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ” ہیرود اگر پا “ کو ان تمام علاقوں کا حکمران بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے برسراقتدار آکر مسیح کے پیروؤں پر مظالم کی انتہا کردی۔ کچھ ہی عرصے بعد یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہوگئی اور 64 ء تا 66 ء کے دوران یہودیوں نے رومیوں کے خلاف کھلی بغاوت کردی ‘ جو ان کے عروج ثانی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ یہودیوں کی بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے بالآخر رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی کی اور 70 ء میں ٹائٹس ( ) نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کرلیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر مسمار کردیا گیا۔ جنرل ٹائیٹس کے حکم پر شہر میں قتل عام ہوا۔ ایک دن میں ایک لاکھ 33 ہزار یہودی قتل ہوئے ‘ جبکہ 67 ہزار کو غلام بنا لیا گیا۔ اس طرح رومیوں نے پورے شہر میں کوئی متنفس باقی نہ چھوڑا۔ اس کے ساتھ ہی ارض فلسطین سے بنی اسرائیل کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ بیسویں صدی کے شروع تک پورے دو ہزار برس یہ لوگ جلا وطنی اور انتشار ( ) کی حالت میں ہی رہے۔ جنرل ٹائیٹس کے ہاتھوں 70 ء میں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا تو آج تک تعمیر نہ ہوسکا۔ حضور کی پیدائش (571 ء) کے وقت اسے مسمار ہوئے پانچ سو برس گزر چکے تھے۔ - یہ خلاصہ ہے اس قوم کی داستان عبرت کا جو اپنے وقت کی امت مسلمہ تھی۔ جس کے اندر چودہ سو برس تک مسلسل نبوت رہی۔ جس کو تین الہامی کتابوں سے نوازا گیا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (البقرۃ) ” اے بنی اسرائیل یاد کرو میری وہ نعمت جو میں نے تم لوگوں کو عطا کی اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت دی تمام جہانوں والوں پر۔ “- آخر کار بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی امت کو اس مسند فضیلت پر متمکن کیا گیا۔ حضور نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا کہ تم لوگوں پر بھی عین وہی حالات وارد ہوں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے تھے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ مسلمانوں کو پہلا عروج عربوں کے زیر قیادت نصیب ہوا۔ اس کے بعد جب زوال آیا تو صلیبیوں کی یلغار کی صورت میں ان پر عذاب کے کوڑے برسے۔ پھر تاتاریوں نے ہلاکو خان اور چنگیز خاں کی قیادت میں عالم اسلام کو تاخت و تاراج کیا۔ اس کے بعد قدرت نے عالم اسلام کی قیادت عربوں سے چھین کر انہی تاتاریوں کے ہاتھوں میں دے دی جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا تھا - ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے - پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے - چنانچہ ترکوں کی قیادت میں اس امت کو ایک دفعہ پھر عروج نصیب ہوا۔ ترکان تیموری ترکان صفوی ترکان سلجوقی اور ترکان عثمانی نے دنیا میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں۔ اس کے بعد امت مسلمہ پر دوسرا دور زوال آیا۔ بنی اسرائیل پر دوسرا دور عذاب یونانیوں اور رومیوں کے ہاتھوں آیا تھا جبکہ امت مسلمہ پر دوسرا عذاب اقوام یورپ کے تسلط کی صورت میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریز فرانسیسی اطالوی ہسپانوی اور ولندیزی ( ) پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں عظیم عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔- یہ ان حالات وو اقعات کا خلاصہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے آیت زیر نظر میں فرمایا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی بنی اسرائیل کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ تم لوگ اپنی تاریخ میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور سرکشی دکھاؤ گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :5 کتاب سے مراد یہاں تورات نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ الکتاب کئی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :6 بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں ۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور ، یسعیاہ ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے ، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے ۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے ۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد علیہ السلام نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں: ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے ۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا ، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کر دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمراں بن گئے“ ( زبور ، باب ١۰٦ ۔ آیات۳٤ ۔ ٤١ ) اس عبارت میں ان واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے ، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے ، گویا کہ وہ ہو چکے ۔ یہ کتب آسمانی کا خاص انداز بیان ہے ۔ پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں: ” آہ ، خطاکار گروہ ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم ، بدکرداروں کی نسل ، مکار اولاد ، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا ، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے ، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“؟ ( باب١ ۔ آیت٤ ۔ ۵ ) ”وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی ، لیکن اب خونی رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی ۔ اس لیے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“ ۔ ( باب ١ ۔ آیت۲١ ۔ ۲٤ ) ”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کیسر زمین بتوں سے بھی پر ہے ۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت ، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت٦ ۔ ۷ ) ”اور خداوند فرماتا ہے ، چونکہ صہیون کی بیٹیاں ( یعنی یروشلم کی رہنے والیاں ) متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے ۔ اس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “ ۔ ( باب۳ ۔ آیت١٦ ۔ ۲٦ ) ” اب دیکھ ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب ، یعنی شاہ اسور ( اسیریا ) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا “ ۔ ( باب ۸ ۔ آیت۷ ) ”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں ، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو ، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو ۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا ، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا ، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“ ۔ ( باب ۳۰ ۔ آیت۹ ۔ ١٤ ) پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا: ” خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سےدور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا ، اور میری میراث کو مکروہ بنایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی ۔ ہاں ، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی ( یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہربت کو سجدہ کیا ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا ، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور ( جھوٹے ) نبی ، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا ، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی ، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اٹھ کر ہم کو بچا ۔ لیکن تیرے وہ بت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا ؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں ، کیونکہ اے یہوداہ جتنےتیرے شہر میں اتنے ہی تیرےمعبود ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت۵ ۔ ۲۸ ) ”خدا وند نے مجھ سے فرمایا ، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل ( یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست ) نے کیا کیا ؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری ( یعنی بت پرستی ) کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا ۔ ( یعنی یروشلم کی یہودی ریاست ) نے یہ حال دیکھا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری ( یعنی شرک ) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا ( یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا ) تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری ( یعنی بت پرستی ) کی“ ۔ ( باب ۳ ۔ آیت٦ ۔ ۹ ) ”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو ، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تجھے کیسے معاف کروں ، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں ۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے ۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے ، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بن بنانے لگا ۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“؟ ( باب۵ ۔ آیت١ ۔ ۹ ) ”اے اسرائیل کے گھرانے دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا ۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے ۔ وہ قدیم قوم ہے ۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا ۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں ۔ وہ سب بہادر مرد ہیں ۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے ۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے ۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے ۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے تلوار سے ویران کر دیں گے“ ۔ ( باب۵ ۔ آیت١۵ ۔ ا۷ ) ”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا ۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز ، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائےگا“ ۔ ( باب۷ ۔ آیت۳۳ ۔ ۳٤ ) ”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں ۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف ، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف ، اور جو کال کےلیے ہیں وہ کال کو ، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“ ۔ ( باب ١۵ ۔ آیت۲ ۔ ۳ ) پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا: ”اے شہر ، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے ۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا ۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا ۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا ، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا ، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں ، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی ، تجھ میں انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خورای کی ، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا ، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا ؟ ہں میں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں ۔ ( باب۲۲ ۔ آیت ۳ ۔ ۱٦ ) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبردار کیا ۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اے یروشلم اے یرو شلم تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں ، مگر تونے نہ چاہا ، دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے ۔ ( آیت۲۷ ۔ ۳۸ ) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ( باب ۲٤ ۔ آیت۲ ) پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں ، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں ، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا: اے یروشلم کی بیٹیو میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ ، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا ، اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani