Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد نسل انسانی نوح (علیہ السلام) کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتیئ نوح (علیہ السلام) میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح (علیہ السلام) ، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] کیا نوح آدم ثانی ہیں ؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انسانی نسل صرف سیدنا نوح کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث ہی کی اولاد نہیں ہیں جیسا کہ مؤرخین کا بیان ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی اولاد ہے جو سیدنا نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۔۔ :” ذُرِّيَّــةَ “ سے پہلے ” یَا “ حرف ندا محذوف ہے، ” اے ان لوگوں کی اولاد۔۔ “ یعنی تم ان صالح لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی۔ مقصد بنی اسرائیل کو ایمان اور عمل صالح پر ابھارنا ہے کہ دیکھو تم کن لوگوں کی اولاد ہو، تمہارے لیے اپنے صالح آبا و اجداد کے نقش قدم پر چل کر ایک اللہ کی عبادت کا پابند رہنا، اپنے باپ نوح (علیہ السلام) کی طرح ہر وقت اسی کا شکر گزار رہنا اور اس کے سوا کسی کو اپنا وکیل، کارساز اور بھروسے کے قابل نہ سمجھنا لازم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا ۝- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اے ان لوگوں کی نسل جن کو ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان مردوں اور عورتوں کی پشتوں میں کشتی میں سوار کیا تھا وہ بڑے شکر گزار بندے تھے چناچہ کھانے پینے اور لباس اور پہننے کے وقت بھی الحمد للہ کہتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا)- حضرت نوح کے تین بیٹے سام حام اور یافث تھے جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ ان میں سے حضرت سام کی نسل میں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جن کی اولاد کو یہاں بنی اسرائیل کے طور پر مخاطب کیا جارہا ہے۔ انہیں یاد دلایاجا رہا ہے کہ حضرت نوح کے ساتھ جن لوگوں کو ہم نے بچایا تھا انہی میں سے ایک کی اولاد تم ہو اور نوح ہمارا بہت ہی شکر گزار بندہ تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :4 یعنی نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے حیثیت سے تمہارے شایاںِ شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: حضرت نوع (علیہ السلام) کی کشتی کا حوالہ خاص طور پر اس لیے دیا گیا ہے کہ جو لوگ اس کشتی میں سوار ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے طوفان میں ڈوبنے سے بچالیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا، اسے یاد دلا کر فرمایا جا رہا ہے کہ اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی اولاد اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائے۔