اولاد کا قاتل فرمان الہٰی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں ۔ مثلا قوم فرعون سے انہیں نجات دلوانا جو انہیں بےوقعت کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے یہاں تک کہ تمام نرینہ اولاد قتل کر ڈالتے تھے صرف لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ یہ نعمت اتنی بڑی ہے کہ تم اس کی شکر گزاری کی طاقت نہیں رکھتے ۔ یہ مطلب بھی اس جملے کا ہو سکتا ہے کہ فرعونی ایذاء دراصل تمہاری ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں ، واللہ اعلم ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ١٦٨ ) 7- الاعراف:168 ) یعنی ہم نے انہیں بھلائی برائی سے آزما لیا کہ وہ لوٹ آئیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگاہ کر دیا ۔ اور یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اپنی عزت و جلالت اور کبریائی کی ۔ جیسے آیت ( وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ١٦٧ ) 7- الاعراف:167 ) ، میں ۔ پس اللہ کا حتمی وعدہ ہوا اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور ناشکروں کی نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں اور چھن جائیں گی اور انہیں سخت سزا ہو گی ۔ حدیث میں ہے بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ نے اسے ایک کھجور دی ۔ وہ بڑا بگڑا اور کجھور نہ لی ۔ پھر دوسرا سائل گزرا آپ نے اسے بھی وہی کجھور دی اس نے اسے بخوشی لے لیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے رسول کا عطیہ ہے ۔ آپ نے اسے بیس درہم دینے کا حکم فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے لونڈی سے فرمایا اسے لے جاؤ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چالیس درہم ہیں وہ اسے دلوا دو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم سب اور روئے زمین کی تمام مخلوق بھی ناشکری کرنے لگے تو اللہ کا کیا بگاڑے گا ؟ وہ بندوں سے اور ان کی شکر گزاری سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے ۔ تعریفوں کا مالک اور قابل وہی ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۭ اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ċ ) 39- الزمر:7 ) تم اگر کفر کرو تو اللہ تم سے غنی ہے اور آیت میں ہے آیت ( فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ Č ) 64- التغابن:6 ) انہوں نے کفر کیا منہ موڑ لیا تو اللہ نے ان سے مطلقا بےنیازی برتی ۔ صحیح مسلم شریف میں قدسی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے اول آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقوے والے دل کے شخص جیسے بن جائیں تو اس سے میرا ملک ذرا سا بھی بڑھ نہ جائے گا اور اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بدترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ بہی نہ گھٹے گا ۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو ۔ پس ہمارا رب پاک ہے بلند ہے غنی ہے اور حمید ہے ۔
6۔ 1 یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔
[٨] یہ واقعات سورة بقرہ، سورة اعراف اور سورة ہود میں تفصیل سے گزر چکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیے جائیں۔
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوْا ۔۔ : یہاں موسیٰ (علیہ السلام) چند نعمتیں گنوا رہے ہیں۔ ” يَسُوْمُوْنَكُمْ “ کے بعد ” وَيُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ “ میں واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ وہ لڑکوں کو ذبح کرنے اور عورتوں کو زندہ رکھنے کے علاوہ اور بھی کئی بدترین عذاب دیتے تھے، مثلاً بیگار لینا، ذلیل کرنا اور مار پیٹ وغیرہ۔- وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ : ” بَلَاۗءٌ“ کا لفظ مصیبت پر بھی آتا ہے اور نعمت پر بھی، فرمایا : ( وَنَبْلُوْكُمْ بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ) [ الأنبیاء : ٣٥ ] ” اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے۔ “ آل فرعون کے عذاب بلائے مصیبت تھے اور ان سے نجات بلائے نعمت تھی، عذاب بھی آزمائش اور اس سے رہائی کا انعام بھی آزمائش۔ ” ذٰلِكُمْ “ سے اشارہ ” سُوْۗءَ الْعَذَابِ “ کی طرف ہو تو مصیبت کے ساتھ آزمائش مراد ہے اور ” اِذْ اَنْجٰىكُمْ “ یعنی نجات کی طرف ہو تو نعمت کے ساتھ آزمائش مراد ہوگی اور قرآن کا اعجاز ہے کہ آیت کے ایک لفظ میں دونوں چیزیں آگئی ہیں۔
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ اَنْجٰىكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ ۭ وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ ۧ- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- سوم - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ- «3» أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» - ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔- قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے تسو مو اذان الملا ئدۃ قد تسومت کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الذابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔
(٦) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر کیا گیا انعام یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں فرعون اور اس کی قبطی قوم سے نجات دی جو تمہیں سخت ترین عذاب دیا کرتے تھے اور تمہارے چھوٹے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو خدمت لینے کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے اور بچوں کے ذبح ہونے اور عورتوں سے خدمت لینے میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا یا یہ کہ اس مصیبت سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نجات دی اور یہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی نعمت ہے۔