Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نو ( ٩ ) نشانیاں جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ۔ اسی طرح ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں جن کا بیان آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١؁ ) 17- الإسراء:101 ) میں ہے ۔ انہیں بھی یہی حکم تھا کہ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ ۔ انہیں اللہ کے احسناتات یاد دلا ۔ کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لئے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ۔ مسند کی مرفوع حدیث میں ایام اللہ کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے ۔ لکن ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ میں یہ روایت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے موقوفا بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا ، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا ، اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے عبرت ہے ۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی جس طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انھیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ 5۔ 2 اَ یَّام اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔ 5۔ 3 صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] تذکیر بایام اللہ سے مراد ؟ ایام اللہ کے لفظی معنی ہیں اللہ کے دن اور اس سے ایسے دن مراد ہوتے ہیں جو تاریخ انسانی میں یادگار دن بن جاتے ہیں خواہ یہ خوشی کے ہوں یا مصیبت کے۔ بلکہ ایک ہی دن ایک فریق کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے اور دوسرے فریق کے لیے مصیبت کا۔ جیسے ١٠ محرم کو فرعون اور اس کے لشکری دریا میں غرق ہوئے۔ اب یہی دن بنی اسرائیل کے لیے تو انتہائی خوشی کا دن تھا کہ انھیں فرعونیوں کے مظالم سے نجات ملی اور وہ اسی خوشی میں ١٠ محرم کو ہر سال روزہ بھی رکھا کرتے تھے اور یہی دن فرعونیوں کے لیے مصیبت کا دن تھا یہی صورت ١٧ رمضان ٢ ھ کی ہے۔ مشرکین مکہ کو غزوہ بدر میں شکست فاش ہوئی۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا جبکہ قریش مکہ کے لیے یہ دن بڑی مصیبت کا دن تھا۔ اسی طرح پہلی مجرم قوموں پر جو عذاب الٰہی نازل ہوتا رہا تو انھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور تذکیر بایام اللہ سے مراد ایسے ہی یادگار دنوں سے عبرت حاصل کرنا ہے اور یہ قرآن کریم کا خاص موضوع ہے جسے بیشمار مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ انبیاء اوراقوام سابقہ کے حالات اور قصص بیان کرنے سے قرآن کا اصل مقصد بایام اللہ ہی ہوتا ہے۔- [ ٧] صبر وشکر کی فضیلت :۔ صبر اور شکر دو ایسی صفات ہیں جو ایک مومن کی پوری زندگی کو محیط ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صابر اور شاکر الفاظ کے بجائے صبار اور شکور کے الفاظ استعمال فرمائے اور یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں یعنی ایک مومن کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کوئی دکھ، تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے اور جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں یا کوئی خوشی یا بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ اور زندگی بھر اس کا یہی معمول رہتا ہے اس کے مقابلے میں ایک دنیا دار یا ایک کافر کی زندگی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے جب اسے کوئی دکھ پہنچے یا تنگدستی کے دن آئیں تو اللہ کے شکوے اور جزع و فزع کرنے لگتا ہے اور جب کوئی خوشی نصیب ہو یا خوشحالی کے دن آئیں تو ایسا احسان فراموش بن جاتا ہے کہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔- یعنی ایام اللہ سے عبرت صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو صبر اور شکر کی صفات سے متصف ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے شروع سورت میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل کردہ کتاب کا ذکر فرمایا اور اس کا مقصد بتایا کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں۔ اب پہلے انبیاء کی اپنی اقوام کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے کی کوششوں اور ان کی اقوام کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کا، پھر دوسری اقوام اور ان کے رسولوں کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ آیات کونیہ عطا فرمائیں، یعنی کائنات کے معمول کے خلاف معجزے، جن کے مقابلے سے دشمن عاجز تھا۔ جن میں سے چند کا تعلق فرعون اور اس کی قوم سے تھا، مثلاً عصائے موسیٰ ، ید بیضاء (طٰہٰ : ١٧ تا ٢٢) ، قحط سالی، پھلوں کی کمی، طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون۔ (اعراف : ١٣٣) یہ سب معجزے نبوت کی دلیل کے طور پر دیے گئے، کیونکہ مخاطب فرعون بیحد ضدی، سرکش، خدائی کا دعوے دار اور نہایت بےرحم تھا۔ جب کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کی دلیل کے طور پر صرف ایک معجزہ ” قرآن “ عطا ہوا، باقی تمام معجزات برکت اور اہل ایمان کا ایمان بڑھانے کے لیے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے کئی معجزوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، مثلاً سمندر کا پھٹنا، فرعون سے نجات، بادلوں کا سایہ، من وسلویٰ کا اترنا، بارہ چشمے پھوٹنا، پہاڑ اکھیڑ کر عہد لیا جانا، گائے کا گوشت لگنے سے مردے کا زندہ ہونا وغیرہ اور کچھ وحی الٰہی کی آیات تھیں جنھیں ” تنزیلی آیات “ کہتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر سب سے پہلی وحی تورات سے بہت پہلے مدین سے واپسی پر اتری، پھر اسی طرح کسی کتابی صورت کے بغیر سالہا سال اترتی رہی۔ فرعون اسی وحی کے احکام کی نافرمانی کی وجہ سے غرق ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر بلا کر تورات عطا فرمائی۔ غرض موسیٰ (علیہ السلام) کو تو آیات کے علاوہ بھی بہت سی آیات عطا فرمائیں، کیونکہ دشمن نہایت سخت تھا اور اپنی قوم خوئے غلامی کی وجہ سے بیحد متلون مزاج، کافرانہ عقائد و رسوم سے متاثر اور بار بار مطالبے کرنے والی تھی۔ اوپر تقریباً سترہ آیات (نشانیوں) کا ذکر ہوا ہے، مقصد سب کا یہی تھا کہ وہ فرعون کو اور اپنی قوم کو کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالیں۔ - وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ۔۔ : ” أَیَّامٌ“ سے مراد وہ دن ہیں جن میں کوئی نادر واقعہ مصیبت یا نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، جیسے یوم بدر وغیرہ۔ ” أَیَّامٌ“ کی اللہ کی طرف اضافت سے ان کی اہمیت بیحد بڑھ گئی۔ اگلی آیت میں چند ” أَیَّامٌ“ کا ذکر ہے، مگر ان واقعات سے عبرت صرف انھی کو ہوتی ہے جو بہت صابر اور بہت شاکر ہوں، کیونکہ ہر نیکی کی بنیاد صبر ہے اور شکر بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو صابر ہو، شکوہ شکایت اور بےصبری کرنے والوں کو شکر کی توفیق کہاں ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر و معاصی کی) تاریکیوں سے (نکال کر ایمان و اطاعت کی) روشنی کی طرف لاؤ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے معاملات (نعمت اور عذاب کے) یاد دلاؤ بلاشبہ ان معاملات میں عبرتیں ہیں ہر صابر شاکر کے لئے (کیونکہ نعمت کو یاد کر کے شکر کرے گا اور نقمت یعنی عتاب کو پھر اس کے زوال کو یاد کرکے آئندہ حوادث میں صبر کرے گا) اور اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب (ہمارے اس ارشاد بالا کے موافق) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم کو فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (یعنی لڑکیوں کو جو کہ بڑی کر عورتیں ہوجاتی تھیں) زندہ چھوڑ دیتے تھے (تاکہ ان سے کار و خدمت لیں سو یہ بھی مثل ذبح ہی کے ایک عقوبت تھی) اور اس (مصیبت اور نجات دونوں) میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑا امتحان ہے (یعنی مصیبت میں بلاء تھی اور نجات میں نعمت تھی اور بلاء اور نعمت دونوں بندے کے لئے امتحان ہیں پس اس میں موسیٰ (علیہ السلام) نے ایام اللہ یعنی نعمت ونقمت دونوں کی تذکیر فرما دی) اور موسیٰ (علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ اے میری قوم) وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے (میرے ذریعہ سے) تم کو اطلاع فرما دی کہ اگر (میری نعمتوں کو سن کر) تم شکر کرو گے تو تم کو (خواہ دنیا میں بھی یا آخرت میں تو ضرور) زیادہ نعمت دوں گا اور اگر تم (ان نعمتوں کو سن کر) ناشکری کرو گے تو (یہ سمجھ رکھو کہ) میرا عذاب بڑا سخت ہے (ناشکری میں اس کا احتمال ہے) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (یہ بھی) فرمایا کہ اگر تم اور تمام دنیا بھر کے آدمی سب کے سب مل کر بھی ناشکری کرنے لگو تو اللہ تعالیٰ (کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ وہ) بالکل بےاحتیاج (اور اپنی ذات میں) ستودہ صفات ہیں (استکمال بالغیر کا وہاں احتمال نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا ضرر محتمل ہی نہیں اور تم اپنا ضرر سن چکے ہو اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ اس لئے شکر کرنا ناشکری مت کرنا)- معارف و مسائل :- پہلی آیت میں مذکور ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیات دے کر بھیجا کہ وہ اپنی قوم کو کفر و معصیت کی تاریکیوں سے ایمان وطاعت کی روشنی میں لے آئیں - لفظ آیات سے آیات تورات بھی مراد ہو سکتی ہیں کہ ان کے نازل کرنے کا مقصد ہی حق کی روشنی پھیلانا تھا اور آیات کے دوسرے معنی معجزات خاص طور سے عطا فرمائے تھے جن میں عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہوجانا کئی جگہ قرآن میں مذکور ہے آیات کو معجزات کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے کھلے ہوئے معجزات دے کر بھیجا گیا جن کو دیکھنے کے بعد کوئی شریف سمجھدار انسان اپنے انکار اور نافرمانی پر قائم نہیں رہ سکتا - ایک نکتہ :- اس آیت میں لفظ قوم آیا ہے کہ اپنی قوم کو اندہیری سے روشنی میں لائیں لیکن یہی مضمون اسی سورة کی پہلی آیت میں جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے بیان کیا گیا گو وہاں قوم کے بجائے لفظ ناس استعمال کیا گیا (آیت) لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ اس میں اشارہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و بعثت صرف اپنی قوم بنی اسرائیل اور مصری اقوام کی طرف تھی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام عالم کے انسانوں کے لئے ہے۔- پھر ارشاد فرمایا وَذَكِّرْهُمْ ، بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ یعنی حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو ایام اللہ یاد دلاؤ۔- ایام اللہ : ایام یوم کی جمع ہے جس کی معنی دن کے مشہور ہیں لفظ ایام اللہ دو معنی کے لئے بولا جاتا ہے اور وہ دونوں یہاں مراد ہو سکتے ہیں اول وہ خاص ایام جن میں کوئی جنگ یا انقلاب آیا ہے جیسے غزوہ بدر و احد اور احزاب و حنین وغیرہ کے واقعات یا پچھلی امتوں پر عذاب نازل ہونے کے واقعات ہیں جن میں بڑی بڑی قومیں زیر وزبر یا نیست و نابود ہوگئیں اس صورت میں ایام اللہ یاد دلانے سے ان قوموں کو کفر کے انجام بد سے ڈرانا اور متنبہ کرنا مقصود ہوگا۔- دوسرے معنی ایام اللہ کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات کے بھی آتے ہیں تو ان کو یاد دلانے کا مقصد یہ ہوگا کہ شریف انسان کو جب کسی محسن کا احسان یاد دلایا جائے تو وہ اس کی مخالفت اور نافرمانی سے شرما جاتا ہے - قرآن مجید کا اسلوب اور طریق اصلاح عموما یہ کہ جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس حکم پر عمل آسان کرنے کی تدبیریں بھی بتلائی جاتی ہیں یہاں پہلے جملہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی آیات سنا کر یا معجزات دکھا کر اپنی قوم کو کفر کی اندہیری سے نکالو اور ایمان کی روشنی میں لاؤ اس کی تدبیر اس جملہ میں یہ ارشاد فرمائی کہ نافرمانوں کو راہ راست پر لانے کی دو تدبیریں ہیں ایک سزا سے ڈرانا دوسرے نعمتوں اور احسانات کو یاد دلا کر اطاعت کی طرف بلانا جملہ من وسلوی میں یہ دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں کہ پچھلی امتوں کے نافرمانوں کا انجام بد ان پر آنے والے عذاب اور جہاد میں ان کا مقتول یا ذلیل و خوار ہونا ان کو یاد دلائیں تاکہ وہ عبرت حاصل کرکے اس سے بچ جائیں اسی طرح اس قوم پر جو اللہ تعالیٰ کی عام نعمتیں دن رات برستی ہیں اور جو مخصوص نعمتیں ہر موقع پر ان کے لئے مبذول ہوئی ہیں مثلا وادی تیہ میں ان کے سروں پر ابر کا سایہ، خوراک کے لئے من وسلوی کا نزول پانی کی ضرورت ہوئی تو پتھر سے چشموں کا بہہ نکلنا وغیرہ ان کو یاد دلا کر خدا تعالیٰ کی اطاعت اور توحید کی طرف بلایا جائے۔- (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ اس میں آیات سے مراد نشانیاں اور دلائل ہیں اور صبار صبر سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت صبر کرنے والا اور شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت شکر گذار، جملہ کے معنی یہ ہیں کہ ایام اللہ یعنی پچھلے واقعات خواہ وہ جو منکروں کی سزا اور عذاب سے متعلق ہوں یا اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات سے متعلق بہرحال ماضی کے واقعات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی بڑی نشانیاں اور دلائل موجود ہیں اس شخص کے لئے جو بہت صبر کرنے والا اور بہت شکر کرنے والا ہو۔ - مطلب یہ ہے کہ یہ کھلی ہوئی نشانیاں اور دلائل اگرچہ ہر غور کرنے والے کی ہدایت کے لئے ہیں مگر بدنصیب کفار ان میں غور وفکر ہی نہیں کرتے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے فائدہ صرف وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو صبر و شکر کے جامع ہیں مراد اس سے مومن ہیں کیونکہ بیہقی نے بروایت انس نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایمان کے دو حصے آدھا صبر اور آدھا شکر (مظہری)- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ صبر نصف ایمان ہے اور صحیح مسلم اور مسند احمد میں بروایت حضرت صہیب مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کا ہر حال خیر ہی خیر اور بھلا ہی بھلا ہے اور یہ بات سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں کیونکہ مومن کو اگر کوئی راحت نعمت یا عزت ملتی ہے تو یہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوتا ہے جو اس کے لئے دین و دنیا میں خیر اور بھلائی کا سامان ہوجاتا ہے (دنیا میں تو حسب وعدہ الہی نعمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور قائم رہتی ہے اور آخرت میں اس کے شکر کا اجر عظیم اس کو ملتا ہے) اور اگر مومن کو کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آجائے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اس کے صبر کی وجہ سے وہ مصیبت بھی اس کے لئے نعمت و راحت کا سامان ہوجاتی ہے (دنیا میں اس طرح کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت و راحت کا سامان ہوجاتی ہے (دنیا میں اس طرح کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے قرآن کا ارشاد ہے ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ اور اللہ جس کے ساتھ ہو انجام کار اس کی مصیبت راحت سے تبدیل ہوجاتی ہے اور آخرت میں اس طرح کہ صبر کا اجر عظیم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بےحساب ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب خلاصہ یہ ہے کہ مومن کا کوئی حال برا نہیں ہوتا اچھا ہی اچھا ہے وہ گرنے میں بھی ابھرتا ہے اور بگڑنے میں بھی بنتا ہے۔- نہ شوخی چل سکی باد صبا کی - بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی - ایمان وہ دولت ہے جو مصیبت و تکلیف کو بھی راحت ونعمت میں تبدیل کردیتی ہے حضرت ابو الدردا (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں آپ کے بعد ایک ایسی امت پیدا کرنے والا ہوں کہ اگر ان کی دلی مراد پوری ہو اور کام حسب منشاء ہوجائے تو وہ شکر ادا کریں گے اور اگر ان کی خواہش اور مرضی کے خلاف ناگوار اور ناپسندیدہ صورت حال پیش آئے تو وہ اس کو ذریعہ، ثواب سمجھ کر صبر کریں گے اور یہ دانشمندی اور بردباری ان کی اپنی ذاتی عقل وحلم کا نتیجہ نہیں بلکہ ہم ان کو اپنے علم و حلم کا ایک حصہ عطا فرما دیں گے (مظہری)- شکر کی حقیقت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور حرام و ناجائز کاموں میں خرچ نہ کرے اور زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اپنے افعال و اعمال کو بھی اس کی مرضی کے مطابق بنائے۔- اور صبر کا خلاصہ یہ ہے کہ خلاف طبع امور پر پریشان نہ ہو اپنے قول و عمل میں ناشکری سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا میں بھی امیدوار رہے اور آخرت میں صبر کے اجر عظیم کا یقین رکھے۔- دوسری آیت میں مضمون سابق کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نعمت یاد دلائیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے فرعون نے ان کو ناجائز طور پر غلام بنایا ہوا تھا اور پھر ان غلاموں کے ساتھ بھی انسانیت کا سلوک نہ تھا ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا تھا اور صرف لڑکیوں کو اپنی خدمت کے لئے پالا جاتا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس فرعونی عذاب سے نجات دیدی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآاَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ۝- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نومعجزات یعنی یدبیضا، عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، سنین، نقص من الثمرات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو کفر سے ایمان کی طرف بلائیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کے معاملات یعنی اللہ کا عذاب اور اللہ کی رحمت یا دلائیں بیشک ان مذکورہ باتوں میں اطاعت پر قائم رہنے والے اور نعمت پر شکر کرنے والے کے لیے عبرتیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآاَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ )- یہ ” التّذکیر بایّام اللّٰہ “ کی وہی اصطلاح ہے جس کا ذکر شاہ ولی اللہ دہلوی کے حوالے سے قبل ازیں بار بار آچکا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور کتاب ” الفوز الکبیر “ میں مضامین قرآن کی تقسیم کے سلسلے میں ” التذکیر بایام اللّٰہ “ کی یہ اصطلاح استعمال کی ہے یعنی اللہ کے ان دنوں کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کرنا جن دنوں میں اللہ نے بڑے بڑے فیصلے کیے اور ان فیصلوں کے مطابق کئی قوموں کو نیست و نابود کردیا۔ اس کے ساتھ شاہ ولی اللہ نے دوسری اصطلاح ” التذکیر بآلاء اللّٰہ “ کی استعمال کی ہے ‘ یعنی اللہ کی نعمتوں اور اس کی نشانیوں کے حوالے سے تذکیر اور یاد دہانی۔- (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ )- صَبَّار اور شَکُور دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبر اور شکر یہ دونوں صفات آپس میں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی ( ) نوعیت کی ہیں۔ چناچہ ایک بندۂ مؤمن کو ہر وقت ان میں سے کسی ایک حالت میں ضرور ہونا چاہیے اور اگر وہ ان میں سے ایک حالت سے نکلے تو دوسری حالت میں داخل ہوجائے۔ اگر اللہ نے اس کو نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے تو وہ شکر کرنے والا ہو اور اگر کوئی مصیبت یا تنگی اسے پہنچی ہے تو صبر کرنے والا ہو ۔- حضرت صہیب بن سنان رومی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :- (عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِاَحَدٍ الاَّ لِلْمُؤْمِنِ ‘ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) (١)- ” مؤمن کا معاملہ تو بہت ہی خوب ہے ‘ اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہے ‘ اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی آسائش پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے ‘ اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :8 ”ایّام“ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحا یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ”ایام اللہ“ سے مراد تاریخ انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالی نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دی ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :9 یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی توحید خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے ، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے ، اور اسکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالم ، یعنی عالم آخرت ناگزیر ہے ۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اٹھانے کے برے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور ان سے عبرت حاصل کر سکتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :10 یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے ، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے ان کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں ۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان ناشناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اس ادراک سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: اصل قرآنی لفظ ایام اللہ ہے جس کے لفظی معنی ہیں اللہ کے دن۔ لیکن محاورے میں اس سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے خاص خاص اور اہم واقعات دکھلائے ہیں۔ مثلاً نافرمان قوموں پر عذاب کا نازل ہونا۔ اور فرماں برداروں کو دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی عطا ہونا۔ لہذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان خاص خاص واقعات کا حوالہ دے کر اپنی قوم کو نصیحت کیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اختیار کریں۔