7۔ 1 اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کردیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر) 7۔ 2 نعمت پر شکر کرنے پر مذید انعامات سے نوازوں گا، 7۔ 3 اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم)
[٩] شکر اور اس کا فائدہ :۔ شکر یا احسان شناسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ بھلائی کو بحال رکھتی ہے بلکہ مزید بھلائیوں کو بھی اپنی طرف جذب کرتی ہے اور ناشکری یا احسان فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے احسان ناشناس سے پہلی نعمت بھی چھن جاتی ہے اور حالات مزید بدتر پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ نتائج اس دنیا سے گذر کر آخرت تک بھی چلتے ہیں۔ اس مضمون کی تفصیل کے لیے ہم یہاں دو احادیث درج کرتے ہیں :۔- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمانا چاہا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا، تم کیا چاہتے ہو ؟ اچھا رنگ اور اچھی جلد کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت و کراہت کرتے ہیں فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کا رنگ اور جلد درست ہوگئی۔ پھر فرشتے نے پوچھا، تمہیں کون سا مال پسند ہے ؟ وہ کہنے لگا اونٹ فرشتے نے اسے ایک دس ماہ کی اونٹنی مہیا کردی اور کہا اللہ اس میں برکت دے گا پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہا تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا یہی کہ میرا گنج جاتا رہے اور اچھے بال اگ آئیں فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندرست ہوگیا اور اچھے بال اگ آئے۔ پھر اس سے پوچھا تمہیں کون سا مال پسند ہے ؟ گنجے نے کہا گائیں چناچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے مہیا کردی اور کہا اللہ اس میں برکت دے گا پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا یہی کہ یہ میری بینائی مجھ کو مل جائے فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ بینا ہوگیا۔ پھر اس سے پوچھا تمہیں کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا بکریاں چناچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری مہیا کردی اور کہا اللہ اس میں برکت دے گا کچھ مدت گزرنے پر کوڑھی کے پاس اونٹوں کا، گنجے کے پاس گائے کا اور اندھے کے پاس بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ بن چکا تھا۔ اب فرشتہ پھر ان کے پاس (انسانی صورت میں) آیا۔ پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور کہا میں محتاج آدمی ہوں میرا سب سامان جاتا رہا اب اللہ کی اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر میں کہیں پہنچ بھی نہیں سکتا۔ میں تم سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تیرا رنگ اور جلد اچھی کردی اور تجھے بہت سا مال دیا کہ ایک اونٹ مجھے دے دو تاکہ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ سکوں وہ کہنے لگا میں نے تو بہت سے لوگوں کا قرض دینا ہے فرشتے نے کہا میں تجھے پہچانتا ہوں تو کوڑھی تھا لوگ تجھ سے کراہت کرتے تھے اور تو محتاج تھا اور اللہ نے تم پر مہربانی کی اور یہ سب کچھ عطا کیا کوڑھی کہنے لگا واہ مجھے تو یہ سب کچھ باپ دادے کی وراثت سے ملا ہے فرشتے نے کہا : اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تجھے تیری پہلی حالت میں لوٹا دے پھر وہ گنجے کے پاس آیا۔ اس سے بھی بالکل ویسے ہی سوال و جواب ہوئے جیسے کوڑھی سے ہوئے تھے اسے بھی فرشتے نے بالآخر یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تجھے اپنی پہلی حالت میں پھیردے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور ویسے ہی سوال کیا جیسے کوڑھی اور گنجے سے کیا تھا۔ اندھا یہ سوال سن کر کہنے لگا واقعی میں اندھا تھا۔ اللہ نے مجھے بینائی بخشی۔ میں محتاج تھا اللہ نے مجھے مالدار کردیا۔ اب تم نے مجھ سے اسی اللہ کے نام پر سوال کیا ہے جو کچھ چاہتے ہو لے لو میں روکوں گا نہیں۔ فرشتے نے کہا، (میں محتاج نہیں فرشتہ ہوں) اپنی بکریاں اپنے ہی پاس رکھو۔ اللہ نے تم تین آدمیوں کو آزمایا تھا۔ اللہ تجھ سے تو خوش ہوگیا اور تیرے دونوں ساتھیوں (کوڑھی اور گنجے) سے ناراض ہوا۔ (بخاری، کتاب الانبیائ۔ باب ما ذکربنی عن اسرائیل حدیث ابرص واقرع واعمیٰ )- ٢۔ ناشکری کا انجام :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مجھے دوزخ دکھائی گئی۔ اس میں عورتیں زیادہ تھیں جو کفر کرتی ہیں صحابہ نے کہا کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا : نہیں وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہوتی ہیں۔ اگر تم کسی عورت سے عمر بھر بھلائی کرو۔ پھر وہ تم سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں (بخاری، کتاب الایمان۔ باب کفران العشیر وکفر دون کفر)
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ : ” آذَنَ یُؤْذِنُ “ کا معنی اطلاع دینا، اعلان کرنا ہے۔ باب تفعل میں جانے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” صاف اعلان کردیا۔ “- لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ : کیونکہ کسی کے بھی احسان کی قدر دانی اور اس کا شکریہ ادا کرنے سے اس کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کا تو کہنا ہی کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَیْہِ الْمِدْحَۃُ مِنَ اللّٰہِ ، مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ وَعَدَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ ) [ مسلم، اللعان : ١٤٩٩ ]” کوئی شخص ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنی تعریف پسند ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ “ جب اللہ تعالیٰ کو زبانی شکر اتنا پسند ہے تو عملاً شکر اور اطاعت پر اس کی نوازش کس قدر ہوگی۔ - وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ : اس کا جواب تو یہ تھا ” لَأُعَذِّبَنَّکُمْ “ کہ اگر تم کفر کرو گے تو میں تمہیں ضرور عذاب دوں گا، مگر اسے حذف کرکے ایسا جملہ استعمال فرمایا جو اس جملے کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نہایت شدت کو بھی، یعنی فرمایا : (وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ) اور یہ بھی قرآن کا اعجاز ہے۔
شکر اور ناشکری کے نتائج :- (آیت) وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ لفظ تاذن، اذن اور اطلاع دینے اور اعلان کرنے کے معنی میں ہے مطلب آیت کا یہ ہے کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان عام فرما دیا ہے کہ اگر تم نے میری نعمتوں کا شکر ادا کیا کہ انکو میری نافرمانیوں اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا اور اپنے اعمال و افعال کو میری مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش کی تو میں ان نعمتوں کو اور زیادہ کر دوں گا یہ زیادتی نعمتوں کی مقدار میں بھی ہو سکتی ہے، اور ان کی بقاء و دوام میں بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو شکر ادا کرنے کی توفیق ہوگئی وہ کبھی نعمتوں میں برکت اور زیادت سے محروم نہ ہوگا (رواہ ابن مردویہ عن ابن عباس مظہری) اور فرمایا کہ اگر میری نعمتوں کی ناشکری کی تو میرا عذاب بھی سخت ہے ناشکری کا حاصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور ناجائز کاموں میں صرف کرے یا اس کے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کرے اور کفران نعمت کا عذاب شدید دنیا میں بھی یہ ہوسکتا ہے کہ یہ نعمت سلب ہوجائے یا ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے کہ نعمت کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور آخرت میں بھی عذاب میں گرفتار ہو۔ - یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے شکر گذاروں کے لئے تو اجر وثواب اور نعمت کی زیادتی کا وعدہ اور وہ بھی بلفظ تاکید وعدہ فرمایا ہے لَاَزِيْدَنَّكُم لیکن اس کے بالمقابل ناشکری کرنے والوں کے لئے یہ نہیں فرمایا کہ لاعذبنکم یعنی میں تمہیں ضرور عذاب دوں گا بلکہ صرف اتنا فرما کر ڈرایا ہے کہ میرا عذاب بھی جس کو پہنچنے وہ بڑا سخت ہوتا ہے اس خاص تعبیر میں اشارہ ہے کہ ہر ناشکرے کا گرفتار عذاب ہونا کچھ ضروری نہیں معافی کا بھی امکان ہے۔
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔
(٧) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ وہ وقت بھی یاد کرو، جب تمہارے رب نے فرمایا اور کتاب میں تمہیں کو اس بات سے باخبر کردیا کہ اگر تم توفیق، عصمت، کرامت، اور نعمت پر شکر ادا کرو گے، تو اور زیادہ توفیق، عصمت نعمت اور کرامت دوں گا اور اگر میری یا میری نعمتوں کی ناشکری کرو گے تو ناشکری کرنے والے پر میرا عذاب بہت سخت ہے۔
آیت ٧ (وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ )- اگر تم لوگ میرے احکام مانو گے اور میری نعمتوں کا حق ادا کرو گے تو میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے میں تم لوگوں کو اپنی مزید نعمتیں بھی عطا کروں گا۔ - (وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ)- لیکن اگر تم کفران نعمت کرو گے میری نعمتوں کی ناقدری اور نا شکری کرو گے اور میرے احکام سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو میری سزا بھی بہت سخت ہوگی۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :11 یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے ، اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سرکشی و استکبار نہ برتو گے ، اور ہمارا احسان مان کر ہمارے مطیع فرمان بنے رہو گے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :12 اس مضمون کی تقریر بائیبل کی کتاب استثناء میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے ۔ اس تقریر میں حضرت موسی علیہ السلام اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں ۔ پھر توراۃ کے ان تمام احکام کو دہراتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے ۔ پھر ایک طویل خطبہ دیتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی ۔ یہ خطبہ کتاب استثناء کے ابواب نمبر ٤ – ٦ – ۸ – ۱۰ – ۱۱ اور ۲۸ تا ۳۰ میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بعض بعض مقامات کمال درجہ مؤثر و عبرت انگیز ہیں ۔ مثال کے طور پر اس کے چند فقرے ہم یہاں نقل کرتے ہیں جن سے پورے خطبے کا اندازہ ہو سکتا ہے: ”سن اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا کے ساتھ محبت رکھ ۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں ۔ اور تو ان کی اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے ان کا ذکر کرنا “ ۔ ( باب ٦ ۔ آیات ٤ – ۷ ) ”پس اے اسرائیل خداوند تیرا خدا تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں ان پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو ۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے“ ۔ ( باب ۱۰ ۔ آیات ۱۲ – ۱٤ ) ۔ ”اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا ۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی ۔ شہر میں بھی تو مبارک ہوگا اور کھیت میں مبارک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا ور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی ۔ تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دُم نہیں بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پشت نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا“ ۔ ( باب ۲۸ ۔ آیات ۱ – ۱۳ ) ۔ ”لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی ۔ شہر میں بھی لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی لعنتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند ان سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور پھٹکار اور اضطراب کو تجھ پر نازل کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا ۔ تو ان کے مقابلہ کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا مگر ان کے سامنے سات سات راستوں سے بھاگے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عورت سے منگنی تو تو کرے گا لیکن دوسرا اس سے مباشرت کرے گا ۔ تو گھر بنائے گا لیکن اس میں بسنے نہ پائے گا ۔ تو تاکستان لگائے گا پر اس کا پھل نہ کھا سکے گا ۔ تیرا بیل تیری آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے ان دشمنوں کی خدمت کرے گا جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جواز رکھے گا جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کر دے گا “ ۔ ( باب ۲۸ ۔ آیات ۱۵ – ٦٤ )