Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ جل شانہ پہ بہتان باندھنے والے جو لوگ اللہ کے ذمے بہتان باندھ لیں ، ان کا انجام اور قیامت کے دن کی ساری مخلوق کے سامنے کی ان کی رسوائی کا بیان ہو رہا ہے ۔ مسند احمد میں صفوان بن محزر کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا پھر پوچھنے لگا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے دن کی سرگوشی کی بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزجل مومن کو اپنے سے قریب کرے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور اسے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ کیا تجھے اپنا فلاں گناہ یاد ہے؟ اور فلاں بھی اور فلاں بھی؟ یہ اقرار کرتا جائے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ بس اب ہلاک ہوا ۔ اس وقت الرحم الراحیمن فرمائے گا کہ میرے بندے دنیا میں ان پر پردہ ڈالتا رہا سن آج بھی میں انہیں بخشتا ہوں ۔ پھر اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دے دیا جائے گا ۔ اور کفار اور منافقین پر نو گواہ پیش ہوں گے جو کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جو اللہ پر جھوٹ بولتے تھے یاد رہے کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ یہ لوگ اتباع حق ، ہدایت اور جنت سے اوروں کو روکتے رہے اور اپنا طریقہ ٹیڑھا ترچھا ہی تلاش کرتے رہے ساتھ ہی قیامت اور آخرت کے دن کے بھی منکر ہی رہے اور اسے مانا ہی نہیں ۔ یاد رہے کہ یہ اللہ کے ماتحت ہیں وہ ان سے ہر وقت انتقام لینے پر قادر ہے ، اگر چاہے تو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی پکڑ لے لیکن اس کی طرف سے تھوڑی سی ڈھیل انہیں مل گئی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دے دیتا ہے بالآخر جب پکڑتا ہے تب چھوڑتا ہی نہیں ۔ ان کی سزائیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی ۔ اس لیے کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں سے انہوں نے کام نہ لیا ۔ سننے سے کانوں کو بہرہ رکھا ۔ حق کی تابعداری سے آنکھوں کو اندھا رکھا جہنم میں جاتے وقت خود ہی کہیں گے کہ ( آیت لو کنا نسمع اونعقل ما کنافی اصحاب السعیر ) یعنی اگر سنتے ہوتے عقل رکھتے ہوتے تو آج دوزخی نہ بنتے یہی فرمان ( آیت الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ زدنا ھم عذابا فوق العذاب الخ ) میں ہے کہ کافروں کے لیے اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب پر عذاب بڑھتا چلا جائے گا ۔ ہر ایک حکم عدولی پر ، ہر ایک برائی کے کام پر سزا بھگتیں گے ۔ پس صحیح قول یہی ہے کہ آخرت کی نسبت کے اعتبار سے کفار بھی فروع شرع کے مکلف ہیں ۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور خود اپنے تئیں جہنمی بنایا ۔ جہاں کا عذاب ذرا سی دیر بھی ہلکا نہیں ہوگا ۔ آگ کے شعلے کم ہو نے تو کہاں اور تیز تیز ہوتے جائیں گے جنہیں انہوں نے گھڑ لیا تھا یعنی بت اور اللہ کے شریک وغیرہ آج وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گے بلکہ نظر بھی نہ پڑیں گے بلکہ اور نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ تو ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کے شرک سے صاف مکر جائیں گے ۔ گو یہ انہیں باعث عزت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے باعث ذلت ہیں ۔ کھلے طور پر اس بات کا قیامت کے دن انکار کر دیں گے کہ ان مشرکوں نے انہیں پوجا ۔ یہ ارشاد خلیل الرحمن علیہ السلام کا اپنی قوم سے تھا کہ ان بتوں سے گو تم دنیوی تعلقات وابستہ رکھو لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کر دیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں گے ۔ اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور کوئی کسی کو کوئی مدد نہ پہنچائے گا ۔ یہی مضمون ( اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ ١٦٦؁ ) 2- البقرة:166 ) میں ہے یعنی اس وقت پیشوا لوگ اپنے مریدوں سے دست بردار ہو جائیں گے عذاب الٰہی آنکھوں دیکھ لیں گے اور باہمی تعلقات سب منقطع ہو جائیں گے ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں وہ بھی ان کی ہلاکت اور نقصان کی خبر دیتی ہیں ۔ یقینا یہی لوگ قیامت کے دن سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے ۔ جنت کے درجوں کے بدلے انہوں نے جہنم کے گڑھے لیئے ۔ اللہ کی نعمتوں کے بدلے جہنم کی آگ قبول کی ۔ میٹھے ٹھنڈے خوشگوار جنتی پانی کے بدلے جہنم کا آگ جیسا کھولتا ہوا گرم پانی انہیں حورعین کے بدلے لہو پیپ اور بلند و بالا محلات کے بدلے دوزخ کے تنگ مقامات انہوں نے لیے ، رب رحمن کی نزدیکی اور دیدار کے بدلے اس کا غضب اور سزا انہیں ملی ۔ بیشک یہاں یہ سخت گھاٹے میں رہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی جن کا اللہ نے کائنات میں تصرف کرنے کا یا آخرت میں شفاعت کا اختیار نہیں دیا ہے۔ ان کی بابت یہ کہا جائے کہ اللہ نے انھیں یہ اختیار دیا ہے۔ 18۔ 2 حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ایک مومن سے اس کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو نے فلاں گناہ بھی کیا تھا، فلاں بھی کیا تھا، وہ مومن کہے گا ہاں ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں نے ان گناہوں پر دنیا میں بھی پردہ ڈالے رکھا تھا، جا آج بھی انھیں معاف کرتا ہوں، لیکن دوسرے لوگ یا کافروں کا معاملہ ایسا ہوگا کہ انھیں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ یہ گواہی دیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا (صحیح بخاری) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢ ٢] اللہ پر جھوٹ لگانے کی مختلف صورتیں :۔ افتراء کے معنی یہ ہے کہ کوئی بات خود ایجاد کرکے اللہ کے ذمہ لگا دی جائے یا اسے شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کام گناہ کبیرہ ہے پھر افتراء کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی حلال چیز کو حرام یا حرام کو حلال قرار دینا اور شریعت کا حکم ثابت کرنا یا اللہ کے سوا کسی دوسرے بزرگ، نبی یا پیر فقیر کو یا آستانے کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ اگر قیامت کو ہم سے مواخذہ ہوا تو ہمارے پیروں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ ہمیں چھڑا لیں گے یا منزل من اللہ کلام کو منزل من اللہ نہ سمجھنا اور یہ سب باتیں شرک یا اس سے ملتی جلتی ہیں ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہوگی۔ علی رؤس الاشہادان کے جرم کو ثابت کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی جبکہ دوسرے مومن گنہگاروں سے اس قسم کی سختی نہ ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے نرمی کا سلوک اختیار کریں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سستی نجات کا عقیدہ رکھنے والے دراصل آخرت کے منکر ہیں :۔ ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : ابن عمر (رض) سرگوشی کے متعلق آپ نے نبی سے کچھ سنا ہے ؟ (جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنوں سے کرے گا) انہوں نے کہا : میں نے سنا آپ فرماتے تھے : مومن اپنے پروردگار کے قریب لایا جائے گا یہاں تک کہ پروردگار اپنی ایک جانب کرلے گا پھر اس کے سارے گناہ اسے بتلائے گا اور فرمائے گا فلاں گناہ تجھے معلوم ہے ؟ مومن کہے گا پروردگار مجھے معلوم ہے دوبارہ یہی سوال و جواب ہوگا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا دنیا میں میں نے تیرا گناہ چھپائے رکھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا (اس کو دے دیا جائے گا) رہے دوسرے لوگ یا کافر لوگ۔ تو شہادتیں مکمل ہوجانے کی بنا پر ان کے متعلق اعلان کیا جائے گا کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- [٢ ٢۔ الف ] اشہاد۔ شاہد کی جمع بھی آتی ہے جیسے صاحب کی جمع اصحاب آتی ہے اور شہید کی بھی جیسے شریف کی جمع اشراف آتی ہے اور یہ گواہ فرشتے اور کراماً کاتبین بھی ہوسکتے ہیں۔ انبیاء بھی، عامۃ الناس بھی اور جب اپنا جرم تسلیم نہ کرنے پر اصرار کریں گے تو اس کے اعضاء وجوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے اور شہادتوں کی بنا پر ہی اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی کہ فی الواقع ان لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا : یعنی اپنی جان پر ظلم کرنے والے بہت ہیں، مگر اس سے بڑھ کر کوئی نہیں جو جھوٹ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دے، مثلاً مخلوق کو خالق کی صفات رکھنے والا قرار دے، بتوں، ولیوں اور دیوتاؤں کو اللہ کے حضور بلا اجازت سفارش کی جرأت رکھنے والے سمجھے، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے اور مسیح (علیہ السلام) یا کسی اور کو اللہ کی اولاد یا اس کا حصہ یا ٹکڑا قرار دے۔ موضح میں ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کئی طرح سے ہے، مثلاً علم میں غلط نقل کرنا۔ (آل عمران : ٧٨) نبوت یا وحی کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ (انعام : ٩٣) خواب بنا لینا، ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنْ أَفْرَی الْفِرٰی أَنْ یُّرِیَ عَیْنَیْہٖ مَا لَمْ تَرَ ) [ بخاري، التعبیر، باب من کذب فی حلمہ : ٧٠٤٣ ] ” سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھی (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے) ۔ “ درایت یا عقل کو دین کے معاملات میں درمیان لے آنا۔ (قصص : ٥٠)- اُولٰۗىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰي رَبِّهِمْ : اللہ تعالیٰ ایسے مفتری اور جھوٹے کفار و مشرکین اور منافقین کو قیامت کے دن سب کے سامنے رسوا کرے گا اور گواہ بھی سب کے سامنے ان کے رب تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی شہادت دیں گے۔ البتہ مومن گناہ گاروں کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( إِنَّ اللّٰہَ یُدْنِي الْمُؤْمِنَ فَیَضَعُ عَلَیْہِ کَنَفَہٗ وَیَسْتُرُہٗ فَیَقُوْلُ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ کَذَا ؟ أَتَعْرِفُ ذَنْبَ کَذَا ؟ فَیَقُوْلُ نَعَمْ أَيْ رَبِّ ، حَتَّی قَرَّرَہٗ بِذُنُوْبِہِ وَرَأَی فِيْ نَفْسِہِ أَنَّہٗ ھَلَکَ ، قَالَ سَتَرْتُھَا عَلَیْکَ فِيْ الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُھَا لَکَ الْیَوْمَ ، فَیُعْطَي کِتَابَ حَسَنَاتِہِ ، وَأَمَّا الْکَافِرُ وَالْمُنَافِقُوْنَ فَیَقُوْلُ الْأَشْھَادُ : (هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ) [ ھود : ١٨] ) [ بخاری، المظالم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ألا لعنۃ اللّٰہ علی الظالمین ) : ٢٤٤١ ] ” اللہ تعالیٰ مومن کو قریب کرے گا اور اس پر اپنا دامن ڈال کر پردے میں کرے گا، پھر کہے گا کہ تو فلاں گناہ پہچانتا ہے ؟ کیا فلاں گناہ پہچانتا ہے ؟ وہ کہے گا، ہاں اے رب یہاں تک کہ جب اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروا لے گا اور وہ اپنے دل میں سمجھ لے گا کہ وہ ہلاک ہوگیا تو (اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا، میں نے دنیا میں تجھ پر ان گناہوں پر پردہ ڈالا اور آج میں تجھے وہ بخشتا ہوں، تو اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔ رہا کافر اور منافق، تو گواہ کہیں گے : (هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ) ” یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا۔ سن لو ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ “ - وَيَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ ۔۔ : گواہوں سے مراد ان کے پیغمبر یا وہ فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علماء جنھوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ایسے شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے ( کہ اس کی توحید کا اس کے رسول کی رسالت کا اور اس کے کلام ہونے کا انکار کرے) ایسے لوگ ( قیامت کے روز) اپنے رب کے سامنے ( مفتری ہونے کی حیثیت سے) پیش کئے جائیں گے اور ( اعمال کے) گواہ فرشتے ( علی الاعلان) یوں کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب کی نسبت جھوٹی باتیں لگائی تھیں، سب سن لو کہ ایسے ظالموں پر خدا کی ( زیادہ) لعنت ہے جو کہ ( اپنے کفر و ظلم کے ساتھ) دوسروں کو بھی خدا کی راہ ( یعنی دین) سے روکتے تھے اور اس ( راہ دین) میں کجی ( اور شبہات) نکالنے کی تلاش ( اور فکر) میں رہا کرتے تھے ( تاکہ دوسروں کو گمراہ کریں) اور آخرت کے بھی منکر تھے ( یہ فرشتوں کے اعلان کا مضمون تھا، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) یہ لوگ ( تمام) زمین ( کے تختہ) پر ( بھی) خدا تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے تھے ( کہ کہیں جا چھپتے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ نہ آتے) اور نہ ان کا خدا کے سوا کوئی مددگار ہوا ( کہ بعد گرفتاری کے چھڑا لیتا) ایسوں کو ( اوروں سے) دونی سزا ہوگی ( ایک کافر ہونے اور ایک دوسروں کو کافر بنانے کی کوشش کرنے کی) یہ لوگ ( مارے نفرت کے احکام الہٰی کو) سن نہ سکتے تھے اور نہ ( غایت عناد سے راہ حق کو) دیکھتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو برباد کر بیٹھے اور جو معبود انہوں نے تراش رکھے تھے ( آج) ان سے سب غائب ( اور گم) ہوگئے ( کوئی بھی تو کام نہ آیا پس) لازمی بات ہے کہ آخرت میں سب سے زیادہ خسارہ میں یہی لوگ ہوں گے ( یہ تو انجام ہوگا کافروں کا آگے مسلمانوں کا انجام مذکور ہے کہ) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اچھے کام کئے اور ( دل سے) اپنے رب کی طرف جھکے ( یعنی انقیاد اور خشوع دل میں پیدا کیا) ایسے لوگ اہل جنت ہیں ( اور) وہ اس میں ہمیشہ رہا کریں گے ( یہ دونوں کے انجام کا تفاوت بیان ہوگیا، آگے تفاوت حال کی مثال ہے جس پر انجام کا تفاوت مرتب ہوتا ہے پس ارشاد ہے کہ) دونوں فریق ( مذکورین یعنی مومن و کافر) کی حالت ایسی ہے جیسے ایک شخص ہو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی ( جو نہ عبارت کو سنے نہ اشارہ کو دیکھے تو اس کے سمجھنے کی عادۃً کوئی صورت ہی نہیں) اور ایک شخص ہو جو دیکھتا بھی ہو اور سنتا بھی ہو ( اس کو سمجھنا بہت آسان ہو) کیا یہ دونوں شخص حالت میں برابر ہیں ( ہرگز نہیں، یہی حالت کافر اور مسلمان کی ہے کہ وہ ہدایت سے بہت دور ہے اور یہ ہدایت سے موصوف ہے) کیا تم ( اس فرق کو) سمجھتے نہیں ( ان دونوں میں فرق بدیہی ہے اس میں شبہ کی گنجائش نہیں ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰي رَبِّہِمْ وَيَقُوْلُ الْاَشْہَادُ ہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰي رَبِّہِمْ۝ ٠ ۚ اَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٨ ۙ- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- ها - هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ- [ النساء 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو .- ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) اور ایسے شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ کی افتراء کرے، ایسے لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور فرشتے اور انبیاء کرام اعلانیہ یوں کہیں گے کہ یہ وہ کافر ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نسبت جھوٹی باتیں لگائی تھیں ایسے مشرکوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا)- جس نے خود کوئی چیز گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردی۔- (اَلاَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ )- ان جھوٹ گھڑنے والوں میں غلام احمد قادیانی آنجہانی اور اس جیسے دوسرے مدعیان نبوت بھی شامل ہوں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :20 یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ خدائی اور استحقاق بندگی میں دوسرے بھی شریک ہیں ۔ یا یہ کہے کہ خدا کو اپنے بندوں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے کوئی کتاب اور کوئی نبی ہماری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا ہے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جو ڈھنگ چاہیں اپنی زندگی کے لیے اختیار کرلیں ۔ یا یہ کہے کہ خدا نے ہمیں یونہی کھیل کے طور پر پیدا کیا اور یونہی ہم کو ختم کر دے گا ، کوئی جواب دہی ہمیں اس کے سامنے نہیں کرنی ہے اور کوئی جزا و سزا نہیں ہونی ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :21 یہ عالم آخرت کا بیان ہے کہ وہاں یہ اعلان ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: گواہی دینے والوں میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو انسانوں کے اعمال پر لکھنے پر مقرر ہیں، اور وہ انبیائے کرام علیہم السلام بھی جو اپنی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے۔