Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومن کون ہیں؟ ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں ۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ ) 30- الروم:30 ) اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی ہے بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں ۔ مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آکر انہیں ان کے دین سے بہکا دیتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری ۔ مسند اور سنن میں ہے کہ ہر بچہ اسی ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے ، الخ ۔ پس مومن فطرت رب پر ہی باقی رہا ہے ۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پییغبمر کے ذریعے پہنچتی ہے جو شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی ۔ پس شاہد سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسالت اولاً حضرت جبرائیل علیہ السلام لائے اور آپ کے واسطے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے ۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں ۔ حق بات پہلی ہی ہے ۔ پس مومن کی فطرت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے ۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے ، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیتا ہے ۔ اس کی فطرت ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے ۔ پس فطرت سلیم ، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم ، جسے حضرت جبرائیل نے اللہ کے نبی کو پہنچایا اور آپ نے اپنی امت کو پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے ، وہ کتاب موسی یعنی تورات جیسے اللہ نے اس زمانے کی امت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے ۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فرقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو ، خواہ نصرانی کہیں کا ہو ، کوئی ہو ، کسی رنگت اور شکل وصورت کا ہو ، قرآن پہنچا اور نہ ماناہ وہ جہنمی ہے ۔ جیسے رب العالمین نے اپنے نبی کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے ۔ ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6- الانعام:19 ) کہ میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ) 7- الاعراف:158 ) لوگوں میں اعلان کردو کہ اے انسانو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں ۔ مندرجہ بالا حدیث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں ۔ پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہو نے میں تجھے کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے جیسے ارشاد ہے کہ اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ اور جگہ ہے ( آیت ذالک الکتاب لا ریب فیہ ) اس کتاب میں کوئی شک نہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ اکثر لوگ ایمان سے کورے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁ ) 12- یوسف:103 ) یعنی گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کر لے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہونگے ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ١١٦؁ ) 6- الانعام:116 ) اگر تو دنیا والوں کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 20؀ ) 34- سبأ:20 ) یعنی ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اپنے رب کی طرف سے دلیل سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور وہ اللہ واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں (صحیح بخاری) یتلوہ کے معنی ہیں اس کے پیچھے یعنی اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو گواہ سے مراد قرآن، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جو اس فطرت صحیحہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات بھی جو پیشوا بھی ہے اور رحمت کا سبب بھی یعنی کتاب موسیٰ (علیہ السلام) بھی قرآن پر ایمان لانے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل پر قائم ہے، اس پر ایک گواہ (قرآن۔ یا پیغمبر اسلام بھی ہے، اسی طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات، میں بھی اس کے لئے پیشوائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اور وہ ایمان لے آتا ہے کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ایک مومن ہے اور دوسرا کافر۔ ہر طرح کے دلائل سے لیس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔ 17۔ 2 یعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے وہ قرآن کریم اور نبی پر ایمان لائیں گے۔ 17۔ 3 تمام فرقوں سے مراد روئے زمین پر پائے جانے والے مذاہب ہیں، یہودی، عیسائی، زرتشی، بدھ مت، مجوسی اور مشرکین و کفار وغیرہ، جو بھی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے یہ وہی مضمون ہے جسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے " قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کے جس یہودی، یا عیسائی نے بھی میری نبوت کی بابت سنا اور پھر مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ جہنم میں جائے ہے " (صحیح مسلم کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی جمیع الناس) یہ مضمون اس سے پہلے سورة بقرہ آیت 62 (خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ 162۔ ) اور سورة نساء آیت 150، 152 (اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا 150؀ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا 151؁ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ ۭوَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 152؀ ) 4 ۔ النساء :150 تا 152) میں گزر چکا ہے۔ 17۔ 4 یہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا (وَمَآ اَکْثَرُالنَّاسِ وَلَوْ حَرَصَتْ بِمُؤ مِنِیْنَ ) (سورۃ یوسف۔ 103) (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ 103۔ ) 12 ۔ یوسف :103) تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، مومنوں کے ایک گروہ کے سوا، سب اس کے پیروکار بن گئے ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] دونوں شہادتوں کے بعد بھی ایمان نہ لانے والے :۔ یہاں واضح دلیل سے مراد داعیہ فطرت یا عہد الست ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے الاعراف کی آیت نمبر ١٧٢، ١٧٣) اب اگر اس آیت میں شخص سے مراد رسول اللہ کی ذات لی جائے تو شاہد سے مراد جبرئیل ہیں اور اگر شخص سے مراد عام آدمی لیا جائے تو شاہد سے مراد رسول اللہ ہیں۔ یعنی یہ داعیہ فطرت ہر انسان کے تحت الشعور میں پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کائنات کا اور خود ہمارا بھی خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہوسکتا پھر اس داعیہ کی تائید میں خارج سے دو قوی شاہد بھی مل جائیں جن میں سے ایک تو رسول اللہ اور قرآن ہے اور دوسرے تورات جو آپ سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی تو کیا ایسے شخص کے ایمان لانے میں کوئی چیز آڑے آسکتی ہے اسے فوراً اس داعیہ فطرت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آنا چاہیے اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا اس کا علاج دوزخ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ؟- [١ ٢] آپ کی طرف یہ خطاب صرف بطور تاکید مزید ہے اصل میں اس کے مخاطب عام لوگ ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۔۔ : ” یَتْلُوا “ ” تَلاَ یَتْلُوْ “ کا معنی ہے پیچھے آنا، مراد اس کی تائید کرنا ہے۔ اس آیت کی مفسرین نے کئی تفسیریں کی ہیں، ان میں سے دو تفسیریں زیادہ درست معلوم ہوتی ہیں۔ سب سے واضح اور درست تفسیر تو یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ” بَیِّنَۃٍ “ (واضح دلیل) پر ہے، اس شخص سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبع مومن ہیں۔ ” َیِّنَۃٍ “ سے مراد نبوت کی نشانیاں اور دلائل ہیں اور ” وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ “ (اس کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو) میں ” شَاهِدٌ“ سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ کے صدق کا شاہد ہے اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب سے مراد تورات ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی شہادت دے رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ رسول اور اس کے پیروکار جو اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہیں، ان لوگوں کی طرح ہوسکتے ہیں جن کے پاس نہ رب تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل ہے، نہ کوئی شاہد اور نہ کوئی اور پہلی آسمانی کتاب جو ان کی تائید کرے۔ یہ مطلب سب سے درست اس لیے کہا گیا ہے کہ اسی سورة ہود میں تقریباً ہر نبی نے یہ کہا کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک ” بَيِّنَةٍ “ پر ہوں۔ دیکھیے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : ( اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ ۭ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ) [ ھود : ٢٨ ] ” اے میری قوم کیا تم نے دیکھا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک (بینہ) واضح دلیل پر (قائم) ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بڑی رحمت عطا فرمائی ہو، پھر وہ تم پر مخفی رکھی گئی ہو، تو کیا ہم زبردستی اسے تم پر چپکا دیں گے، جب کہ تم اسے ناپسند کرنے والے ہو۔ “ صالح (علیہ السلام) نے کہا : ( يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ ) [ ھود : ٦٣ ] شعیب (علیہ السلام) نے کہا : ( يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ ) [ ھود : ٨٨ ] غرض ہر پیغمبر یہ کہتا رہا کہ میں اپنے رب کی طرف سے ” بَيِّنَةٍ “ پر ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر پیغمبر کو اس کی نبوت کی واضح نشانی دے کر بھیجتے تھے اور قرآن مجید کا معجزہ، جس کی ایک سورت کی مثال پیش نہ کی جاسکی، وہ اللہ کی طرف سے آپ کا شاہد ہے۔ اسی طرح تورات بھی آپ کے حق ہونے کی شاہد ہے۔- دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” بَيِّنَةٍ “ سے مراد عقل سلیم اور وہ فطرت سلیمہ ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ عہد ” اَلَسْتُ “ ہے جس کا ہر شخص اپنے آپ پر شاہد بنا یا گیا ہے اور وہ ہے توحید الٰہی اور اپنے رب کی پہچان، فرمایا : (اَلَسْتُ بِرَبِّکُم) [ الأعراف : ١٧٢ ] ” کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ ) [ بخاری، الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین : ١٣٨٥ ] ” ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ “ یعنی کیا وہ لوگ جو فطرت سلیمہ پر قائم ہیں، عقل سلیم سے کام لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گواہ بھی آچکا ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن اور اس سے پہلے تورات بھی اس کی شہادت دے رہی ہے، جو رہنما بھی تھی اور رحمت بھی، تو کیا یہ لوگ ان کی طرح ہیں جن کے پاس نہ رب کی طرف سے کوئی ” بَيِّنَةٍ “ ہے، نہ کوئی اس کی طرف سے شاہد اور نہ گزشتہ کسی آسمانی کتاب کی شہادت۔ ہرگز نہیں، ایک مومن دوسرا کافر، دونوں ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ - اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ : یعنی یہ ” بَيِّنَةٍ “ پر قائم لوگ اس رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ - وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ : اور جو اس کے ساتھ کفر کرے، خواہ وہ کسی گروہ عیسائی، یہودی، ہندو یا بدھ وغیرہ سے تعلق رکھتا ہو، اس کا ٹھکانا آگ ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لاَ یَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِّنْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ یَھُوْدِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِيْ اُرْسِلْتُ بِہٖ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ ) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ١٥٣، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میرے بارے میں اس امت (دعوت) میں سے کوئی یہودی یا نصرانی سن لے پھر وہ فوت ہو اور اس پر ایمان نہ لایا ہو جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، تو وہ اصحاب النار سے ہوگا۔ “ مشرکین اور نام کے مسلمان، جو دل سے آپ کی رسالت کو نہیں مانتے، وہ بھی انھی میں شامل ہیں۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٦٢) اور نساء (١٥٠ تا ١٥٢) ۔- فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ : بظاہر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر مراد ہر عاقل ہے۔- وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ : اکثر یت کا یہ حال قرآن میں متعدد بار بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورة یوسف (١٠٣) ، انعام (١١٦) اور سبا (٢٠) دین جمہوریت اور دین اسلام کو ایک قرار دینے والے غور فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس آیت میں بیّنہ سے مراد قرآن ہے اور شاھد کے معنی میں ائمہ تفسیر کے مختلف اقوال ہیں، بیان القرآن میں حضرت تھانوی قدس سرہ نے اس کو اختیار کیا ہے کہ شاہد سے مراد وہ اعجار قرآنی ہے جو خود قرآن میں موجود ہے، تو معنی یہ ہوگئے کہ وہ لوگ جو قرآن پر قائم ہیں اور ان کے پاس قرآن کی حقانیت کا ایک گواہ تو خود قرآن میں موجود ہے یعنی اس کا اعجاز اور دوسرا گواہ اس سے پہلے بصورت تورات آچکا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے لئے قابل اقتداء اور رحمت حق کی حیثیت سے لائے تھے کیونکہ تو ارت میں قرآن کریم کا حق ہونا واضح طور پر بیان کیا گیا۔- دوسرے جملہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کو قیامت تک مدار نجات قرار دینے کا بیان اس طرح فرمایا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب اور ملتوں میں سے جو شخص بھی آپ کا انکار کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔- صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جو یہودی یا نصرانی میری دعوت کو سنے اور اس کے باوجود میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہ لائے تو وہ اہل جہنم میں سے ہوگا۔ اس سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے جو بہت سے یہود و نصاری یا دوسرے مذہب کے پیروؤں کے بعض ظاہری اعمال کی بناء پر ان کو حق پر کہتے ہیں اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان کے بغیر صرف ظاہری اعمال کو نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں، یہ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اور حدیث کی اس صحیح روایت سے کھلا تصادم ہے۔ والعیاذ باللہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَيَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ وَمِنْ قَبْلِہٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَۃً۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ۝ ٠ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّنْہُ۝ ٠ ۤ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٧- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے - - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) کیا منکر قرآن ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جو قرآن کریم پر قائم ہو جو کہ اسکے رب کی طرف سے آیا ہے، اور اس کے ساتھ ایک گواہ اللہ کی طرف سے یعنی جبریل امین (علیہ السلام) تو اسی میں موجود ہے اور ایک قرآن حکیم سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب توریت ہے جو ان پر جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نازل ہوئی ہے جو پیروی کرنے والوں کے لیے امام اور جو اس پر ایمان لائے اس کے لیے رحمت ہے۔- جو حضرات یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھ جو کتاب موسیٰ پر ایمان رکھتے ہیں، وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس قرآن کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔- اور جو کفار میں سے ہے اور وہ اس قرآن حکیم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرے گا تو جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو شخص قرآن کریم کا انکار کر رہا ہے اس کی وجہ سے قرآن کی طرف سے شک میں مت پڑنا کیوں کہ قرآن حکیم کے منکر کا ٹھکانا دوزخ ہے یا یہ مطلب ہے کہ تم قرآن کریم کی طرف سے شک میں مت پڑنا، بیشک وہ سچی کتاب ہے تمہارے رب کی طرف سے بذریعہ جبریل امین نازل ہوئی ہے مگر اہل مکہ ایمان نہیں لائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ) - بَیِّنَۃ (واضح دلیل) سے مراد انسان کی فطرت سلیمہ ہے۔ انسان کے اندر جو روح ربانی پھونکی گئی ہے اس کی وجہ سے اللہ کی معرفت اس کے اندر موجود ہے۔ مگر یہ معرفتِ الٰہی انسان کے اندر خوابیدہ ( ) ہوتی ہے۔ پھر جب وحی کے ذریعے واضح ہدایت اس تک پہنچتی ہے تو وہ خوابیدہ معرفت فوراً جاگ جاتی ہے۔- (وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ ) - یعنی ایک سلیم الفطرت شخص جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت اور کائنات کے نظم و نسق میں توحید باری تعالیٰ کی واضح شہادت مل رہی تھی ‘ جب اس کے پاس قرآن کی صورت میں اللہ کی طرف سے ایک گواہی بھی آگئی ‘ تو یہ ” نورٌ علٰی نورٍ “ والا معاملہ ہوگیا۔ اور پھر اس پر مستزاد تورات کی تصدیق۔ - (وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً )- ایسا سلیم الفطرت شخص کیونکر ایمان نہیں لائے گا ؟ یہ تمثیل زیادہ وضاحت کے ساتھ سورة النور میں بیان ہوئی ہے۔- (وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ )- تو اب جو بھی اس کتاب کے منکر ہوں چاہے وہ مشرکین مکہ میں سے ہوں ‘ دوسرے کفار میں سے ‘ یا اہل کتاب میں سے ‘ ان کا موعود ٹھکانا بس دوزخ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :17 یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اس دنیا کا خالق ، مالک ، پروردگار اور حاکم و فرمانروا صرف ایک خدا ہے ، اور پھر انہی شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :18 یعنی قرآن ، جس نے آکر اس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی اور اسے بتایا کہ فی الواقع حقیقت وہی ہے جس کا نشان آفاق و انفس کے آثار میں تونے پایا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :19 سلسلہ کلام کےلحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں ان کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے ۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا ، پھر قرآن نے آکر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی ، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی ، آخر وہ کس طرح اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے ان منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے ۔ جس طرح سورہ انعام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثار کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے ، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آپ کو حقیقت کا براہ راست کی بلکہ آکر اس کی نہ صرف تصدیق و توثیق کا علم بھی عطا کر دیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: یعنی قرآن کریم کی حقانیت کا ایک ثبوت تو خود قرآن کریم کا اعجاز ہے، جس کا مظاہرہ پیچھے آیت نمبر 13 میں ہوچکا ہے کہ ساری دنیا کو اس جیسا کلام بنا لانے کا چیلنج دیا گیا، مگر کوئی آگے نہ بڑھا۔ اور دوسرا ثبوت حضرت موسیٰ علیہ السلا پر نازل ہونے والی تورات ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کی تشریف آوری کی خبر اور آپ کی علامتیں واضح طور پر بتائی گئی تھیں۔