19۔ 1 یعنی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے، اس میں کجیاں تلاش کرتے اور لوگوں کو متنفر کرتے ہیں۔
[٣ ٢] یعنی اللہ پر افتراء کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی لعنت ہے ان لوگوں کے ایسے ایجاد کیے ہوئے جھوٹ ہی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور اس میں کجروی اختیار کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کے لیے ایسے ایجاد کردہ سہارے اللہ کے ذمے لگا رکھے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتاً آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں کیونکہ آخرت میں اعمال کی باز پرس کا جو تصور شریعت نے پیش کیا ہے یہ لوگ اسے قطعاً ملحوظ نہیں رکھتے۔
الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کی سیدھی راہ (اسلام) میں کجی اور عیب ڈھونڈ کر لوگوں کو اس میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ” ھُمْ “ کی ضمیر دو بار لانے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار کرنے میں یہ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ گویا آخرت کے اصل منکر یہی ہیں۔ ” وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا “ میں لام محذوف ہے، یعنی ” یَبْغُوْنَ لَھَا عِوَجًا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا) [ الکہف : ١ ] یا ” یَبْغُوْنَ فِیْھَا عِوَجًا “ میں ” فِیْ “ محذوف ہے، یعنی ” یَبْغُوْنَ فِیْھَا عِوَجًا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن زمین کے متعلق فرمایا : (ۙلَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا ) [ طٰہٰ : ١٠٧ ]
الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًا ٠ ۭ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ ١٩- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے :
(١٩) جو کہ دوسروں کو بھی اللہ کے دین سے اور اللہ کی اطاعت سے روکتے ہیں اور اس میں شکوک و شبہات نکالنے کی فکر میں رہا کرتے تھے اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کے بھی منکر تھے۔
آیت ١٩ (الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَہَا عِوَجًا)- تعلیماتِ حق اور طریق ہدایت پر خواہ مخواہ کے اعتراضات کرتے ہیں تاکہ لوگ اس راستے کو اختیار نہ کریں۔- (وَهُمْ بالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ )- یہ وہی بات ہے جو ہم سورة یونس میں بار بار پڑھ آئے ہیں : (لَاْ یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا) کہ انہیں ہم سے ملاقات کی امید ہی نہیں اور ان کی اصل بیماری بھی یہی ہے کہ وہ دل سے آخرت کے منکر ہیں اور اسی وجہ سے ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :22 یہ جملہ معترضہ ہے کہ جن ظالموں پر وہاں خدا کی لعنت کا اعلان ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جو آج دنیا میں یہ حرکات کر رہے ہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :23 یعنی وہ اس سیدھی راہ کو جو ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ راہ کچھ ان کی خواہشات نفس اور ان کے جاہلانہ تعصبات اور ان کے اوہام و تخیلات کے مطابق ٹیڑھی ہو جائے تو وہ اسے قبول کریں ۔
14: یعنی دین حق کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات نکال کر اس کو ٹیڑھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔