Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی جو دل کے ساتھ ایمان لائے اور جنہوں نے اعضا کے ساتھ عمل کئے، وہ تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل ہیں۔ جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مومن بندے ملائکہ سے شرف فضل میں بہترین ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے۔ البریۃ، یرأ (خلق) سے ہے۔ اسی سے اللہ کی صفت الباری ہے۔ اس لیے بریّہ اصل میں بریئۃ ہے، ہمزہ کو یا سے بدل کر یا کا یا میں ادغام کردیا گیا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] بریۃ کا لغوی مفہوم :۔ بریۃ : برء سے مشتق ہے یعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، لہذا ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے۔ بریہ میں شامل ہے۔ یعنی پوری مخلوق۔ ساری کائنات، زمین و آسمان اور دیگر سیارے سب اس میں شامل ہیں۔ ان دو آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کافر تمام مخلوق سے بدتر مخلوق ہیں کیونکہ انہوں نے عقل وتمیز ہونے کے باوجود اپنے خالق ومالک کے حق کو نہیں پہچانا۔ اور مومن جو نیک اعمال بجالاتے رہے تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بہتر ہیں۔ اس لیے کہ فرشتوں کو خیر وشر کا اختیار ہی نہیں دیا گیا۔ ان کی اطاعت الٰہی اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ جبکہ مومنوں کی اطاعت اختیاری ہوتی ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ عام مومن عام فرشتوں سے اور مقرب مومن مقرب فرشتوں سے افضل ہیں اور افضل الخلائق ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مخلوق سے، جن میں سب فرشتے بھی شامل ہیں، افضل ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ان الذین امنوا و عملوا اصلحت…:ْو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں اور تمام کاتبوں پر ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کئے ان کے لئے تین بڑی بڑی بشارتیں ہیں، پہلی یہ کہ وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں، کیونکہ اپنے اختیار سے گناہ چھوڑ کر ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کا درجہ یقیناً ان لوگوں سے بلند ہے جن میں نافرمانی کی استعداد ہی نہیں، دوسری یہ کہ ان کے لئے ہمیشہ رہنے کے لئے باغات ہیں، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور تیسری یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی جو آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے، فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : ٨٢)” اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی چیز ہے۔ “” اور وہ اللہ سے رضای ہوں گے “ یعنی بیشمار نعمتوں کے بعد بھی اگر ان کا دل ہی خوش نہ ہوا تو کیا فائدہ ؟ یہ نعمتیں اس کیلئے ہیں جو اپنے رب سے ڈر گیا۔ خالی بےروح کلمہ پڑھنے، بلاخشیت نماز اور بوجھل دل کے ساتھ زکوۃ ادا کرنے اور بطور رسم عبادات ادا کرنے سے یہ مرتبہ نہیں ملتا ، بلکہ اس کا مدار اللہ کے ڈر پر ہے، جیسا کہ فرمایا :(ولمن خاف مقام ربہ جنتن) (الرحمٰن : ٣٦) ” اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو باغ ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّۃِ۝ ٧ ۭ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- بَرِيَّة- : الخلق، قيل : أصله الهمز فترک وقیل : بل ذلک من قولهم : بریت العود، وسمّيت بريّة لکونها مبريّة من البری أي : التراب، بدلالة قوله تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ غافر 67] ، وقوله تعالی: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ [ البینة 7] ، وقال : شَرُّ الْبَرِيَّةِ [ البینة 6] .- البریۃ کے معنی مخلوق کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مہموز ہے لیکن ہمزہ کو ترک ( یا ادغام ) کردیا گیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ برت القوس سے مشتق ہے اور مخلوق کو بریۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ البریٰ یعنی مٹی سے پیدا کی گئی ہے ۔ جیسا کہ آیت ؛۔ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ( سورة فاطر 11) سے معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ( سورة البینة 7) یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(7 ۔ 8) ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے حضرات جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت ابوبکر صدیق یہ لوگ بہترین مخلوق ہیں ان کا ثواب ان کے پروردگار کے نزدیک انبیاء کرام اور مقربین کے رہنے کی بہشت میں ہے جن کے نیچے بہتی ہوں گی جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اعمال سے خوش رہے گے اور یہ اللہ کے عطا کردہ ثواب اور فضل سے خوش رہیں گے یہ جنت اور خوشنودیا اس کے لیے ہیں جو اپنے پروردگار کی وحدانیت کا قائل ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور دوسرے صحابہ کرام۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا ” (اس کے برعکس) وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے “- اُولٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُالْبَرِیَّۃِ ۔ ” یہی بہترین خلائق ہیں۔ “- اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة البینہ حاشیہ نمبر : 10 یعنی وہ خدا کی مخلوقات میں سب سے حتی کہ ملائکہ سے بھی افضل و اشرف ہیں ۔ کیونکہ فرشتے نافرمانی کا اختیار ہی نہیں رکھتے اور یہ اس کا اختیار رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani