آل ثمود کی تباہی کے اسباب: اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی ، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھاکا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے ، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے ، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہوگئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقرثمودیوں کی آوازپر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا ، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا ، امام بخاری بھیاسے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تربتر ہو جائے گی ، اللہ کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو ، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کرکے اسے پانی سے نہ روکو تمھاری اور اس کی باری مقرر ہے ۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کر لیے تیار ہوگئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی ۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہاس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخافبھی پڑھا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑنہ بیٹھیں ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار ، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا ، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورہ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی ۔
11۔ 1 طغیان، وہ سرکشی جو حد سے تجاوز کر جائے اسی طغیان نے انہیں تکذیب پر آمادہ کیا۔
[١٠] اسی حقیقت کو ایک تاریخی نظیر سے سمجھایا گیا ہے اور اس نظیر کے لیے قوم ثمود کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کا مسکن مکہ کے قریب تھا اور اہل مکہ میں ان کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ یعنی قوم ثمود نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کی پروا نہ کی اور اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی۔
” کذبت ثمود بطغوھآ :” طغویٰ “ (سرکشی)” طغا یطغو “ (ن) کا مصدر ہے، جیسا کہ ”’ عا یدعو “ کا مصدر ”’ عویٰ “ ہے۔ بطور مثال تاریخ میں سے ایک قوم کا ذکر فرمایا، جس نے سرکشی کی وجہ سے اپنے آپ کو مٹی میں دبا دیا۔ ثمود صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی، ان کے معجزہ طلب کرنے پر انہیں ایک اونٹنی دی گئی اور انہیں کہا گیا کہ ایک دن اس کے پینے کی باری ہوگی اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کی۔ دیکھیے سورة شعراء (١٥٥)
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىہَآ ١١ ۠- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(11 ۔ 13) قوم ثمود نے اپنی شرارتوں کی وجہ سے حضرت صالح کو جھٹلایا جب کہ اس قوم کے سب سے بڑے بدبخت یعنی قدار بن سالف اور مسدع بن مصر نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ کونچیں کاٹنے سے پہلے حضرت صالح نے فرمایا کہ اللہ کی اس اونٹنی کو اسی طرح رہنے دو اور اس کے پانی پینے میں خلل اندازی مت کرو چناچہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور پھر اس اونٹنی کو مار ڈالا۔
آیت ١ ١ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰٹہَآ ۔ ” قومِ ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اپنی سرکشی کے باعث۔ “- یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :7 اوپر آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیا گیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جا رہی ہے ۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں ان دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات 7 تا 10 میں بیان کی گئی ہیں ۔ اولاً ان میں فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالی نے اس کا فجور اور اس کا تقوی اس پر الہام کر دیا ۔ قرآن اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقوی کا یہ الہامی علم اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود اس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے ۔ بلکہ اس غرض کے لیے اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا گیا کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقوی کس چیز کا نام ہے اور وہ کیسے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقوی کا راستہ پا سکتا ہے ۔ ثایناً ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقوی میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں ۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقوی سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے ، اور اس کے اچھے رجحانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نامرادی اور ہلاکت و بربادی ۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تا ریخی نظیر پیش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے ، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہل مکہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی ۔ شمالی حجاز میں اس کے تاریخی آثار موجود تھے جن سے اہل مکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں ہمیشہ گزرتے رہتے تھے ، اور جاہلیت کے اشعار میں جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا ۔ سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :8 یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس جھٹلانے کی وجہ ان کی یہ سرکشی تھی کہ وہ اس فجور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا ہو چکے تھے اور اس تقوی کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح انہیں دعوت دے رہے تھے ۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الااعراف ، آیات 73 تا 76 ۔ ہود ، آیات 61 ۔ 62 ۔ الشعراء ، آیات 141 تا 153 ۔ النمل ، آیات 45 تا 49 ۔ القمر ، آیات 23 تا 25 ۔