عذر گناہ بد تر از گناہ ( الا تسجد ) میں لا بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کیلئے ہے ۔ جیسے کہ شاعر کے قول ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ میں ما نافیہ پر ان نفی کے لئے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے آیت ( لم یکن من الساجدین ) ہے پھر ( ما منعک الا تسجد ) ہے امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ( منعک ) ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقریر عبارت یوں ہوئی ( ما احوجک والزمک وا ضطرک الا تسجد اذا مرتک ) یعنی تجھے کس چیز نے بےبس محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟ وغیرہ ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کی مصداق ہے ۔ گویا وہ اطاعت سے اس لئے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جا سکتا ۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا یہ مٹی سے ۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کہ اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اپنی روح پھونکی ہے ۔ پاس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا ۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی ۔ مٹی کے اوصاف ہیں ، نرم ہونا ، حامل مشقت ہونا ، دوسروں کا بوجھ سہانا ، چیزوں کو اگانا ، بڑھانا ، پرورش کرنا ، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے جلدی کرنا ، جلا دینا ، بےچینی پھیلانا ، پھونک دینا ، اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور حضرت آدم نے اپنے گناہ کی معذرت کی ، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا ، اپنے گناہ کا اقرار کیا ، رب سے معافی چاہی ، بخشش کے طالب ہوئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے ( مسلم ) ایک اور روایت میں ہے فرشتے نور عرش سے جنت آگ سے ۔ ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں ۔ امام حسن فرماتے ہیں ابلیس نے یہ کام کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ یاد رکھو سورج چاند کی پرستش اسی کی بدولت شروع ہوئی ہے ۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے ۔
12۔ 1 ان لا تسجدوا میں لا زائد ہے یعنی ان تسجد تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا ؟ یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے بموجب وہ جنات میں سے تھا (الکہف۔ 50) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا۔ اس لئے اس سے باز پرس بھی ہوئی اور اس پر عتاب بھی نازل ہوا۔ اگر وہ اس حکم میں شامل یہ نہ ہوتا تو اس سے باز پرس ہوتی نہ وہ راندہ درگاہ قرار پاتا۔ 12۔ 2 شیطان کا یہ عذر عذر گناہ بدتر از گناہ جس کا آئینہ دار ہے۔ ایک تو اس کا سمجھنا کہ افضل کو مفعول کی تعظیم کا حکم نہیں دیا جاسکتا، غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل چیز تو اللہ کا حکم ہے اس کے حکم کے مقابلے میں افضل وغیرہ افضل کی بحث اللہ سے سرتابی ہے۔ دوسرے، اس نے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے۔ لیکن اس نے اس شرف اور عظمت کو نظر انداز کردیا جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی۔ اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے ؟ تیسرا، نص کے مقابلے میں قیاس سے کام لیا، جو کسی بھی اللہ کو ماننے والے کا شیوا نہیں ہوسکتا اور یہ قیاس بھی فاسد تھا۔ آگ، مٹی سے کس طرح بہتر ہے ؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیا ہے ؟ جب کہ مٹی میں سکون اور ثبات ہے، اس میں نبات و نمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے۔ یہ صفات آگ سے بہرحال بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی، جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپیٹ سے اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔
[١١] آگ اور مٹی کے خواص کا تقابل :۔ ابلیس کا گمان یہ تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے کیونکہ آگ لطیف ہوتی ہے اور مٹی کثیف۔ آگ نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہے اور مٹی اوپر سے نیچے کو گرتی ہے آگ اپنی شکل اور رنگ بدل سکتی ہے مگر مٹی میں بغیر محنت شاقہ کے یہ صفت نہیں پائی جاتی اس ظاہری برتری کے بعد اگر نتیجہ دیکھیں تو آگ ہر چیز کو جلا کر فنا کردیتی ہے جبکہ مٹی سے نباتات یا ہر قسم کے پھل، غلے اور درخت پیدا ہوتے ہیں آگ کی طبیعت میں سرکشی ہے، مٹی کی طبیعت میں انکسار اور تواضع ہے۔ اسی آگ کی فطرت کی بنا پر ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی اور تکبر کی راہ اختیار کی اور راندہ درگاہ الٰہی بن گیا اور آدم (علیہ السلام) سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو اس نے گناہ کی معافی مانگ لی اور اللہ کے مقرب بن گئے۔ بعض علماء نے آگ اور مٹی کا تقابل کر کے انہیں وجوہ کی بنا پر مٹی کو آگ سے افضل قرار دیا ہے۔
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ۭ : یہاں ” الا “ زور اور تاکید کے لیے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ سورة صٓ (٧٥) میں فرمایا : ( مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ) ” تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا۔ “ اور یہاں ہے کہ تجھے کس نے روکا کہ اس کے روکنے کے باعث تو نے سجدہ نہ کیا۔ - اس سے وہ مشکل حل ہوجاتی ہے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو تھا، ابلیس جنوں میں سے تھا، فرشتہ تھا ہی نہیں تو وہ نافرمان کیوں ٹھہرا ؟ اس کے عجیب و غریب جواب دیے گئے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو بطور خاص مخاطب کر کے حکم دیا گیا تھا۔ - خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ : آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل اپنے سے کم درجہ کو کیسے سجدہ کرسکتا ہے ؟ اس نے یہ نہ دیکھا کہ حکم کون دے رہا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی موجودگی میں عقلی قیاس سے کام لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دھتکارا گیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، اسی لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے واضح حکم کی موجودگی میں قیاس کیا ابلیس تھا۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ شرک کی بنیاد بھی قیاس ہی تھا۔ (طبری) اب بھی آیات و احادیث کے مقابلے میں جو شخص اسی طرح عقلی قیاس سے کام لے گا اس کا یہ کام شیطانی ہے، اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو ابلیس کا ہوا۔ - وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ : یہاں شیطان نے متعدد غلطیاں کیں، ایک تو یہ بات ہی غلط ہے کہ افضل اپنے سے کم تر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ بات برتر یا کم تر کی نہیں، حکم کی ہے اور اللہ تعالیٰ جسے جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ دوسرا اس کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنانے کا اور عزت و تکریم بخشنے کا جو شرف عطا فرمایا وہ کسی بھی مخلوق کو نہیں بخشا اس لیے فرمایا : ( ُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۭ ) [ ص : ٧٥ ] ” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ “ اور تیسری یہ بات بھی غلط ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے، کیونکہ آگ میں تیزی، چلانا اور بھڑکنا ہے جبکہ مٹی میں تواضع، ٹھکانابننے، اگانے اور بڑھانے کی خوبی موجود ہے۔ اب بھی جو لوگ قرآن و حدیث کے مقابلے میں قیاس کرتے ہیں اس پر تھوڑا سا غور کریں تو اس کا فاسد و باطل ہونا آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔
معارف و مسائل - حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان کا یہ واقعہ جو یہاں مذکور ہے اس سے پہلے سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے، اس کے متعلقہ بہت سے تحقیق طلب امور کا بیان وہاں ہوا ہے، یہاں مزید چند امور تحقیق طلب کا جواب لکھا جاتا ہے۔- ابلیس کی دعاء قیامت تک زندگی کی قبول ہوئی یا نہیں، بصورت قبول دو آیتوں کے متعارض الفاظ کی تطبیق - ابلیس نے عین اس وقت جب کہ اس پر عتاب و عقاب ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ سے ایک دعا مانگی اور وہ بھی عجیب دعا کہ حشر تک کی زندگی کی مہلت عطا فرما دیجئے، اس کے جواب میں جو ارشاد حق تعالیٰ نے فرمایا اس کے الفاظ اس جگہ مذکورہ آیت میں تو صرف یہ ہیں (آیت) انک من المنظرین، ” یعنی تجھ کو مہلت دی گئی “۔ ان الفاظ سے بقرینہ دعا وسوال یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ مہلت حشر تک کی دی گئی، جیسا کہ اس نے سوال کیا تھا، مگر اس کی تصریح اس آیت میں نہیں ہے، کہ جس مہلت دینے کا ذکر یہاں فرمایا ہے وہ ابلیس کے کہنے کے مطابق حشر تک ہے یا کسی اور معیاد تک، لیکن دوسری آیت میں اس جگہ (آیت) الی یوم الوقت المعلوم کے الفاظ بھی آئے ہیں، جن کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی مانگی ہوئی مہلت قیامت تک نہیں دی گئی، بلکہ کسی خاص مدت تک دی گئی ہے جو علم الٓہی میں محفوظ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ ابلیس کی یہ دعا قبول تو ہوئی، مگر ناتمام کہ بجائے روز قیامت کے ایک خاص مدت تک کی مہلت دے دیگئی۔- تفسیر ابن جریر میں ایک روایت سدی رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے اس سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :- فلم ینظرہ الی یوم البعث ،- ” اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو یوم بعث تک مہلت نہیں دی بلکہ ایک معین دن تک مہلت دی ہے اور وہ دن وہ ہے جس میں پہلا صور پھونکا جائے گا، جس سے آسمان و زمین والے سب بیہوش ہوجائیں گے اور مر جائیں گے “۔- اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ شیطان نے تو اپنی دعا میں اس وقت تک کی مہلت مانگی تھی، جبکہ دوسرا صور پھونکنے تک تمام مردوں کو زندہ کیا جائے گا، اسی کا نام یوم البعث ہے، اگر یہ دعا بعینہ قبول ہوتی تو جس وقت ایک ذات حیّ وقیوم کے سوا کوئی زندہ نہ رہے گا، اور (آیت) کل من علیہا فان۔ کا ظہور ہوگا، اس دعا کی بنا پر ابلیس اس وقت بھی زندہ رہتا، اس لئے کہ ایک دعا کو یوم بعث تک کی مہلت کے بجائے (آیت) یوم ینفخ فی الصور تک کی مہلت سے تبدیل کرکے قبول کیا گیا، جس کا اثر یہ ہوگا کہ جس وقت سارے عالم پر موت طاری ہوگی، اس وقت ابلیس کو بھی موت آئے گی، پھر جب سب دوبارہ زندہ ہوں گے تو وہ بھی زندہ ہوجائے گا۔- اس تحقیق سے وہ شبہ بھی رفع ہوگیا جو (آیت) کل من علیہا فان سے اس دعا کے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر دونوں میں تعارض ہوگیا۔- لیکن حاصل اس تحقیق کا یہ ہے کہ یوم البعث اور یوم الوقت المعلوم دو الگ الگ دن ہیں ابلیس نے یوم البعث تک کی مہلت مانگی تھی وہ پوری قبول نہ ہوئی، اس کو بدل کر یوم الوقت المعلوم تک کہ مہلت دی گئی، سیدی حضرت حکیم الامة تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بیان القرآن میں ترجیح اس کو دی ہے کہ در حقیقت یہ دونوں الگ الگ دن ہیں، بلکہ نفحہ اولیٰ کے وقت سے دخول جنت و تار تک ایک طویل دن ہوگا، اس کے مختلف حصوں میں مختلف واقعات ہوں گے، انہی واقعات مختلفہ کی بناء پر اس دن کی ہر واقعہ کی طرف نسبت کرسکتے ہیں، مثلاً اس کو یوم نفخ صور و یوم فناء بھی کہہ سکتے ہیں، اور یوم بعث اور یوم جزاء بھی، اس سے سب اشکالات رفع ہوگئے، فللّٰہ الحمد - کیا کافر کی دعا بھی قبول ہو سکتی ہے - یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ آیات قرآن وما دعوا الکفرین الا فی ضلل، سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کافر کی دعا قبول نہیں ہوتی، مگر اس واقعہ ابلیس اور آیت مذکورہ سے قبولیت دعا کا اشکال ظاہر ہے، جواب یہ ہے کہ دنیا میں تو کافر کی دعا بھی قبول نہ ہوگی، اور آیت مذکورہ (آیت) وما دعوا الکفرین آخرت کے متعلق ہے دنیا میں اس کا کوئی تعلق نہیں۔- واقعہ آدم (علیہ السلام) و ابلیس کے مختلف الفاظ - قرآن مجید میں یہ قصہ کئی جگہ آیا ہے اس سوال و جواب کے الفاظ مختلف ہیں، حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے، وجہ یہ ہے کہ اصل واقعہ میں تو سب جگہ ایک ہی مضمون ہے، اور نقل الفاظ ہر جگہ بعینہ ضروری نہیں، روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے، اتحاد مضمون و مفہوم کے بعد اختلاف الفاظ قابل نظر نہیں۔- ابلیس کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ بارگاہ عزت و جلال میں ایسی بیباکانہ گفتگو کی - رب العزت جل شانہ کی بارگاہ قدس میں فرشتوں اور رسولوں کو بھی ہیبت و جلال کی بناء پر مجال دم زدنی نہیں تھی، ابلیس کو ایسی جرأت کیسے ہوگئی، علما نے فرمایا کہ یہ قہر الٓہی کا انتہائی سخت مظہر ہے کہ ابلیس کے مردود ہوجانے کے باعث ایک ایسا حجاب حائل ہوگیا جس نے اس پر حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کو مستور کردیا اور بےحیائی اس پر مسلط کردی (بیان القرآن ملخصاً و موضحاً )- شیطان کا حملہ انسان پر چار طرف میں محدود نہیں عام ہے - قرآن عزیز کی مذکورہ آیت میں یہ مذکور ہے کہ ابلیس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے چار جانب کو بیان کیا ہے، آگے پیچھے، دائیں بائیں، لیکن یہاں در حقیقت کوئی تجدید مقصود نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر سمت سے اور ہر پہلو سے، اس لئے اوپر کی جانب یا پاؤں تلے سے گمراہ کرنے کا احتمال اس کے منافی نہیں، اسی طرح حدیث میں جو یہ مذکور ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہو کر خون کی رگوں کے ذریعہ پورے بدن انسان پر تصرف کرتا ہے، یہ بھی اس کے منافی نہیں۔- آیات مذکورہ میں شیطان کو آسمان سے نکل جانے کا حکم دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، پہلے (آیت) فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ ۔ میں دوسرا قول (آیت) قال اخرج منھا مذءوما میں غالباً پہلا کلام ایک تجویز ہے اور دوسرے میں اس کی تنفیذ (بیان القرآن ملحضاً )
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ٠ ۭ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْہُ ٠ ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِيْنٍ ١٢- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معین محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ
(١٢) اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے تمہیں منع کیا وہ کہنے لگا کہ مجھے آپ نے آگ سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا اور آگ کو مٹی پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔
(قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) - اس نے اپنے استکبار کی بنیاد پر ایسا کہا۔ یہاں اس کا جو قول نقل کیا گیا ہے اس کے ایک ایک لفظ سے تکبر جھلکتا ہے ۔