Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابلیس ، آدم علیہ السلام اور نسل آدم انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدام کا حسد کیا ۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ28 ) 15- الحجر ) میں بھی ہے ۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورۃ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں ۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی پسند فرمایا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدام علیہ السلام کے لئے ہی ہوا تھا ۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت ( وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ57 ) 2- البقرة ) اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر ، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْن 12 ) 23- المؤمنون ) ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء :۔ اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے ہی انسانوں کی تخلیق ہوچکی تھی اور شکل و صورت بھی بنادی گئی تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کی ارواح پیدا کی گئی تھیں اور ان روحوں کو وہی صورت عطا کی گئی تھی جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس روح کے جسم کی ہوگی اور انہیں ارواح ہی سے اللہ تعالیٰ نے عہد آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) لیا تھا۔ جسم میں روح کی یا روح کے جسم میں موجود ہونے کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے زیتون کے درخت میں روغن زیتون یا کوئلہ میں آگ یا جلنے والی گیس۔ اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو اپنی تمام اولاد کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہاں کم کی ضمیر بطور جمع مذکر مخاطب استعمال ہوئی ہے یعنی اس وقت صرف سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بنا کر پھر اسے صورت عطا کر کے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔ اس مقام پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں اور انسان کو اسی ارتقائی سلسلہ کی آخری کڑی قرار دیتے ہیں وہ اسی آیت سے اپنے نظریہ کے حق میں استدلال کرتے ہیں اور ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے بنی نوع انسان موجود تھی کیونکہ آدم کو ملائکہ کے سجدہ کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ نیز اسی سورة کی اگلی آیات (١١ سے ٢٥ تک) کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں کہیں تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے لیے تثنیہ کا صیغہ آیا ہے لیکن اکثر مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔- اس کا ایک جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ آدم کے سجدہ کرنے سے پیشتر ارواح کی تخلیق کی گئی۔ انہیں صورتیں دی گئیں اور انہی سے وعدہ الست لیا گیا تھا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے اور ان حضرات کے لیے دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ سورة اعراف کی ان آیات کے ساتھ سورة بقرہ کی آیات نمبر ٣٠ تا ٣٦ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تو اس تثنیہ کے صیغہ کی حقیقت از خود معلوم ہوجائے گی۔- نیز اس مقام پر ابتداء میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرو۔ پھر آگے چل کر آدم (علیہ السلام) ، آپ کی بیوی اور ابلیس وغیرہ کا قصہ مذکور ہے، تو قرآن میں حسب موقع و محل صیغوں کا استعمال ہوا ہے ان آیات کے مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے آباؤ اجداد یا بھائی بند۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا پھر اس سے حوا (علیہا السلام) کو پیدا کیا پھر انہیں جنت میں آباد کیا۔ اگر آدم سلسلہ ارتقاء کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے تو اس وقت ان کے آباؤ اجداد یا بھائی بند کہاں تھے ؟- اب چونکہ اس مسئلہ ارتقاء کے قائلین کی بحث چھڑ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے قرآنی دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے۔- دوسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی دوسری دلیل سورة نساء کی پہلی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگو اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلائے۔ (٤ : ١)- یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کے زوج سے مراد ان کی بیوی حوا (علیہا السلام) ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحدہ سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کائی سے پیدا ہوا تھا۔ اس جرثومہ حیات کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کردو ٹکڑے ہوگیا پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا بڑا ہو کر پھر کٹ کردو دو ٹکڑے ہوتا گیا اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔- یہ دلیل اس لحاظ سے غلط ہے کہ آیت (خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ۝) 4 ۔ النسآء :1) کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ نسل توالد و تناسل کے ذریعہ سے چلی تھی جبکہ جرثومہ حیات کی صورت یہ نہیں ہوتی آج بھی جراثیم کی پیدائش و افزائش اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک جرثومہ کٹ کردو حصے بن جاتا ہے اسی طرح افزائش تو ہوتی چلی جاتی ہے مگر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے تو کہلا سکتے ہیں زوج نہیں کہلا سکتے۔- تیسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی تیسری دلیل سورة علق کی دوسری آیت ہے کہ اللہ نے انسان کو علق سے پیدا کیا (٩٦ : ٤) علق کے لغوی معنی جما ہوا خون یا خون کی پھٹکی بھی ہے اور جونک بھی۔ ہمارے یہ دوست اس سے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں اور اسے رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے اور کہتے ہیں کہ انسان بھی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔- اس اشکال کو کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائی زندگی کے سفر کی داستان ہے سورة مومنوں کی آیت ١٤ دور کردیتی ہے جو یہ ہے۔ پھر ہم نے نطفہ سے علقۃ (لوتھڑا، جما ہوا خون، خون کی پھٹکی) بنایا پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس انسان کو نئی صورت میں بنادیا تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔ (٢٣ : ١٤)- انسان کی پیدائش کے یہ تدریجی مراحل صاف بتلا رہے ہیں کہ یہ رحم مادر میں ہونے والے تغیرات ہیں کیونکہ ارتقائے زندگی کے مراحل ان پر منطبق نہیں ہوتے۔ نیز یہ بھی کہ قرآن کریم نے علق سے مراد جما ہوا خون ہی لیا ہے۔ اس سے ارتقائی مراحل کی جونک مراد نہیں۔- اب ہم اپنی طرف سے نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چند دلائل پیش کرتے ہیں :۔- پہلی دلیل مراحل تخلیق : قرآن نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔- (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠ : ١٧) ۔ (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١ : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦ : ٢) ۔ (٤) طین لازب (٣٧ : ١١) ۔ (٥) آیت (حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 26؀ۚ ) 15 ۔ الحجر :26) بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥ : ١٦) ۔ (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا، حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥ : ١٦) ۔ (٧) آیت (صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14 ۝ ۙ ) 55 ۔ الرحمن :14) یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥ : ١٤)- یہ ساتوں مراحل بس جمادات ہی میں پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ بھی پوری طرح خشک کردیا گیا۔ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایک ہی نوع (جمادات) سے متعلق ہیں ان میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے ؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اور حیوانات کے راستے سے ہوتی تو ان کا بھی کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا۔- سیدنا آدم کی تخلیق میں دو باتیں خصوصی نوعیت رکھتی ہیں ایک یہ کہ سیدنا آدم کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور قرآن کے الفاظ آیت (لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ 75؀) 38 ۔ ص :75) اس کا ثبوت ہیں اور دوسرے پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے روح سے پھونکنا جس کی وجہ سے انسان میں قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل پیدا ہوئی جو دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے ہمارے یہ دوست عموماً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد دست قدرت یا قوت لے لیا کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت اور قوت ہی سے پیدا کیا ہے پھر صرف آدم کی تخلیق سے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ دوسرے انسان میں جو قوت ارادہ و اختیار ہے وہ تسلسل ارتقاء کی صورت میں کب اور کیسے پیدا ہوگئی ؟- ٩ ہجری میں نجران کے عیسائی مدینہ میں آپ سے مناظرہ کرنے آئے۔ موضوع الوہیت مسیح تھا۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ جب تم مسلمان خود تسلیم کرتے ہو کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اس دوران یہ آیت نازل ہوئی اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہوجا تو آدم ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ (٣ : ٥٩)- یعنی عیسائیوں کو جواب یہ دیا گیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر آدم الوہیت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی مگر انہیں تم اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں کہتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے اللہ یا اس کا بیٹا ہوسکتے ہیں ؟- الوہیت مسیح کی تردید میں یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے میں عیسائی اور مسلمان دونوں متفق تھے لیکن آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو معجزات کا منکر ہے وہ آدم (علیہ السلام) کی بغیر ماں باپ پیدائش کو تو تسلیم کرتا ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرا فرقہ قرآنی مفکرین کا وہ ہے جو ارتقائی نظریہ کے قائل ہونے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی بھی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ مندرجہ بالا آیت میں ان فرقوں کا رد موجود ہے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں۔- ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے یہ توجیہ اس لیے غلط ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ کی (علیہ السلام) کوئی خصوصیت نہیں۔- ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ سے ہوئی یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے لیے یہ عام دستور ہے آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں کہ اللہ صرف ان دونوں کی پیدائش کو ایک دوسرے کی مثل قرار دیتے۔ لامحالہ دونوں کی پیدائش غیر فطری طریق سے ہوئی۔- ٣۔ اب تیسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ دونوں کے باپ کا نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں گویا یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے (نظریہ ارتقاء کی مزید تفصیلات کے لیے سورة حجر کی آیت نمبر ٣٩ کا حاشیہ نمبر ١٩ اور اس کے علاوہ میری تصنیف عقل پرستی اور انکار معجزات ملاحظہ فرمائیے۔- [ ١٠] ابلیس کی حقیت سمجھنے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٤ کا حاشیہ نمبر ٤٧)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ : ” خَلَقَ “ کا اصل معنی جس چیز کا وجود نہ ہو اس کا صحیح خاکہ بنانا اور وجود میں لانا ہے۔ اس معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاں، کسی چیز سے کوئی خاکہ تیار کرنے کو بھی ” خَلَقَ “ کہہ لیتے ہیں، یہ مخلوق بھی کرسکتی ہے، سورة مائدہ (١١٠) میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے : (ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ ) (راغب) ” خلق، برأ “ اور تصویر، پیدائش کے تین مراحل ہیں، سورة حشر (٢٤) میں فرمایا : (هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ ) تینوں الفاظ میں سے اکیلا کوئی بھی لفظ آئے تو پیدا کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، اکٹھے آئیں تو کچھ فرق ہے، یعنی ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر تمہیں صورت بخشی : ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ اس سجدے سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیقی سجدہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٣٤)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے تم کو پیدا (کرنے کا سامان شروع) کیا (یعنی آدم (علیہ السلام) کا مادّہ بنایا، اسی مادّے سے تم سب لوگ ہو) پھر (مادہ بنا کر) ہم نے تمہاری صورت بنائی (یعنی اس مادّے میں آدم (علیہ السلام) کی صورت بنائی، پھر وہی صورت ان کی اولاد میں چلی آرہی ہے، یہ نعمت ایجاد ہوئی) پھر (جب آدم (علیہ السلام) بن گئے اور علوم اسماء سے مشرف ہوئے تو) ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو (اب) سجدہ کرو (یہ نعمت اکرام ہوئی) تو سب فرشتوں نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا، حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے، جب کہ میں (خود) تجھ کو سجدہ کا حکم دے چکا، کہنے لگا (وہ مانع یہ ہے کہ) آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس (آدم) کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے (یہ شیطانی استدلال کا پہلا مقدمہ ہے، اور دوسرا مقدمہ جس کا ذکر نہیں کا وہ یہ ہے کہ آگ بوجہ نورانی ہونے کے خاک سے افضل ہے، تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ افضل کی فرع اور اولاد بھی غیر افضل کی فرع سے افضل ہوتی ہے، چوتھا مقدمہ یہ ہے کہ افضل کا سجدہ کرنا غیر افضل کو نامناسب ہے، ان چاروں مقدمات کو ملا کر شیطان نے اپنے سجدہ نہ کرنے کی یہ دلیل بنائی کہ میں افضل ہوں اس لئے غیر افضل کو سجدہ نہیں کیا، مگر پہلے مقدمہ کے سوا سارے ہی مقدمات غلط ہیں، اور پہلا مقدمہ بھی عام انسانوں کے حق میں اس معنی سے صحیح ہے کہ انسان کی تخلیق میں جزو غالب مٹی کا ہے، باقی مقدمات دلیل کا غلط ہونا کھلا ہوا ہے، کیونک آگ کا خاک پر افضل ہونا ایک جزوی فضیلت تو ہو سکتی ہے، کلی طور پر اس کو افضل کہنا دعویٰ بےدلیل ہے، اسی طرح افضل کی فرع اور اولاد کا افضل ہونا بھی مشکوک ہے، ہزاروں واقعات اس کے خلاف سامنے آئے ہیں، کہ نیک کی اولاد بد اور بد کی اولاد نیک ہوجاتی ہے، اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ افضل کو مفضول کے لئے سجدہ نامناسب ہے، بعض اوقات مصالح کا تقاضا اس کے خلاف ہونا مشاہد ہے)- حق تعالیٰ نے فرمایا (جب تو ایسا نافرمان ہے) تو آسمان سے نیچے اتر، تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو تکبر کرے، (خاص کر) آسمان میں رہ کر (جہاں سب فرمانبرداروں ہی کا مقام ہے) تو (یہاں سے) نکل (دور ہو) بیشک تو (اس تکبر کی وجہ سے) ذلیلوں میں شمار ہونے لگا، وہ کہنے لگا کہ بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو (بحکم تکوین) گمراہ کیا ہے قسم کھاتا ہوں کہ میں ان (کے یعنی آدم اور اولاد آدم کی رہزنی کرنے) کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر (جو کہ دین حق ہے جاکر) بیٹھ جاؤں گا پھر ان پر (ہر چار طرف سے) حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور بائیں جانب سے بھی (یعنی ان کے بہکانے میں کوشش کا کوئی پہلو باقی نہ چھوڑوں گا تاکہ وہ آپ کی عبادت نہ کرنے پاویں) اور (میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوں گا، چنانچہ) آپ ان میں سے اکثروں کو (آپ کی نعمتوں کا) احسان ماننے والا نہ پاویں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں (آسمان) سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا (اور تو جو اولاد آدم کو بہکانے کو کہتا ہے تو جو تیرا جی چاہے کرلے میں سب سے بےنیاز ہوں نہ کسی کے راہ راست پر آنے سے میرا کوئی فائدہ ہے نہ گمراہ ہونے سے کوئی نقصان) جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سے (یعنی ابلیس اور اس کی بات ماننے والوں سے) جہنم کو بھر دوں گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۝ ٠ ۤۖ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝ ٠ ۭ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ۝ ١١- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) اور ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان بنایا، پھر ہم نے سب فرشتوں کو سجدہ تعظہمی کرنے کا حکم دیا مگر شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق) - نظریۂ ارتقاء ( ) کے حامی اس آیت سے بھی کسی حد تک اپنی نظریاتی غذا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کے بارے میں مختلف نوعیت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک طرف تو انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مثلاً سورة آل عمران آیت ٥٩ میں بتایا گیا ہے کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے بنا کر کُنْ کہا گیا تو وہ ایک زندہ انسان بن گیا (فَیَکُوْن) ۔ یعنی یہ آیت ایک طرح سے انسان کی ایک خاص مخلوق کے طور پر تخلیق کی تائید کرتی ہے۔ جب کہ آیت زیر نظر میں اس ضمن میں تدریجی مراحل کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں جمع کے صیغے ( وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ) سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس سلسلہ کی کچھ انواع ( ) پہلے پیدا کی گئی تھیں۔ گویا نسل انسانی پہلے پیدا کی گئی ‘ پھر ان کی شکل و صورت کو دیے گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم تو ایک تھا ‘ پھر یہ جمع کے صیغے کیوں استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے سورة آل عمران کی آیت ٣٣ بھی ایک طرح سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے چنا تھا : (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ۔ گویا یہ آیت بھی کسی حد تک ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بہر حال اس قسم کی (رض) کے بارے میں جیسے جیسے جو جو عملی اشارے دستیاب ہوں ان کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ اور آنے والے وقت کے لیے اپنے کھلے رکھنے چاہیں۔ ہوسکتا ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید حقائق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے انسانی علم میں آئیں تو ان آیات کے مفاہیم زیادہ واضح ہو کر سامنے آجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :10 تقابل کےلیے ماحظہ ہو سورہ بقرہ ۔ آیات۳۰تا ۳۹ ۔ سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا ۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے ۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی ، پھر تمہیں صورت بخشی ، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو ، “اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہار مادہ آفرینش تیار کیا ، پھر اس مادے کو انسانی صورت عطا کی ، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا ۔ اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً سورہ صٓ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ طِیْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ° ( آیات ۷١ ۔ ۷۲ ) ”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں ، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا ۔ “اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں ، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق ، پھر اس کا تسویہ ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا ، پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کہ آدم کو وجود میں لے آنا ۔ اسی مضمون کو سورہ حِجْر میں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے ، وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ° ( آیات ۲۸ ۔ ۲۹ ) ”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں ، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا ۔ “ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی ، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطہ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوعِ انسانی “کا آغاز تسلیم کیا جائے ۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے ، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی ، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی ۔ انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا ۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین حتٰی کہ اخلاقی قوانین کےلیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے ۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے ۔ اس کے برعکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے”انسان“ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے ۔ آپ کی نگاہ میں وہ ” حیوانِ ناطق “یا ”متمدن جانور“نہیں ہوگا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا ۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہوگی بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہوگی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے ۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی ۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظام اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی ۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کر دیا جائے جو سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے“ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے”ثابت ہو چکا ہے؟ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظریہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے ، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں ، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہِ راست عمل تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: اس واقعے کی کچھ تفصیلات سور بقرہ (34:2 تا 39) میں گذری ہیں۔ ان آیتوں پر جو حواشی ہم نے لکھے ہیں، ان میں واقعے سے متعلق کئی سوالات کا جواب آگیا ہے۔ انہیں ملاحظہ فرما لیا جائے۔