21۔ 1 یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیئے ہیں اور یوں یقینا نبی کی پیش گوئی کی تیس جھوٹے دجال ہونگے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گزستہ صدی میں بھی قادیاں کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے سچا نبی اور بعض مسیح معبود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔ 21۔ 2 جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔
[٢٣] شرکیہ عقائد کی قسمیں :۔ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں تصرف کے اختیارت بعض اولیاء اللہ کو بھی دے رکھے ہیں جیسا کہ مشرکین کا اپنے دیوی دیوتاؤں کے متعلق عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتے ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا و فریاد کب سنتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی فریاد کسی بزرگ کو سنائیں اور وہ ہماری فریاد اللہ تک پہنچا دے۔ یا یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ کے ساتھ دوسری بھی بہت سی ہستیاں اس کائنات کی خدائی میں اس کی شریک اور ممد و معاون ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارا فلاں بزرگ قیامت کے دن ہماری سفارش کر کے ہمیں اللہ کی گرفت اور عذاب الٰہی سے چھڑا لے گا۔ ایسی سب باتیں اللہ پر بہتان اور شرک کا سرچشمہ ہیں۔- [٢٥] اللہ کی آیات کون کون سی ہیں :۔ آیات سے مراد صرف قرآن کی آیات ہی نہیں بلکہ وہ آیات بھی ہیں جو انسان کے جسم کے اندر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کمال علم و حکمت پر دلیل ہونے کے علاوہ اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ نیز وہ آیات بھی جو انسان کے باہر پوری کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اب جو شخص ان سب طرح کی آیات سے اعراض کرتا جائے تو اس کی نجات کیسے ممکن ہے ؟
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي۔۔ : یعنی اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں اور اگر میں نے سچ پہنچایا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے زیادہ گناہ گار کوئی نہیں، پس اپنی فکر کرو۔ (موضح) اب اس آیت میں ان کے خسارے کا سبب بیان فرمایا۔ (رازی) خسارے کا پہلا سبب افتراء علی اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا قرار دیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کے دین کی بنیاد ہی جھوٹ گھڑنے پر تھی۔ بتوں کو اللہ کا شریک قرار دینا، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا اور بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دینا، یہ سب چیزیں جھوٹ گھڑنے پر مبنی تھیں۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کے دین میں بہت سے افترا شامل ہوگئے تھے، مثلاً وہ تورات و انجیل کو ناقابل نسخ قرار دیتے، اپنے آپ کو اللہ کے بیٹے اور اس کے حبیب کہتے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بہت سی جہالت کی باتیں کرتے تھے۔ خسارے کا دوسرا سبب اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے، جس میں معجزات و احکام کو جھٹلانا بھی شامل ہے۔ - اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار وہ تیس کذاب بھی شامل ہیں جن کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ ۔۔ : ٨٤؍٢٩٢٣ ] جن میں مرزا قادیانی اور اسے نبی کہنے والے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے کوئی جھوٹی حدیث لگانے والے بھی، کیونکہ آپ کے ذمے کوئی بات لگانے والا درحقیقت وہ بات اللہ کے ذمے لگا رہا ہوتا ہے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ٢١- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
(٢١) اور اس سے بڑھ کر بھلا بےانصاف کون ہوگا جو توحید خداوندی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو شریک کرے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کرے، یقیناً ظالموں اور مشرکوں کو عذاب خداوندی سے کسی طرح چھٹکارا حاصل نہیں ہوگا۔
آیت ٢١ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) ۔- یعنی یہ دو عظیم ترین جرائم ہیں جو شناعت میں برابر کے ہیں ‘ اللہ کی آیات کو جھٹلانا یا کوئی شے خودگھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردینا۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :15 یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خد اکے ساتھ دوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں ، خدائی صفات سے متصف ہیں ، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں ، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیت کا رویہ اختیار کرے ۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اسی نے یہ حکم دیا ہے ، یا کم از کم یہ کہ وہ اس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :16 اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں ، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں ۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں ۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر ، کسی علم ، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر ، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر ، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے ، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :16 اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں ، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں ۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں ۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر ، کسی علم ، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر ، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر ، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے ، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے ۔