21۔ 1 بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے امارات مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت مصر میں ہی رہے، جب تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر تیار نہ ہوئے (ابن کثیر) 21۔ 2 اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔ 21۔ 3 یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔
[٥٢] فلسطین کا حال معلوم کرنے والا وفد :۔ جب فرعون بحر قلزم میں غرق ہوگیا اور بنی اسرائیل اس سے پار اتر گئے تو ان لوگوں کی یہ ہجرت ان کے آبائی وطن فلسطین کی طرف بتائی گئی تھی جو سیدنا ابراہیم سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب وغیر ہم کی تبلیغ کا مرکز رہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی کہ ان مہاجرین کو ساتھ لے جا کر فلسطین پر چڑھائی کرو تو بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور اس طرح ان کا آبائی وطن ان کو واپس مل جائے گا۔ چناچہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو جہاد کی ترغیب دی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت بھی دی مگر ان لوگوں نے یہ سوچا کہ پہلے ہمیں فلسطین کے موجودہ حالات سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے تب ہی جنگ کی کوئی بات سوچ سکتے ہیں۔ چناچہ ان لوگوں نے خود تو دشت فاران میں ڈیرے ڈال دیئے اور اپنے میں سے بارہ آدمیوں کو فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کردیا سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو روانہ کرتے وقت یہ تاکید کردی تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں آ کر صرف مجھے بتانا۔ ہر کس و ناکس کے سامنے تشہیر نہ کرنا۔
يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ ۔۔ : مراد شام ہے، فلسطین (کنعان) اسی کے ایک علاقے کا نام ہے، کیونکہ یہیں سے بنی اسرائیل مصر گئے تھے اور یہی ان کی آبائی میراث تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دی تھی۔ تورات میں اس وعدے کی صراحتیں موجود ہیں : ” دیکھو میں نے اس ملک کو تمہارے سامنے کردیا ہے، پس جاؤ اور اس ملک کو اپنے قبضہ میں کرلو جس کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادا ابرہام، اور اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر کہا تھا کہ وہ اسے ان کو اور ان کے بعد ان کی نسل کو دے گا۔ “ ( استثناء، باب : ٨ )- موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل سے یہ خطاب اس موقع پر ہے جب وہ مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں خیمہ زن تھے اور ان پر من وسلویٰ اتر رہا تھا۔ (ابن کثیر)
اس پہلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جو قول نقل فرمایا گیا ہے۔ یہ تمہید تھی اس حکم کے بیان کرنے کی جو اگلی آیت میں اس طرح ارشاد ہوا ہے۔ (آیت) يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ یعنی اے میری قوم تم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے حصہ میں لکھ رکھی ہے۔ - ارض مقدسہ سے کونسی زمین مراد ہے ؟- ارض مقدسہ سے کونسی زمین مراد ہے ؟ اس میں مفسرین کے اقوال بظاہر متعارض ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ بیت المقدس مراد ہے۔ بعض نے شہر قدس اور ایلیا کو ارض مقدسہ کا مصداق بتلایا ہے۔ بعض نے شہر اریحا کو جو نہر اردن اور بیت المقدس کے درمیان دنیا کا قدیم ترین شہر تھا اور آج تک موجود ہے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس کی عظمت و وسعت کے عجیب و غریب حالات نقل کئے جاتے ہیں۔- بعض روایات میں ہے کہ اس شہر کے ایک ہزار حصے (وارڈ) تھے۔ ہر حصہ میں ایک ایک ہزار باغ تھے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ارض مقدسہ سے مراد دمشق، فلسطین اور بعض کے نزدیک اردن ہے۔ اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ملک شام پورا ارض مقدس ہے۔ کعب احبار نے فرمایا کہ میں نے اللہ کی کتاب (غالباً تورات) میں دیکھا ہے کہ ملک شام پوری زمین میں اللہ کا خاص خزانہ ہے۔ اور اس میں اللہ کے مخصوص مقبول بندے ہیں۔ اس زمین کو مقدس اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کا وطن اور مستقر رہا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) لبنان کے پہاڑ پر چڑھے۔ - اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابراہیم یہاں سے آپ نظر ڈالو، جہاں تک آپ کی نظر پہنچے گی ہم نے اس کو ارض مقدس بنادیا۔ یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔ اور صاف بات یہ ہے کہ ان اقوال میں تعارض کچھ نہیں۔ پورا ملک شام آخری روایات کے مطابق ارض مقدس ہے۔ بیان کرنے میں بعض حضرات نے ملک شام کے کسی حصہ کو بیان کردیا۔ کسی نے پورے کو۔
يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ 21- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - قدس - التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ- [ البقرة 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس .- وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة .- وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة .- ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] تو بھائیو تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- ردت - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
ارض مقدس - قول باری ہے (یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم۔ اے برادران قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد سرزمین بیت المقدس ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ سرزمین طور ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ ارض شام ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد دمشق ہے۔ فلسطین اور اردن کے کچھ حصے ہیں۔- مقدسہ مطہرہ کو کہتے ہیں اس لئے کہ تقدیس کے معنی تطہیر کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ارض مقدس اس لئے کہا کہ اسے بہت سی شرکیات سے پاک رکھا گیا تھا اور اس سرزمین کو انبیاء اور اہل ایمان کا مسکن اور جائے قرار بنادیا گیا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس کے لئے فرمایا (کتب اللہ لکم) جبکہ اسی سرزمین کے لئے یہ بھی فرمایا (فانھا محرمۃ علیھم۔ یہ سرزمین ان کے لئے حرام کردی گئی ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ابن اسحاق سے مروی ہے کہ یہ سرزمین ان یہودیوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہبہ اور تحفہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اس سرزمین کو حرام کردیا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مناسب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو انہیں اس شرط پر عطا کیا تھا کہ یہ لوگ اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی فرماں برداری کی راہ پر گامزن رہیں لیکن جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر کمربستہ ہوگئے تو اللہ نے ان پر یہ سرزمین حرام کردی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اگرچہ اس امر کا درودعموم کی صورت میں ہوا ہے لیکن اسے خصوص پر محمول کیا جائے گا۔
(٢١۔ ٢٢) اور سرزمین دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصوں میں داخل ہو، جو سرزمین اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہے اور اسے تمہارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث بنایا ہے اور پیچھے واپس مت چلو کیوں کہ عذاب خداوندی کی بنا پر جس کی وجہ سے تم سے من وسلوی چھین لیاجائے گا اور تم بہت بڑے نقصان میں پڑجاؤ گے، بنی اسرائیل نے کہا وہاں تو بہت زبردست قوی لوگ ہیں، ہم ایسے علاقے میں نہیں جائیں گے اور زبردست لوگوں سے ڈرنے والے بارہ آدمی تھے۔
آیت ٢١ (یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ) - اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ زمین تمہیں ملے گی ۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :43 اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن رہ چکی تھی ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل آئے تو اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نامزد فرمایا اور حکم دیا کہ جاکر اسے فتح کر لو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :44 حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ تقریر اس موقع کی ہے جب مصر سے نکلنے کے تقریباً دو سال بعد آپ اپنی قوم کو لیے ہوئے دشت فاران میں خیمہ زن تھے ۔ یہ بیابان جزیرہ نمائے سینا میں عرب کی شمالی اور فلسطین کی جنوبی سرحد سے متصل واقع ہے ۔
19: مقدس سرزمین سے مراد شام اور فلسطین کا علاقہ ہے ؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو انبیاء کرام مبعوث کرنے کے لئے منتخب فرمایا تھا، اس لئے اس کو مقدس فرمایا گیا ہے، جس واقعے کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل وطن شام اور بالخصوص فلسطین کا علاقہ تھا، فرعون نے مصر میں ان کو غلام بنارکھا تھا، جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اب وہ فلسطین میں جاکر آباد ہوں، اس وقت فلسطین پر ایک کافر قوم کا قبضہ تھا جو عمالقہ کہلاتے تھے، لہذا اس حکم کا لازمی تقاضہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین جاکر عمالقہ سے جہاد کریں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ بھی کرلیا گیا تھا کہ جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح ہوگی، کیونکہ سرزمین تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس حکم کی تعمیل میں فلسطین کی طرف روانہ ہوئے، جب فلسطین کے قریب پہنچے توبنی اسرائیل کو پتہ چلا کہ عمالقہ تو بڑے طاقتور لوگ ہیں، دراصل یہ لوگ قوم عاد کی نسل سے تھے اور بڑے زبردست ڈیل ڈول کے مالک تھے، بنی اسرائیل ان کی ڈیل ڈول سے ڈر گئے اور یہ نہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے اور اس نے فتح کا وعدہ کر رکھا ہے۔