وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١٠- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - جحم - الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما .- ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔
(آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر)- اس لئے یہ جائز ہے کہ گنجے انسان کے سر پر استرہ پھیرنا حلق کے قائم مقام ہوجائے جس طرح کوئی دوسرا آدمی اس کی طرف حج کرنے کی صورت میں اپنے سر کا حلق کرالیتا ہے اور اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کسی دوسرے آدمی کا اس کی طرف سے تلبیہ کہنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس وقت کافی ہوجاتا ہے جب اس پر بےہوشی وغیرہ کا دورہ پڑگیا ہو۔ اس لئے اگر محرم گونگا ہو تو تلبیہ کہنے کے لئے اپنی زبان ہلاتے رہنا مستحب قرار دیا گیا اگرچہ حقیقتہً وہ تلبیہ کہنے سے عاری ہوتا ہے۔- لیکن نماز کی صورت ایسی ہے کہ اس کے افعال کی ادائیگی میں کوئی کسی کا قائم مقام نہیں بن سکتا اور یہ بھی جائز نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ایسے افعال ادا کرے جو نماز کے افعال نہیں کہلا سکتے اور مقصد یہ ہو کہ ان کے ذریعے نمازیوں کے ساتھ اس کی مشابہت ہوجائے۔- اس لئے ان افعال کو ادا کرنا اور ادا نہ کرنا دونوں یکساں حیثیت رکھتے ہیں اور بےمعنی ہیں اس لئے ان افعال کی ادائیگی کو مستحب قرار نہیں دیا گیا۔- اگر ہمارے مخالفین اس روایت سے استدلال کریں جس میں ذکر ہے کہ حضرت عائشہ کا ہار گم ہوگیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو ہار تلاش کرنے کی غرض سے بھیج دیا۔ ان لوگوں نے وضو اور تیمم کے بغیر نماز ادا کی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع بھی دی پھر آیت تیممم نازل ہوئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس فعل پر نکیر نہیں کی۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب ان حضرات نے اسی طرح نماز ادا کی تھی اس وقت آیت تیمم نازل نہیں ہوئی تھی اور تیمم واجب نہیں ہوا تھا۔ نیز ان حضرات کو نماز کے اعادے کا حکم بھی نہیں دیا گیا تھا۔ اس لئے مناسب بات تو یہ ہے کہ اس واقعہ سے یہ استدلال کیا جائے کہ جب ایک شخص کو پانی اور مٹی نہ ملے اور وہ وضو اور تیمم کے بغیر نماز پڑھ لے تو اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوتا۔- لیکن جب ہمارے مخالفین ایسے شخص کو اعادے کا حکم دیتے ہیں تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ زیر بحث لوگوں کا حکم ان حضرات کے حکم سے مختلف ہے نیز یہ حضرات پانی سے محروم تھے لیکن مٹی سے محروم نہیں تھے جبکہ ہمارے مخالفین ان جیسے لوگوں کے بارے میں اس حکم کے قائل نہیں ہیں۔- نماز کے وقت کے دخول سے پہلے تیمم کے جواز میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص پانی نہ پائے اس کے لئے نماز کا وقت آنے سے پہلے تیمم کرلینا جائز ہے اور وقت آجانے پر وہ اس تیمم کے ساتھ فرض نماز ادا کرسکتا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ دخول وقت سے پہلے تیمم جائز نہیں ہے۔- ہماری دلیل یہ قول باری ہے (اوجآء احدمنکم من الغائط اولا مستم النسآء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیداً طیباً ) ( ) پانی نہ ملنے کی صورت میں حدث لاحق ہونے پر تیمم کا حکم دیا اور وقت کے دخول سے قبل کی حالت اور دخول کے بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔- نیز فرمایا (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) ( ) ہم نے کتاب کی ابتدا میں اس پر دلیل قائم کردی تھی کہ آیت کے معنی ہیں ” جب تم قیام الی الصلوٰۃ کا ارادہ کرو اور تمہیں حدث لاحق ہو۔ “ پھر اس حکم پر تیمم کے حکم کو عطف کیا اور اس حالت میں اس کی اباحث کردی جس میں پانی ملنے کی شرط پر وضو کا حکم دیا تھا۔- نیز جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس) ( ) اور اس آیت کے سوا دوسری آیت میں نماز پر طہارت کی تقدیم کا حکم دیا اور طہارت دو صورتوں پر مشتمل تھی پانی کی صورت میں جبکہ اس کا وجود ہو اور مٹی کی صورت میں جبکہ پانی موجود نہ ہو، تو یہ چیز دخول وقت پر تیمم کو مقدم کرنے کے جواز کی مقتضی ہوگئی تاکہ تیمم کرنے والا اول وقت میں آیت کی شرط کے مطابق نماز ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء) ( ) اسی طرح حضرت ابوذر (رض) سے آپ کا یہ ارشاد (التراب کافیک ولوالیٰ عشر حجج) ( ) آپ نے اپنے اس ارشاد میں نماز کے وقت کے دخول سے قبل اور بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ تیمم کے جواز کو پانی کی عدم موجودگی کے ساتھ معلق کردیا۔ وقت کے ساتھ معلق نہیں کیا۔- اگر قول باری (اوجاء احد منکم من الغائط) ( ) سے ہمارے استدلال کی نسبت یہ کہا جائے کہ یہ قول باری اس قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) ( ) پر معطوف ہے اور اس میں ایک پوشیدہ لفظ بھی موجود ہے۔ اس لئے عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی۔ ” اذا قمتم الی الصلوٰۃ وجاء احد منکم من الغائط ( ) (جب تم نماز کے لئے اٹھو اور تم سے کوئی شخص رفع حاجت سے آیا ہو) اور ظاہر ہے یہ صورت دخول وقت کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) ( ) کے معنی ” اذا اردتم القیام وانتم ممدثون “ ( ) کے ہیں۔ یہ فقرہ حدث لاحق ہونے کی صورت میں ایجاب وضو کا مفہوم ادا کرنے میں خود مکتفی یعنی خود کفیل ہے پھر اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے والے کا کم ایک جملہ مستانفہ کے ذریعے بیان کیا۔- ارشاد ہوا (وان کنتم مرضیٰ اوعلیٰ سفر) ( ) تاقول باری (فتیمموا) ( ) یہ جملہ بھی خود کفیل ہے اور اپنے مفہوم کو خود ادا کررہا ہے اس کے ساتھ کسی اور جملے کو ملانے کی ضرورت نہیں ہے جس کلام کی یہ صورت ہو اس کے ساتھ کوئی اور فقرہ ملانا اور اس کی تضمین کرنا درحقیقت اس کلام کی تخصیص کرنے کے مترادف ہے اور یہ عمل دلالت کے بغیر درست نہیں ہوتا۔- اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ تیمم کی اباحت کے لئے رفع حاجت سے واپسی کی شرط کو اپنی جگہ برقرار رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ کسی اور فقرے یا حالت کی تضمین نہ کی جائے۔ نیز جس طرح نماز کے وقت کی آمد سے پہلے وضو کرلینا درست ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ تیمم کا بھی یہی حکم ہو اس لئے کہ اس کے ذریعے جو طہارت حاصل ہوئی ہے اس کے بعد نماز پڑھنے تک کوئی حدث لاحق نہیں ہوا۔- اگر یہ کہا جائے کہ استحاضہ والی عورت نماز کے وقت سے پہل کئے گئے وضو کے ذریعے نماز ادا نہیں کرسکتی تو اس کے جواب میں کہا جاء گا کہ یہ بات ہمارے نزدیک جائز ہے۔ اس لئے کہ اگر اس نے زوال سے پہلے وضو کرلیا ہو تو وہ اس وضو کے ساتھ ظہر کا وقت نکلنے تک نماز ادا کرسکتی ہے۔- لیکن اگر اس نے ظہر کے وقت کے اندر وضو کیا ہو تو اس سے عصر کی نماز نہیں پڑھ سکتی کیونکہ وضو کرنے کے بعد بھی سیلان خون موجود تھا اور وقت کی صورت میں اسے حدث کے باوجود نماز کی ادائیگی کی رخصت تھی جب وقت نکل جانے کے ساتھ رخصت بھی ختم ہوگئی تو آنے والے حدث کے لئے اس پر وضو واجب ہوگیا۔- ایک تیمم سے دو فرض نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں - ایک تیمم کے ساتھ دو فرض نمازوں کی ادائیگی کے جواز میں اختلاف رائے ہے۔ سفیان ثوری حسن بن صالح، لیث بن سعد کا مسلک یہ ہے کہ ایک دفعہ تیمم کرنے کے بعد جتنی نمازیں پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے یہاں تک کہ حدث لاحق ہوجائے یا پانی میسر آجائے۔ ابراہیم نخعی، حماد بن ابی سلمہ اور حسن بصری کا بھی یہی مسلک ہے۔- امام مالک کا قول ہے کہ ایک تیمم سے دو فرض نمازیں نہیں پڑھ سکتا۔ نیز نفل نماز کے تیمم سے فرض نماز نہیں پڑھ سکتا البتہ فرض پڑھنے کے بعد اسی تیمم سے نفل پڑھ سکتا ہے۔ شریک بن عبداللہ کا قول ہے کہ ہر نماز کے لئے تیمم کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر فرض نماز کے لئے تیمم کرے گا اور ایک تیمم سے فرض، نفل اور نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے۔- ہمارے قول کی صحت کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (التراب کافیک ولو الی عشر حجج فاذا وجدت انماء فامسسہ جلدک، ( ) ابو ذر مٹی تمہارے لئے کافی ہے خواہ دس سال کا عرصہ کیوں نہ گزر جائے پھر جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی جلد کے ساتھ مس کرو) نیز آپ نے فرمایا (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء۔ ( ) مسلمان کو جب تک پانی نہ ملے اس وقت تک مٹی اس کی طہارت کا ذریعہ ہے)- آپ نے مٹی کو طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور اسے نماز کی ادائیگی کے ساتھ موقت نہیں کیا آپ کا ارشاد (ولو الی عشر حجج) ( ) تاکید کے طور پر ہے اس سے حقیقت وقت مراد نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ان تستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم ( ) اگر آپ ان کے لئے ستر دفعہ بھی بخشش طلب کریں گے اللہ انہیں نہیں بخشے گا) یہاں مذکورہ عدد کا تعین اور اس کی تحدید مراد نہیں ہے بلکہ بخشش کی نفی کی تاکید مراد ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں حدث کا ذکر نہیں کیا حالانکہ وہ بھی تیمم کے لئے ناقص ہوتا ہے اس لئے نماز کی ادائیگی کی بھی یہی صورت ہونی چاہیے کہ تیمم کرکے نماز ادا کرنے کے بعد تیمم ختم ہوجائے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدث کی وجہ سے تیمم کا ختم ہوجانا اس حدیث کے سامعین کو معلوم تھا اس لئے اس کے ذکر کی ضرروت پیش نہیں آئی۔ آپ نے اپنے ارشاد میں اس چیز کا ذکر فرمایا جو لوگوں کو معلوم نہیں تھی اور پھر یہ فرماکر اسے اور موکد کردیا کہ پانی ملنے تک تیمم باقی رہتا ہے۔- نیز ابتدا میں تیمم کے ذریعے نماز کی اباحت کا سبب پانی کا دستیاب نہ ہونا تھا اب نماز پڑھنے کے بعد بھی پانی دستیاب نہیں ہے اس لئے اس کے تیمم کو بھی باقی رہنا چاہیے۔ چونکہ ہر صورت میں سبب ایک ہے اس لئے ابتدا اور بقا کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پانی کی عدم موجودگی ہی دونوں صورتوں میں سبب ہے۔- نیز جب موزوں پر مسح غسل یعنی پائوں دھونے کا بدل تھا جس طرح تیمم غسل اعضاء کا بدل ہے پھر سب کے نزدیک ایک مسح سے دو نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں تو پھر ایک تیمم سے دو نمازوں کی ادائیگی بھی جائز ہونی چاہیے۔ نیز تیمم کرنے والا جب نماز سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کا تیمم یا تو باقی ہوگا یہ ٹوٹ چکا ہوگا۔ اگر ٹوٹ چکا ہوگا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ پھر اس تیمم کے ساتھ نفل نماز بھی ادا نہ کرے اس لئے کہ طہارت کے لحاظ سے فرض اور نفل نمازوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر اس کا تیمم باقی ہوگا تو پھر اس کے ساتھ اگلی فرض نماز کی ادائیگی بھی جائز ہونی چاہیے۔- اگر یہ کہا جائے کہ فرض کی بہ نسبت نفل کا معاملہ ہلکا ہوتا ہے حتیٰ کہ نفل نماز سواری پر بھی جائز ہوتی ہے اور اگر بلا ضرورت قبلے کی طرف سے رخ پھر بھی جائے اس صورت میں بھی اس کا جواز ہوتا ہے لیکن فرض کی ادائیگی اس طرح جائز نہیں ہوتی ہاں ضرورت کے تحت اس کا جواز ہوجاتا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگرچہ اس جہت سے فرض اور نفل نمازوں میں فرق ہے لیکن اس بات کے اندر کوئی فرق نہیں ہے کہ ہر ایک کے لئے طہارت شرط ہے اس لئے جب اس تیمم کے ساتھ نفل نماز جائز ہے جس کے ساتھ فرض نماز ادا کی گئی ہو تو اس کے ساتھ دوسری فرض نماز بھی جائز ہونی چاہیے جہاں تک سواری پر سوار ہوکر یہ قبلہ کی طرف سے رخ ہٹاکر نفل کے جواز کا تعلق ہے تو ضرورت کے وقت فرض نماز بھی اسی طرح ادا کی جاسکتی ہے لیکن جہاں تک طہارت کا معاملہ ہے اس میں بنیادی طور پر فرض اور نفل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔- جو لوگ اس مسلک کے مخالف ہیں انہوں نے قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) ( ) تا قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) ( ) سے استدلال کیا ہے۔ یہ آیت ہر شخص کے لئے تجدید طہارت کی مقتضی ہے جو نماز کے لئے اٹھے، اس لئے عموم کی رو سے ہر نماز کے تیمم کی تجدید واجب ہوگئی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ قول باری (اذا قمتم) ( ) لغت کے لحاظ سے تکرار طہارت کی مقتضی نہیں ہے۔ ہم نے اس پر گزشتہ صفحات میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ قول باری پانی کے بار بار استعمال کا مقتضی نہیں ہے۔ اسی طرح تیممم کی صورت بھی ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں تیمم کو واجب کیا ہے جس میں اگر پانی موجود ہوتا تو اس کا استعمال واجب ہوتا۔ پھر تیمم کو پانی کا بدل قرار دیا اس لیے تیمم کا وجوب بھی اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح اصل یعنی پانی کے استعمال کا وجوب ہوا تھا۔- جہاں تک اس کے سوا اور دوسری حالت کا تعلق ہے تو آیت میں اس کے اندر تیمم کے ایجاب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر اس وقت پانی موجود ہوتا تو ایک نماز ادا کرنے کے بعد دوسری نماز کے لئے تجدید طہارت لازم ہوتی۔ اس لئے تیمم کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ دوسری نماز کے لئے اس کی تجدید لازم نہ ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ تیمم حدث کو رفع نہیں کرتا اس لئے اس کی حیثیت پانی جیسی نہیں ہوسکتی جس کے ذریعے حدث رفع ہوجاتا ہے جب تیمم کرنے کے باوجود حدث باقی رہتا ہے تو اس کی تجدید بھی واجب ہوگئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدث کا باقی رہنا تیمم کے تکرار کے ایجاب کی علت نہیں ہے اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو اس علت کی بنا پر ہمیشہ نماز میں داخل ہونے سے پہلے تیمم کا تکرار واجب ہوتا۔- لیکن جب یہ جائز ہے کہ حدث باقی رہنے کے باوجود تیمم کے ذریعے پہلی نماز کی ادائیگی درست ہوجاتی ہے تو دوسری نماز کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے اگر تیمم بعینہ اس حدث کی وجہ سے کیا گیا ہے جس کی خاطر تیمم کرنے والا اپنے اوپر تیمم واجب کرتا ہے اس پر یہ ایجاب ایک دفعہ واقع ہوچکا ہے اس لئے دوسری دفعہ اس کا واقع ہونا واجب نہیں ہوگا۔ نیز یہ علت موزوں پر مسح کی صورت میں ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ مسح کے باوجود پائوں میں حدث باقی رہتا ہے لیکن اس مسح کے ساتھ کئی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔- اسی طرح یہ علت اس صورت میں بھی مقتضی ہوجاتی ہے جس میں ہمارے مخالف فرض کی ادائیگی کے بعد اسی تیمم سے نفل کی ادائیگی کی بھی اجازت دے دیتے ہیں حالانکہ اس صورت میں حدث موجود ہوتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ تیمم کو استحاضے والی عورت کی طرح کیوں نہیں قرار دیتے کہ جب نماز کا وقت نکل جاتا ہے تو ایسی عورت کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ استحاضے والی عورت کو ملی ہوئی اس رخصت کے وقت کا تعین نماز کے وقت کے ساتھ کیا گیا ہے۔- جبکہ ہمیں کسی ایسے اہل علم کے متعلق معلوم نہیں کہ اس نے تیمم کے وقت کا تعین نماز کے وقت کے ساتھ کیا ہو اس لئے یہ قیاس فاسد ہے۔ علاوہ ازیں استحاضے والی عورت اور تیمم کرنے والے انسان کی صورت ایک جیسی نہیں ہے اس لئے کہ ایسی عورت کا وضو کرنے کے بعد بھی حدث باقی رہتا ہے اور اسے اس حدث کے ساتھ وقت کی صورت میں نماز کی رخصت ہوتی ہے اس لئے جب وقت نکل جائے گا تو رخصت بھی ختم ہوجائے گی اور وہ اس حدث کی بنا پر پھر وضو کرے گی جو اس کی طہارت کے بعد وجود میں آگیا۔ جبکہ تیمم کرنے والے کے لئے تیمم کے بعد حدوث کا وجود نہیں ہوتا اس لئے اس کی طہارت جاتی رہے گی۔- اگر متیمم دوران نماز پانی پالے تو کیا کرے - اگر تیمم کرنے والے کو دوران نماز پانی مل جائے تو اس صورت کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور زفر کا قول ہے کہ اس صورت میں د اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ وہ نماز توڑ کر وضو کرے گا اور پھر سے نماز شروع کرے گا۔- امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ نماز جاری رکھے گا اور اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے بھی اسے پانی مل جائے تو اس پر وضو لازم نہیں ہوگا اور تیمم کے ساتھ ہی نماز پڑھ لے گا لیکن یہ قول نہ صرف شاذ ہے بلکہ سنت اور اجماع کے بھی مخالف ہے۔ ہمارے قول کی صحت کی دلیل یہ ارشاد باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) ( ) تاقول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیداً ) ( ) - اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے غسل اعضا واجب کردیا جبکہ پانی موجود ہو اور پھر پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں اس وجوب کو مٹی کی طرف منتقل کردیا اس لئے جب پانی موجود ہوگا ظاہر آیت کی رو سے وہ اس کے استعمال کا مخالف بنے گا۔ علاوہ لفظ کی حقیقت قیام الی الصلوٰۃ کے بعد غسلاعضا کے وجوب کی مقتضی ہے۔ اس لئے نماز میں داخل ہوجانا پانی کے استعمال کے لزوم مانع نہیں بن سکتا۔- نیز اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پانی کی موجودگی میں غسل اعضاء کی فرضیت کا آیت میں دیا گیا حکم نماز میں داخل ہونے کے بعد بھی اس پر قائم رہتا ہے اس لئے کہ اگر نمازی حدث کی بنا پر اپنی نماز فاسد کرلیتا ہے تو اس پر آیت کی رو سے پانی کا استعمال لازم ہوجاتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز میں داخل ہونے کی بنا پر غسل اعضا کی فرضیت اس سے ساقط نہیں ہوئی۔- اسی طرح آیت کے حکم کا خطاب بھی اس کی طرف متوجہ رہا۔ اس لئے آیت کے حکم کی رو سے پانی کا استعمال اس پر واجب ہوگیا کیونکہ اس کے استعمال کی فرضیت اس پر باقی رہی۔ نیز قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) ( ) سے یا تو وہ حالت مراد ہے جس میں نماز کا اس طرح وجود ہو کہ اس کا ایک جز ادا ہوچکا ہو یا حدث کی حالت میں قیام الی الصلوٰۃ کا ارادہ مراد ہے۔- اگر اس سے نماز کے ایک جز کا وجود مراد ہے تو یہ بات پانی کے استعمال کے لزوم کی مقتضی ہے۔ جب ایک جز ادا کرنے کے بعد پانی کا وجود ہوجائے اس لئے کہ آیت کا اقتضا بھی یہی ہے۔ اگر دوسری صورت مراد ہو اور اس چیز کو پانی کے اسعتمال کے لزوم کی شرط قرار دی جائے تو یہ شرط وجود میں آگئی اس لئے پانی کا استعمال اس کے لئے ضروری ہوگیا۔ تیمم کرنے اور نماز میں داخل ہونے کی بنا پر یہ چیز اس سے ساقط نہیں ہوگی اس لئے کہ اس چیز کے ساتھ اس کے مکلف ہونے کا سبب موجود ہے۔ دراصل پانی کی عدم موجودگی اس کی فرضیت کو ساقط کو ساقط کرنے والی تھی اس لئے جب بھی پانی موجود ہوجائے گا تو اس کے استعمال کے لزوم کی شرط واپس آجائے گی اور اس کے ساتھ طہارت لازم ہوجائے گی۔- اس پر قول باری (لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکاریٰ حتیٰ تعلموا ماتقولون ولا جنباً الا عابری سبیل حتی تغتسلوا) ( ) بھی دلالت کرتا ہے اگر ایک شخص جنابت کی حالت میں ہو اور تیمم کرکے نماز شروع کرچکا ہو اور پھر اسے پانی میسر آجائے تو قول باری (لاتقربوا الصلوٰۃ) ( ) تا قول باری (حتیٰ تغتسلوا) ( ) کی رو سے اس پر اس کا استعمال لازم ہوجائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ خطاب کے تسلسل میں یہ قول باری بھی ہے (وان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر) ( ) تا قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) ( ) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں میں سے ہر ایک پر اس کی شرط کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ تیمم پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں واجب ہوگا اور غسل اعضا پانی کی موجودگی کی صورت میں واجب ہوگا۔- پانی کی موجودگی کی صورت میں غسل اعضا کا اسقاط جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ ظاہر آیت اس کی موجب ہے۔ آیت میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ پانی کی موجودگی نماز میں داخل ہونے سے قبل ہوئی تھی یا داخل ہونے کے بعد۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء) ( ) آپ نے مٹی کو پانی کی عدم موجودگی کی شرط پر طہور قرار دیا جب پانی کا وجود ہوجائے گا تو مٹی طہارت کا سبب بننے کے حکم سے خارج ہوجائے گی۔ خواہ پانی کا وجود دوران نماز ہو یا کسی اور حالت میں اس لحاظ سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔- جب پانی کو دیکھ کر اس کی طہارت باطل ہوجائے گی تو پھر اس کے لئے اپنی نماز جاری رکھنا جائز نہ ہوگا۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الماء طھور المسلم ( ) پانی مسلمان کی طہارت کا ذریعہ ہے) نیز فرمایا (اذا وجدت الماء فاسسہ جلدک ( ) جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی جلد کے ساتھ مس کرلو) بعض طرق میں ہے (والمسسک بشرتک ( ) اور اسے اپنے چہرے کے ساتھ مس کرلو) اس ارشاد کی دو وجوہ سے ہمارے قول پر دلالت ہورہی ہے۔- ایک وجہ تو وہ ہے جو ہم نے بیان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء) ( ) اس ارشاد کے ذریعے آپ نے اس حالت کی اطلاع دی جس میں مٹی طہارت کا ذریعہ بن جاتی ہے اور وہ پانی کی عدم موجودگی کی حالت ہے۔ آپ نے نماز میں داخل ہونے سے قبل کی حالت اور داخل ہونے کے بعد کی حالت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ جب آپ نے پانی کی عدم موجودگی کی حالت کے ساتھ مٹی کی طہارت کو خاص کردیا کسی اور حالت کے ساتھ نہیں۔ تو جب ایک شخص پانی کی موجودگی میں نماز پڑھتا چلا جائے گا وہ طہارت کے بغیر نماز ادا کرنے والا شمار ہوگا۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (فاذا وجدت الماء فامسسہ جلدک) ( ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں نماز میں داخل ہونے سے پہلے اور داخل ہونے کے بعد کی صورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اس لئے جب اسے پانی میسر آجائے تو دونوں حالتوں میں اس پر اس کا استعمال لازم ہوجائے گا۔ آپ کے ظاہر قول کا یہی تقاضا ہے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو اگر تیمم کرنے کے بعد نماز شروع کرنے سے پہلے پانی میسر آجائے تو اب وہ نماز شروع نہیں کرسکتا۔ جس طرح یہ چیز نماز کی ابتدا کرنے میں مانع ہے اسی طرح نماز جاری رکھنے میں بھی مانع ہوجائے گی۔ جس طرح حدث کا وجود نماز شروع کرنے میں مانع ہوتا ہے اور نماز جاری رکھنے میں بھی مانع ہوتا ہے اس لئے کہ نماز شروع کرنے اور اسے جاری رکھنے کے لئے طہارت شرط ہوتی ہے۔- نیز ایک شخص کا نماز کے اندر ہونا اس کے لئے طہارت کے لزوم سے مانع نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اگر نماز کے اندر اسے حدث لاحق ہوجائے تو اس پر طہارت لازم ہوجاتی ہے اسی طرح یہ صورت اس کے لئے ان تمام فرائض کے لزوم سے مانع نہیں ہوتی جو نماز کی شرطیں ہیں مثلاً برہنہ کے لئے کپڑوں کا وجود اور آزاد ہوجانے والی لونڈی کے لئے سر ڈھانپنے کا لزوم اور موزوں پر مسح کے وقت کا گزرجانا وغیرہ اس لئے یہ بھی واجب ہے کسی شخص کا نماز کے اندر ہونا پانی میسر آجانے پر اس کے لئے لزوم طہارت سے مانع نہ ہو۔- نیز جب پانی کی موجودگی میں تیمم کے ساتھ تحریمہ جائز نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ نماز کا ایک جز پانی کی موجودگی کے باوجود تیمم کے ذریعے ادا کرتا ہے اور یہ جائز نہیں۔ بعینہ یہی صورت نماز میں داخل ہونے کے بعد بھی موجود ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہوگیا کہ یہ صورت اس کے لئے نماز جاری رکھنے سے بھی مانع بن جائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ نماز کے اندر حدث لاحق ہونے کی صورت میں وضو کرلینے پر آپ کے نزدیک باقی ماندہ نماز کو جاری رکھنا جائز ہوتا ہے اور اسے نئے سرے سے تحریمہ باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔- تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ اگر اس نے حدث لاحق ہونے کے بعد طہارت سے پہلے نمازکا کوئی حصہ ادا کرلیا تو اس کی ساری نماز باطل ہوجائے گی ہم اسے صرف وضو کرلینے کی صورت میں باقی ماندہ نماز کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں جب کہ معترض اسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے سے پہلے ہی باقی ماندہ نماز جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ نماز کے اندر حدث لاحق ہونے کی صورت میں وضو کرلینے پر آپ کے نزدیک باقی ماندہ نماز کو جاری رکھنا جائز ہوتا ہے اور اسے نئے سرے سے تحریمہ باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔- تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ اگر اس نے حدث لاحق ہونے کے بعد طہارت سے پہلے نماز کا کوئی حصہ ادا کرلیا تو اس کی ساری نماز باطل ہوجائے گی ہم اسے صر وضو کرلینے کی صورت میں باقی ماندہ نماز کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں جب کہ معترض اسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے سے پہلے ہی باقی ماندہ نماز جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ تیمم کی صورت میں نماز شروع کرنے سے پہلے کی حالت اور نماز شروع کرنے کے بعد کی حالت میں اس وجہ سے اختلاف ہے کہ نماز شروع کرلینے کے بعد پانی کی تلاش کی فرضیت اس سے ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ نماز کے اندر ہونا تلاش کی فرضیت کے منافی ہوتا ہے لیکن نماز شروع کرنے سے پہلے پانی کی تلاش کی فرضیت اس پر پائم رہتی ہے اور اسی بنا پر نماز کی ابتدا کرنے سے پہلے پانی میسر آجانے پر اس کے لئے وضو کرنا لازم ہوجاتا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا غلط ہے کہ تیمم کرنے والے کے لئے نماز شروع کرنے سے پہلے پانی کی تلاش کی فرضیت قائم رہتی ہے۔ اس پر ہم سابق میں سیر حاصل بحث کر آئے ہیں اس کے باوجود اگر ہم ایسے تسلیم بھی کرلیں تو معترض کے اصل پر اس کا انتقاض لازم آتا ہے۔ وہ یہ کہ پانی کی تلاش کی فرضیت کا باقی رہنا معترض کے نزدیک نمازشروع کرنے کی صحت سے مانع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص تلاش کے باوجود پانی نہ ملنے پر تیمم کرلیتا ہے تو اس صورت میں یا تو پانی کی تلاش اس پر باقی رہتی ہے یا اس سے ساقط ہوجاتی ہے۔- اگر پہلی صورت ہو تو پھر ضروری ہے کہ اس کا نماز شروع کرلینا درست قرار نہ دیا جائے کیونکہ معترض کے مطابق تلاش کی فرضیت کا باقی رہنا نماز کی صحت کے لئے منافی ہوتا ہے اور معترض کے اصل پر یہ صورت تیمم کی صحت کی بھی منافی ہوتی ہے اگر دوسری صورت ہو تو پھر معترض کے اصول کے مطابق تیمم کرلینے کے بعد نماز شروع کرنے سے قبل پانی میسر آجانے کی صورت میں اس پر اس کے استعمال کا لزوم واجب نہ ہو۔- جس طرح ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے اس قول کی حکایت کی گئی ہے۔ جب معترض نے تیمم کرلینے کے بعد نماز شروع کرنے سے پہلے پانی میسر آجانے کی صورت میں اس پر پانی کا استعمال لازم کردیا حالانکہ پانی کی تلاش کی فرضیت اس سے ساقط ہوچکی تھی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پانی کی تلاش کی فرضیت کا سقوط پانی میسر آجانے کی صورت میں اس کے ترک استعمال کے جواز کی علت نہیں ہے۔- نیز سب لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر نابالغ لڑکی طلاق حاصل کرنے کے بعد ایک ماہ عدت گزارے اور پھر اسے حیض آجائے تو اس کی عدت حیض کی طرف منتقل ہوجائے گی اس لئے کہ مہینے حیض کا بدل ہوتے ہیں اور یہ صرف حیض نہ آنے کی صورت میں عدت کی مدت قرار دیئے جاتے ہیں جس طرح تیمم پانی کی عدم موجودگی میں طہارت قرار دیا جاتا ہے۔ جب تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ حیض آنے کی صورت میں یہی عدت کی مدت ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وجوب عدت سے پہلے اور وجوب عدت کے بعد حیض کی دونوں حالتیں یکساں ہوتی ہیں۔ تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ نماز شروع کرنے سے قبل اور شروع کرنے کے بعد پانی میسر آجانے کا حکم بھی اسی طرح یکساں ہوجائے۔- نیز جب تیمم کو پانی کا بدل قرار دیا گیا تو اب یہ جائز نہیں رہا کہ مبدل عنہ یعنی پانی کے میسر آجانے پر اس کا حکم باقی رہ جائے جس طرح بدل کی دوسری تمام صورتوں میں اصل موجود ہونے پر بدل کا حکم باقی نہیں رہتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حج تمتع کرنے والے کو اگر تین دن روزہ رکھنے کے بعد ہدی یعنی قربانی کا جانور مل جائے اور وہ احرام بھی کھول چکا ہو تو اصل موجود ہونے کے باوجود اس کے لئے باقی ماندہ سات دنوں کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تین روزے ہدی کا بدل ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے ذریعے وہ احرام کھول لیتا ہے، باقی ماندہ سات روزے ہدی کا بدل ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے ذریعے وہ احرام کھول لیتا ہے، باقی ماندہ سات روزے ہدی کا بدل نہیں ہوتے اس لئے کہ احرام کھولنے کا عمل ان سات روزوں سے پہلے ہی واقع ہوچکا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ نماز کی حالت طہارت کی حالت کی طرح نہیں ہوتی اس لئے اس پر پانی کا استعمال لازم نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر نماز کے دوران مسح کا وقت ختم ہوجانے پر اس کے لئے پیر دھونا لازم نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی استحاضے والی عورت پر نماز کے اندر خون بند ہوجانے کی صورت میں وضو لازم ہونا چاہیے۔ اسی طرح نماز کے اندر حدث لاحق ہونے کی صورت میں طہارت کا لزوم نہیں ہونا چاہیے۔- اگر یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے استدلال کریں (فلاینصرف حتی یسمع موتاً او یجدریحا ( ) نمازی اپنی نماز نہ چھوڑے جب تک وہ ہوا خارج ہونے کی آواز نہ سن لے یا اس کی بو محسوس نہ کرلے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد آپ کے کلام کی ابتدا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متصل فقرہ یہ ہے (اذا وجد احدکم حرکۃ فی دبرہ ( ) جب تم میں سے کوئی شخص اپنے مقصد میں کوئی حرکت محسوس کرے تو اپنی نماز نہ چھوڑے جب تک وہ ہوا خارج ہونے کی آواز نہ سن لے یا اس کی بو محسوس نہ کرے) ۔- اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (ان الشیطان یخیل الی احدکم انہ قد احدث فلا ینصرف حتی یسمع صوتا اویجد ریحا۔ ( ) شیطان ایک شخص کے دل میں یہ خیال پیدا کردیتا ہے کہ اسے حدث لاحق ہوگیا ہے ایسی صورت میں وہ اپنی نماز چھوڑے جب تک ہوا خارج ہونے کی آواز نہ سن لے یا س کی بو محسوس نہ کرلے) ۔- بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں (لاوضوء الامن صوت اور یح ( ) وضو صرف ہوا خارج ہونے کی آواز سن کر یا اس کی بو محسوس کرکے واجب ہوتا ہے) لیکن معترض کی بیان کردہ روایت (فلا ینصرف حتی یسمع صوتاً اویجد ریحا) ( ) کو کسی نے اس طرح روایت نہیں کی کہ آپ کے ارشاد کی ابتدا اس سے ہوئی ہے اسے اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس شخص کے متعلق ہے جسے حدث لاحق ہونے کے بارے میں شک ہو۔ اس لئے یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم اسے ان لوگوں پر چسپاں کردیں جنہیں حدث کے متعلق شک نہ لاحق ہوا ور اسے پانی میسر آگیا ہو۔- علاوہ ازیں آپ کا ارشاد (لا وضوء الامن صوت اور یح) اس کا ظاہر پانی میسر آنے پر وضو کے ایجاب کا مقتضی ہے اس لئے کہ وہ حدث جس کی بنا پر طہارت واجب ہوئی تھی وہ ابھی تیمم کی وجہ سے رفع نہیں ہوئی۔- اگر یہ پوچھا جائے کہ ایک شخص اگر تیمم کرکے جنازے یا عید کی نماز میں شامل ہوگیا ہو اور پھر اسے پانی میسر آجائے تو اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا تیمم ٹوٹ جائے گا اور نماز جاری رکھنا جائز نہیں ہوگا اور پانی کا استعمال ممکن ہونے پر اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اس لحاظ سے ان دونوں نمازوں اور فرض نمازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔- معترض نے استدلال کے طور پر جو روایت بیان کی ہے اس کا ایک اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مجمل ہے اس کے ذریعے ایجاب درست نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس دنیا کی ہر آواز یا بو مراد نہیں لی ہے بلکہ اس سے ایسی آواز اور بو مراد لی ہے جس کی خاص صفت ہے لیکن نفس لفظ سے معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کیا ہے۔- اس لئے اسے کسی دلالت پر موقوف رکھنا ضروری ہے اگر مخالفین اس سے عموم مراد لیں تو اس کی دلالت ہمارے حق میں ہوگی اس لئے کہ کہ جب نمازی پانی کی آواز سنے گا تو ظاہر روایت کی رو سے اس پر وضو واجب ہوجائے گا اس لئے کہ روایت میں مختلف آوازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔- فصل - قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) ( ) تاآخر آیت سے نبیذ تم (کھجور س نچوڑا ہوا مشروب) کے ساتھ وضو کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔ اس استدلال کی دو وجوہ ہیں۔ اول یہ قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) ( ) اس میں تمام مائعات یعنی بہنے والی چیزوں کے لئے عموم ہے اس لئے ان مانعات سے اعضائے وضو دھونے والا غاسل کہلاتا ہے۔- البتہ ان سے وہ مانعات خارج ہیں جن کے متعلق دلالت قائم ہوچکی ہو۔ نبیذ تم ان میں سے ایک ہے جنہیں آیت کا عموم شامل ہے دوم قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) ( ) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں تیمم کی اباحت کی ہے جب پانی کا کوئی جز بھی دستیاب نہ ہو اور پانی نام کی کوئی شے بھی نہ ملتی ہو۔ اس لئے کہ آیت میں لفظ ’ ماء ‘ ( ) کی صورت میں وارد ہورہا ہے۔ جو پانی کے ہرجز کو شامل ہے۔ خواہ وہ کسی اور چیز کے ساتھ ملاہوا ہو یا خالص شکل میں ہو۔- نبیذ تم کو پانی کہنے میں کسی کو امتناع نہیں ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو پھر ظاہر آیت کی رو سے نبیذ تمر کی موجودگی میں د تیمم جائز نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیمم کی آیت کے نزول سے پہلے مکہ مکرمہ میں اس کے ساتھ وضو فرمایا تھا۔ اس آیت کے نزول سے پہلے پانی کے ساتھ وضو کرنے کا حکم کسی بدل کی طرف منتقل نہیں ہوا تھا۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبیذ تمر میں پانی کا حکم باقی رہا۔ پانی کے بدل کے طور پر ہیں۔ اس لئے کہ آپ نے اس وقت اس کے ساتھ وضو فرمایا تھا جب طہارت صرف پانی تک محدود تھی۔ اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے اس مسئلے پر اپنی کتابوں کے اندر کئی مواقع پر بحث کی ہے۔- یحییٰ بن کثیر نے عکرمہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ اس نبیذ سے جس میں نشہ کی کیفیت نہ پیدا ہوئی ہو اس شخص کے لئے وضو ہے جسے پانی نہ ملے۔ عکرمہ کا قول ہے ” نبیذ وضو ہے جب ہمیں اس کے سوا وضو کرنے کے لئے کچھ اور نہ ملے، “ ابو جعفر الرازی نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ساتھ سمندری سفر کیا تھا ان حضرات کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا تو انہوں نے نبیذ سے وضو کرلیا اور سمندر کے نمکین پانی کو استعمال کرنا پسند نہیں کیا۔ “- المبارک بن فضالہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ نبیذ سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں خیال کرتے تھے۔ ان صحابہ کرام اور تابعین عظام سے نبیذ کے ساتھ وضو کا جواز مروی ہے اور دوسرے حضرات سے ان حضرات کے اس مسلک کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ نبیذ تمر کے ساتھ وضو کرنے کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ سے تین روایات منقول ہیں :- پہلی روایت جو مشہور ہے اس کے مطابق نبیذ سے وضو کرلیا جائے گا اور تیمم نہیں کیا جائے گا۔ زفر کا بھی یہی قول ہے دوسری روایت کے مطابق اس کے ساتھ وضو بھی کیا جائے گا اور اس کے ساتھ تیمم کرلیا جائے گا۔ امام محمد کا یہی قول ہے نوح کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ نے نبیذ کے ساتھ وضو کرنے کے قول سے رجوع کرلیا تھا اور فرمایا تھا کہ ایسی صورت میں وضو کرنے کی بجائے تیمم کیا جائے گا۔- امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو یوسف اور امام شافعی کا قول ہے کہ نبیذ کے ساتھ وضو نہیں کیا جائے گا بلکہ تیمم کرلیا جائے گا۔ حسن بن زیاد نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے کہ نبیذ کے ساتھ وضو کرلیاجائے گا اور تیمم نہیں کیا جائے گا۔ المعلی نے بھی ان سے یہی روایت کی ہے۔ حمید بن عبدالرحمن الرداس کا۔ جو حسن بن صالح کے رفیق تھے، قول ہے کہ پانی کی موجودگی میں اگر کوئی شخص چاہے تو نبیذ تمر کے ساتھ وضو کرسکتا ہے۔- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت امامہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نبیذ تمر کے ساتھ وضو کی روایت کی ہے۔ حضرت عبداللہ (رض) سے یہ روایت کئی طرق سے ہوئی ہے جن کا ہم نے کئی موقعوں پر ذکر کیا ہے۔- تیمم کی کیفیت کا بیان - قول باری ہے (فتیمموا صعیداً طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ ( ) پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس سے اپنے چہروں اور بازوئوں کا مسح کرو) تیمم کی کیفیت کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ تیمم دوضب کا نام ہے۔ ایک ضرب چہرے کے لئے اور ایک ضرب کہنیوں تک دونوں بازوئوں کے لئے۔ مٹی پر ایک دفعہ دونوں ہاتھ مارے گا اور ہتھیلیوں کو مٹی پر آگے پیچھے حرکت دے گا پھر دونوں ہاتھ جھاڑ کر ان کے ساتھ اپنے چہرے کا مسح کرے گا۔ پھر اپنے دونوں کف دست دوبارہ مٹی پر مارے گا اور انہیں آگے پیچھے لے جائے گا پھر انہیں مٹی سے ہٹاکر جھاڑے گا۔ اور کف دست سے دوہرے بازو کے ظاہر و باطن کعا کہنی تک مسح کرے گا۔- امام مالک ، سفیان ثوری، لیث اور امام شافعی ہمارے ساتھ اس پر متفق ہیں کہ تیمم میں ووضب ہوتے ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب بازوئوں کے لئے۔ حضرت جابر (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت ہے۔ امام مالک کے بعض اصحاب نے ان سے یہ روایت کی ہے کہ اگر صرف ایک ضرب کے ذریعے کوئی تیمم کرلیتا ہے تو اس کا تیمم جائز ہوجائے گا۔- امام مالک سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ تیمم کرنے والا کہنیوں تک تیمم کرے گا۔ اگر اس کے کو ع یعنی انگوٹھے کی طرف بند دست کے کناروں تک تیمم کرلیا تو تیمم نہیں لوٹائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ چہرے اور دونوں بند دست کے لئے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ عضاء سے بھی اسی طرح کی روایت ہے زہری کا قول ہے کہ دونوں بازوئوں کا بغلوں تک مسح کرے گا۔- ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ تیمم کے لئے دو دفعہ ہاتھ مارے گا ہر دفعہ ہاتھ مارکر اپنے چہرے سے بازوئوں اور کہنیوں کا مسح کرے گا۔ ابو جعفر طحاوی کا کہنا ہے ہمیں ان دونوں حضرت کے سوا اور کسی کا قول نہیں ملا جس کی رو سے ہر ضرب کے ساتھ چہرے، دونوں بازوئوں اور کہنیوں کا مسح کیا جائے گا۔ “- ہمارے اصحاب کے قول کی دلیل وہ احادیث ہیں جنہیں حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) اور الاسع نے تیمم کی صفت اور کیفیت کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہیں کہ تیمم دو ضرب یعنی دو دفعہ ہاتھ مارنے کا نام ہے ایک ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب کہنیوں تک ابزیٰ نے حضرت عمار (رض) کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ چہرے اور بازوئوں کے لئے ایک ہی ضرب ہے۔- عبید اللہ بن عبد اللہ نے حضرت ابن عباس (رض) ، انہوں نے عمار (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو ضرب کی روایت کی ہے۔ یہ روایت اولیٰ ہے اس لئے کہ اس میں ایک زائد بات منقول ہے اور زائد بات پر مشتمل روایت اولیٰ ہوتی ہے۔ نیز جس طرح وضو میں دونوں اعضاء کو دھونے کے لئے ایک ہی پانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ہر عضو کے لئے نئے سرے سے پانی لینا ضروری ہوتا ہے اسی طرح تیمم کا بھی حکم ہے اس لئے کہ وضو اور تیمم دونوں طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ ایک میں طہارت مسح کی صورت میں ہوتی ہے اور دوسرے میں اعضاء دھونے کی صورت میں۔- آپ نہیں دیکھتے کہ موزوں پر مسح کرنے کے لئے ہر پائوں کے لئے نئے سرے سے پانی لینے کی ضرورت ہوتی ہے اگرچہ یہ دھونے کی صورت نہیں ہوتی ہے۔ ہم نے کہنیوں تک تیمم کی بات کی ہے۔ اس کی وجہ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ اسی طرح الاسع (رض) کی روایت ہے۔ ان دونوں حضرات نے ان روایتوں میں یہ بتایا ہے کہ تیمم کہنیوں تک ہوتا ہے۔- البتہ تیمم کی کیفیت کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عمار (رض) کی روایتوں میں اختلاف ہے شعبی نے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمار (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اوفوا التیمم الی المرفقین ( ) کہنیوں تک تیمم پورا کرو)- شعبی کے علاوہ دوسرے حضرات نے سعید بن عبدالرحمن سے۔ انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عمار (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھے چہرہ اور دونوں کف دست کے لئے ایک دخوز میں پر ہاتھ مارنے کے لئے کہا۔- شعبہ نے سلمیٰ بن کہیل سے، انہوں نے زربن حبیش سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عمار سے اس کی روایت کی ہے کہ انہوں نے دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر ان پر پھونک ماری اور پھر ان کے ذریعے اپنے چہرے اور کہنیوں تک اپنے کف دست یعنی بازوئوں کا مسح کرلیا۔- سلمہ نے ابو مالک سے ، انہوں نے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمار (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمار (رض) جنابت سے تیمم کے لئیح مٹی میں لوٹ پوٹ گئے، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا (انما یکفیک ان تقول ھکذا ( ) تمہارے لئے اس طرح کرلینا کافی تھا) یہ فرماکر آپ نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا پھر ان پر پھونک ماری پھر ان کے ذریعے اپنے چہرہ مبارک اور نصف بازوئوں تک دونوں ہاتھوں کا مسح کرلیا۔- زہری نے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت عمار (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ جب یہ اپنے دوسرے رفقاء کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھے تو ان حضرات نے مٹی پر چہرے کے مسح کے لئے ایک ضرب لگائی تھی اور کندھوں اور بغلوں تک بازوئوں کے مسح کے لئے دوسری ضرب لگائی تھی۔ حضرت عمار (رض) سے مروی روایات میں یہ اختلاف ہے اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ کندھوں اور بغلوں تک مسح کا حکم ثابت نہیں ہے۔- علاوہ ازیں حضرت عمار (رض) نے اس کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی فعل کو بیان کیا ہے تو اس سے کندھوں تک تیمم ثابت نہیں ہوا تاہم اس کے لئے احتمال کے طور پر ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ شائد حضرت عمار (رض) نے اس معاملے میں حضرت ابوہریرہ (رض) کا مسلک اختیار کیا ہو جو وضو میں بازوئوں کو بغلوں تک دھونے کے قائل تھے۔ ان کا یہ عمل مبالغے کے طور پر تھا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد تھا (انکم الغرمحجلون من اثارالوضو فمن ارادان یطبیل غرتہ فلیفعل۔ ( ) وضو کے اثر سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پائوں چمک رہے ہوں گے اس لئے جو شخص اپنی پیشانی کی چمک طویل کرنا چاہیے اسے ایسا کرلینا چاہیے) ۔- یہ سن کر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا تھا ” میں اپنی پیشانی کی چمک کو طویل کرنا پسند کرتا ہوں۔ “ اس روایت کے علاوہ حضرت عمار (رض) کی وہ روایتیں باقی رہ گئیں۔ جن کی نسبت انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی تھی۔ ان میں چہرے دونوں کف دست اور کہنیوں تک نصف بازو کا ذکر ہے۔- اس لئے جن لوگوں نے حضرت عمار (رض) سے کہنیوں تک کی روایت کی ہے ان کی روایت دوسروں کے مقابلہ میں اولیٰ ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ دوسروں کی روایات کے مقابلہ میں زائد ہے اور زائد امر پر مشتمل روایت اولیٰ ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت کندھوں تک دونوں بازوئوں کی مقتضی ہے اس لئے کہ یہ دونوں اس اسم کے تحت آتے ہیں۔ اس بنا پر دلیل کے بغیہ اس میں سے کوئی حصہ خارج نہیں ہوگا۔ کہنیوں سے اوپر والے حصوں کے خارج ہونے پر دلیل قائم ہوچکی ہے۔ اس لئے تیمم کا حکم کہنیوں تک باقی رہ گیا۔- تیسری وجہ یہ ہے کہ ابن عمر (رض) اور الاسلع (رض) کی حدیث میں کہنیوں تک تیمم کا ذکر ہے اور ان دونوں حضرات سے اس روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ زہری کا یہ قول کہ بغلوں تک دونوں ہاتھوں کا مسح کرے گا ایک شاذ قول ہے۔ علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے اس کی روایت نہیں کی ہے۔- ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کا یہ قول کہ ہر ضرب کے ساتھ چہرے اور دونوں بازوئوں کا مسح کرے گا تو ان تمام روایات کے مخالف ہے جو تیمم کی کیفیت کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں۔ اس لئے کہ بعض روایات میں دو ضرب منقول ہیں ایک چہرے کے لئے اور دوسری کہنیوں تک بازوئوں کے لئے۔ اس میں چہرے کے لئے ضرب کو دونودں بازوئودں اور دونوں بازوئوں کے لئے ضرب کو چہرے کے لئیح ضرب قرار نہیں دیا گیا۔- بعض روایات میں ہے کہ چہرے اور بازوئوں کے لئے ایک ہی ضرب ہے۔ اس لئے ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح دونوں کا قول ان دونوں قسم کی روایتوں کے حکم سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں یہ خلاف اصول بھی ہے۔ اس لئے کہ تیمم مسح ہے۔ اس لئے موزوں پر نیز سر پر مسح کی طرح اس مسح کی تکرار بھی مسنون نہیں۔ اگر تکرار مسنون ہوتی تو دھوئے جانے والے اعضاء کی طرح تین دفعہ مسنون ہوتی۔- ہمارے اصحاب نے تیمم کی کیفیت کے متعلق یہ کہا ہے کہ مسح کرنے والا اپنے دونوں ہاتھ مٹی پر رکھ کر آگے پیچھے لے جائے گا تاکہ مٹی انگلیوں کے درمیان داخل ہوجائے اور پوری طرح دونوں کف دست کو لگ جائے۔ ہمارے اصحاب نے دونوں کف دست کو جھاڑ دینے کا بھی قول کیا ہے اس کی وجہ اعمش کی وہ روایت ہے جو انہوں نے سفیان سے، انہوں نے ابو موسیٰ سے کی کہ حضرت عمار (رض) نے تیمم کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا (انما یکفیک ان تصنع ھکذا۔ ( ) تمہارے لئے اس طرح کرنا کافی تھا۔- پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مار کر دکھایا تھا۔ عبدالرحمن بن ابزیٰ کی روایت میں جو انہوں نے حضرت عمار (رض) سے کی تھی مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین پر اپنا ہاتھ مارا تھا اور دونوں کف دست پر پھونک ماری تھی۔ الاسلع کی روایت میں ہے کہ آپ نے ہر دفعہ اپنے ہاتھ جھاڑ دیئے تھے۔ آپ کا دونوں کف دست پر پھونک مارنا اور ہاتھ جھاڑ دینا اپنے دست مبارک سے مٹی دور کرنے کے لئے تھا۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ تیمم میں یہ مقصد نہیں ہوتا کہ چہرے تک مٹی پہنچائی جائے یا چہرے پر مٹی لگ جائے۔ اس لئے کہ اگر عضو پر مٹی لگ جانا مقصود ہوتا تو آپ اپنے ہاتھ نہ جھاڑتے۔ تیمم کن چیزوں کے ساتھ کیا جائے - قول باری ہے (فتیمموا صعیداً طیباً ۔ ( ) پاک مٹی سے تیمم کرو) جن چیزوں کے ساتھ تیمم جائز ہے ان کے متعلق فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ہر اس چیز کے ساتھ تیمم جائز ہے جو زمین کی جنس میں سے ہو یعنی مٹی، ریت، پتھر، ہڑتال، چونے کا پتھر، سرخ مٹی، اور سنگ مردہ (ایک مرتب کا نام جو ٹین یعنی رانگا اور سیسہ سے مل کر بنتا ہے۔ نیز ان کے مشابہ اور چیزیں۔- یہی امام محمد اور زفر کا قول ہے۔ اسی طرح سرمہ اور پکی اینٹ جسے کوٹ دیا گیا ہو، کے ساتھ بھی ان دونوں حضرات کے قول کے مطابق تیمم جائز ہے۔ امام محمد نے اس کی روایت کی ہے حسن بن زیادنے بھی امام ابوحنیفہ سے اس کی روایت کی ہے۔ اگر کسی نے بورق (بورہ ارمنی، ایک قسم کا نمک) یا راکھ یا نمک وغیرہ کے ساتھ تیمم کرلیا تو ان سب کے نزدیک یہ تیمم جائز نہیں ہوگا۔ سونا اور چاندی کا بھی ان حضرات کے نزدیک یہی حکم ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ تیمم صرف مٹی یا ریت کے ساتھ جائز ہے۔ اگر کسی نے چٹان یا دیوار پر ہاتھ مارا اور تیمم کرلیا تو تیمم جائز ہوجائے گا خواہ ان پر مٹی نہ بھی ہو۔ یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ امام ابو یوسف کے قول کے مطابق اس صورت میں تیمم جائز نہیں ہوگا۔- المعلی نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر کسی نے ایسی زمین پر ہاتھ مارا جس ر مٹی نہ ہو تو اس کے ساتھ اس کا تیمم جائز نہیں ہوگا ایسی زمین کی حیثیت دیوار کی طرح ہوگی۔ یہ امام ابو یوسف کا دوسرا قول ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ ہڑتال اور چونا اور ان جیسی چیزوں نیز ہر اس چیز کے ساتھ تیمم جائز ہے جو زمین کی مٹی کی جنس میں سے ہو۔ اینٹ پر تیمم نہیں ہوگا۔- امام مالک کا قول ہے کہ سنگریزوں اور پہاڑ کے ساتھ تیمم جائز ہے۔ ہڑتال اور چونے وغیرہ کے بارے میں بھی امام مالک کے اصحاب نے ان سے جواز کی روایت نقل کی ہے۔ امام مالک کا یہ بھی قول ہے کہ اگر کسی نے برف پر تیمم کیا جبکہ برف زمین کے ساتھ نہ لگی ہو تو بھی تیمم جائز ہوگا۔ اسی طرح خشک گھاس پر بشرطیکہ پھیلی ہوئی ہو تیمم جائز ہے۔ اشہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ برف کے ساتھ تیمم نہیں ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مٹی کے ساتھ جو اس کے ہاتھ سے لگ جائے تیمم کرے گا۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فتیمموا صعیداً طیباً ) ( ) اور سعید زمین کا نام ہے تو آیت ہر اس چیز کے ساتھ تیمم کے جواز کی مقتضی ہوگئی جو زمین کی جنس میں سے ہو۔ م ہیں ثعلب کے غلام ابو عمرو نے ثعلب سے اور انہوں نے ابن الاعرابی سے خبر دی ہے کہ صعید زمین، مٹی، قبر اور راستے کو کہتے ہیں۔ اس لئے ہر وہ چیز صعید ہے جو زمین کی جنس میں سے ہو۔ اور ظاہر آیت کے رو سے اس کے ساتھ تیمم جائز ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ” صعید طیب “ کے ساتھ تیمم کی اباحت کی ہے اور ارض طیب وہ زمین ہے جہاں کوئی چیز اگتی ہو، گچ اور ہڑتال وغیرہ میں کوئی چیز اگ نہیں سکتی۔ اس لئے یہ چیزیں طیب یعنی پاک نہیں کہلا سکتیں۔- قول باری ہے (والبلدا لطیب یخرج نباتہ باذن ربہ۔ ( ) اور ستھری سرزمین میں اس کے رب کے حکم سے نباتات خوب اگتے ہیں) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طیب سے مراد طاہر اور مباح ہے جس طرح یہ قول باری ہے (کلوا من طیبات مارزقناکم ( ) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں)- اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت کے ذریعے پاک مٹی کے ساتھ تیمم واجب کردیا۔ ناپاک مٹی کے ساتھ نہیں قول باری (والبلد الطیب) ( ) میں وہ زمین مراد ہے جو کلراٹھی اور شور شدہ نہ ہو۔ اس لئے کہ آگے ارشاد ہوا (والذی خبث لایخرج الانکداً ( ) اور جو زمین بری ہوتی ہے وہ پیداوار دیتی ہے لیکن بہت کم، اس کلراٹھی زمین کے ساتھ تیمم کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے جہاں اتنی پیداوار نہیں جتنی دوسری زمینوں میں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ طیب سے مراد وہ معنی نہیں جس کا معترض نے ذکر کیا ہے۔- ابو طبیان نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ صعید بنجر کو کہتے ہیں یا یوں فرمایا کہ صعید بنجر زمین کو کہتے ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں : ” میں نے عطاء سے قول باری (فتیمموا صعیداً طیباً ) ( ) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : ” تمہارے ارد گرد سب سے پاکیزہ جگہ۔ “ - اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (جعلت لی الارض مسجدا وطھورا میرے لئے پوری روئے زمین سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔ آپ کا یہ ارشاد دو وجوہ سے ہماری ذکر کردہ بات پر دلالت کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے بتادیا کہ زمین طہور یعنی پاک اور پاک کردینے والی ہے اس لئے اس روایت کے مقتضیٰ کے بموجب ہر وہ چیز پاک کرنے والی ہوگی جو زمین کی جنس میں سے ہو۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے جن حصوں کو مسجد یعنی سجدہ گاہ قرار دیا ہے ان کو ہی طہور یعنی طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بنادیا ہے۔ اوپر جن چیزوں کا ذکر ہوا یعنی مٹی، چونا، ریت وغیرہ وہ سب زمین کی جنس میں سے ہیں اور زمین مسجد یعنی سجدہ گاہ ہے اس لئے آیت کے عموم کے رو سے ان چیزوں کے ساتھ تیمم جائز ہوگا۔- عمرو بن دینار نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ بدو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول، ہم لوگ ان ریگزاروں میں ہوتے ہیں، ہمیں تین تین چار چار مہینوں تک پانی نہیں ملتا ہمارے ساتھ حیض و نفاس والی عورتیں بھی ہوتی ہیں اور جنابت والے بھی ہوتے ہیں، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا (علیکم بارضکم تم اپنی زمین سے کام لو)- آپ نے اس ارشاد کے ذریعے ہر اس چیز کے ساتھ تیمم کے جواز کی خبر دی جو زمین کی جنس میں سے ہو ہم نے آیت اور اس حدیث کے عموم کی بنا پر پتھر اور دیوار کے ساتھ تیمم کو جائز قرار دیا ہے اس لئے کہ وہ بھی زمین کی جنس میں سے ہے۔ زمین مختلف انواع کی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے، انواع کا یہ اختلاف ان چیزوں کو صعید کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔- قول باری ہے (فتصبح سعید ازلقا۔ پھر یہ ہوجائے گی چکنی سپاٹ) یعنی ایسی چکنی سپاٹ زمین جس پر کوئی چیز نہ ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یحشوالناس عراۃ حفاۃ فی سعید واحد لوگو کو برہنہ اور سر پائوں سے ننگے ایک سپاٹ زمین پر اٹھایا جائے گا) یعنی ایسی ہموار اور سپاٹ زمین جس پر کوئی چیز نہیں ہوگی۔- جس یہ قول باری ہے۔۔۔۔۔۔- پھر زمین کو چٹیل میدان چھوڑے رکھے گا کہ اس میں نہ تو کوئی ناہمواری دیکھے گا اور نہ کوئی بلندی) اس لئے اس زمین میں جس پر مٹی ہو اور جس پر مٹی نہ ہو تیمم کے جواز میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ان پر علی الاطلاق ارض کا نام واقع ہوتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ پکی اینٹ اگرچہ زمین کی جنس میں سے ہوتی ہے لیکن بھٹے میں پک جانے کی وجہ سے وہ زمین کی طبع اور اس کی جنس سے منتقل ہوجاتی اور اس میں مٹی کی خاصیت بدل جاتی ہے۔ وہ اس پانی کی طرح ہوجاتی ہے جس میں خوشبو یات اور رنگوں کی آمیزش ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ کوئی اور جنس بن جاتا ہے اس پر پانی کے لفظ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا یا جس طرح شیشہ ہوتا ہے، اس لئے پکی اینٹ کے ساتھ تیمم جائز نہیں ہونا چاہیے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جس پانی کا حوالہ دیا ہے اس کے ساتھ تیمم صرف اس لئے جائز نہیں ہوتا کہ اس پر دوسری چیزیں اس قدر غالب آ جاتی ہیں کہ وہ پانی نہیں رہتا اور اس سے یہ نام زائل ہوجاتا ہے لیکن پکی اینٹ کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو اس پر غالب آ کر اسے زمین کی حد اور اس کی جنس سے خارج کردیتی ہو اس میں صرف بھٹے میں جلائے جانے کی وجہ سے سختی پیدا ہوجاتی ہے جس کی بنا پر وہ پتھر کی طرح سخت ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ تیمم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔- حضرت ابن عمر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیوار پر ہاتھ مار کر تیمم کرلیا تھا یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو مٹی پر رکھتے وقت انہیں جھاڑ لیا تھا نیز یہ بھی کہ آپ نے ہاتھوں پر پھونک ماری تھی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ تیمم میں اس چیز پر ہاتھ رکھنا مقصود ہوتا ہے جو زمین کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس چیز کا کچھ حصہ چہرے اور بازوئوں کو بھی ضرور لگ جائے۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ ہاتھ میں مٹی اٹھا کر اور چہرے پر مل دینے کا حکم دیتے جس طرح وضو کے اندر پانی میں پانی لے کر چہرے اور بازوئوں وغیرہ کو دھونے کا حکم ہے تاکہ پانی چہرے پر پہنچ جائے۔- جب آپ نے ہاتھ میں مٹی لینے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ نے اپنے ہاتھ جھاڑ دیئے اور ان پر پھونک بھی ماری تو ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تیمم میں چہرے اور بازوئوں پر مٹی لگانا مقصود نہیں ہوتا۔- اگر کہا جائے کہ قول باری (فتیموا صعیدا طیبا فامسحوابوجوھکم وایدیکم منہ) اس امر کا مقتضٰی ہے کہ جس چیز کے ساتھ تیمم کیا جائے اس کا کچھ حصہ تیمم والے اعضاء کو بھی لگ جانا چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت سے نیت کے وجوب کی تاکید کا مفہوم معلوم ہوا ہے اس لئے کہ حرف من کبھی غایت کی ابتدا کے مفہوم کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے جس طرح آپ کہیں خرجت من الکوفۃ یا ھذا کتاب من فلان الی فلان (میں کوفہ سے نکلا یا یہ فلاں کی طرف سے فلاں کے نام خط ہے)- اس بنا پر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ پاک مٹی کو لینے کی ابتدا زمین سے ہونی چاہیے یہاں تک کہ وہ چہرے اور بازوئوں تک پہنچ جائے اور اس دوران کوئی ایسی بات نہ ہو جو مٹی لینے اور مسح کرنے کے درمیان وقفہ ڈال دے اور اس طرح نیت کا حکم منقطع ہوجائے تو اس کی تجدید کی ضرورت پڑجائے۔- اس کی مثال اس قول کی طرح ہے ” توضأت من النھر (میں نے دریا سے وضو کیا) یعنی پانی لینے کی ابتدا دریا سے کی اور بلا کسی فصل کے وہ پانی اعضائے وضو تک پہنچ گیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی برتن میں دریا سے پانی لے کر وضو کرے تو اس وقت اس کا یہ فقرہ درست نہیں ہوگا کہ اس نے دریا سے وضو کیا ہے۔- قول باری (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) میں یہ بھی احتمال ہے کہ حرف من تبعیض کے معنی ادا کر رہا ہو یعنی مٹی کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ مٹی کے جس بعض حصے سے بھی تم اپنے چہرے اور بازوئوں کا مسح کرو گے درست ہوگا، اس طرح یہ حکم اطلاق اور توسع پر مبنی ہوگا۔ رہ گیا سونا، چاندی اور موتی اور اس جیسی چیزیں تو ان کے ساتھ تیمم جائز نہیں اس لئے کہ یہ چیزیں زمین کی جنس میں سے نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ زمین کے اندر دبے ہوئے خزانے ہوتے ہیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب رکاز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (ھولا ذھب و الفضۃ للذان خلقھما اللہ تعالیٰ فی الارض یوم خلقت۔ رکاز سونا اور چاندی کو کہتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین کی پیدائش کے دن سے اس کے اندر پیدا کردیا تھا) موتی صدف سے نکلتا ہے اور صدف یعنی سیپ پانی کا جانور ہے۔- راکھ لکڑی وغیرہ سے بنتی ہے اس لئے یہ چیزیں زمین کی جنس میں سے نہیں ہوتیں اور نہ ہی زمین کے جوہر سے ان کا تعلق ہوتا ہے۔ برف اور خشک گھاس آٹے اور دانوں یعنی غذائی اجناس کی طرح ہیں اس لئے ان کے ساتھ تیمم جائز نہیں کیونکہ یہ زمین کی جنس میں سے نہیں اور انہیں صعید کا نام نہیں دیا جاتا۔ جو چیز کسی اور چیز سے بدل کے طور پر مقرر کی گئی ہو اسے شریعت کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر کسی تیسری چیز سے بدل لینا جائز نہیں ہوتا۔- اللہ تعالیٰ نے جب صعید کو پانی کا بدل بنادیا تو اب ہمارے لئے شریعت کی طرف سے رہنمائی اور ہدایت کے بغیر اسے کسی اور چیز سے بدل لینا جائز نہیں ہوگا۔ اگر برف اور خشک گھاس پر تیمم کی خاطر ہاتھ مارنا درست ہوتا تو اس کپڑے پر بھی درست ہوتا جس پر کوئی گردو غبار نہ ہو اور پھر اس کے ساتھ تیمم کرلینا جائز ہوتا۔ اس طرح روئی اور دانوں یعنی غذائی اجناس پر ہاتھ مار کر تیمم کرلینا درست ہوتا۔ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (جعلت فی الارض مسجدا وطھورا) ۔- نیز فرمایا (وتوابھالنا طھور اس کی مٹی ہمارے لئے طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنادی گئی ہے) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر برف اور خشک گھاس زمین کے ساتھ لگی ہوئی ہو تو اس صورت میں اس کے ساتھ تیمم کا جواز ممتنع ہوگا۔ اگر اس صورت میں اس کے ساتھ تیمم جائز ہوتا تو مٹی کے وجود کی وجہ سے جائز ہوجاتا۔ عدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ مٹی کے ساتھ تیمم ایک بدل ہے اس لئے اس کی بدلیت کسی اور چیز کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ برف زمین کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو تو وہ پڑتال، چونے کے پتھر اور گیرو کی طرح ہوگی جبکہ تیمم کرنے والے اور زمین کے درمیان یہ چیزیں حائل ہوں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہڑتال اور اس طرح کی دوسری چیزیں زمین کی جنس سے ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ تیمم کا جواز ہوتا ہے خواہ ان پر مٹی ہو یا نہ ہو۔- نیز ہڑتال وغیرہ ہمارے اور زمین کے درمیان حائل نہیں ہوتے بلکہ اکثر احوال میں ان کے اور ہمارے درمیان زمین حائل ہوتی ہے اس لئے یہ چیزیں کس طرح برف اور خشک گھاس کے مشابہ ہوسکتی ہیں۔ اگر کسی نے کپڑے یا نمدے کے گرد و غبار کے ساتھ تیمم کرلیا جبکہ پہلے اس نے اس کپڑے اور نمدے کو جھاڑ لیا ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کا تیمم جائز ہوگا لیکن امام ابو یوسف اسے تسلیم نہیں کرتے۔- امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ کپڑے یا نمدے پر لگا ہوا غبار زمین کی جنس میں سے ہے اور اس کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کپڑے پر ہے یا زمین پر جس طرح پانی کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دریا میں ہے یا کوزے میں اور تر کپڑے کے نچوڑے جانے کی صورت میں۔- امام ابو یوسف کا یہ استدلال ہے کہ یہ چیز علی الاطلاق مٹی نہیں کہلاتی اس لئے اس کے ساتھ تیمم جائز نہیں۔ اسی بنا پر ان کے نزدیک جس زمین پر مٹی نہ ہو اس کے ساتھ تیمم جائز نہیں اور انہوں نے اپنے اس اصول کے مطابق ایسی زمین کو پتھر قرار دیا ہے۔- قتادہ نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے برف کی سل پر جو انہیں کہیں سے مل گئی تھی، نماز ادا کی تھی، آپ کے رفقاء نے تیمم کرنے کا ارادہ کیا لیکن انہیں کہیں بھی مٹی نظر نہیں آئی۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ اپنے کپڑے یا سواری کی زین کو جھاڑ لو اور اس کے ساتھ تیمم کرلو۔- ہشام بن حسان نے حسن سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ” جب کسی شخص کو پانی نہ ملے اور زمین کی مٹی تک بھی (برف وغیرہ کی تہہ کی وجہ سے) نہ پہنچ سکے تو اپنا ہاتھ نمدے یا زین پر مار کر تیمم کرلے۔- قول باری (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت چہرے اور بازوئوں کے بعض حصوں کے مسح کا مقتضیٰ ہے جیسا کہ ہم نے قول باری (وامسحوا بروسکم) کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ حرف با تبعیض کا مقتضیٰ ہے تاہم فقہاء اس پر متفق ہیں کہ چہرے اور بازوئوں کے تھوڑے حصوں پر مسح کرلینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ان اعضاء کے زیادہ حصوں پر مسح کرنا ضروری ہے۔- ابو الحسن کرخی نے ہمارے اصحاب کی طرف سے یہ بیان کیا ہے کہ اگر تیمم کرنے والے نے تیمم کے مقامات میں سے تھوڑا یا زیادہ حصہ چھوڑ دیا تو تیمم جائز نہیں ہوگا۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اگر تھوڑا سا حصہ رہ گیا تو تیمم ہوجائے گا۔ یہ روایت امام ابوحنیفہ کے مسلک کی رو سے اولیٰ ہے۔ اس لئے کہ ان کا مسلک اس پتھر کے ساتھ تیمم کے جواز کا قائل ہے جس پر کوئی گرد و غبار نہ ہو۔ اور تیمم کرنے والے پر پتھر کے ذریعے اپنی انگلیوں کا خلال بھی ضروری نہیں۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر تھوڑا سا حصہ رہ بھی جائے تو اس سے تیمم میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولیطوفوا بالبیت العتیق اور لوگ پرانے گھر یعنی خانہ کعبہ کا خوب خوب طواف کریں) اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پورے بیت اللہ کو طواف کے گھیرے میں لینا واجب ہے اور اس کا کوئی حصہ بھی چھوڑنا جائز نہیں ہے (مذکورہ بالا آیت ابو الحسن کرخی کی بیان کردہ بات کی دلیل ہے یعنی تیمم کرنے والے کے ضروری ہے کہ اعضائے تیمم کا پورا احاطہ کرے۔ اگر مصنف اس آیت کا ذکر ابو الحسن کرخی کے قول کے ساتھ کردیتے تو مناسب ہوتا۔ محشی)- قول باری ہے (مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھر کم اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تنگی پیدا کرنے کا ارادہ نہیں کرتا لیکن وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حرج تنگی کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے ہمارے لئے تنگی پیدا کرنے کے ارادے کی نفی کردی ہے تو اس سے مختلف فیہ سمعی احکام میں تنگی کی نفی اور توسع کے اثبات کے لئے ظاہر آیت سے استدلال کی پوری گنجائش موجود ہے۔ ظاہر آیت سے ان لوگوں پر حجت قائم کی جاسکتی ہے جو ان احکام میں حرج اور تنگی پیدا کرنے والا مسلک اختیار کرتے ہیں۔- یہ آیت قول باری (یرید اللہ بکم الیسرو لا یرید بکم العسر، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے لئے سختی کا ارادہ نہیں کرتا) کی نظیر ہے۔ قول باری (ولکن یرید لیطھرکم) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ اول گناہوں سے پاک کرنا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (اذا توضا العبد فغسل وجھہ خرجت ذنوبہ من الوجہ و اذا غسل یدیہ خرجت ذنوبھن یدہ۔ جب بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں اور جب بازو دھوتا ہے تو بازو سے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں) تاآخر حدیث۔- جس طرح یہ قول باری ہے (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ اے اہل بیعت رسول اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (گناہوں کی) گندگی دور کر دے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے) آیت زیر بحث میں گناہوں سے تطہیر کا احتمال ہے اور حدث، جنابت اور نجاست سے تطہیر کا بھی احتمال ہے۔- جس طرح ارشاد باری ہے (وان کنتم جنبا فالطھروا) نیز یہ بھی ارشاد ہے (وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بہ ویکذھب عنکم رجز الشیطان، اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کر دے) یہ آیت جنابت سے طہارت اور نجاست سے طہارت کے معنوں پر مشتمل ہے۔- اسی طرح قول باری ہے (وثیابک فطھر اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو) جب آیت زیربحث دونوں معنوں کا احتمال رکھتی ہے تو اسے دونوں معنوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ اس لئے اس سے حدیث سے تطہیر اور گناہوں سے تطہیر دونوں باتیں مراد ہوں گی۔ جب اس سے حصول طہارت مراد ہے تو آیت وضو میں ترتیب کے اعتبار اور نیت کی فرضیت کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب تیمم کے ذکر کے فوراً بعد تطہیر کا ذکر فرمایا تو پھر اسے تیمم میں نیت کے سقوط پر دلالت کرنا چاہیے جس طرح یہ وضو میں نیت کے سقوط پر دلالت کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب لفظ تیمم اپنے مقتضیٰ اور مدلول کے لحاظ سے نیت کے احضاء کا متقاضی ہے تو ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز یعنی نیت کے اسقاط کا ارادہ نہیں فرمایا جس پر یہ لفظ مشتمل ہے اس کے برعکس وضو اور غسل نیت کے مقتضیٰ نہیں ہیں۔ اس لئے ان میں آیت کے عموم کا اعتبار واجب ہے۔- علاوہ ازیں قول باری (ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھرکم) ایسا کلام ہے جو اپنا مفہوم ادا کرنے میں خود کفیل ہے اور اس کے لئے اسے کسی اور ضمیمہ کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ان تمام امور کے لئے اس کے عموم کا اعتبار درست ہے جن پر اس کلام کے کلام کی دلالت ہو رہی ہے۔ البتہ جن امور کی تخصیص کی دلیل قائم ہوجائے وہ اس کے عموم سے خارج ہوجائیں گے۔- فصل - اجتہاد و استنباط - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کے اندر مذکورہ احکام کے سلسلے میں جہاں تک ہمارے علم کی رسائی ہوئی وہ ہم نے بیان کردیئے۔ اسی طرح آیت کے ضمن میں موجود ان دلائل کا بھی تذکرہ ہوگیا جن سے مختلف معانی پر روشنی پڑتی ہے۔ اسی طرح آیت میں احتمال کی ان وجوہ کا بھی ذکر ہوگیا جن کی طرف اختلاف رائے رکھنے والے حضرات گئے ہیں اور سلف نیز فقہاء امصار میں سے ان وجوہ کے قائلین کا بھی ہم نے ذکر کردیا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو ایسے الفاظ کا جامہ پہنا کر نازل فرمایا جن میں ان معانی کے احتمالات اور احکام پر دلالت کی صورتیں موجود ہیں اور پھر ہمیں ان کے اعتبار اور ان سے استدلال کا حکم دے دیا۔ چناچہ قول باری ہے (العلمہ الذین یستنبطونہ منھم تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں)- نیز ارشاد ہوا (وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون ہم نے تمہاری طرف ذکر یعنی قرآن نازل کیا تاکہ تم لوگوں سے وہ احکام بیان کرو جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں اور شاید کہ وہ غور و فکر کریں) اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذکر یعنی قرآن میں غور و فکر کرنے پر ابھارا۔- نیز درست نتائج اخذ کرنے اور معانی کی گہرائیوں میں اترنے کی تحریک پیدا کی۔ ہمیں سوچ سمجھ سے کام لینے کا حکم دیا تاکہ ہم قرآنی احکام کے ادراک کی سعی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں اور اہل نظر علماء و مستنبطین کی صف میں شامل ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیتیں نازل فرمائیں جن میں احکام کی مختلف وجوہ کے لئے احتمالات موجود تھے اور ان کے معانی تک رسائی کا سماع کے سوا اور کوئی وسیلہ نہیں تھا۔- ایسی آیات نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان احکام کی جستجو اور طلب کے لئے اجتہاد کی گنجائش پیدا فرما دی اور یہ اشارہ کردیا کہ اجتہاد کی وادی میں قدم رکھنے والا ہر شخص نہ صرف وہی بات کہنے کا مکلف ہے جس پر اس کی رائے اور نظر آ کر ٹھہر گئی ہو اور اپنے اجتہاد کے نتیجے میں وہ اس کا قائل ہوگیا ہو بلکہ وہ خود بھی اس پر پختہ یقین رکھنے والا ہو۔- اللہ تعالیٰ ہر مجتہد سے یہی چاہتا ہے، کیونکہ ہمارے لئے ایک طرف اللہ کی مراد معلوم کرنے کا سماع کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ دوسری طرف بطریق نظر ہر مجتہد کے لئے یہ بات جائز تھی کہ وہ اس حکم کی بجا آوری کرے جس پر اس کے اجتہاد نے اسے پہنچا دیا ہو۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ آیات قرآنی کے الفاظ میں مختلف معانی کے احتمالات کی موجودگی ہر مجتہد کیلئے اس احتمال کو شروع کر دے جس پر اس کے نزدیک آیت کا مضمون دلالت کرتا ہو اور جو خطاب کے ضمن میں موجود نیز اس کا مقتضیٰ ہو۔- ذرا اسی آیت وضو پر غور کیجئے، یہ آیت اپنے مضمون اور مقتضیٰ کے لحاظ سے کتنے لطیف معانی، کس قدر کثیر فوائد اور استنباط کی کتنی وجوہ اور اقسام پر مشتمل ہے۔ یہ قرآن کے اعجاز کی ایک دلیل ہے۔ اس لئے کہ کوئی انسان ایسا کلام کرنے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتا، اس لئے یہ امر محال ہے۔- مسائل وضو کا خلاصۂ کلام - سابقہ صفحات میں جن امور پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی ہم یہاں ان کا اختصار پیش کرتے ہیں تاکہ مختصر اور محدود ہونے کی بنا پر قارئین کے فہم سے زیادہ قریب ہوجائے۔ ہم اللہ سے توفیق کے طلب گار ہیں۔- قول باری (اذا تم تم الی الصلوٰۃ) میں سب سے - ١۔ پہلا حکم وہ ہے جس کا لفظ میں احتمال موجود ہے یعنی ارادہ قیام الی الصلوٰۃ۔- ٢۔ دوسرا حکم قیام الی الصلوٰۃ کے بعد اعضائے وضو کو دھونے کا ایجاب۔ آیت کے الفاظ کے حقیقی معنی اس حکم کے مقتضیٰ ہیں۔- ٣۔ تیسرا حکم نیند سے بیدار ہو کر قیام الی الصلوٰۃ کا ہے۔ آیت میں اس حکم کا اس بنا پر احتمال ہے کہ یہ آیت اسی حالت کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔- ٤۔ چوتھی بات یہ کہ آیت اس نیند سے بیدار ہونے پر ایجاب وضو کی مقتضی ہے جو عادۃ نیند ہوتی ہے اور جس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص نیند سے اٹھا ہے۔- ٥۔ پانچویں بات یہ کہ ہر نماز کے لئے وضو کے ایجاب کا بھی احتمال ہے اور آیت میں یہ بھی احتمال موجود ہے کہ ایک دفعہ وضو کر کے کئی نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں جب تک حدث لاحق نہ ہوجائے۔- ٦۔ چھٹی بات یہ ہے کہ آیت میں اس کا احتمال موجود ہے کہ (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) سے اذا اردتم الصیام و انتم محدثون “ (جب تم قیام الی الصلوٰۃ کا ارادہ کرو اور تمہیں حدث لاحق ہو) کے معنی لئے جائیں۔- ٧۔ ساتویں بات یہ ہے کہ آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اعضائے وضو پر پانی گزارنے پر وضو کا جواز ہوجاتا ہے انہیں ہاتھ سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں تاہم جو حضرات ہاتھ سے ملنے کو ضروری سمجھتے ہیں ان کے حق میں بھی آیت کے اندر احتمال موجود ہے۔- ٨۔ آٹھویں بات یہ کہ آیت اپنے ظاہر کے لحاظ سے اعضائے وضو پر پانی بہانے کے ایجاب پر دلالت کرتی ہے۔ پانی کے ساتھ ان اعضا کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اس طرح جو حضرات پورے اعضائے وضو میں مسح کے قائل ہیں ان کے قول کے بطلان پر بھی آیت دلالت کرتی ہے۔- ٩۔ نوویں بات یہ ہے کہ نیت کے بغیر وضو درست ہوجاتا ہے۔- ١٠۔ دسویں بات یہ کہ چہرہ دھونے کے سلسلے میں قول باری (وجوھکم) کی بناء پر آیت کی صرف اتنے ہی حصے کے دھونے کی فرضیت پر دلالت ہو رہی ہے جو وضو کرنے والے کے چہرے میں سے ہمارے سامنے آتا ہو اس لئے کہ وجہ یعنی چہرہ کہتے اس حصے کو ہیں جو تمہارے سامنے آ جائے نیز یہ کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا وضو کے اندر واجب نہیں ہیں۔- ١١۔ گیارہویں بات یہ کہ آیت داڑھی کے خلال کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ داڑھی کا اندرونی حصہ چہرے میں شامل نہیں ہے۔- ١٢۔ بارھویں بات یہ کہ آیت وضو میں بسم اللہ پڑھنے کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔- ١٣۔ تیرھویں بات یہ کہ بازوئوں کے دھونے میں کہنیوں کے داخل ہونے پر بھی اس کی دلالت ہے۔- ١٤۔ چودھویں بات یہ کہ آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ کہنیاں دھونے کے حکم میں داخل نہ ہوں۔- ١٥۔ پندرھویں بات یہ کہ سر کے بعض حصے کے مسح پر آیت دلالت کرتی ہے۔- ١٦۔ سولہویں بات یہ کہ آیت میں پورے سر کے مسح کے وجوب کا بھی احتمال موجود ہے۔- ١٧۔ سترھویں بات یہ کہ آیت میں سر کے بعض حصے کے مسح کا احتمال موجود ہے خواہ وہ بعض حصہ سرکا جو بھی حصہ ہو۔- ١٨۔ اٹھارویں بات یہ کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ سر کے فرض مسح میں صرف تین بالوں کا مسح جائز نہیں ہے اس لئے کہ کسی ایسے حکم کا کسی کو مکلف بنانا جائز نہیں ہوتا جس پر اقتصار ممکن ہی نہ ہوتا ہو۔- ١٩۔ انیسویں بات یہ کہ آیت میں دونوں پائوں دھونے کے وجوب کا احتمال موجود ہے۔- ٢٠۔ بیسویں بات یہ کہ جو لوگ پائوں کا مسح کے ذریعے احاطہ کرلینے کے ایجاب کے قائل ہیں ان کے قول کے لئے بھی آیت میں مسح کے جواز پر دلالت موجود ہے۔- ٢١۔ اکیسویں بات یہ کہ جو لوگ قول باری (الی الکعین) کی بنا پر پائوں کے بعض حصوں کے مسح کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے قول کے بطلان پر آیت دلالت کر رہی ہے۔- ٢٢۔ بائیسویں بات یہ کہ اعضائے وضو میں دھونے اور مسح کرنے کے عمل کو یکجا کرنے کے عدم ایجاب پر آیت دلالت کر رہی ہے نیز یہ کہ ان میں سے ایک واجب ہے۔ اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔- ٢٣۔ تیئسویں بات یہ کہ موزہ پہننے کی حالت میں آیت موزوں پر مسح کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور موزے نہ ہونے کی صورت میں پائوں دھونے کے وجوب پر اس کی دلالت ہے۔- ٢٤۔ چوبیسویں بات یہ کہ آیت موزوں پر مسح کے جواز پر دلالت کرتی ہے جب ایک شخص پائوں وضو کر موزے پہن لے اور حدث لاحق ہونے سے پہلے وضو مکمل کرلے۔ اس لئے کہ آیت جس طرح مسح کے جواز پر دلالت کرتی ہے اسی طرح تمام احوال میں اس کے جواز پر بھی اس کی دلالت ہے، البتہ وہ صورتیں اس سے خارج ہوں گی جن کے بارے میں دلالت قائم ہوگئی ہو۔- ٢٥۔ پچیسویں بات یہ کہ جو لوگ جرموق (موزوں پر ان کی حفاظت کے لئے پہنی جانے والی چیز اسے کالوش بھی کہا جاتا ہے) پر مسح کے جواز کے قائل ہیں ان کے قول پر بھی آیت کی دلالت ہو رہی ہے اس لئے کہ آیت موزوں پر مسح کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور موزوں نیز جرموقوں پر مسح کرنے والے کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے پیروں کا مسح کیا ہے جس طرح آپ موزے چڑھائے ہوئے انسان کے بارے میں یہ فقرہ کہہ سکتے ہیں کہ ” قد ضربت رجلیۃ (میں نے اس کے پیروں پر ضرب لگائی ہے)- ٢٦۔ چھبیسویں بات یہ کہ جرابوں پر مسح کے جواز پر بھی آیت کی دلالت ہے، اس قول کے لئے کہ آیت میں جرابوں پر مسح مراد نہیں ہے دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔- ٢٧۔ ستائیسویں بات یہ کہ سر کے مسح میں سر کے ساتھ ہاتھ لگنا ضروری ہے آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے اس لئے پگڑی اور دوپٹے پر مسح کا جواز آیت کی رو سے ممتنع ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اگر پگڑی پر مسح کے بطلان پر دلالت ہو رہی ہے تو قول باری (وارجلکم) کی بنا پر موزوں کے مسح کے بطلان پر بھی اس کی دلالت ہو رہی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب آیت میں سغل اور مسح دونوں کا احتمال ہے اور ہمارے لئے ان دونوں پر عمل ممکن بھی ہے اس لئے ہم نے دو حالتوں کے اندر ان دونوں پر عمل کیا ہے۔ اگرچہ ایک پر عمل بطور مجاز ہے تاکہ ان دونوں میں سے کسی کا سقوط لازم نہ آئے۔ اس کے برعکس قول باری (وامسحوا بروسکم) میں ہمیں مجازی معنی لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اس لئے ہم نے وہاں مسح کے حقیقی معنوں پر عمل کیا ہے۔- ٢٨۔ اٹھائیسویں بات یہ کہ وضو میں اعضاء ایک ایک مرتبہ دھونے پر آیت دلالت کرتی ہے، ایک سے زائد مرتبہ دھونا تطوع یعنی نفل ہوگا۔- ٢٩۔ انتیسویں بات آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ استنجا فرض نہیں ہے، اس کے بغیر بھی نماز جائز ہوتی ہے جو لوگ ہوا خارج ہونے پر بھی استنجا کے قائل ہیں ان کے قول کے بطلان پر بھی آیت دلالت کرتی ہے۔- ٣٠۔ تیسویں بات یہ کہ وضو کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا فرض نہیں ہے جو لوگ اس کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کسی نے دھوئے بغیر اپنے ہاتھ برتن میں ڈال دیئے تو اس پانی سے وضو جائز نہیں ہوگا آیت میں اس قول کے خلاف دلالت موجود ہے۔- ٣١۔ اکتیسویں بات یہ ہے کہ کانوں کا مسح فرض نہیں ہے۔ آیت میں ان لوگوں کے قول کی تردید بھی موجود ہے جن کے نزدیک صرف کانوں کا مسح کافی ہے، سر کے مسح کی ضرورت نہیں ہے۔- ٣٢۔ بتیسویں بات یہ ہے کہ آیت وضو کے افعال کو وقفہ ڈال کر ادا کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے نیز اعضائے وضو جس طرح بھی دھوئے جائیں اس کے ساتھ نماز کی اباحت ہوجاتی ہے۔- ٣٣۔ تینتیسویں بات یہ کہ جو لوگ وضو میں ترتیب کے وجوب کے قائل ہیں آیت میں ان کی تردید کی دلالت موجود ہے۔- ٣٤۔ چونتیسویں بات یہ کہ آیت غسل جنابت کے ایجاب کے مقتضیٰ ہے۔- ٣٥۔ پینتیسویں بات یہ کہ جو لوگ لفظ جنابت سے اجتناب کے معنی لیتے ہیں آیت اس پر دلالت کرتی ہے یہ لفظ اس معنی کا بھی مقتضی ہے کیونکہ لفظ جنابت میں ان چیزوں سے مجانبت یعنی پہلو بچانے کا مفہوم شامل ہے جن سے یہ لفظ پرہیز کرنے کا مقتضی ہوتا ہے یہ چیزیں وہ ہیں جن کے احکامات اس آیت کے سوا دوسری آیتوں میں بیان کردیئے گئے ہیں۔- ٣٦۔ چھتیسویں بات یہ کہ غسل کے اندر پورے جسم کو دھونے کے عمل میں داخل کرنے نیز کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے وجوب پر آیت کی دلالت ہو رہی ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (وان کنتم جنبا فاطھروا)- ٣٧۔ سینتیسویں بات یہ کہ جب جسم پاک ہوجائے تو نماز کی اباحت ہوجاتی ہے اس میں وضو فرض نہیں ہوتا۔- ٣٨۔ اٹتھیسویں بات یہ کہ پانی کی عدم موجودگی میں جب حدث لاحق ہوجائے تو تیمم واجب ہوجاتا ہے۔- ٣٩۔ انتالیسویں بات یہ کہ مریض کو اگر پانی استعمال کرنے میں ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے تیمم کرنا جائز ہوتا ہے۔- ٤٠، چالیسویں بات یہ کہ غیر مریض کے لئے ٹھنڈ لگ جانے کے اندیشے کی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے اس لئے کہ مرض کی حالت میں تیمم کے جواز کا سبب آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی بات یعنی ضرر لاحق ہونے کا خوف ہے اور یہی سبب ٹھنڈ لگ جانے کے اندیشے کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔- ٤١۔ اکتالیسویں بات یہ کہ جنبی کے لئے تیمم کے جواز پر آیت کی دلالت ہو رہی ہے اس لئے کہ قول باری (اولامستم النساء) میں لفظ ملامست ہمبستری کے معنوں کا بھی احتمال رکھتا ہے۔- ٤٢۔ بیالیسویں بات یہ کہ آیت میں عورت کو ہاتھ لگانے پر وضو کے ایجاب کا بھی احتمال ہے اس لئے کہ درج بالا آیت جماع اور من بالید دونوں معنوں کی متحمل ہے۔- ٤٣۔ تینتالیسویں بات یہ کہ آیت کی دلالت کی رو سے اگر کسی شخص کو اپنے پاس موجود پانی کو وضو کے لئے استعمال کرلینے کی صورت میں پیاس کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے تیمم کرنا جائز ہے اس لئے کہ ایسا شخص اس انسان کی طرح ہوتا ہے جسے پانی کے استعمال سے ضرر اور نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے یعنی بیمار اور زخمی انسان۔- ٤٤۔ چوالیسویں بات یہ کہ جو شخص اپنے کجاوے میں پانی رکھ کر بھول گیا ہو اس کے لئے تیمم کے جواز پر آیت دلالت کرتی ہے اس لئے کہ ایسا شخص پانی کا واجد یعنی پائے اور حاصل کرنے والا نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے پانی کے استعمال کی شرط اس وقت رکھی ہے جب پانی موجود ہو۔- ٤٥۔ پینتالیسویں بات یہ کہ آیت کی دلالت کی رو سے جس شخص کے پاس وضو کے لئے ناکافی پانی موجود ہو تو اس پر اس پانی کا استعمال واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰنے اعضائے وضو کو دھونے کا حکم دیا ہے پھر فرمایا ہے (فان لم تجدوا ماء) یعنی اتنا پانی جو ان اعضاء کو دھونے کے لئے کافی ہو۔ نیز یہ کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسے شخص پر تیمم فرض ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی آیت میں وضو کے لئے ناکافی پانی مراد ہی نہیں ہے۔- (آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)