Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منکرین قیامت کے لئے وعیدیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو ایمان داروں سے فضول حجتیں کیا کرتے ہیں ، انہیں راہ ہدایت سے بہکانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دین میں اختلاف پیدا کرتے ہیں ۔ ان کی حجت باطل ہے ان پر رب غضبناک ہے ۔ اور انہیں قیامت کے روز سخت اور ناقابل برداشت مار ماری جائے گی ۔ ان کی طمع پوری ہونی یعنی مسلمانوں میں پھر دوبارہ جاہلیت کی خو بو آنا محال ہے ٹھیک اسی طرح یہود و نصارٰی کا بھی یہ جادو نہیں چلنے دے گا ۔ ناممکن ہے کہ مسلمان ان کے موجودہ دین کو اپنے سچے اچھے اصل اور بےکھرے دین پر ترجیح دیں ۔ اور اس دین کو لیں جس میں جھوٹ ملا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل و انصاف اتارا ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 25۝ۧ ) 57- الحديد:25 ) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا قرآن کے ہمراہ کتاب اور میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں ۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ Ċ۝ۙ ) 55- الرحمن:7 ) یعنی آسمان کو اسی نے اونچا کیا اور ترازؤں کو اسی نے رکھا تا کہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو ۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو مت گھٹاؤ ۔ پھر فرماتا ہے تو نہیں جان سکتا کہ قیامت بالکل قریب ہے اس میں خوف اور لالچ دونوں ہی ہیں اور اس میں دنیا سے بےرغبت کرنا بھی مقصود ہے ۔ پھر فرمایا اس کے منکر تو جلدی مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو قیامت قائم کر دو کیونکہ ان کے نزدیک قیامت ہونا محال ہے ۔ لیکن ان کے برخلاف ایمان دار اس سے کانپ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ روز جزا کا آنا حتمی اور ضروری ہے ۔ یہ اس سے ڈر کر وہ اعمال بجا لا رہے ہیں جو انہیں اس روز کام دیں ایک بالکل صحیح حدیث میں ہے جو تقریبا تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ قیامت کب ہو گی ؟ یہ واقعہ سفر کا ہے وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دور تھے آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ یقینا آنے والی ہے تو بتا کہ تو نے اس کے لئے تیاری کیا کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ نے فرمایا تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تو محبت رکھتا ہے اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا ۔ یہ حدیث یقینا متواتر ہے الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا بلکہ سائل کو اس دن کے لئے تیاری کرنے کو فرمایا پس قیامت کے آنے کے وقت علم کا سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں جو لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس کے منکر ہیں اسے محال جانتے ہیں وہ نرے جاہل ہیں سچی سمجھ صحیح عقل سے دور پڑے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں ۔ تعجب ہے کہ زمین و آسمان کا ابتدائی خالق اللہ کو مانیں اور انسان کو مار ڈالنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے پر اسے قادر نہ جانیں جس نے بغیر کسی نمونے کے اور بغیر کسی جز کے ابتدا ً اسے پیدا کر دیا تو دوبارہ جب کہ اس کے اجزاء بھی کسی نہ کسی صورت میں کچھ نہ کچھ موجود ہیں اسے پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہے بلکہ عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور اب تو اور بھی آسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی یہ مشرکین مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں، جنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مان لی، تاکہ انہیں پھر راہ ہدایت سے ہٹا دیں۔ یا مراد یہود انصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے جھگڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے پہلے ہوا ہے، اس لئے ہم تم سے بہتر ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] دحض کا لغوی مفہوم :۔ اس آیت میں حُجَّۃٌ کے بجائے دَاحِضَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دحض کے مفہوم میں تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ (١) پھسلنا، (٢) کمزور ہونا اور (٣) زائل ہوجانا، اور یہ دحض الرجل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ پاؤں نے ٹھوکر کھائی اور اپنی جگہ سے پھسل گیا اور داحِضَۃٌ کے معنی میں ایسی دلیل ہے جو حق کے مقابلہ میں اپنے پاؤں پر قائم نہ رہ سکے، پھسل کر کمزور اور زائل ہوجائے، یعنی زائل ہوجانے والی اور بودی دلیل۔- مکہ میں اگر کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو اس کے مشرک دوست اور لواحقین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے اور اس سے بحثیں اور لڑائی جھگڑے کر کر کے اسے زچ کردیتے اور اس بات پر مجبور کردیتے کہ وہ پھر سے اسلام چھوڑ کر ان کے آبائی دین میں شامل ہوجائے۔ یہ تو انفرادی صورت تھی اور اجتماعی صورت یہ تھی کہ کفار کی مخالفت اور اذیت کے باوجود بھی اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمانوں کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کافر متحد ہو کر میدان میں اتر آئے تھے اور اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی دھمکی، کبھی لالچ، کبھی سمجھوتہ اور کبھی مکمل بائیکاٹ اور کبھی مذاق و استہزاء اور کبھی فضول قسم کے اعتراضات اور بحثوں کے راستے کھولے جارہے تھے۔ اس صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب سنجیدہ اور عقل مند طبقہ اسلام کے دلائل سے متاثر ہو کر اس کی حقانیت پر ایمان لاچکا ہے اور اللہ کی توحید کو علی وجہ البصیرت تسلیم کیا جاچکا ہے تو اب کافروں کے یہ جھگڑے عبث اور بےکار ہیں۔ یہ جو کچھ بھی چاہیں کرلیں اللہ ان کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دے گا اور حق سربلند ہو کے رہے گا۔ البتہ حق کو دبانے کے لیے جتنا زور یہ صرف کر رہے ہیں اتنا ہی اللہ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے اور اتنی ہی شدید سزا انہیں دی جائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین یحآجون فی اللہ من بعد …:”’ احضۃ “ ”’ حص یدحص دحضا ودخوضا (ف)” حضت الحجۃ “ دلیل باطل ہونا اور ”’ حضت الرجل “ پاؤں کا پھسل جانا۔ ” حجۃ “ کا معنی جھگڑا بھی ہے اور دلیل بھی ۔ پچھلی آیت میں فرمایا :(لاحجۃ بیننا وبینکم) کہ ” ہمارے درمیان اور تمہارے دریمان کوئی جھگڑا نہیں، کیونکہ جو بات حق تھی وہ ہم نے تمہیں پہنچا دی، اب جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، اس آیت میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بات قبول کرلی گی، اس کا حق ہونا واضح ہوگیا ، حتیٰ کہ بہت سے سمجھ دار لوگ اسے قبول کرچکے اور بہ سے دل میں تسلیم کرچکے ہیں تو لوگ اب بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں اور اپنے خیال میں بڑی مضبوط دلیلیں لا رہے ہیں کبھی اس کی توحید میں بحث کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(اجعل الالھۃ الھا واحدا) (ص : ٥) ” کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا ؟ “ کبھی اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(من یحی العظام وھی ربیم) (یٰسین : ٨٨) کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی ؟ “ کبھی اس کے انسان کو رسول بنا کر بھیجن کے بارے میں جھگڑتے ہیں، فرمایا :(وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام و یمشی فی الاسواق) (الفرقان : ٨)” اور انہوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور باز اورں میں چلتا پھرتا ہے۔ “ کبھی اس کے شرکاء بنانے کے جوا ز میں اپنے معبودوں کو اللہ کے ہاں سفارشی اور اس کیق ریب کرنے والے قرار دیتے ہیں، فرمایا :(ھولاء شفعآؤنا عند اللہ) (یونس : ١٨) ” یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفاشریہیں۔ “ اور فرمایا :(مانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی) (الزمر : ٣)” ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ “ ان کی مزعومہ یہ اور اس جیسی سب دلیلیں اللہ تعالیٰ کے ہاں باطل اور بےکار ہیں، انھیں اس جھگڑے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔- (٢) وعلیھم غضب : ” غضب “ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی ان پر بھاری غضب ہے۔- (٣) ولھم عذاب شدید : جس کا دنیا میں مظاہرہ اہل مکہ پر مسلط خوف، قحط، جنگ بدر اور دوسرے معرکوں م یں ہوا اور جس کی شدت قیامت کے دن نعمان بن بشیر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قنل فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اھون اھل النار عذاباً یوم القیامۃ الرجل توضع فی اخمص قدمیہ جمرۃ یغلی منھا دماغہ) (بخاری، الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار :6561)” قیامت کے دن آگ والوں میں سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہوگا جس کے دونوں پاؤں کے تلوؤں میں ایک انگارا رکھا جائے گا، جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جو لوگ اللہ تعالیٰ (کے دین) کے بارے میں (مسلمانوں سے) جھگڑے نکالتے ہیں۔ بعد اس کے کہ وہ مان لیا گیا (یعنی بہت سے سمجھدار ذی عقل آدمی مسلمان ہو کر اس کو مان چکے ہیں۔ اور حجت واضح ہوجانے کے بعد مجادلہ اور زیادہ مذموم ہے سو) ان لوگوں کی حجت ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر (خدا کی طرف سے) غضب (آنے والا) ہے اور ان کے لئے (قیامت میں) سخت عذاب (ہونے والا) ہے (اور اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اللہ کو اور اس کے دین کو مانو، یعنی اس کی کتاب جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سب پر حاوی ہے اس کو واجب العمل جانو کیونکہ) اللہ ہی ہے جس نے (اس) کتاب (یعنی قرآن) کو حق کے ساتھ اور (اس میں جو خاص حکم ہے) انصاف (کا اس) کو نازل فرمایا (جب یہ کتاب اللہ کی ہے تو اللہ کو ماننا بغیر اس کتاب کے ماننے کے معتبر نہیں۔ بعض غیر مسلم جو اللہ کو ماننے کا تو دعویٰ کرتے ہیں مگر قرآن کو نہیں مانتے وہ نجات کے لئے کافی نہیں) اور (یہ لوگ جو آپ سے قیامت کا متعین وقت پوچھتے ہیں تو) آپ کو (اس کی) کیا خبر (لیکن آپ کو خبر نہ ہونے سے اس دن کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ اس کا وقوع یقینی ہے اور تعین وقت کے لئے اجمالاً اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ) عجب نہیں کہ قیامت قریب ہو (مگر) جو لوگ اس کا یقین نہیں رکھتے (وہ اس دن سے ڈرنے کے بجائے بطور استہزاء و انکار کے) اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ (کہ وہ جلد کیوں نہیں آجاتی) اور جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں وہ اس سے (کانپتے اور) ڈرتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ برحق ہے یاد رکھو کہ (ان دونوں قسم کے لوگوں میں قسم اول کے لوگ یعنی) جو لوگ قیامت کے (منکر ہیں اور اس کے) بارے میں جھگڑتے ہیں بڑی دور (دراز) گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اس دین قویم کی طرف اہل عالم کو دعوت دی گئی تھی جس پر تمام آسمانی کتابیں اور انبیاء (علیہم السلام) متفق ہیں۔ اور اس پر قائم رہنے اور استقامت اختیار کرنے کی تلقین تھی۔ مگر بعض اہل کفر جو سننے اور ماننے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے انہوں نے اس پر بھی مسلمانوں سے حجت بازی شروع کی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ اہل کتاب یہود و نصاری نے یہ حجت پیش کی کہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے۔ اس لئے ہمارا دین تمہارے دین سے افضل ہے۔ اور بعض روایات میں یہی مضمون کفار قریش کی طرف سے ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو دین ابراہیم (علیہ السلام) کا متبع کہتے ہیں۔- قرآن کریم نے آیات مذکورہ میں ان کو متنبہ کیا کہ دین اسلام اور قرآن کی حجت لوگوں پر تمام ہوچکی ہے اور خود تمہارے سمجھدار انصاف پسند لوگ تسلیم کر کے مسلمان ہوچکے ہیں، اب یہ تمہاری حجت بازی باطل اور گمراہی ہے جس کا کوئی قرار نہیں۔ اب اگر اس کو نہیں مانو گے تو خدا کا غضب تم پر ٹوٹے گا۔ آگے قرآن کے منجانب اللہ ہونے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لئے جامع قانون ہونے کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُحَاۗجُّوْنَ فِي اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَہٗ حُجَّــتُہُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝ ١٦- حاجَّة- : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف - ۔ الحاجۃ - ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- دحض - قال تعالی: حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری 16] ، أي : باطلة زائلة، يقال :- أدحضت فلانا في حجّته فَدَحَضَ ، قال تعالی: وَيُجادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْباطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ [ الكهف 56] ، وأدحضت حجّته فَدَحَضَتْ ، وأصله من دحض الرّجل، وعلی نحوه في وصف المناظرة- نظرا يزيل مواقع الأقدام ... «3» ودحضت الشمس مستعار من ذلك .- ( د ح ض ) داحضۃ - ۔ اسم فاعل ) باطل اور زائل ہونے والی ( دلیل ) قرآن میں ہے :۔ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری 16] ان کے پروردگار کے نزدیک ان کی دلیل بالکل بودی ہے ۔ کہاجاتا ہے ادحضت فلانا فی حجتہ فدحض وادحضت حجتہ ۔ فدحضت ( میں نے اس کی دلیل کو باطل کیا تو وہ باطل ہوگئی ) قرآن میں ہے :۔ وَيُجادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْباطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ [ الكهف 56] اور جو کافر ہیں ، وہ باطل ( سے استدلال کرکے ) جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس سے حق کو اس کے مقام سے پھسلا دیں ۔ اصل میں یہ دحض الرجل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی پاؤں پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کے ہیں ۔ اس بنا پر مناظرہ کے بارے میں کسی نے کہا ہے ع ( الکامل ) (151) نظرا یزیل مواقع الاقدام ایسی نظر جو قدموں کو ان کی جگہ سے پھسلا دے ۔ اور بطور استعارہ دحضت الشمس کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معني سورج ڈھلنے کے ہیں - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور یہود و نصاری جو دین خداوندی میں جھگڑے نکالتے ہیں بعد اس کے کہ وہ کتاب میں مان لیا گیا یا یہ کہ وہ مشرکین ہیں جو کہ اس میں جھگڑے نکالتے ہیں بعد اس کے کہ وہ میثاق کے دن تسلیم کرلیا گیا سو ان کی دشمنی غلط ہے ان پر اللہ کا غصہ اور سخت عذاب ہوگا۔- شان نزول : وَالَّذِيْنَ يُحَاۗجُّوْنَ فِي اللّٰهِ (الخ)- ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت اذا جاء نصر اللہ والفتح نازل ہوئی تو مشرکین نے مکہ مکرمہ میں ان مسلمانوں سے کہا جو وہاں متیم تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جماعتوں کی شکل میں داخل ہورہے ہیں تو ہمارے دمیان سے نکلو پھر کیوں یہاں ٹھہرے ہوئے ہو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی عینی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑے نکالتے ہیں۔- اور عبدالرزاق نے قتادہ سے آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ لوگ یہود و نصاری ہیں جو مسلمانوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے اور ہمارا نبی تمہارے نبی سے پہلے ہے اور ہم تم سے بہتر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ وَالَّذِیْنَ یُحَآجُّوْنَ فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَہٗ ” اور وہ لوگ جو اللہ کے بارے میں حجت بازی میں لگے رہے ‘ اس کے بعد کہ اس کی دعوت پر لبیک کہہ دی گئی ہے “- یعنی اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ تو روز اوّل ہی سے استقامت کے پہاڑ بنے کھڑے ہیں اور اب تو انتظار ہے وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ کے قافلے کا کہ ہر طرف سے لوگ جوق درجوق اور فوج در فوج دین میں داخل ہوں۔ لیکن جو لوگ اب بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور ہٹ دھرمی کی اپنی پرانی مسندیں سنبھالے حجت بازی کیے جا رہے ہیں :- حُجَّتُھُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ ” ان کی حجت بازی ان کے رب کے نزدیک بالکل پسپا ہے “- وَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ” اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت سخت عذاب بھی ہے ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :31 یہ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف جو مکے میں اس وقت آئے دن پیش آ رہی تھی ۔ جہاں کسی کے متعلق لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ، ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ، مدتوں اس کی جان ضیق میں کیے رکھتے ، نہ گھر میں اسے چین لینے دیا جاتا نہ محلے اور برادری میں ، جہاں بھی وہ جاتا ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی جس کا مدعا یہ ہوتا کہ کسی طرح وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر اسی جاہلیت میں پلٹ آئے جس سے وہ نکلا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani