Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے ۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں ۔ یہی قول حضرت ابن عباس ، جابر ، عکرمہ ، سعید بن جیبر ، مجاہد مکحول ، عمرو بن شعیب ، علی بن بذیمہ کاہے ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے ۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے ۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے ۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے ۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے ۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یالام عیل ہوگا ۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگذاری سے ہو کر رہے گا ۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں ۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں ۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل و رسوا ہونگے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے ۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں ۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے ۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گذرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا ۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے ۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے ۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹیوی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ 62ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ 62ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] لھوالحدیث سے مراد ہر وہ بات، شغل یا کھیل یا تفریح ہے۔ جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے یا غافل رکھے۔ خواہ یہ شغل، گانا بجانا ہو یا دلچسپ ناول اور ڈرامے ہوں یا کلب گھروں کی تفریحات ہوں یا ٹیوی کا شغل ہو یا ڈرامے اور سینما بینی ہو۔ غرض لھوالحدیث کا اطلاق عموماً مذموم اشغال پر ہوتا ہے۔ اب اس لفظ کی تشریح مندرجہ ذیل احادیث و آثار کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے :- (١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ قرآن میں لھوالحدیث کا لفظ گانا اور موسیقی کے لئے آیا ہے۔ نیز آپ فرمایا کرتے کہ گانا بجانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس اور سبزہ اگ آتا ہے (فتاویٰ ابن باز۔ اردو ترجمہ ج ١ ص ٣١٣)- (٢) حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں گاجوں، ساز و مضراب، بتوں، صلیبوں اور امر جاہلیت کو ختم کروں (احمد بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الحدود۔ باب بیان الخمرو وعبد شاکر بہانہ فصل ثالث)- (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گانا بجانا کرنے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو اور نہ انھیں یہ کلام سکھلاؤ اور ان کی اجرت حرام ہے (ترمذی۔ ابو اب البیوع۔ باب کراہیۃ المغنیات)- (٤) ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا کو، ریشم کو، شراب کو اور معازف یعنی آلات ساز و مضراب اور گانے بجانے کو حلال کرلیں گے (بخاری۔ کتاب الاشربہ باب ما جاء فیمن یستحل الخمرو بسمیہ بفراسمیہ) یعنی ان چیزوں کے دوسرے نام رکھ کر انھیں جائز بنالیں گے۔- اور اس آیات کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی غیر موثر بنانے کے لئے جو لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے ان میں سے ایک نضر بن حارث بھی تھا۔ اس کا طریق کار ابو لہب سے بالکل جداگانہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سرداران قریش سے کہنے لگا : قریشیو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے۔ سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امین تھے اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انھیں شاعر کہتے ہو، کبھی کاہن، کبھی پاگل اور کبھی جادور کہتے ہو۔ حالانکہ وہ نہ شاعر ہیں، نہ کاہن، نہ پاگل اور نہ جادوگر ہیں۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں۔ اے اہل قریش سوچو تم پر یہ کیسی افتاد آپڑی ہے۔- پھر اس افتاد کا جو حل نضر بن حارث نے سوچا وہ یہ تھا کہ وہ خود حیرہ گیا۔ وہ سے بادشاہوں کے حالات اور رستم و اسفند یار کے قصے سیکھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں کہیں بھی جاکر اپنا پیغام سناتے، ابو لہب کی طرح نضر بن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصے سناتا پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام مجھ سے بہتر ہے ؟ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلط کردیتا کہ وہ لونڈی اسے کھلائے پلائے اور اس کی فکر کا رخ موڑ دے۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ہشام۔ ٢١: ٢٧١)- [ ٥] بغیر علم کی نسبت اللہ کی راہ کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور لھوالحدیث کی طرف بھی۔ پہلی صورت تو ترجمہ سے واضح ہے۔ یعنی اس کا اللہ کی راہ سے بہکانا محض بغض وعناد اور ضد پر مبنی ہے۔ اس کے لئے اس کے پاس کوئی عملی دلیل نہیں ہے۔ اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس قدر جاہل ہے جو اللہ کی سیدھی راہ اور ہدایت جیسی قیمتی چیز کے عوض تباہ کن چیز خرید رہا ہے۔- [ ٦] یعنی وہ شخص گانا، بجانا، قصے کہانیاں اور رقص و سرور جیسی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کی آیات سے دور رکھنا اور ان آیات کا مذاق اڑانا چاہتا ہے۔- [ ٧] اس کے جرم اور اس کی سزا میں مناسبت یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتا ہے تو اس کو عذاب بھی ذلیل کرنے والا دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ۔۔ : محسنین کے اوصاف اور ان کے حسن انجام کے ذکر کے بعد ان بدنصیبوں کا ذکر فرمایا جن کے لیے ” عَذَابٌ مُّهِيْنٌ“ یعنی ذلیل کرنے والا عذاب تیار ہے۔ ” لَهْوَ “ کا لفظی معنی ” غافل کردینا “ ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ) [ المنافقون : ٩ ] ” تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ “ ” لَهْوَ “ ہر اس بات یا کام کو کہتے ہیں جو انسان کو اس کے مقصد کی چیز سے غافل کر دے۔ شیخ عبدالرحمان السعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ” وَمِنَ النَّاسِ “ لوگوں میں سے کوئی ایسا بدنصیب اور بےتوفیق بھی ہے، ” مَنْ يَّشْتَرِيْ “ جو اس طرح رغبت رکھتا اور پسند کرتا ہے جیسے قیمت خرچ کر کے حاصل کرنے والا پسند کرتا ہے، ” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “ ان باتوں کو جو دلوں کو غافل کردینے والی اور عظیم مقصد سے روک دینے والی ہوتی ہیں۔ چناچہ اس میں ہر حرام کلام، ہر باطل اور ایسے اقوال پر مشتمل ہر ہذیان داخل ہے جو کفر، فسق اور معصیت کی رغبت پیدا کرے، وہ اقوال حق کو رد کرنے والے لوگوں کے ہوں، جو باطل کے ساتھ بحث کر کے حق کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ اور گالی گلوچ کی صورت میں ہوں یا گانے بجانے، شیطان کے باجوں اور غافل کردینے والی داستانوں اور افسانوں کی صورت میں ہوں، جن کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو نہ آخرت میں۔ تو لوگوں کی یہ قسم وہ ہے جو ہدایت والی بات چھوڑ کر ” لَهْوَ “ والی بات خریدتی ہے۔ “ - 3 میں نے شیخ عبد الرحمن السعدی کا کلام اس لیے نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس آیت میں ” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “ سے مراد صرف گانا بجانا لیا جاتا ہے، جب کہ آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اگرچہ حرام غنا (ناجائز گانا) بھی اس میں شامل ہے۔ طبری میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے جو حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ انھوں نے قسم کھا کر فرمایا کہ اس سے مراد غنا (گانا) ہے، تو یہ ” لَهْوَ الْحَدِيْثِ “ کی ایک جزئی کا بیان ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا مصداق ایسے گانے بجانے والے ہوں گے جو دین سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے والے اور انھیں سن کر تکبر سے منہ پھیرنے والے ہوں، کیونکہ ان اوصاف کی ان آیات میں صراحت ہے، اور یہ اوصاف کفار کے ہیں مسلمانوں کے نہیں اور انھی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ مسلمان کو ہونے والا عذاب تو اسے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان کہلانے والے لوگ جو حرام عشقیہ گانے بجانے کو اپنا پیشہ یا شغل بنا لیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بدترین نفاق پیدا ہوجاتا ہے اور اللہ کی آیات کو سن کر ان کے ساتھ ان کا رویہ بھی بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے لیے مولوی کا مذاق اڑاتے اور اسے گالی دیتے ہیں، جب کہ ظاہر ہے کہ مولوی بےچارے کا قصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف نام کے مسلمان ہونے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اللہ کی آیات کے انکار، ان سے استکبار اور ان کو مذاق بنانے کے ساتھ مسلمانی کے دعوے پر اصرار قیامت کے دن ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ افسوس اس وقت یہ بیماری بری طرح امت مسلمہ میں پھیل چکی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون، انٹرنیٹ، غرض ہر ذریعے سے کفار اور ان کے نام نہاد مسلم گماشتوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کم ہی کوئی خوش نصیب اس سے بچا ہوگا۔ حالانکہ دین کے کمال و زوال کے علاوہ دنیوی عروج و زوال میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اقبال نے چند لفظوں میں اس کا نقشہ کھینچا ہے ؂- میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے - شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر - کوئی شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے، اس پر نادم ہو تو پھر بھی معافی کی امید ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے، تو اس کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔ ابو عامر یا ابو مالک اشعری (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِیْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ ، وَلَیَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلٰی جَنْبِ عَلَمٍ یَرُوْحُ عَلَیْہِمْ بِسَارِحَۃٍ لَّہُمْ ، یَأْتِیْہِمْ ، یَعْنِي الْفَقِیْرَ ، لِحَاجَۃٍ فَیَقُوْلُوْا ارْجِعْ إِلَیْنَا غَدًا فَیُبَیِّتُہُمُ اللّٰہُ وَیَضَعُ الْعَلَمَ ، وَیَمْسَخُ آخَرِیْنَ قِرَدَۃً وَخَنَازِیْرَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاري، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : ٥٥٩٠ ] ” میری امت میں کئی لوگ ہوں گے جو شرم گاہ (زنا) اور ریشم اور شراب اور باجوں کو حلال کرلیں گے اور کئی لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے، ان کے چرواہے شام کو ان کے چرنے والے مویشی لایا کریں گے، ان کے پاس فقیر اپنی حاجت کے لیے آئے گا، وہ کہیں گے کل آنا۔ تورات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب بھیجے گا اور وہ پہاڑ ان پر گرا دے گا اور کئی دوسروں کی شکلیں قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دے گا۔ “ ابو مالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ یُسَمُّوْنَھَا بِغَیْرِ اسْمِھَا، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِھِمْ بالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ یَخْسِفُ اللّٰہُ بِھِمُ الْأَرْضَ وَیَجْعَلُ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ ) [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ٤٠٢٠، و قال الألباني صحیح ] ” میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے، اس کا نام اصل نام کے بجائے اور رکھ لیں گے، ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) و من الناس من یشتری لہو الحدیث، لفظ اشتراء کے لغوی معنی خریدنے کے ہیں اور بعض اوقات ایک کام کے بدلے دوسرے کام کو اختیار کرنے کے لئے بھی لفظ اشتراء استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے الذین اشتروا الضللۃ بالہدیٰ وغیرہ آیات قرآن میں یہی معنی اشتراء کے مراد ہیں۔- اس آیت کا شان نزول ایک خاص واقعہ ہے کہ نضر بن حارث مشرکین مکہ میں سے ایک بڑا تاجر تھا اور تجارت کے لئے مختلف ملکوں کا سفر کرتا تھا۔ وہ ملک فارس سے شاہان عجم کسریٰ وغیرہ کے تاریخی قصے خرید کر لایا اور مکہ کے مشرکین سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو قوم عاد وثمود وغیرہ کے واقعات سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے بہتر رستم اور اسفند یار اور دوسرے شاہان کے قصے سناتا ہوں۔ یہ لوگ اس کے قصہ کو شوق ورغبت سے سننے لگے کیونکہ ان میں کوئی تعلیم تو تھی نہیں جس پر عمل کرنے کی محنت اٹھانی پڑے صرف لذیذ قسم کی کہانیاں تھیں۔ ان کی وجہ سے بہت سے مشرکین جو اس سے پہلے کلام الٰہی کے اعجاز اور یکتائی کی وجہ سے اس کو سننے کی رغبت رکھتے اور چوری چوری سنا بھی کرتے تھے، ان لوگوں کو قرآن سے اعراض کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ (ذکرہ فی الروح عن اسباب النزول للواحدی و مقاتل و ذکر نحوہ فی الدار لمنثور بروایة البہیقی)- اور در منثور میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ مذکور الصدر تاجر باہر سے ایک گانے والی کنیز (لونڈی) خرید کر لایا تھا اور اس کے ذریعہ اس نے لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی یہ صورت نکالی کہ جو لوگ قرآن سننے کا ارادہ کریں اپنی اس کنیز سے ان کو گانا سنواتا تھا اور کہتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو قرآن سنا کر کہتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو اور اپنی جان دو جس میں تکلیف ہی تکلیف ہے، آؤ تم یہ گانا سنو اور جشن طرب مناؤ۔- قرآن کریم کی مذکورہ آیت اسی واقعہ پر نازل ہوئی، اور اس میں اشتراء لہو الحدیث سے وہ قصے کہانیاں شاہان عجم کی یا یہ لونڈی گانے والی مراد ہے۔ واقعہ نزول کے اعتبار سے لفظ اشتراء بھی اس جگہ عام ہے۔ یعنی ایک کام کے بدلے میں دوسرے کو اختیار کرنا، اس میں سامان لہو کی خریداری بھی داخل ہے۔- اور لہو الحدیث میں لفظ ” حدیث “ تو باتوں اور قصے کہانیوں کے معنی میں ہے اور لہو کے لفظی معنی غفلت میں پڑنے کے ہیں۔ جو چیزیں انسان کو ضروری کاموں سے غفلت میں ڈالیں وہ لہو کہلاتی ہیں اور بعض اوقات ایسے کاموں کو بھی لہو کہا جاتا ہے جن کا کوئی معتد بہ فائدہ نہ ہو، محض وقت گزاری کا مشغلہ یا دل بہلانے کا سامان ہو۔ - آیت مذکورہ میں لہو الحدیث کے معنے اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت ابن مسعود، ابن عباس و جابر (رض) کی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ (رواہ الحاکم وصححہ البیہقی فی الشعب وغیرہ) - اور جمہور صحابہ وتابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لئے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے، اس میں غناء مزامیر بھی داخل ہے اور بےہودہ قصے کہانیاں بھی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ اس میں فرمایا ہے کہ لہو الحدیث ھوالغناء واشباھہ، یعنی لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی جو اللہ کی عبادت سے غافل کردیں) اور سنن بیہقی میں ہے کہ اشتراء لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے والے مرد یا عورت کو خریدنا یا اس کے امثال ایسی بےہودہ چیزوں کو خریدنا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کریں۔ ابن جریر نے بھی اسی عام معنی کو اختیار فرمایا ہے (روح ملخصاً ) اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی یہی عموم ثابت ہوتا ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ گانے والی لونڈیوں کی تجارت نہ کرو، اور پھر فرمایا فی مثل ہذا انزلت ہذہ الاٰیة ومن الناس من یشتری الخ - لَہو و لعب اور اس کے سامان کے شرعی احکام :- ان احکام کی پوری تفصیل قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ احقر کے مستقل رسالہ ” العی الحثیث فی تفسیر لہو الحدیث “ میں مذکور ہے۔ جس میں غناء و مزامیر پر بھی مفصل کلام قرآن و حدیث سے پھر فقہاء امت اور صوفیائے کرام کے اقوام سے مذکور ہے، یہ رسالہ بزبان عربی احکام القرآن حزب خامس میں شائع ہوچکا ہے۔ اہل علم اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں، عوام کے لئے اس کا خلاصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔- پہلی بات قابل نظر یہ ہے کہ قرآن کریم نے جتنے واقع میں لہو یا لعب کا ذکر کیا ہے وہ مذمت اور برائی ہی کے مواقع ہیں، جس کا ادنیٰ درجہ کراہت ہے (روح المعانی وکشاف) اور آیت مذکورہ لہو کی مذمت میں بالکل واضح اور صریح ہے۔- اور مستدرک حاکم کتاب الجہاد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی دنیا کا ہر لہو (کھیل) باطل ہے مگر تین چیزیں ایک یہ کہ تم تیر کمان سے کھیلو دوسرے اپنے گھوڑے کو سدھانے کیلئے کھیلو، تیسرے اپنی بی بی کے ساتھ کھیل کرو۔ “- (حاکم نے اس حدیث کو صحیح علیٰ شرط مسلم کہا ہے، مگر ذہبی وغیرہ نے اس کی سند کے متصل السند ہونے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ حدیث مرسل کہا ہے، مگر جمہور محدثین کے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہے)- اس حدیث میں ہر لہو کو باطل قرار دیا ہے اور جن تین چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے در حقیقت وہ لہو میں داخل ہی نہیں، کیونکہ لہو تو اس کام کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی دینی و دینوی فائدہ معتدبہا نہ ہو۔ اور یہ تینوں چیزیں مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں۔ تیر اندازی اور گھوڑے کو سدھانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہیں، اور بیوی کے ساتھ ملاعبت توالد و تناسل کے مقاصد کی تکمیل ہے۔ ان کو صرف صورت اور ظاہر کے اعتبار سے لہو کہہ دیا گیا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے لہو میں داخل ہی نہیں۔ اسی طرح ان تین چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن سے دینی یا دنیوی فوائد متعلق ہیں اور صورت کے اعتبار سے وہ لہو (کھیل) سمجھے جاتے ہیں ان کو بھی دوسری روایات حدیث میں جائز بلکہ بعض کو مستحسن قرار دیا گیا ہے جس کی تفصیل آگے آجائے گی۔- خلاصہ یہ ہے کہ جو کام حقیقتاً لَہو ہوں، یعنی جن میں نہ کوئی دینی فائدہ ہو نہ دنیوی، وہ سب کے سب مذموم اور مکروہ تو ضرور ہی ہیں، پھر ان میں تفصیل ہے۔ بعض تو کفر کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، بعض حرام صریح ہیں اور کم سے کم درجہ مکروہ تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ ہونے کا ہے، جس سے کوئی لَہو جو درحقیقت لہو ہو مستثنیٰ نہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں خود اس کی تصریح موجود ہے۔ ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ میں حضرت عقبہ بن عامر کی روایت کتاب الجہاد میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ لیس من اللہو ثلاث تادیب الرجل فرسہ وملاعبتہ اہلہ ورمیہ بقوسہ ونبلہ، الحدیث، (نصب الرایہ ص ٢٧٣، ج ٤) اس حدیث نے خود یہ تصریح کردی کہ یہ تین چیزیں جو مستثنیٰ کی گئی ہیں درحقیقت وہ لہو میں داخل ہی نہیں اور جو حقیقتاً لَہو ہے وہ باطل اور مذموم ہے، آگے اس کے مذموم ہونے کے مختلف درجات ہیں۔- 1:۔ جو کھیل دین سے گمراہ ہونے یا دوسرے کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنے وہ کفر ہے۔ جیسا کہ آیت مذکورہ الصدر (آیت) ومن الناس من یشتری لہو الحدیث میں اس کا کفر و ضلال ہونا بیان فرمایا گیا اور اس کی سزا عذاب مہین قرار دی ہے، جو کفار کی سزا ہے کیونکہ یہ آیت نضر بن حارث کے جس واقعہ پر نازل ہوئی ہے اس میں اس لہو کو اس نے اسلام کے خلاف لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اس لئے یہ لہو حرام ہونے کے ساتھ کفر تک پہنچ گیا۔- 2:۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی لَہو لوگوں کو اسلامی عقائد سے تو گمراہ نہیں کرتا مگر ان کو کسی حرام اور معصیت میں مبتلا کرتا ہے۔ وہ کفر تو نہیں مگر حرام اور سخت گناہ ہے جیسے وہ تمام جیل جس میں قمار اور جوا ہو یعنی ہار جیت پر مال کا لین دین ہو، یا جو انسان کو ادائے فرائض نماز روزہ وغیرہ سے مانع ہوں۔- فحش اور فضول ناول یا فحش اشعار اور اہل باطل کی کتابیں بھی دیکھنا ناجائز ہیں :- اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ سب چیزیں اس قسم لہو حرام میں داخل ہیں۔ اس طرح گمراہ اہل باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کے لئے گمراہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، راسخ العلم علماء ان کے جواب کے لئے دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔- 3:۔ اور جن کھیلوں میں نہ کفر ہے نہ کوئی کھلی ہوئی معصیت، وہ مکروہ ہیں کہ ایک بےفائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کو ضائع کرنا ہے۔- کھیلوں کے سامان کی خریدو فروخت :- مذکورہ تفصیل سے کھیلوں کے سامان کی خریدو فروخت کا حکم بھی معلوم ہوگیا کہ جو سامان کفر و ضلال یا حرام و معصیت ہی کے کھیلوں میں استعمال ہوتا ہے اس کی تجارت اور خریدو فروخت بھی حرام ہے۔ اور جو لہو مکروہ میں استعمال ہوتا ہے اس کی تجارت بھی مکروہ ہے۔ اور جو سامان جائز اور مستثنیٰ کھیلوں میں استعمال ہوتا ہے اس کی تجارت بھی جائز ہے۔ اور جس سامان کو جائز اور ناجائز دونوں طرح کے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی تجارت جائز ہے۔ - مباح اور جائز کھیل :- ادھر یہ بات تفصیل سے آ چکی ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ لہو اور کھیل ہے جس میں کوئی دینی دنیوی فائدہ نہیں۔ جو کھیل بدن کی ورزش، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لئے یا کسی دوسری دینی و دنیوی ضرورت کے لئے یا کم از کم طبیعت کا تھکان دور کرنے کے لئے ہوں اور ان میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنا لیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑنے لگے تو ایسے کھیل شرعاً مباح اور دینی ضرورت کی نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہیں۔- مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو ممانعت سے مستثنیٰ کرنا اوپر گزر چکا ہے۔ تیر اندازی، گھوڑے کی سواری، اپنے اہل کے ساتھ ملاعبت۔ اور حضرت ابن عباس سے ایک مرفوع حدیث میں ہے : خیر لہو المومن السباحة وخیر لہو المراة المغزل (جامع صغیر برمزا بن عدی باسناد ضعیف) ” یعنی مومن کا اچھا کھیل تیراکی ہے اور عورت کا اچھا کھیل چرخہ ہے۔ “- صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت سلمہ ابن اکوع کی روایت ہے کہ انصار مدینہ میں ایک صاحب دوڑ میں بڑے ماہر تھے، کوئی ان سے سبقت نہ لے جاسکتا تھا، انہوں نے ایک روز اعلان کیا کہ کوئی ہے جو میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرے ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کشتی ٹھہرائی تو آپ نے اس کو کشتی میں پچھاڑ دیا (ابو داؤد فی المراسیل)- حبشہ کے کچھ نوجوان مدینہ طیبہ میں فن سپہ گری کی مشق کرنے کے لئے نیزوں وغیرہ سے کھیلتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کھیل حضرت عائشہ کو اپنی پشت کے پیچھے کھڑا کر کے دکھلایا اور ان لوگوں کو فرمایا کہ الہوا والعبوا ” یعنی کھیل کود کرتے رہو “ (رواہ البیہقی فی الشعب کذا فی الکنز من باب اللہو) اور بعض روایات میں اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی آئے ہیں، فانی اکوہ ان یریٰ فی دینکم غلظة “ یعنی میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں خشکی اور شدت دیکھی جائے “- اسی طرح بعض صحابہ کرام سے منقول ہے کہ جب وہ قرآن و حدیث کے مشاغل میں تھک جاتے تو بعض اوقات عرب کے اشعار یا تاریخی واقعات سے دل بہلاتے تھے۔ (ذکرہ عن ابن عباس فی کف الرعاع)- ایک حدیث میں ارشاد ہے : روحوا القلوب ساعةً فساعةً اخرجہ ابو داؤد فی مراسیلہ عن ابن شہاب مرسلاً ” یعنی تم اپنے قلوب کو کبھی آرام دیا کرو “ جس سے قلب و دماغ کی تفریح اور اس کے لئے کچھ وقت نکالنے کا جواز ثابت ہوا۔- شرط ان سب چیزوں میں یہ ہے کہ نیت ان مقاصد صحیحہ کی ہو جو ان کھیلوں میں پائے جاتے ہیں، کھیل برائے کھیل مقصد نہ ہو اور وہ بھی بقدر ضرورت ہو، اس میں توسع اور غلو نہ ہو۔ اور وجہ ان کھیلوں کے جواز کی وہی ہے کہ درحقیقت یہ جب اپنی حد کے اندر ہوں تو لہو کی تعریف میں داخل ہی نہیں۔- بعض کھیل جو صراحةً ممنوع کئے گئے :- اس کے ساتھ بعض کھیل ایسے بھی ہیں جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص طور پر منع فرما دیا ہے، اگرچہ ان میں کچھ فوائد بھی بتلائے جاویں مثلاً شطرنج، چوسر وغیرہ اگر ان کے ساتھ ہار جیت اور مال کا لین دین ہو تو یہ جوا اور قطعی حرام ہیں اور یہ نہ ہو محض دل بہلانے کے لئے کھیلے جائیں، تب بھی حدیث میں ان کو منع فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص نرد شیر یعنی چوسر کھیلتا ہے وہ ایسا ہے جیسے اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے خون میں رنگے ہوں۔ اسی طرح ایک روایت میں شطرنج کھیلنے والے پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں۔ (عقیلی فی الضعفاء عن ابی ہریرة کذا فی نصب الرایہ)- اسی طرح کبوتر بازی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناجائز قرار دیا (ابو داؤد فی المراسیل عن شریح کذا فی الکنز) ان کی ممانعت کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ عموماً ان میں مشغولیت ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کو ضروری کام یہاں تک کہ نماز اور دوسری عبادت سے بھی غافل کردیتی ہے۔- غناء و مزامیر کے احکام :- آیت مذکورہ میں چند صحابہ کرام نے تو لہو الحدیث کی تفسیر گانے بجانے سے کی ہے۔ اور دوسرے حضرات نے اگرچہ تفسیر عام قرار دی ہے، ہر ایسے کھیل کو جو اللہ سے غافل کرے لہو الحدیث فرمایا ہے، مگر ان کے نزدیک بھی گانا بجانا اس میں داخل ہے۔- اور قرآن کریم کی ایک دوسری آیت (آیت) لا یشھدون الزور۔ میں امام ابوحنیفہ اور مجاہد اور محمد بن الخفیہ وغیرہ نے زور کی تفسیر غناء (گانے بجانے) سے کی ہے۔- اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے سنن میں اور ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں حضرت ابو مالک اشغری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” میری امت کے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے ان کے سامنے معازف و مزامیر کے ساتھ عورتوں کا گانا ہوگا اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں خسف کر دے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور بنا دے گا “- اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے اور طبلہ وسارنگی کو حرام کیا ہے اور فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔ (رواہ الامام احمد و ابوداؤد و ابن حبان)- ” حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو شخصی دولت بنا لیا جائے اور جب لوگوں کی امانت کو مال غنیمت سمجھ لیا جائے اور جب زکوٰۃ کو ایک تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم دین کو دنیا طلبی کے لئے سیکھا جانے لگے اور جب مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے اور دوست کو اپنے قریب کرے اور باپ کو دور رکھے، اور مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے اور قبیلہ کا سردار ان کا فاسق بدکار بن جائے اور جب قوم کا سردار ان میں ارذل بدترین آدمی ہوجائے، اور جب شریر آدمیوں کی عزت ان کے شر کے خوف سے کی جانے لگے، اور جب گانے والی عورتوں اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہوجائے، اور جب شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں، تو اس وقت تم انتظار کرو ایک سرخ آدمی کا اور زلزلہ کا اور زمین خسف ہوجانے اور صورتیں مسخ ہوجانے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں “- تنبیہ ضروری :- اس حدیث کے الفاظ کو بار بار پڑھئے اور دیکھئے کہ اس وقت کی دنیا کا پورا پورا نقشہ ہے، اور وہ گناہ جو مسلمانوں میں عام ہوچکے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں، ان کی خبر چودہ سو برس پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دے دی ہے۔ مسلمانوں کو اس پر متنبہ کیا ہے کہ ایسے حالات سے باخبر رہیں، اور گناہوں سے بچنے بچانے کا پورا اہتمام کریں۔ ورنہ جب یہ گناہ عام ہوجائیں گے تو ایسے گناہ کرنے والوں پر آسمانی عذاب نازل ہوں گے، اور پھر قیامت کی آخری علامات سامنے آجائیں گی۔ ان گناہوں میں سے عورتوں کا گانا اور گانے بجانے کے آلات طبلہ سارنگی وغیرہ بھی ہیں، اس جگہ اس روایت کو اسی مناسبت سے نقل کیا گیا ہے۔- اس کے علاوہ اور بہت سی مستند احادیث ہیں جن میں گانے بجانے کو حرام و ناجائز فرمایا ہے اور اس پر وعید شدید ہے۔ ان تمام روایات کو احقر نے اپنے رسالہ کشف الغناء عن وصف الغنا میں لکھ دیا ہے۔ یہ رسالہ بھی بزبان عربی احکام القرآن حزب خامس میں شائع ہوچکا ہے، یہاں ان میں سے چند نقل کی گئی ہیں۔- خوش آوازی کے ساتھ بغیر مزامیر کے مفید اشعار کا پڑھنا ممنوع نہیں :- اس کے مقابل بعض روایات سے غنا یعنی گانے کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے، یہ روایات بھی رسالہ مذکورہ میں جمع کردی گئی ہیں۔ تطبیق ان دونوں میں اس طرح ہے کہ جو گانا اجنبی عورت کا ہو یا اس کے ساتھ طبلہ سارنگی وغیرہ مزامیر ہوں وہ حرام ہے۔ جیسا کہ مذکورہ الصدر آیات قرآن اور احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوا۔ اور اگر محض خوش آوازی کے ساتھ کچھ اشعار پڑھے جائیں اور پڑھنے والی عورت یا مرد نہ ہوں، اور اشعار کے مضامین بھی فحش یا کسی دوسرے گناہ پر مشتمل نہ ہوں تو جائز ہے۔- بعض صوفیائے کرام سے جو سماع غنا منقول ہے وہ اسی قسم کے جائز غنا پر محمول ہے۔ کیونکہ ان کا اتباع شریعت اور اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آفتاب کی طرح یقینی ہے، ان سے ایسے گناہ کے ارتکاب کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔ محققین صوفیائے کرام نے خود اس کی تصریح فرمائی ہے۔ اس معاملہ میں مذاہب اربعہ کے فقہاء اور صوفیائے کرام کے اقوال مذکور الصدر رسالہ میں تفصیل سے جمع کردیئے گئے ہیں، یہاں اسی اختصار پر اکتفا کیا گیا۔ واللہ المستعان۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَہْوَالْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ۝ ٠ ۤۖ وَّيَتَّخِذَہَا ہُزُوًا۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝ ٦- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- لهو - [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] «5» . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد «6» فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا .- ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم .- ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بعض آدمی یعنی نضر بن حارث ان باتوں کا خریدار بنتا ہے یعنی جھوٹے قصے کہانیاں چاند و سورج کے واقعات اور انسانوں کی کتابیں اور گانے والی عورت وغیرہ یا یہ کہ شرک کا تاکہ اس کے ذریعے سے دین الہی اور اس کی پیروی سے دوسروں کو بغیر علم اور دلیل کے گمراہ کرے اور اس کا مذاق اڑائے ایسے لوگوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔- شان نزول : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ (الخ)- ابن جریر نے عوفی کے ذریعے سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ایک قریشی شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے ایک گانے والی لونڈی خرید رکھی تھی۔- اور جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں ہوئی ہے اس نے ایک گانے والی لونڈی خرید رکھی تھی اور جس شخص کے متعلق بھی یہ سنتا تھا کہ وہ اسلام لانا چاہتا ہے تو اسے پکڑ کر اس گانے والی لونڈی کے پاس لے جاتا تھا اور اس لونڈی سے کہتا تھا کہ اس کو خوب کھلا پلا اور گانا سنا اور کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمہیں نماز روزہ کی طرف بلاتے ہیں نعوذ باللہ یہ گانا اس سے بہتر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍق وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ط) ” - یہاں خصوصی طور پر نضر بن حارث کے کردار کی طرف اشارہ ہے جو روسائے قریش میں سے تھا۔ دراصل نزول قرآن کے وقت عرب کے معاشرہ میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ ان کے عوام تک میں شعر کا ذوق پایا جاتا تھا اور اچھی شاعری اور اچھے شاعروں کی ہر کوئی قدر کرتا تھا۔ ایسے ماحول میں قرآن کریم جیسے کلام نے گویا اچانک کھلبلی مچا دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کلام کے گرویدہ ہونے لگے تھے ‘ اس کی فصاحت و بلاغت انہیں مسحور کیے دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ جو شخص قرآن کو ایک بار سن لیتا وہ اسے بار بار سننا چاہتا۔ یہ صورت حال مشرکین کے لیے بہت تشویش ناک تھی۔ وہ ہر قیمت پر لوگوں کو اس کلام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور دن رات اس کی اس ” قوت تسخیر “ کا توڑ ڈھونڈنے کی فکر میں تھے۔ چناچہ نضر بن حارث نے اپنے فہم کے مطابق اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ وہ شام سے ناچ گانے والی ایک خوبصورت لونڈی خرید لایا اور اس کی مدد سے مکہ میں اس نے راتوں کو ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرانا شروع کردیں۔ بظاہر یہ ترکیب بہت کامیاب اور مؤثر تھی کہ لوگ ساری ساری رات ناچ گانے سے لطف اندوز ہوں ‘ اس کے بعد دن کے بیشتر اوقات میں وہ سوتے رہیں اور اس طرح انہیں قرآن سننے یا اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی کبھی فرصت ہی میسر نہ آئے۔- یہاں ضمنی طور پر اس صورت حال کا تقابل آج کے اپنے معاشرے سے بھی کرلیں۔ مکہ میں تو ایک نضربن حارث تھا جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں سپورٹس میچز ‘ میوزیکل کنسرٹس ( ) اور بےہودہ فلموں کی صورت میں لہو و لعب اور فحاشی و عریانی کا سیلاب بلا گھر گھر میں داخل ہوچکا ہے جو پورے معاشرے کو اپنی رو میں بہائے چلا جا رہا ہے۔ فحاشی و عریانی کے تعفنّ کا یہ زہر ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کے قلوب و اَذہان میں موت یا آخرت کی فکر سے متعلق کوئی ترجیح کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ ان میں سے کسی کو (الّا ما شاء اللہ) اب یہ سوچنے کی فرصت ہی میسر نہیں کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کس طرف جا رہا ہے ؟ اس کی زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ اس کے ملک کے حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور اس ملک کا مستقبل کیا ہے ؟ اس سب کچھ کے مقابلے میں ذہن اقبالؔ کے ابلیس کی سوچ تو گویا بالکل ہی بےضرر تھی جس نے بقول اقبال ؔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے کارندوں کو یہ سبق پڑھایا تھا : ؂- مست رکھو ذکر و فکر صبح گا ہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے - گویا اس دور میں ابلیس کو معلوم تھا کہ مسلمان کسی قیمت پر بھی ” عریاں الحاد “ کے جال میں پھنسنے والا نہیں۔ اس لیے وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے ” مزاج خانقاہی “ کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ” شرع پیغمبر “ سے برگشتہ کرنے کا سوچتا تھا۔ مگر آج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ آج ابلیس کی ” جدوجہد “ کی کرامت سے ” نوجواں مسلم “ اس قدر ” جدت پسند “ ہوچکا ہے کہ فحاشی و عریانی کے مظاہر کو وہ جدید فیشن اور نئی ترقی کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کے سٹیج پر ابلیسیت کوئی بہروپ بدلنے کا تکلفّ کیے بغیر اپنی اصل شکل میں برہنہ محو رقص ہے اور ہماری نئی نسل کے نوجوان بغیر کسی تردّد کے اپنی تمام ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس تماشہ کو دیکھنے میں رات دن مگن ہیں۔ گویا یہی ان کی زندگی ہے اور یہی زندگی کا مقصد و مآل

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :5 یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :6 اصل لفظ ہیں لَھُوَ الْحَدِیث یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے ۔ لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے ۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے ، مثلاً گپ ، خرافات ، ہنسی مذاق ، داستانیں ، افسانے اور ناول ، گانا بجانا ، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔ لہو الحدیث خریدنے کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیث حق کو چھوڑ کر حدیث باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں ۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے ۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں ۔ ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ وسلم کی دعوت کفار مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا ۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے ۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا ۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا ۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے ، ساحر ہے ، شاعر ہے ، مجنوں ہے ۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا ۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے ناواقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ ان الزامات میں سے کونسا الزام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے ۔ ٹھہرو ، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفندیار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں ( سیرۃ ابن ہشام ، ج ۱ ، ص۳۲۰ ۔ ۳۲۱ ) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں ۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سنا تاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے ۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں ۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود ( کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔ لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھو واللہ الغناء ، خدا کی قسم اس سے مراد گانا ہے ۔ ( ابن جریر ) ابن ابی شیبہ ، حاکم بیہقی ) ۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس ، جابر بن عبداللہ ، مجاہد ، عِکرمہ ، سعید بن جُبیر ، حسن بصری اور مَکُحول رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ۔ ابن ابی جریر ، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولا التجارۃ فیھن ولا اثمانھن مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ ان کی قیمت لینا حلال ہے ۔ ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام ۔ ان کی قیمت کھانا حرام ہے ۔ ایک اور روایت انہی ابو امامہ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لا یحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام ۔ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے ، اور ان کی قیمت حرام ہے ۔ ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیثِ ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک کے حوالہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من جلس الیٰ قینۃ یسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روز اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا ۔ ( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس زمانے میں بجانے کی ثقافت تمام تر ، بلکہ کلیۃً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی ۔ آزاد عورتیں اس وقت تک آرٹسٹ نہ بنی تھیں ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیات کی بیع و شرا کا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے ) ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :7 علم کے بغیر کا تعلق خریدتا ہے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور بھٹکادے کے ساتھ بھی ۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے ۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیات الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انہیں حاصل کر رہا ہے ۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اٹھا ہے ، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلق خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :8 یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے ۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اڑا دیا جائے ۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کی آیات سنانے نکلیں ، ادھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو ، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو ، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انہیں سنائی جا سکیں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :9 یہ سزا ان کےجرم کی مناسبت سے ہے ۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں ۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ اوپر سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ابھی ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول بھی کرلیتے تھے، کافروں کے سردار اس صورت حال کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے، اس لئے چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی ایسی دلچسپ صورت پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کردیں، اسی کوشش میں مکہ مکرمہ کا ایک تاجر نضر بن حارث جو اپنی تجارت کے لئے غیر ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا، ایران سے وہاں کے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید لایا، اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانے والی کنیز بھی خرید کر لایا، اور لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عاد وثمود کے قصے سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناؤں گا، چنانچہ لوگ اس کے گرد اکھٹے ہونے لگے، یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ کررہی ہے، نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پروا کرے، ناجائز ہے کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔