Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورة بقرہ اور مومنون کا آغاز۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اس مقام پر محسنین کی اور سورة بقرہ میں متقین کی ان ہی تین صفات کا ذکر فرمایا جو یہاں مذکور ہیں یعنی اقامت صلوۃ، ایتاء زکوٰ ۃ اور ایمان بالآخرت یعنی جس شخص میں کم از کم یہ تین صفات پائی جائیں۔ نہ ان کے راہ راست پر ہونے میں کوئی شک ہوسکتا ہے اور نہ فلاح پانے میں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ہُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٥- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

سو یہ لوگ اپنے رب کے سیدھے اور معزز رستہ پر ہیں اور یہی لوگ عذاب و ناراضگی سے نجات پانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (اُولٰٓءِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ” - یہاں اس سورت کی پانچویں آیت بعینہٖ وہی ہے جو سورة البقرۃ کی پانچویں آیت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :4 جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں ۔ اس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ یہی فلاح پانے والے ہیں یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیال خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے انکار کیا ہے ۔ یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادی خوشحالی کے معنی میں لے گا ۔ فلاح کا قرآنی تصور معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ ، آیات ۲ تا ۵ ۔ آل عمران ، آیات ۱۰۲ ، ۱۳۰ ، ۲۰۰ ۔ المائدہ ، آیات ۳۵ ، ۹۰ الانعام ، ۲۱ ۔ الاعراف ، آیات ۷ ، ۸ ، ۱۵۷ ۔ التوبہ ، ۸۸ ۔ یونس ، ۱۷ ۔ النحل ، ۱۱٦ ۔ الحج ، ۷۷ ۔ المومنون ، ۱ ۔ ۱۱۷ ۔ النور ، ۵۱ ۔ الروم ، ۳۸ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani