24۔ 1 یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز و اعتراض کی وجہ کا یہ زعم باطل ہے کہ اول تو وہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں اور گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے اور انہی من گھڑت باتوں نے انہی دھوکے اور فریب میں ڈال رکھا ہے۔
[٢٨] اس آیت میں یہود کے کتاب اللہ میں تحریف اور دوسرے بہت سے کبیرہ گناہوں پر دلیر ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے ان کے اسلاف نے اپنی طرف سے ایک عقیدہ گھڑا اور اسے اپنی ساری قوم میں پھیلا دیا۔ وہ عقیدہ یہ تھا کہ یہود جہنم میں نہیں جائیں گے۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے وہ اگر دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے ہی دن دوزخ میں رہیں گے جتنے دن انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسری بات جو ان میں بطور عقیدہ رواج پا گئی تھی وہ یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں کیونکہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یعقوب (علیہ السلام) سے وعدہ کرچکا ہے کہ ان کی اولاد کو سزا نہ دے گا مگر یونہی برائے نام قسم کھانے کو، اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا مسئلہ وضع کر رکھا ہے۔ جس کی رو سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی امت کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر سولی پر چڑھے اور اپنی امت کے گناہوں اور معصیت کا سارا حساب بیباق کردیا۔ پھر مسلمان بھی اس سلسلہ میں پیچھے نہیں رہے ان میں کچھ سید ہیں یا سید بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ان کی پشت پاک ہے۔ لہذا انہیں آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ کچھ لوگوں نے دنیا میں ہی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو کوئی ان کے نیچے سے گزر گیا وہ ضرور بہشت میں جائے گا اور کچھ لوگ اپنے مشائخ اور پیروں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں، وہ ان کی شفاعت کرکے انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے وغیرہ وغیرہ ( اللھم انا نعوذ بک من شرور انفسنا)
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّنَا النَّارُ ۔۔ : یعنی جس چیز نے انھیں حق سے کھلم کھلا انحراف اور بڑے سے بڑے گناہ کا بےشرمی سے ارتکاب کرلینے پر دلیر و جری بنادیا ہے، وہ یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور سزا کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ ان کے آباء و اجداد انھیں طرح طرح کی خام خیالیوں اور جھوٹی تمناؤں میں مبتلا کر گئے ہیں، کبھی وہ اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (مائدہ : ١٨) کبھی کہتے ہیں کہ جنت بنی ہی ہمارے لیے ہے [ بقرہ : ١١١ ] اور کبھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں تھوڑی بہت سزا ہوئی بھی تو چند دن سے زیادہ نہیں ہوگی، ہمارے بزرگوں کا، جن کے ہم نام لیوا ہیں اور جن کا ہم دامن پکڑے ہوئے ہیں ان کا اللہ پر اتنا زور ہے کہ وہ چاہے بھی تو ہمیں سزا نہیں دے سکے گا۔ (مزید دیکھیے بقرہ : ٧٨ تا ٨٠) اور نصاریٰ نے تو مسئلۂ کفارہ گھڑ کے گناہوں پر سزا کا سارا معاملہ ہی ختم کردیا ہے۔ یعنی مسیح (علیہ السلام) اپنی امت کے گناہوں کی پاداش میں صلیب پر چڑھ گئے جس سے امت کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔ اب اتنا ہی کافی ہے کہ عیسائی ہوجاؤ پھر جو مرضی کرتے رہو، مسیح (علیہ السلام) سب گناہوں کا کفارہ ادا کرچکے ہیں۔- یہی حال اب بہت سے مسلمانوں کا ہوگیا، کوئی شیخ جیلانی کو زبردستی موت کے فرشتے سے روحیں چھین لینے والا بنا بیٹھا ہے اور کوئی حسین (رض) کی شہادت کو اپنے نام لیواؤں کے گناہوں کا کفارہ سمجھ بیٹھا ہے۔ [ فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ]
ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ٠ ۠ وَغَرَّھُمْ فِيْ دِيْــنِہِمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ٢٤- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .- والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] ،- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے : - غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٢٤) اور ان یہودیوں کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ آخرت کے دنوں میں سے رات دن ہم دوزخ میں جائیں گے کہ ان میں ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا اور یہ سزا کے وہ چالیس دن ہوں گے جن میں ہمارے آباؤ اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی اور ان کی اس تراشی ہوئی باتوں نے یہودیت پر قائم رہنے کے لیے ان کو دھوکا میں ڈال رکھا ہے یہ یا کہ اللہ کی طرف سے حکمت کے سبب عذاب کی تاخیر نے انہیں مبتلائے غفلت کر رکھا ہے۔
آیت ٢٤ (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍص) ۔- یہ مضمون سورة البقرۃ میں آچکا ہے۔ ان کی ڈھٹائی کا اصل سبب ان کے من گھڑت خیالات ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم کتاب پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے ؟ اس میں تو لکھا ہے کہ سود حرام ہے اور تم سود خوری پر کمربستہ ہو ‘ اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام کیوں نہیں جانتے ؟ تو اس کے جواب میں وہ اپنا یہ من گھڑت عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں تو جہنم کی آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر گنتی کے چند دن۔ جب یہ عقیدہ ہے تو پھر انسان کا ہے کو دنیا کا نقصان برداشت کرے ع بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ پھر تو حلال سے ‘ حرام سے ‘ جائز سے ‘ ناجائز سے ‘ جیسے بھی عیش دنیا حاصل کیا جاسکتا ہو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ عقیدہ درحقیقت ایمان بالآخرۃ کی نفی کردیتا ہے۔- (وَغَرَّہُمْ فِیْ دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ )- اس طرح کے جو عقائد ونظریات انہوں نے گھڑ لیے ہیں ان کے باعث یہ دین کے معاملے میں گمراہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اللہ نے تو ایسی کوئی ضمانت نہیں دی تھی۔ تورات لاؤ ‘ انجیل لاؤ ‘ کہیں ایسی ضمانت نہیں ہے۔ یہ تو تمہارا من گھڑت عقیدہ ہے اور اسی کی وجہ سے اب تم دین کے اندر بددین یا بےدین ہوگئے ہو۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :23 یعنی یہ لوگ اپنے آپ کو خدا کا چہیتا سمجھ بیٹھے ہیں ۔ یہ اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ ہم خواہ کچھ کریں بہرحال جنت ہماری ہے ۔ ہم اہل ایمان ہیں ، ہم فلاں کی اولاد اور فلاں کی امت اور فلاں کے مریداور فلاں کے دامن گرفتہ ہیں ، بھلا دوزخ کی کیا مجال کہ ہمیں چھو جائے ۔ اور بالفرض اگر ہم دوزخ میں ڈالے بھی گئے تو بس چند روز وہاں رکھے جائیں گے تاکہ گناہوں کی جو آلائش لگ گئی ہے وہ صاف ہو جائے ، پھر سیدھے جنت میں پہنچا دیے جائے گے ۔ اسی قسم کے خیالات نے ان کو اتنا جری و بے باک بنا دیا ہے کہ وہ سخت سے سخت جرائم کا ارتکاب کر جاتے ہیں ، بد ترین گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں ، کھلم کھلا حق سے انحراف کرتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف ان کے دل میں نہیں آتا ۔