Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جھوٹے دعوے یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ ان کا توراۃ و انجیل پر ایمان ہے کیونکہ ان کتابوں کی ہدایت کے مطابق جب انہیں اس نبی آخرالزمان کی اطاعت کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر کے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ، اس سے ان کی اعلیٰ درجہ کی سرکشی تکبر اور عناد و مخالفت ظاہر ہو رہی ہے ، اس مخالفت حق اور بےجا سرکشی پر انہیں اس چیز نے دلیر کر دیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر کے یہ بات بنا لی ہے کہ ہم تو صرف چند روز ہی آگ میں رہیں گے یعنی فقط سات روز ، دنیا کے حساب کے ہر ہزار سال کے پیچھے ایک دن ، اس کی پوری تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ، اسی واہی اور بےسروپا خیال نے انہیں باطل دین پر انہیں جما دیا ہے بلکہ یہ خود اللہ نے ایسی بات نہیں کہی ان کا خیال ہے نہ اس کی کوئی کتابی دلیل ان کے پاس ہے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں ڈانٹتا اور دھمکاتا ہے اور فرماتا ہے ان کا قیامت والے دن بدتر حال ہو گا ؟ کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا رسولوں کو جھٹلایا انبیاء کو اور علماء حق کو قتل کیا ، ایک ایک بات کا اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور ایک ایک گناہ کی سزا بھگتنی پڑے گی ، اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں اس دن ہر شخص پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بھی کسی طرح کا ظلم روانہ رکھا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اور وہ اسلام مسلمانوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مکر و سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دو قبیلے جلا وطن اور ایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس آیت میں ( اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ 23؀) 3 ۔ آل عمران :23) سے مراد یہود کے وہ علماء ہیں جو تورات کا کچھ نہ کچھ علم رکھتے تھے۔ لیکن علم کے باوجود کتاب اللہ کے احکام میں تحریف ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ تورات میں شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے واضح طور پر رجم کا حکم موجود تھا۔ پہلے تو ان علماء نے یہ کام کیا کہ جب کوئی شریف اور مالدار یا معزز آدمی زنا کا مرتکب ہوتا تو مختلف شرعی حیلوں سے اس کی سزا کو ساقط کردیتے اور کمزور آدمیوں پر حد جاری کرتے۔ بعد میں انہوں نے سب طرح کے لوگوں کے لیے ایک درمیانی راہ نکالی اور طے یہ کیا کہ زانی کی سزا ہی ایسی ہی مقرر کی جائے جو سب کے لیے یکساں ہو اور وہ سزا یہ تھی کہ زانی مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے اسے بستی کے گرد پھرایا جائے۔ ایک دفعہ دور نبوی میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مالدار یہودی نے ایک یہودن سے زنا کیا۔ یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ ان کا مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ شاید اس طرح یہ زانی رجم سے بچ جائیں گے۔ آپ نے یہود کے علماء سے پوچھا : تم اللہ کی کتاب میں ایسے لوگوں کے لیے کیا سزا پاتے ہو ؟ وہ فوراً کہنے لگے کہ ہم تو ان کا منہ کالا کرکے انہیں گدھے پر سوار کرکے پھراتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے (جو یہود کے علماء میں سے تھے اور اسلام لاچکے تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہیں کہئے کہ اللہ کی کتاب لاؤ۔ چناچہ تورات لائی گئی۔ پڑھنے والے نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپا دیا اور آگے پیچھے سے پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام (رض) کے کہنے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ہاتھ اٹھانے کو کہا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ اس طرح جب ان علماء کی چوری پکڑی گئی تو از راہ ندامت وہاں سے اٹھ کر چلتے بنے۔ اس آیت میں ایسے ہی یہودی علماء کا کردار بیان ہوا ہے۔ اب مقدمہ کا فیصلہ ابھی باقی تھا۔ چناچہ آپ نے اس یہودی اور یہودن کو سنگسار کروا دیا۔ یہ واقعہ متعدد صحیح احادیث میں مذکور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا۔۔ : اس آیت میں ” كِتٰبِ اللّٰهِ “ سے مراد تورات اور انجیل ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب انھیں خود ان کی کتابوں کی طرف دعوت دی جاتی ہے کہ چلو انھی کو حکم مان لو اور بتاؤ کہ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے یا نہیں تو یہ اس سے بھی پہلو تہی کر جاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں جیسے انھیں کسی چیز کا علم ہی نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جن کو کتاب ( سماوی یعنی توراۃ) کا ایک ( کافی) حصہ دیا گیا (کہ اگر ہدایت کے طالب ہوتے تو وہ حصہ اس غرض کی تکمیل کے لئے کافی تھا) اور اسی کتاب اللہ کی طرف اس غرض سے ان کو بلایا بھی جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان ( مذہبی اختلاف کا) فیصلہ کردے پھر ( بھی) ان میں سے بعض لوگ انحراف کرتے ہیں بےرخی کرتے ہوئے (اور) یہ ( بےاعتنائی) اس سبب سے ہے کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں (اور یہی ان کا اعتقاد ہے) کہ ہم کو صرف گنتی کے تھوڑے دنوں تک دوزخ کی آگ لگے گی (پھر مغفرت ہوجاوے گی) اور ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ان کی تراشی ہوئی باتوں نے ( جیسے اسی تراشے ہوئے عقیدہ نے ان کو دھوکہ دیا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں، اس خاندانی بزرگی سے ہماری نجات ضرورت ہوجائے گی، اس کے نتیجہ میں وہ اور کتاب اللہ سے بےاعتنائی کرنے لگے) سو ( ان احوال و افعال و اقوال کفریہ کے سبب) ان کا کیا ( برا) حال ہوگا، جبکہ ہم ان کو اس تاریخ میں جمع کرلیں گے جس ( کے آنے) میں ذرا شبہ نہیں اور (اس تاریخ میں) پورا پورا بدلہ مل جائے گا ( کہ بےجرم یا زیادہ از جرم سزا نہ ہوگی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللہِ لِيَحْكُمَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٢٣- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حضور کی خصوصیات گذشتہ الہامی کتب میں تھیں - قول باری ہے (الم ترا کی الذین او توانصییا من الکتب یدعون الی کتاب اللہ لیحکم بینھم ثم یتولیفریق منھم وھم معرضون، آپ نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے۔ ان کا حال کیا ہے ؟ انہیں جب کتاب الہی کی طرف بلایاجاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلوتہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیرجاتا ہے) حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ اس سے یہود مراد ہیں۔ انہیں تورات کی طرف بلا گیا جو اللہ کی کتاب ہے جس میں دوسری تمام آسمانی کتابوں کی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارت موجود ہے۔ اللہ نے انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت اور صحت کے متعلق ان کتابوں میں موجود ہدایات کی موافقت کی طرف بلایاجس طرح کہ ایک اور آیت میں ارشاد ہوا (قل فاتوابالتوراۃ فاتلوھا) ان کنم صادقین، آپ کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو تورات لاؤ اور پڑھو)- اہل کتاب کا ایک گروہ اس حکم سے روگردانی کرگیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ تورات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر موجود ہے۔ نیز آپ کی نبوت کی صحت کا بھی اس میں تذکرہ ہے۔ اگر اس گو وہ کو یہ بات معلوم نہ ہوتی تو یہ لوگ ہرگز اس حکم سے روگردانی نہ کرتے جس میں اپنی کتاب، قورات کی تلاوت کی دعوت دی گئی تھی۔ جبکہ دوسراگروہ ایمان لے آیا اور آپ کی نبوت کی تصدیق بھی کردی۔ اس لیئے کہ انہیں آپ کی نبوت کی صحت کا علم ہوگیا تھا اور انہوں نے تورات اور دوسری کتب الہیہ میں آپ کے متعلق بیان کردہ صفات اور خصوصیات کو آپ کی ذات میں دیکھ لیا تھا۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت موجود ہے اس لیئے کہ اگر یہ لوگ اپنی کتابوں میں آپ کے متعلق بیان کردہ صفات وخصوصیات اور صحت نبوت کی بناپر آپ کے دعووں کی صداقت سے واقف نہ ہوتے تو ہرگز آپ سے روگردانی نہ کرتے بلکہ کتابوں میں مذکورہ باتوں کافورا حوالہ دیتے اور آپ کے دعووں کے بطلان کو واضح کرتے۔- لیکن جب انہوں نے آپ سے ردگردانی کی اور آپ کی دعوت الی الاسلام پر لبیک نہیں کہاتویہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ اس سلسلے میں جو کچھ ان کی کتابوں میں ہے اس سے یہ اچھی طرح واقف ہیں، اس چیلنج کے جواب میں انہوں نے اس سے روگردانی کرتے ہوئے جنگ وجدل اور لڑائی بھڑائی کا راستہ اختیار کرلیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ قرآن جیسی ایک سورت پیش کرتے سے عاجز ہیں۔ یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو ان الفاظ میں دعوت مباہلہ دی تھی (فقل تعالو اندع ایتاء ناوایتاء کم ونساء ناونساء کم، آپ کہہ دیجئے کہ آجاؤہم مل کر اپنے اور تمھارے بیٹوں اور اپنی اور تمھاری عورتوں کو بلائیں) تاقول باری (ثم تبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین، اور پھر ہم مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالدیں) اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ (لوحضروا وباھلوالاضرم اللہ علیھم الوادی ناراولم یرجعوا الی اھل ولاولک، اگر یہ لوگ آجاتے اور مباہلہ کرلیتے تو اللہ تعالیٰ ان پر پوری وادی میں آگ بھڑکادیتا اور پھر یہ لوگ اپنے بال بچوں کی طرف کبھی واپس نہ جاسکتے) ۔- یہ تمام باتیں نبوت کے دلائل اور رسالت کی صحت کی نشانیاں شمارہوتی ہیں ۔ حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ قول باری (یدعون الی کتاب اللہ) سے مراد قرآن مجید ہے اس لیئے کہ اس میں اصول دین وشرع اور سابقہ کتبسماویہ میں آپ کی صفات دخصوصیات کے بارے میں دی گئی بشارتوں کے متعلق جو کچھ مذکور ہے دہ تورات میں مذکورہ بیانات کے بالکل مطابق ہے۔ اس آیت میں کتاب اللہ کی طرف دعوت میں کئی معانی کا احتمال ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کہ ان کا دین بھی اسلام ہی تھا۔- یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد بعض احکام شرع مثلا حدود وغیرہ ہوں جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ ایک دفعہ یہودیوں کے مدرسے میں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان سے زانی کی سزا کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے کوڑوں کا ذکرکیانیز منہ کالا کرنے کی سزا بھی بتائی لیکن سنگسار کرنے کی سزاکوچھپاگئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن سلام کی موجودگی میں رحم کی آیت کے متعلق انہیں آگاہ کیا جب درج بالاان تمام وجوہ کا احتمال موجود ہے تو اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں ان تمام باتوں کی طرف انہیں دعوت دی گئی ہو۔ اس میں اس کی دلالت موجود ہے کہ جو شخص اپنے فریق مقابل کو فیصلہ کرلینے کی دعوت دے تو اس پرا سے قبول کرلینا لازم ہوگا اس لیئے کہ یہ دعوت دراصل کتاب اللہ کی طرف دعوت ہے۔ اس کی نظیر بھی یہ قول باری ہے (واذا دعوالی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم اذا فریق منھم معرضون، اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایاجاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان کا ایک گردہ روگردانی کرنے لگتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں علم توریت کا ایک کافی حصہ دیا گیا ہے (جس میں رجم وغیرہ کا بھی بیان ہے)- اور اسی غرض نے قرآن کریم کی طرف ان کو بلایا بھی جاتا ہے تاکہ ان شادی شدہ مرد و عورت کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کریں کہ جنہوں نے خیبر میں زنا کیا ہے، ایسے مجرموں کے سنگسار کرنے کا اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اس میں سے بنو قریظہ اور اہل خیبر توریت کے اس واضح حکم سے دور بھاگتے ہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں اور یہ اعراض وتکذیب محض اس وجہ سے ہے کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ ہمیں آخرت میں دوزخ کی آگ صرف چالیس دن کے لیے چھوئے گی ،- شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا (الخ)- اب ابی حامت اور ابن منذر (رح) نے عکرمہ (رح) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو توحید خدواندی کی دعوت دی تو ان میں سے نعیم بن عمرو اور حارث بن زید بولے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کون سے دین پر ہو ؟ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین اور انکی ملت پر، تو وہ بولے ابراہیم (علیہ السلام) تو یہودی تھے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، چلو توریت دیکھ لیں، وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والی ہے، اس چیز سے انہوں نے انکار کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کیا آپ ایسے لوگوں کو نہیں دیکھتے جن کو آسمانی کتاب کا ایک کافی حصہ دیا گیا ہے، (لیکن اس کے باوجود وہ حق سے اعراض کرتے ہیں)- (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) - اُوْتُوْا مجہول کا صیغہ ہے اور یاد رہے کہ جہاں مذمت کا پہلو ہوتا ہے وہاں مجہول کا صیغہ آتا ہے۔- (یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ) (ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) ۔- یعنی کتاب کو مانتے بھی ہیں لیکن اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :22 یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائی کتاب کو آخری سند مان لو ، اس کے فیصلے کے آگے سر جھکا دو اور جو کچھ اس کی رو سے حق ثابت ہو ، اسے حق اور جو اس کی رو سے باطل ثابت ہو ، اسے باطل تسلیم کر لو ۔ واضح رہے کہ اس مقام پر خدا کی کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے اور ”کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ پانے والوں“ سے مراد یہود و نصاریٰ کے علما ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani