[٢٤] چوپایوں میں عبرت یا حیران کن بات یہ ہے کہ گھاس پھوس کھانے والے اور چرنے والے مویشی (ماداؤں) کے جسم میں جب غذا جاتی ہے تو اس سے خون اور فضلہ یا گوبر کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی بنتی ہے۔ جو اوصاف میں ان دونوں چیزوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ خون اور گوبر دونوں نجس اور حرام چیزیں ہیں۔ جبکہ دودھ نہایت پاکیزہ، حلال، طیب، انتہائی سفید رنگ، مزہ میں شیریں اور پینے میں خوشگوار ہوتا ہے اور مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ اس سے بھوک بھی دور ہوجاتی ہے اور پیاس بھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ محیرالعقول کارنامہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماداؤں کے جسم میں ایسی مشینری فٹ کردی ہے جو گھاس پھوس سی چیز کو ایک نہایت اعلیٰ اور قیمتی چیز میں تبدیل کردیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مشینری صرف اس وقت حرکت میں آتی ہے۔ جب حمل قرار پا جائے اور اس کا نتیجہ فوری طور پر نہیں نکلتا۔ بلکہ بچہ کے وضع ہونے کے وقت تک یہ مشینری خود کو دودھ میں تبدیل کردینے کے قابل بن جاتی ہے ادھر پیدا ہوتا ہے تو ادھر ماں کے پستان دودھ سے بھر جاتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتے ہی جب ماں کے پستانوں کی طرف لپکتا ہے تو اسے فوراً یہ قدرتی غذا مہیا ہوجاتی ہے جبکہ وہ کوئی اور غذا کھانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر ماں کو حمل قرار نہ پائے تو اس بات کے باوجود کہ دودھ بنانے والی یہی گوشت پوست اور رگ ریشہ پر مشتمل یہ مشینری اس کے اندر موجود ہے۔ کبھی اپنا کام نہ کرے گا اور نہ دودھ بنے گا نہ پستانوں میں اترے گا۔- [٢٥] مویشیوں کی ایک ایک چیز انسان کے کام کی چیز ہے۔ ان کی کھال، ان کے بال، ان کی ہڈیاں، غرضیکہ ہر چیز سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ زندہ ہوں تو ان پر سواری بھی کرتا ہے اور یہ کھیتی باڑی اور باربرداری کے کام بھی آتے ہیں۔ پھر ان کا گوشت انسان بطور خوراک بھی استعمال کرتا ہے اور دودھ جو ان سے حاصل ہوتا ہے وہ ان سب فوائد سے بڑھ کر ہے۔
وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً : پچھلی آیات میں پانی کے ساتھ پیدا ہونے والی نباتات کا ذکر فرمایا، جس میں موت کے بعد زندگی کی دلیل اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد دہانی ہے۔ اب موت کے بعد زندگی کا یقین دلانے کے لیے اور اپنی نعمتوں اور قدرتوں کا احساس دلانے کے لیے نباتات سے اعلیٰ درجے کی زندگی والی مخلوق کا ذکر فرمایا، جو روح رکھنے والے چوپائے ہیں۔ ” لَعِبْرَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی عبرت “ کیا ہے۔- نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا : اس کی تفصیل سورة نحل (٦٦) میں دیکھیے۔- وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٤٢) ، سورة نحل (٥ تا ٨، ٦٦، ٨٠) ، سورة حج (٢٧، ٢٨، ٣٢، ٣٣، ٣٦، ٣٧) اور سورة مومن (٧٩) ۔- وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْن : یعنی تم ان کا گوشت کھاتے ہو اور وہ چوپائے خریدو فروخت کے ذریعے سے تمہارے کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔
اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے جانوروں، چوپایوں کے ذریعہ انسان کو عطا فرمائی تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور رحمت کاملہ پر استدلال کر کے توحید و عبادت میں مشغول ہو۔ اسی لئے فرمایا وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ، یعنی تمہارے لئے چوپایہ جانوروں میں ایک عبرت و نصیحت ہے آگے اس کی کچھ تفصیل اس طرح بتائی نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا، کہ ان جانوروں کے پیٹ میں ہم نے تمہارے لئے پاکیزہ دودھ تیار کیا جو انسان کی بہترین غذا ہے اور پھر فرمایا کہ صرف دودھ ہی نہیں، ان جانوروں میں تمہارے لئے بہت سے (بیشمار) منافع اور فوائد ہیں وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ، غور کرو تو جانوروں کے جسم کا ایک ایک جزء، رواں رواں انسان کے کام آتا ہے اور اس سے انسان کی معیشت کے لئے بیشمار قسم کے سامان تیار ہوتے ہیں۔ جانوروں کے بال، ہڈی، آنتیں، پٹھے اور سبھی اجزاء سے انسان اپنی معیشت کے کتنے سامان بناتا اور تیار کرتا ہے اس کا شمار بھی مشکل ہے ان بیشمار منافع کے علاوہ ایک بڑا نفع یہ بھی ہے کہ ان میں سے جانور حلال ہیں ان کا گوشت بھی انسان کی بہترین غذا ہے وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ۔ آخر میں ان جانوروں کا ایک اور عظیم فائدہ ذکر کیا گیا کہ تم ان پر سوار بھی ہوتے ہو اور باربرداری کا بھی ان سے کام لیتے ہو۔ اس آخری فائدہ میں چونکہ جانوروں کے ساتھ دریا میں چلنے والی کشتیاں بھی شریک ہیں کہ سواری اور باربرداری کا بڑا کام ان سے نکلتا ہے اس لئے کشتیوں کو بھی اس کے ساتھ ذکر فرما دیا۔
وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ٠ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِہَا وَلَكُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ كَثِيْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ ٢١ۙ- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- عبرت - والعِبْرَةُ : بالحالة التي يتوصّل بها من معرفة المشاهد إلى ما ليس بمشاهد . قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] ، فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر 2]- عبرت - والاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے ۔- فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر 2] اے اصحاب بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو ۔- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔
(٢١۔ ٢٢) اور تمہارے لیے مویشی بالخصوصا اونٹ میں بھی غور کرنے کا مقام ہے ہم تمہیں کو ان میں سے خالص شیریں دودھ پینے کو دیتے ہیں، جو خون اور نجاست کے درمیان سے نکلتا ہے اور تمہارے لیے ان میں اور بھی کئی سواری اور بار برداری کے بہت سے فوائد ہیں اور ان کے گوشت، دودھ اور بچوں کو کاٹ کر کھاتے پیتے بھی ہو اور اونٹوں پر خشکی میں اور کشتیوں پر سمندر میں سفر کرتے رہتے ہو۔
آیت ٢١ (وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط) ” - اگر تم سمجھنا چاہو تو ان میں تمہاری ہدایت کے لیے بہت واضح نشانیاں ہیں۔- (نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا) ” - سورۃ النحل میں اس عجوبۂ قدرت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ ) ” اور یقیناً تمہارے لیے چوپایوں میں بھی عبرت ہے ‘ ہم پلاتے ہیں تمہیں اس میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہوتا ہے ‘ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ ‘ پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار “۔ اگر ہم گائے یا بھینس کا پیٹ چاک کرکے دیکھیں تو اس کے اندر ہمیں گوبر اور خون ہی نظر آئے گا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہی آلائشوں کے اندر سے صافّ شفاف دودھ پیدا ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور قدرت پر غور کریں تو بچوں کی نظم کے یہ اشعار بےاختیار زبان پر آجاتے ہیں : - رب کا شکر ادا کر بھائی - جس نے ہماری گائے بنائی - اس خالق کو کیوں نہ پکاریں - جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں - (وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ) ” - یہ چوپائے بہت سے کاموں میں تمہاری مدد کرتے ہیں۔ تمہارے سازو سامان کی نقل و حمل میں تمہارے کام آتے ہیں اور تم اپنی غذا میں پروٹین بھی انہی کے گوشت سے حاصل کرتے ہو۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :22 یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے ( النحل ، آیت 66 ) ۔