Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عبد اللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی ۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے ، اخلاص والے ، حج والے ، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے ، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے ، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والے ، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے ۔ حنیف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسایت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعلیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی امیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار و تصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن و حدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٧] ملت اس نظام زندگی کا نام ہے جس کی بنیاد چند مخصوص عقائد پر ہو اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقائد میں سے سب سے اہم عقیدہ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) موحد تھے۔ شرک نہیں کرتے تھے۔ یہود مسلمانوں سے کہتے ہیں یہودی بنو گے تو نجات پا جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خود مشرک تھے اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے تھے۔ اسی طرح عیسائی بھی مسلمانوں سے یہی بات کہتے تھے حالانکہ وہ بھی تین خدا مانتے تھے اور مشرک تھے اور کفار مکہ وغیرہ کے مشرک ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ حالانکہ وہ بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعویٰ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی نہ ہدایت پر ہے اور نہ ملت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب مشرک ہیں۔ ملت ابراہیم پر صرف وہ ہوسکتا ہے جو مشرک نہ ہو اور وہی ہدایت یافتہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اہل کتاب مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے اور ہدایت کو اپنے دین میں منحصر مانتے تھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صوریا (یہودی) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، ہدایت صرف وہ ہے جس پر ہم ہیں، اس لیے آپ ہماری پیروی کریں تو ہدایت پاجائیں گے اور نصرانیوں نے بھی ایسے ہی کہا، اس پر یہ آیت اتری۔ (ابن کثیر، بسند حسن) یعنی آپ کہہ دیں ہم تو ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کریں گے، جو حنیف اور مسلم تھے، یعنی تمام گروہوں اور آباء و اجداد کے طریقوں سے ہٹ کر ایک اللہ کی طرف ہو کر پوری طرح اس کے تابع فرمان تھے اور مشرک نہ تھے۔ ان کا دین حق پر ہونا تم بھی مانتے ہو۔ تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایک طرف شرک میں گرفتار ہو کہ عزیر اور مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے مانتے ہو، کبھی تین خدا مانتے ہو، کبھی صلیب کی پوجا کرتے ہو۔ دوسری طرف تم وحی الٰہی کی پیروی کے بجائے احبارو رہبان کی تقلید میں گرفتار ہو کر فرقوں میں بٹے ہوئے ہو۔ تم ہدایت پر ہونے کا دعویٰ کس منہ سے کرتے ہو ؟ افسوس اب مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے ملت حنیفی کو ترک کرکے چند رسوم و بدعات، خرافات اور شرکیہ اعمال کی پابندی کو دین ہدایت سمجھ رکھا تھا، اسی طرح انھوں نے بھی قرآن و سنت کو ترک کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدتوں بعد آنے والے بزرگوں کی تقلید کو، جو نبی بھی نہیں تھے، واجب قرار دیا۔ اللہ کے بجائے غیر اللہ سے مانگنے کو حج کے بجائے بزرگوں کے مقبروں پر جانے کو اور نماز، روزہ، زکوٰۃ ترک کرکے خود ساختہ اوراد و وظائف اور چلہ کشی کو اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیا، اگر کوئی توحید اور قرآن وسنت کی دعوت دے تو اسے بےدین اور گمراہ قرار دیا۔ - اسلام دراصل عقائد اور اصول کے مجموعے کا نام ہے، یعنی توحید کا عقیدہ اور وحئ الٰہی کا اتباع۔ دین اور ملت سے بھی یہی مراد ہے۔ تمام انبیاء ایک ہی دین و ملت یعنی اسلام کے پیروکار تھے، اگر کچھ اختلاف ہے تو بعض احکام میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْاَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ ، اُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی وَ دِیْنُہُمْ وَاحِدٌ ) ” تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں (یعنی شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ ۔۔ : ٣٤٤٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اس لحاظ سے دین محمدی بھی ملت ابراہیم ہی ہے، یہودیت اور نصرانیت ملت ابراہیم سے خارج ہیں، کیونکہ وہ توحید الٰہی کے بجائے شرک میں اور وحئ الٰہی کی پیروی کے بجائے تقلید یعنی احبارو رہبان کی پیروی میں گرفتار ہوگئے اور تورات و انجیل پر عمل چھوڑ بیٹھے، اگر وہ واقعی مسلم ہوتے تو تورات اور انجیل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود ہونے کی وجہ سے آپ پر ایمان لے آتے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (٦٤ تا ٦٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور یہ (یہودی و نصرانی) لوگ (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی ہوجاؤ (یہ تو یہود نے کہا تھا) یا نصرانی ہوجاؤ (یہ نصاریٰ نے کہا تھا) تم بھی راہ (حق) پر پڑجاؤ گے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ ہم تو (یہودی یا نصرانی کبھی نہ ہوں گے بلکہ) ملت ابراہیم (یعنی اسلام) پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں (بخلاف یہودیت ونصرانیت کے جس میں علاوہ محرف ہونے کے اس کے منسوخ ہو چکنے کے سبب اب اس میں کجی آگئ) اور ابراہیم (علیہ السلام) مشرک بھی نہ تھے (مسلمانو یہود و نصاریٰ کے جواب میں جو تم نے اجمالاً کہا ہے کہ ہم ملت ابراہیمی پر رہیں گے اس ملت کی تفصیل بیان کرنے کے لئے) کہہ دو کہ (اس ملت پر رہنے کا حاصل یہ ہے کہ) ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس (حکم) پر بھی جو ہمارے پاس (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) بھیجا گیا اور اس (حکم) پر بھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گذرے ہیں ان) کی طرف (بواسطہ وحی کے) بھیجا گیا اور اس (حکم اور معجزہ) پر بھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا اور اس پر بھی جو کچھ اور انبیاء (علیہم السلام) کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے (سو ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان بھی) اس کیفیت سے کہ ہم ان (حضرات) میں سے کسی ایک میں بھی (دوسرے سے ایمان لانے میں) تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان رکھیں کسی پر نہ رکھیں) (اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں (انہوں نے ہم کو یہ دین بتلایا) ہم نے اختیار کرلیا (پس یہ حاصل ہے اس ملت کا جس پر ہم قائم ہیں جس میں کسی کو اصلاً انکار و سرتابی کی گنجائش نہیں) - معارف و مسائل :- اولاد یعقوب (علیہ السلام) کو قرآن کریم نے لفظ اسباط سے تعبیر فرمایا ہے یہ جمع ہے سبط کی جس کے معنی قبیلہ اور جماعت کے ہیں ان کو سبط کہنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے صلبی لڑکے بارہ تھے پھر ہر لڑکے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی نسل میں یہ برکت دی کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر گئے تو بارہ بھائی تھے اور جب فرعون کے مقابلہ کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اولاد بنی اسرائیل نکلے تو ہر بھائی کی اولاد ہزاروں افراد پر مشتمل قبیلے تھے اور دوسری برکت اولاد یعقوب (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی کہ دس انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ باقی سب انبیاء ورسل ان کی اولاد میں پیدا ہوئے بنی اسرائیل کے علاوہ باقی انبیاء (علیہم السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد نوح، شیث، ہود، صالح، لوط، ابراہیم، اسحق، یعقوب، اسماعیل، اور محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَہْتَدُوْا۝ ٠ ۭ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ١٣٥- هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله :- الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] .- الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک - حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٥) مومنین کے ساتھ یہود اور انصاری کے جھگڑے اور مناظرے کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے یہودی مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گمراہی سے ہدایت پر آجاؤ یعنی ہماری جماعت میں آجاؤ۔ اسی طرح عیسائی کہتے (اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے)- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ حقیقت تمہارے یعنی یہودیوں کے کہنے کے مطابق نہیں بلکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے دین اسلام جو کہ حنیف اور اخلاص والا ہے، اس کی اتباع کرو تب تم لوگوں کو ہدایت حاصل ہوسکتی ہے اور ان کے دین میں کسی قسم کا شرک نہیں۔- شان نزول : (آیت) ” وقالوا کو نواھودا (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید یا عکرمہ (رح) کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) روایت کیا ہے کہ ابن صوریا (رح) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت پر صرف ہم ہیں لہٰذا ہماری (العیاذ باللہ) اتباع اختیار کرو، سیدھی راہ پر آجاؤ گے اور نصاری نے بھی آپ سے یہ کہا، تب ان گمراہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاجاؤ گے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٥ (وَقَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا ط) (قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط) ۔ - مِلَّۃَ سے قبل فعل نَتَّبِعُ محذوف ہے۔ گویا : بَلْ نَتَّبِعُ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ ۔ - (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ )- اب مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ جو کچھ کہتے ہیں اس کے جواب میں تم یہ کہو :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :135 اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں نگاہ میں رکھیے: ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں ۔ ”یہُودیّت“ اپنے اس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی ۔ اور ”عیسائیت “ جن عقائد اور مخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیح ؑ کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں ۔ اب یہ سوال خود بخود پیداہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے ، تو حضرت ابراہیم ؑ اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ ، جو ان مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں ، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ ”یہُودیّت“ اور ”عیسائیت“ نہ تھی ۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار ان مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے ، جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں ، بلکہ دراصل اس کا مدار اس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے ، جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ خود یہُود و نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش ، تقدیس ، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے ۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں ، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے ، کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani