9۔ 1 یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چناچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں ذکر (نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ذکر (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔
[٥] ذکر اور قرآن کا فرق :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بجائے ذکر کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا لغوی معنی یاددہانی یا نصیحت ہے۔ اگرچہ صفاتی پہلو سے قرآن کریم کا ایک نام ذکر بھی ہے تاہم یہ دونوں نام ایک دوسرے کے مترادف نہیں۔ جیسے سورة قمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ 17) 54 ۔ القمر :17) جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور ذکر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذکر جب یاد دہانی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ یعنی کتاب بھی اور وہ بصیرت بھی جو اللہ تعالیٰ کتاب کے بیان کے لیے اپنے رسولوں کو عطا فرماتا ہے۔ اسی بصیرت کو ہم سنت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری کس طرح پوری فرمائی ؟- حفاظت قرآن بذریعہ کتابت :۔ حفاظت قرآن کے کئی پہلو ہیں اور یہ حفاظت بذریعہ کتابت بھی کی گئی اور بذریعہ حفظ بھی اور اس حفاظت کا تمام تر کام اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لیا۔ بذریعہ کتابت قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمایئے۔- ١۔ سیدنا زید بن ثابت انصاری (رض) (کاتب وحی) کہتے ہیں کہ جب (١١ ھ میں) یمامہ کی لڑائی میں (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ شہید ہوگئے تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : میرے پاس عمر آئے اور کہا کہ یمامہ کی لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر اسی طرح اور لڑائیوں میں بھی مسلمان مارے جائیں تو بہت سا قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اگر قرآن کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو یہ ڈر نہ رہے گا۔ لہذا آپ قرآن کو جمع کرا دیں اور میں (ابوبکر (رض) نے عمر کو یہ جواب دیا کہ میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ نے نہیں کیا عمر کہنے لگے۔ اللہ کی قسم یہ اچھا کام ہے اور بار بار یہی کہتے رہے تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر کی رائے سے متفق ہوگیا سیدنا زید کہتے ہیں کہ عمر خاموشی سے یہ بات سنتے رہے پھر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) مجھے کہنے لگے تم جوان اور عاقل ہو اور ہم تمہیں سچا جانتے ہیں اور دور نبوی میں کاتب وحی رہے ہو تو اب ایسا کرو کہ قرآن (کی جا بجا لکھی ہوئی تحریروں) کو تلاش کرو اور سب کو اکٹھا کردو زید کہتے ہیں کہ اگر ابوبکر صدیق (رض) مجھے پہاڑ ڈھونے کو کہتے تو مجھے اتنا مشکل معلوم نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنا معلوم ہوا آخر میں نے کہا تم دونوں ایسا کام کرتے ہو جو رسول اللہ نے نہیں کیا ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے اللہ کی قسم یہ اچھا کام ہے میں نے ان سے بڑا تکرار کیا تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ بھی کھول دیا اور میں نے یہ کام شروع کردیا۔ قرآن کہیں پرچوں پر، کہیں مونڈھے کی ہڈیوں پر، کہیں کھجور کی لکڑیوں پر لکھا ہوا تھا پھر اکثر لوگوں کو یاد بھی تھا۔ یہاں تک کہ میں نے سورة توبہ کی آخری دو آیتیں یعنی (لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١٢٨۔ ) 9 ۔ التوبہ :128) تاآخر، خزیمہ بن ثابت انصاری کے سوار کسی کے ہاں نہ پائیں۔ پھر یہ مصحف جس میں قرآن جمع کیا تھا۔ ابوبکر صدیق (رض) کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ پھر سیدنا عمر کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ (رض) کو ملا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورة توبہ۔ باب جمع القرآن)- ٢۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان سیدنا عثمان (رض) کے پاس آئے جن دنوں وہ شام و عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیا اور آذربائیجان فتح کرنے کی خاطر جہاد کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی قراءت میں مسلمانوں کے اختلاف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان (رض) سے کہنے لگے : امیر المومنین اس سے پہلے کہ مسلمان یہود اور نصاریٰ کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگیں، اس امت کی خبر لیجئے۔ چناچہ سیدنا عثمان (رض) نے سیدہ حفصہ (رض) کو لکھ بھیجا کہ ہمیں اپنا مصحف بھیج دیں۔ ہم اس کی نقول تیار کرکے آپ کا مصحف آپ کو واپس کردیں گے چناچہ سیدہ حفصہ (رض) نے بھیج دیا۔ سیدنا عثمان (رض) نے زیدبن ثابت (رض) ، عبداللہ بن زبیر (رض) ، سعید بن عاص (رض) اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام (رض) کو حکم دیا۔ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ آپ نے یہ ہدایت کردی تھی کہ اگر زید بن ثابت (رض) (انصاری) قرأت کے بارے میں باقی تینوں (قریشی) لوگوں سے اختلاف کریں تو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ جب نقلیں تیار ہوگئیں تو آپ نے سیدہ حفصہ رـضی اللہ عنہا کا مصحف انھیں واپس کردیا اور اس کی ایک نقل ہر مرکزی مقام میں بھجوادی۔ نیز حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو الگ الگ پرچیوں اور اوراق میں لکھا ہوا قرآن موجود ہے اسے جلا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب جمع القرآن)- ختحریف لفظی سے بچاؤ کی صورتیں :۔ رسول اللہ نے زبانی حفاظت قرآن پر نسبتاً بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ سب سے پہلے تو حافظ قرآن آپ خود تھے۔ جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا۔ رمضان میں آپ اس کا جبریل سے دور بھی فرمایا کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ نے دو دفعہ دور فرمایا۔ پھر صحابہ کو یاد کرواتے اور ان سے سنتے اور بعض دفعہ سناتے بھی تھے۔ قرآن کریم کے مصاحف لکھنے والے صحابہ کی نسبت قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل آج تک چلا آرہا ہے اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کی محافظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن سے محبت رکھنے والے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا کردیئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات، الفاظ حتیٰ کہ حروف اور اعراب تک شمار کر ڈالے۔ نتیجہ یہ کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قرآن کے الفاظ و حروف میں سرموفرق نہیں آیا اور ان حالات میں کمی و بیشی ممکن ہی نہ رہی اور تحریف لفظی کے سب امکانات ختم ہوگئے۔- رسول اللہ نے حفظ قرآن پر جو زیادہ توجہ مبذول فرمائی اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ حفظ اور کتابت کی خوبیوں کا تقابل :۔ قرآن کریم مکتوبہ شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح جبریل نے آپ کو قرآن پڑھایا، اسی انداز میں آپ نے صحابہ کرام (رض) کو سنایا اور حفظ کروایا۔ اسی طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی۔ نہ حروف کی شکلوں نقاط اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز و اوقاف ( ) وغیرہ کی معلومات کی۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔- ٢۔ اہل عرب کا حافظہ نہایت قوی تھا لیکن لکھے پڑھے لوگ بہت کم تھے اور ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔- ٣۔ تورات جو لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی صرف پڑھے لکھے طبقے ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔- ٤۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم لکھا پڑھا آدمی غلطی کرجاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتا۔- اب اس کے مقابلہ میں تحریر کے بھی کچھ فوائد ہیں مثلاً- ١۔ حافظ قرآن کسی وقت بھی بھول سکتا ہے۔ تحریر موجود ہو تو ایسی بھول کا ازالہ ممکن ہوجاتا ہے۔- ٢۔ حافظ کا علم اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ کتابت بعد میں بھی موجود رہتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر قرآن کو جمع کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث زید بن ثابت انصاری (رض) سے واضح ہے۔- لہذا حفاظت قرآن کے لیے یہ دونوں ہی طریقے لازم و ملزوم سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ البتہ افضلیت کا درجہ حفظ ہی کو حاصل رہا اور اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :- ( بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ وَمَا يَجْـحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ 49) 29 ۔ العنکبوت :49) بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور جہاں اللہ نے کتابت قرآن کا ذکر فرمایا تو وہاں عطیہ علم کا ذکر نہیں فرمایا : ارشاد باری ہے۔ (وَالطُّوْرِِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ ) 52 ۔ الطور :1) قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو پھیلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔- شیعہ حضرات اور قرآن کی حفاظت :۔ ان سب باتوں کے باوجود شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ سیدنا عثمان (رض) کو مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے جمع قرآن کے وقت قرآن کی بہت سی آیات اور کئی سورتیں جو اہل بیت کی مدح میں تھیں خارج کردیں اور انھیں قرآن میں شامل نہیں کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طعن گو بظاہر سیدنا عثمان (رض) پر ہے لیکن حقیقتاً اس طعن کی زد اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری پر پڑتی ہے۔ فاعتبروا یا ولی الابصار۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس وقت سیدنا علی شیر خدا تو بفضلہ زندہ سلامت موجود تھے انہوں نے سیدنا عثمان (رض) کے اتنے زبردست ارتکاب جرم کو کیسے گوارا کرلیا تھا ؟- ختحریف معنوی سے حفاظت :۔ اس حفاظت ذکر سے متعلق تیسرا پہلو تحریف معنوی کا ہے یعنی اگر الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ مطالب قرآن کی حفاظت نہ ہو تو محض الفاظ کی حفاظت بےسود ہے اور اس صورت میں یہ قرآن ملحدین کی اور دوسرے گمراہ فرقوں کی طبع آزمائی کا تختہ مشق بن سکتا ہے لہذا ضروری تھا کہ قرآن کے جو معنی خود حامل قرآن یا صحابہ کرام نے سمجھے تھے ان کی بھی حفاظت کی جائے تاکہ باطل کسی طریقے سے بھی قرآن میں داخل نہ ہونے پائے اور اگر داخل ہونے کی کوشش کرے تو تحقیق کرکے اسے رد کیا جاسکے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کی خاطر کھپا دیں۔ رسول اللہ کی ہر طرح کی سنت کو محفوظ کردیا۔ جو درحقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا مضبوط انتظام فرما کر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ ۔۔ : یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ ” قرآن “ کے بجائے لفظ ” ذکر “ استعمال فرمایا، جس میں سب سے پہلے قرآن آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) [ یوسف : ٢ ] ” بیشک ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔ “ اور اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال، افعال اور احوال یعنی حدیث بھی ذکر (نصیحت) ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا نازل کردہ ذکر قرار دیا، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا 10 ۙرَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ ) [ الطلاق : ١٠، ١١ ] ” یقیناً اللہ نے تمہاری طرف ایک ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، جو ایسا رسول ہے کہ تمہارے سامنے اللہ کی واضح بیان کرنے والی آیات پڑھتا ہے۔ “ علاوہ ازیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کریں اسے کرنے کا اور جو کہیں اسے ماننے کا حکم دیا، پہلے کا نام اتباع ہے، دوسرے کا اطاعت ہے، چناچہ فرمایا : (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ) [ آل عمران : ٣١ ] ” کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ “ اور فرمایا : (قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ) [ آل عمران : ٣٢ ] ” کہہ دے اللہ اور رسول کا حکم مانو۔ “- اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا : اس جملے میں اللہ تعالیٰ نے بیحد تاکید کے لیے لفظ ” ہم نے “ کو تین دفعہ دہرایا ” اِنَّا “ میں ” نَا “ ( ہم نے) ، دوسرا ” نَحْنُ “ (ہم نے) اور تیسرا ” نَزَّلْنَا “ میں ” نَا “ (ہم نے) ۔ بہت کوشش سے بھی تینوں تاکیدوں کا ترجمہ فصیح اردو میں مشکل ہے۔ - 3 یعنی یہ ” ذکر “ جس کے لانے والے کو تم دیوانہ کہہ رہے ہو، یہ تو خود ہم ہی نے نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قاضی اسماعیل بصری سے پوچھا گیا کہ اس میں کیا راز ہے کہ پہلی کتابیں قرآن کی طرح محفوظ نہ رہ سکیں ؟ انھوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت انسانوں کے ذمے لگائی تھی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ ۔۔ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ ) [ المائدۃ : ٤٤ ] ” بیشک ہم نے تورات اتاری۔۔ اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے “ جب کہ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی۔ (الوسیط) ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قرآن و حدیث قیامت تک کے لیے تمام لوگوں کے لیے ہیں، جب کہ اس سے پہلے ہر کتاب ایک قوم اور ایک وقت تک کے لیے تھی۔ جس طرح قرآن اپنے الفاظ اور معانی کے اعتبار سے معجزہ ہے کہ جن و انس جمع ہو کر بھی اس جیسی ایک سورت نہیں بنا سکتے، اسی طرح یہ بھی اس کا معجزہ ہے کہ اس میں رد و بدل نہیں ہو سکے گا۔ قرآن کی حفاظت کا یہ وعدہ حیرت انگیز طور پر پورا ہو رہا ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس طرح محفوظ ہو کہ اس کے کسی ایک حرف میں رد و بدل نہ ہوا ہو۔ دنیا بھر میں قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں ان میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ مسلمانوں پر زوال اور غلامی کے ایام بھی آئے، مگر قرآن کی حفاظت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت جو کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوئی اور قرآن کی اس طرح حفاظت کے غیر مسلم مخالف بھی معترف ہیں۔ - 3 منکرین حدیث عموماً حدیث سے انکار کے لیے کہتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا تو اللہ نے وعدہ کیا، مگر حدیث کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا، اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان سے پوچھیے کہ اس کی کیا دلیل ہے ؟ تو وہ یہ آیت پڑھیں گے، حالانکہ اس میں لفظ ” قرآن “ نہیں بلکہ ” اَلذِّکرَ “ ہے، جس میں حدیث بھی شامل ہے اور اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے اتنا زبردست اور عجیب و غریب انتظام فرمایا کہ دنیا میں کسی شخص کے اقوال و افعال اور احوال اس طرح محفوظ نہیں جس طرح ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محفوظ ہیں۔ اس کے لیے صحابہ کرام (رض) ، تابعین اور محدثین نے اتنی محنت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی ہمارے لیے محفوظ فرما دی، جس کی پیروی اور اطاعت ہمارے لیے لازم تھی۔ اس حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں رجال اور اصول حدیث کے علوم کا الہام فرمایا اور انھوں نے ایک لاکھ سے زائد افراد کی زندگی کے حالات، ان کا قابل اعتماد ہونا یا نہ ہونا، ان کا سن پیدائش و وفات محفوظ فرما دیا، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہے، صحیح ہے یا نہیں۔ کسی نبی کی زندگی کے حالات اور اقوال و افعال کے لیے نہ یہ اہتمام کسی امت کو نصیب ہوا اور نہ کسی نبی کے حالات اس کا ہزارواں حصہ بھی ملتے ہیں جس قدر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات بحفاظت دنیا تک پہنچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث محفوظ نہ ہو تو قرآن پر عمل ناممکن ہے، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ غرض کوئی چیز بھی حدیث کی تفصیل کے بغیر ادا کرنا ناممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ احادیث میں ضعیف روایات کی آمیزش ہے تو جواب یہ ہے کہ جب اس کا حل موجود ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ محدثین نے صحیح و ضعیف کو الگ الگ کردیا ہے۔ جس طرح شیعہ کے عقیدے سے کہ یہ قرآن وہ نہیں جو علی (رض) یا اہل بیت کے پاس تھا، قرآن مجید کی صحت و عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بےدلیل دعویٰ کچھ وزن نہیں رکھتا اور آج تک ان کے مزعوم قرآن کا کہیں وجود نہیں ملا، اسی طرح منکرین حدیث کے اعتراض سے حدیثوں کی حفاظت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ یہ سب اعتراض لاعلمی یا الحاد کا نتیجہ ہیں اور ان سب کا جواب علمائے اسلام نے بہترین طریقے سے دے دیا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور (یہ دعوی بلا دلیل نہیں بلکہ اس کا معجزہ ہونا اس پر دلیل ہے اور قرآن کے ایک اعجاز کا بیان تو دوسری سورتوں میں مذکور ہے کہ کوئی انسان اس کی ایک سورة کی مثل نہیں بنا سکتا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ) ہم اس (قرآن) کے محافظ (اور نگہبان) ہیں (اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا جیسا اور کتابوں میں ہوتا ہے یہ ایسا صریح معجزہ ہے جس کو ہر عام و خاص سمجھ سکتا ہے پہلا معجزہ کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور جامعیت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا اس کو تو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں مگر کمی بیشی نہ ہونے کو تو ایک ان پڑھ جاہل بھی دیکھ سکتا ہے)- معارف و مسائل :- مامون کے دربار کا ایک واقعہ :- امام قرطبی نے اس جگہ سند متصل کے ساتھ ایک واقعہ امیر المؤ منین مامون کے دربار کا نقل کیا ہے کہ مامون کی عادت تھی کہ کبھی کبھی اس کے دربار میں مسائل پر بحث ومباحثے اور مذاکرے ہوا کرتے تھے جس میں ہر اہل علم کو آنے کی اجازت تھی ایسے ہی ایک مذاکرہ میں ایک یہودی بھی آگیا جو صورت شکل اور لباس وغیرہ کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتا تھا پھر گفتگو کی تو اس نے بھی فصیح وبلیغ اور عاقلانہ گفتگو کی تھی جب مجلس ختم ہوگئی تو مامون نے اس کو بلا کر پوچھا کہ تم اسرائیلی ہو ؟ اس نے اقرار کیا مامون نے (امتحان لینے کے لئے) کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے۔- اس نے جواب دیا کہ میں تو اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے دین کو نہیں چھوڑتا بات ختم ہوگئی یہ شخص چلا گیا پھر ایک سال کے بعد یہی شخص مسلمان ہو کر آیا اور مجلس مذاکرہ میں فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر اور عمدہ تحقیقات پیش کیں مجلس ختم ہونے کے بعد مامون نے اس کو بلا کر کہا کہ تم وہی شخص ہو جو سال گذشتہ آئے تھے ؟ جواب دیا ہاں وہی ہوں مامون نے پوچھا کہ اس وقت تو تم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا پھر اب مسلمان ہونے کا سبب کیا ہوا ؟- اس نے کہا میں یہاں سے لوٹا تو میں نے موجودہ مذاہب کی تحقیق کرنے کا ارادہ کیا میں ایک خطاط اور خوشنویس آدمی ہوں کتابیں لکھ کر فروخت کرتا ہوں تو اچھی قیمت سے فروخت ہوجاتی ہیں میں نے امتحان کرنے کے لئے تورات کے تین نسخے کتابت کئے جن میں بہت جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کردی اور یہ نسخے لے کر میں کینسی میں پہنچا یہودیوں نے بڑی رغبت سے ان کو خرید لیا پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کمی بیشی کے ساتھ کتابت کر کے نصارے کے عبادت خانہ میں لے گیا وہاں بھی عیسائیوں نے بڑی قدرو منزلت کے ساتھ یہ نسخے مجھ سے خرید لئے پھر یہی کام میں نے قرآن کے ساتھ کیا اس کے بھی تین نسخے عمدہ کتابت کئے جن میں اپنی طرف سے کمی بیشی کی تھی ان کو لے کر جب میں فروخت کرنے کے لئے نکلا تو جس کے پاس لے گیا اس نے دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے مجھے واپس کردیا۔- اس واقعہ سے میں نے یہ سبق لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے اس لئے مسلمان ہوگیا قاضی یحییٰ بن اکثم اس واقعہ کے راوی کہتے ہیں کہ اتفاقا اسی سال مجھے حج کی توفیق ہوئی وہاں سفیان بن عیینہ سے ملاقات ہوئی تو یہ قصہ ان کو سنایا انہوں نے فرمایا بیشک ایسا ہی ہونا چاہئے کیونکہ اس کی تصدیق قرآن میں موجود ہے۔- یحیی ابن اکتم نے پوچھا قرآن کی کونسی آیت میں ؟ تو فرمایا کہ قرآن عظیم نے جہاں تورات و انجیل کا ذکر کیا ہے اس میں تو فرمایا بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ یعنی یہود و نصاری کو کتاب اللہ تورات و انجیل کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے یہی وجہ ہوئی کہ جب یہود و نصاری نے فریضہ حفاظت ادا نہ کیا تو یہ کتابیں مسخ و محرف ہو کر ضائع ہوگئیں بخلاف قرآن کریم کے کہ اس کے متعلق حق تعالیٰ نے فرمایا اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ یعنی ہم ہی اس کے محافظ ہیں اس لئے اس کی حفاظت حق تعالیٰ نے خود فرمائی تو دشمنوں کی ہزاروں کوششوں کے باوجود اس کے ایک نقطہ اور ایک زیر وزبر میں فرق نہ آسکا آج عہد رسالت کو بھی تقریبا چودہ سو برس ہوچکے ہیں تمام دینی اور اسلامی امور میں مسلمانوں کی کوتاہی اور غفلت کے باوجود قرآن کریم کے حفظ کرنے کا سلسلہ تمام دنیا کے مشرق ومغرب میں اسی طرح قائم ہے ہر زمانہ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان جوان بوڑھے لڑکے اور لڑکیاں ایسے موجود رہتے ہیں جن کے سینوں میں پورا قرآن محفوظ ہے کسی بڑے سے بڑے عالم کی بھی مجال نہیں کہ ایک حرف غلط پڑھ دے اسی وقت بہت سے بڑے اور بچے اس کی غلطی پکڑ لیں گے۔- حفاظت قرآن کے وعدے میں حفاظت حدیث بھی داخل ہے :- تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآنی کا نام ہے نہ صرف معانی قرآن کا بلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں اور اسلامی تصانیف میں تو عموما مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں مگر ان کو قرآن نہیں کہا جاتا کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ اور جملے لے کر ایک مقالہ یا رسالہ لکھدے تو اس کو بھی کوئی قرآن نہیں کہے گا اگرچہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہر کا نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کا نام ہے جس کے الفاظ اور معانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں۔- اسی سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی زبان اردو یا انگریزی وغیرہ میں جو صرف ترجمہ قرآن کا شائع کر کے لوگ اس کو اردو یا انگریزی قرآن کا نام دیتے ہیں یہ ہرگز جائز نہیں کیونکہ وہ قرآن نہیں اور جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن صرف الفاظ قرآن کا نام نہیں بلکہ معانی بھی اس کا ایک جزو ہیں تو حفاظت قرآن کی جو ذمہ داری اس آیت میں حق تعالیٰ نے خود اپنے ذمے قرار دی ہے اس میں جس طرح الفاظ قرآنی کی حفاظت کا وعدہ اور ذمہ داری ہے اسی طرح معانی اور مضامین قرآن کی حفاظت اور معنوی تحریف سے اس کے محفوظ رہنے کی بھی ذمہ داری اللہ تعالیٰ ہی نے لے لی ہے۔- اور یہ ظاہر ہے کہ معانی قرآنی وہی ہیں جن کے تعلیم دینے لے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا (آیت) لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ ۔ یعنی آپ کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ آپ بتلادیں لوگوں کو مفہوم اس کلام کا جو ان کے لئے نازل کیا گیا ہے اور یہی معنی اس آیت کے ہیں۔- يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اور اسی لئے آپ نے فرمایا انما بعثت معلما یعنی میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معانی قرآن کے بیان اور تعلیم کے لئے بھیجا گیا تو آپ نے امت کو جن اقوال و افعال کے ذریعہ تعلیم دی انہی اقوال و افعال کا نام حدیث ہے۔- مطلقا احادیث رسول کو غیر محفوظ کہنے والا درحقیقت قرآن کو غیر محفوظ کہتا ہے :- جو لوگ آج کل دنیا کو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ جو مستند کتب میں موجود ہے وہ اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ وہ زمانہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت بعد میں مدون کیا گیا ہے اول تو ان کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کیونکہ حدیث کی حفاظت و کتابت خود عہد رسالت میں شروع ہوچکی تھی بعد میں اس کی تکمیل ہوئی اس کے علاوہ حدیث رسول درحقیقت تفسیر قرآن اور معانی قرآن ہیں ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں معانی (یعنی احادیث رسول) ضائع ہوجائیں ؟
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] ، حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ- [ البقرة 238] وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] ، وَالْحافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحافِظاتِ [ الأحزاب 35] ، كناية عن العفّة، حافِظاتٌ لِلْغَيْبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ [ النساء 34] ، أي :- يحفظن عهد الأزواج عند غيبتهن بسبب أنّ اللہ تعالیٰ يحفظهنّ ، أي : يطّلع عليهنّ ، وقرئ :- بِما حَفِظَ اللَّهُ «1» بالنصب، أي : بسبب رعایتهن حقّ اللہ تعالیٰ لا لریاء وتصنّع منهن، وفَما أَرْسَلْناكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظاً- [ الشوری 48] ، أي : حافظا، کقوله : وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ [ ق 45] ، وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ [ الأنعام 107] ، فَاللَّهُ خَيْرٌ حافِظاً [يوسف 64] ، وقرئ : حفظا «2» أي : حفظه خير من حفظ غيره، وَعِنْدَنا كِتابٌ حَفِيظٌ [ ق 4] ، أي : حافظ لأعمالهم فيكون حَفِيظٌ بمعنی حافظ، نحو قوله تعالی: اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ [ الشوری 6] ، أو معناه : محفوظ لا يضيع، کقوله تعالی: عِلْمُها عِنْدَ رَبِّي فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى [ طه 52] ، والحِفَاظ : المُحَافَظَة، وهي أن يحفظ کلّ واحد الآخر، وقوله عزّ وجل : وَالَّذِينَ هُمْ عَلى صَلاتِهِمْ يُحافِظُونَ [ المؤمنون 9] ، فيه تنبيه أنهم يحفظون الصلاة بمراعاة أوقاتها ومراعاة أركانها، والقیام بها في غاية ما يكون من الطوق، وأنّ الصلاة تحفظهم الحفظ الذي نبّه عليه في قوله : إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنْكَرِ [ العنکبوت 45] ، والتَحَفُّظ : قيل : هو قلّة الغفلة «3» ، وحقیقته إنما هو تكلّف الحفظ لضعف القوة الحافظة، ولمّا کانت تلک القوة من أسباب العقل توسّعوا في تفسیر ها كما تری. والحَفِيظَة :- الغضب الذي تحمل عليه المحافظة أي : ما يجب عليه أن يحفظه ويحميه . ثم استعمل في الغضب المجرّد، فقیل : أَحْفَظَنِي فلان، أي :- أغضبني .- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ [ البقرة 238] سب نمازیں ۔۔ پورے التزام گے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْحافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحافِظاتِ [ الأحزاب 35] اور اپنے ستر کی حفاظت کرنیوالے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں میں حفظ فرج غفلت اور پاکدامنی ۔۔ سے کنایہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ حافِظاتٌ لِلْغَيْبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ [ النساء 34] اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں ( مال و آبرو کی ) خبر داری کرتی ہیں (4 ۔ 34) کے معنی یہ ہیں کہ اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے عہد کی حفاظت کرتی ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے ۔ اور ایک قرآت میں حفظ اللہ اللہ پر نصب کے ساتھ ہے اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کی نگہبانی کے لئے حفاظت کرتی ہیں نہ کہ کسی قسم کی ریاکاری اور تصنع کے طور پر ۔ اور آیت کریمہ :۔ توا سے پیغمبر تمہیں ہم نے انکا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔ میں حفیظ بمعنی حافظ یعنی نگہبان کے ہیں جیسا ک :۔ وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ [ ق 45] اور وما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ [ الأنعام 107] میں فعال اور فعیل بمعنی فاعل ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَاللَّهُ خَيْرٌ حافِظاً [يوسف 64] تو خدا ہی بہتر نگہبان ہے ۔ میں ایک قراءت حفظا ہے یعنی اس کی حفاظت دوسروں سے بہتر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛َ وَعِنْدَنا كِتابٌ حَفِيظٌ [ ق 4] اور ہمارے پاس تحریری یاد داشت بھی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب ان کے اعمال کی حفاظت کرنے والی ہے تو یہاں بھی حفیظ بمعنی حافظ ہے جیسا کہ : اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ [ الشوری 6] میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حفیظ بمعنی محفوظ ہو یعنی وہ کتاب ضائع نہیں ہوگی ۔ جیسے فرمایا : ۔ عِلْمُها عِنْدَ رَبِّي فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى [ طه 52] المحافظۃ والحفاظ ( مفاعلہ ) ایک دوسرے کی حفاظت کرنا اور آیت کریمہ ؛۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلى صَلاتِهِمْ يُحافِظُونَ [ المؤمنون 9] اپنی نماز کی خبر رک تھے ہیں ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات اور اس کے ارکان کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کی پابندی کرتے ہیں ۔ اور نماز ان کی حفاظت کرنی ہے ۔ یعنی وہ انہیں بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے جیسے فرمایا :۔ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنْكَرِ [ العنکبوت 45] کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔ التحفظ ۔ ( تفعل ) بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی عقل کی کمی کے ہیں اور اصل میں اس کے معنی قوت حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے تکلیف سے کسی چیز کو یاد کرنے کے ہیں ۔ اور قوت حافظہ چونکہ اسباب عقل سے ہے اس لئے اس کی تفسیر میں لوگوں نے وسعت سے کام لیا ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ۔ الحفیظۃ کے اصل معنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے غصہ اور حمیت سے کام لینے کے ہیں ۔ پھر یہ لفظ محض غصہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے کہا جاتا ہے ۔ احفظنی فلان ۔ یعنی فلاں نے مجھے غصہ دلایا ۔
(٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں کہ شیاطین میں سے کوئی بھی اس قرآن کریم میں کمی زیادتی نہیں کرسکتا اور نہ اس کے حکم میں کوئی تبدیلی کرسکتا ہے یا یہ کہ ہم کفار اور شیاطین سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محافظ ہیں۔
آیت ٩ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ )- یہ آیت مبارکہ بہت اہم ہے۔ جہاں تک اس کے پہلے حصے کا تعلق ہے تو یہ حکم تورات پر بھی صادق آتا ہے اور انجیل پر بھی۔ یعنی یہ دونوں کتابیں بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ قرآن میں اس کی بار بار تصدیق بھی کی گئی ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت ٤٤ میں تورات کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق اس طرح کی گئی ہے : (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ) ۔ سورة آل عمران کی آیت ٣ میں ان دونوں کتابوں کا ذکر فرمایا گیا : (وَاَنْزَلَ التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ) ۔ لیکن اس آیت کے دوسرے حصے میں جو حکم آیا ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی شان ہے۔ اس سے پہلے کسی الہامی کتاب یا صحیفۂ آسمانی کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سابقہ کتب کی ہدایات وتعلیمات حتمی اور ابدی نہیں تھیں۔ وہ تو گویا عبوری ادوار کے لیے وقتی اور عارضی ہدایات تھیں اور اس لحاظ سے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اب جبکہ ہدایت کامل ہوگئی تو اسے تا ابد محفوظ کردیا گیا۔- یہ آیت ختم نبوت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے۔ اگر سورة المائدۃ کی آیت ٣ کے مطابق قرآن میں ہدایت درجہ کاملیت تک پہنچ گئی اور آیت زیر نظر کے مطابق وہ ابدی طور پر محفوظ بھی ہوگئی تو وحی کے جاری رہنے کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ چناچہ قادیانیوں کے پاس ان دونوں قرآنی حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد (اور ان کے لیے انہیں تسلیم کیے بغیر چارا بھی نہیں) وحی کے جاری رہنے کے جواز کی کوئی عقلی و منطقی دلیل باقی نہیں رہ جاتی۔ وحی کی ضرورت ان دونوں میں سے کسی ایک صورت میں ہی ہوسکتی ہے کہ یا تو ابھی ہدایت کامل نہیں ہوئی تھی اور اس کی تکمیل کے لیے وحی کے تسلسل کی ضرورت تھی۔ یا پھر ہدایت کامل تو ہوگئی تھی مگر بعد میں غیر محفوظ ہوگئی یا گم ہوگئی اور اس وجہ سے پیدا ہوجانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے وحی کی ضرورت تھی۔ بہر حال اگر ان دونوں میں سے کوئی صورت بھی درپیش نہیں ہے تو سلسلہ وحی کے جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) عبث کام نہیں کرتا کہ ضرورت کے بغیر ہی سلسلۂ وحی کو جاری کیے رکھے۔- یہاں دو دفعہ (زیر نظر آیت سے قبل آیت ٦ میں بھی ) قرآن حکیم کے لیے ” الذکر “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورة ” ن “ کی آخری دو آیات میں بھی قرآن حکیم کے لیے یہ لفظ آیا ہے۔ ذکر کا مفہوم یاددہانی ہے۔ قرآنی فلسفے کے مطابق قرآن مجید کا ” الذکر “ ہونا اس مفہوم میں ہے کہ ایمانی حقائق خصوصی طور پر اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا علم انسانی روح کے اندر موجود ہے ‘ مگر اس علم پر ذہول (بھول اور غفلت) کا پردہ طاری ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک وقت میں انسان کو ایک چیز یاد ہوتی ہے مگر بعد میں یاد نہیں رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کے بارے میں معلومات اس کی یادداشت کے تہہ خانے میں دب جاتی ہیں۔ پھر بعد میں کسی وقت جونہی کوئی چیز ان معلومات سے متعلق سامنے آتی ہے تو انسان کے ذہن میں وہ بھولی بسری معلومات پھر سے تازہ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح ذہن میں موجود معلومات کو پھر سے تازہ کرنے والی چیز گویا یاد دہانی ( ) کا کام کرتی ہے۔ مثلاً ایک دوست سے آپ کی سالہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس کا خیال بھی کبھی نہیں آیا ‘ مگر ایک دن اچانک اس کا دیا ہوا ایک قلم یا رومال سامنے آنے سے اس دوست کی یاد یکدم ذہن میں تازہ ہوگئی۔ اس قلم یا رومال کی حیثیت گویا ایک نشانی (یا آیت ) کی ہے جس سے آپ کے ذہن میں ایک بھولی بسری یاد پھر سے تازہ ہوگئی۔ - اسی طرح اللہ کی ذات کا علم انسانی روح میں خفتہ ( ) حالت میں موجود ہے۔ اس علم کو پھر سے جگا کر تازہ کرنے اور اس پر پڑے ہوئے ذہول اور نسیان کے پردوں کو ہٹانے کے لیے آیات آفاقیہ ‘ آیات انفسیہ اور آیات قرآنیہ گویا یاد دہانی کا کام دیتی ہیں اور اللہ کی یاد کو انسان کے ذہن میں تازہ کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کو الذکر (یاد دہانی) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ ”ذکر“ جس کے لانے والے کو تم مجنون کہہ رہے ہو ، یہ ہمارا نازل کیا ہوا ہے ، اس نے خود نہیں گھڑا ہے ۔ اس لیے یہ گالی اس کو نہیں ہمیں دی گئی ہے ۔ اور یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو کہ تم اس ”ذکر“ کا کچھ بگاڑ سکو گے ۔ یہ براہ راست ہماری حفاظت میں ہے ۔ نہ تمہارے مٹائے مٹ سکے گا ، نہ تمہارے دبائے دب سکے گا ، نہ تمہارے طعنوں اور اعتراضوں سے اس کی قدر گھٹ سکے گی ، نہ تمہارے روکے اس کی دعوت رک سکے گی ، نہ اس میں تحریف اور ردوبدل کرنے کا کبھی کسی کو موقع مل سکے گا ۔
3: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، جیسا کہ سورۃ مائدہ آیت 44 میں فرمایا گیا ہے لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔