8۔ 1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت و مشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔
[٤] فرشتے کن کن حالات میں آتے ہیں ؟ ہم فرشتے نہ تو تماشہ دکھانے کے لیے اتارتے ہیں اور نہ اس لیے اتارتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ بلکہ فرشتے تو مجرموں پر قہرالٰہی بن کر آتے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں آئے تھے یا تمہاری جانیں نکالنے کے لیے آتے ہیں یا پھر کسی قوم کو صفحہ ئہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پھر جب یہ آجاتے ہیں تو تمہارا کام تمام کرکے چھوڑتے ہیں۔ اس وقت ان کے آنے کی نہ تمہیں آرزو ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے آنے کا تمہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آتے۔ لیکن جب وہ آتے ہیں تو اپنا کام کرکے جاتے ہیں۔ اس وقت مہلت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ ۔۔ : یعنی فرشتے تو عین اس وقت نازل ہوتے ہیں جب کسی شخص کی موت کا وقت آگیا ہو، یا کسی قوم پر عذاب کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہو، اس کے بعد انھیں مہلت نہیں دی جاتی۔
خلاصہ تفسیر :- (الا بالحق۔ میں لفظ حق سے مراد فیصلہ عذاب ہے اور بعض مفسرین نے قرآن یا رسالت کو مراد قرار دیا ہے بیان القرآن میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے یہ معنی حضرت حسن بصری سے منقول ہیں تفسیر آیات یہ ہے)- اور ان کفار (مکہ) نے (رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) یوں کہا اے وہ شخص جس پر (اس کے دعوے کے مطابق) قرآن نازل کیا گیا ہے تم (نعوذ باللہ) مجنون ہو ( اور نبوت کا غلط دعوی کرتے ہو ورنہ) اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے (جو ہمارے سامنے تمہارے صدق کی گواہی دیں کقولہ تعالیٰ (آیت) لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) ہم فرشتوں کو (جس طریق پر وہ درخواست کرتے ہیں) صرف فیصلہ ہی کے لئے نازل کیا کرتے ہیں اور (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی (ہم فرشتوں کو (جس طریق پر وہ درخواست کرتے ہیں) صرف فیصلہ ہی کے لئے نازل کیا کرتے ہیں اور (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی (بلکہ جب ان کے آنے پر بھی ایمان نہ لاتے جیسا کہ ان کے حالات سے ہی متیقن ہے تو فورا ہلاک کردئیے جاتے جیسا کہ سورة انعام کے اول رکوع کی اخیر آیتوں میں اس کی وجہ مذکور ہوچکی ہے)
مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
(٨) اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو صرف ہلاکت اور تمہاری ارواح قبض کرنے کے لیے نازل کیا کرتے ہیں اور جب ان پر فرشتے نازل کیے جاتے تو پھر ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی۔
آیت ٨ (مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ )- یعنی یہ لوگ فرشتوں کو بلانا چاہتے ہیں یا اپنی شامت کو ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عاد وثمود اور قوم لوط پر فرشتے نازل ہوئے تو کس غرض سے نازل ہوئے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فرشتے جب کسی قوم پر نازل ہوتے ہیں تو آخری فیصلے کے نفاذ کے لیے نازل ہوتے ہیں۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :5 ”یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فورا حاضر ہوئے ۔ نہ فرشتے اس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آکر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کریں اور پردہ غیب کا چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے ۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخری وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے ۔ اس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے ، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں ۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بے نقاب نہیں ہو جاتی ۔ اس کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال ۔ ” حق کے ساتھ اترتے ہیں“ کا مطلب ” حق لے کر اترنا “ ہے ۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں ۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالی کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں ۔
2: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اتارنے کی فرمائش کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے لیے کوئی پیغمبر بھیجا گیا ہو، اس کے پاس ہم فرشتے اس وقت اتارتے ہیں جب اس قوم کی نافرمانی حد سے گذر جاتی ہے، اور اس فیصلے کا وقت آجاتا ہے کہ اب ان پر عذاب نازل ہوگا۔ اور جب یہ فیصلہ کر کے فرشتے بھیج دئیے جاتے ہیں تو پھر اس قوم کو ایمان لانے کی مہلت نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں انسان سے جو ایمان مطلوب ہے وہ ایمان بالغیب ہے جس میں انسان اپنی عقل اور سمجھ کو کام میں لا کر اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ اگر غیب کی ساری چیزیں دنیا میں دکھا دی جائیں تو امتحان ہی کیا ہوا؟