Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] اللہ کی ہدایت قبول کرنے والوں کی صفات :۔ اگلی چند آیات میں چند ایسی صفات کا ذکر ہے۔ جنہیں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایات کو برحق تسلیم کرنے والے اپنی طرز زندگی میں اپناتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اس عہد سے مراد عہد الست ہے۔ جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ رزق پر ہی پرورش پا رہا ہے اور اسی کی عطا کردہ قوتوں کو استعمال کر رہا ہے تو اسے از خود یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ بندگی کے لائق بھی صرف وہی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسے محسن کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کی جائے تو یہ نمک حرامی ہوگی۔ ان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے کئے ہوئے عہد کو بھی نہیں توڑتے۔ اس میں خریدو فروخت، لین دین اور نکاح وغیرہ کے سب عہد شامل ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام روابط کا خیال رکھتے ہیں جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے۔ خواہ یہ روابط معاشرت سے تعلق رکھتے ہوں یا تمدن سے اور اس مد میں والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں مسکینوں اور ہمسایوں سب کے حقوق آجاتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملات سے یا مناکحات سے، ہر ایک معاملہ میں اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور اس کی گرفت سے ڈرتے ہیں اور پانچویں صفت یہ ہے کہ انھیں ہر وقت آخرت کی باز پرس کی فکر لگی رہتی ہے وہ اپنے نیک اعمال پر تکیہ نہیں کرتے بلکہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حساب کے مرحلہ کو آسان فرمادے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ : یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں، رشتوں کو نزدیک کے ہوں یا دور کے، ان کے مراتب کے مطابق ملاتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزو جل، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عام مسلمانوں، ہمسایوں، رشتہ داروں، دوستوں، یتیموں، بیواؤں، الغرض ہر ایک کا حق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔ - وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۔۔ : اس کے عائد کردہ فرائض کو بجا لاتے اور اس کے منع کردہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ راغب نے کہا : ” خشیت ایسا خوف ہے جس کے ساتھ تعظیم ملی ہوئی ہو، اکثر اس کا باعث علم ہوتا ہے۔ “ جیسے فرمایا : (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) [ فاطر : ٢٨ ] ” اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔ “ خوف سے مراد کوئی بھی ڈر ہے، بعض نے کہا، دونوں (خشیت اور خوف) ہم معنی ہیں، فرق اغلبی ہے، کلی نہیں۔ (آلوسی)- وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ : لہٰذا وہ اس وقت سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ ” سُوْۗءَ الْحِسَابِ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة رعد کی آیت (١٨) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری صفت اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں کی یہ بتلائی گئی وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ان کو قائم رکھتے ہیں اس کی مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ رشتہ داری کے تعلقات قائم رکھنے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے یہ لوگ ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل صالح کو یا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان کے ساتھ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی کتابوں پر ایمان کو ملا دیتے ہیں - چوتھی صفت یہ بیان فرمائی وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ یعنی یہ لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں یہاں لفظ خوف کے بجائے خشیہ کا لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا خوف اس طرح کا نہیں جیسے درندہ جانور یا موذی انسان سے طبعا خوف ہوا کرتا ہے بلکہ ایسا خوف ہے جیسے اولاد کو ماں باپ کا شاگرد کو استاد کا خوف عادۃ ہوتا ہے کہ اس کا منشا کسی ایذاء رسانی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ عظمت و محبت کی وجہ سے خوف اس کا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی قول وفعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند اور مکروہ نہ ہوجائے اسی لئے مقام مدح میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے خوف کا ذکر ہے عموما وہاں یہی لفظ خشیت کا استعمال ہوا ہے کیونکہ خشیت اسی خوف کو کہا جاتا ہے جو عظمت و محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسی لئے اگلے جملہ میں جہاں حساب کی سختی کا خوف بیان کیا گیا ہے وہاں خشیت کا لفظ نہیں بلکہ خوف ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے ارشاد فرمایا۔- وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَاب یعنی یہ لوگ برے حساب سے ڈرتے ہیں برے حساب سے مراد حساب میں سختی اور جز رسی ہے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ انسان کی نجات تو رحمت الہی سے ہو سکتی ہے کہ حساب اعمال کے وقت اجمال اور عفو و درگذر سے کام لیا جائے ورنہ جس شخص سے بھی پورا پورا ذرہ ذرہ کا حساب لیے لیا جائے اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کون ہے جس سے کوئی گناہ وخطاء کبھی سرزد نہ ہوا ہو یہ حساب کی سختی کا خوف نیک و فرمانبردار لوگوں کی پانچوں صفت ہے،- ٢ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم راہبانہ انداز سے ترک تعلقات کی نہیں بلکہ ضروری تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے ماں باپ کے حقوق، اولاد، بیوی، اور بہن بھائیوں کے حقوق، دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر لازم کئے ہیں ان کو نظرانداز کرکے نفلی عبادت میں یا کسی دینی خدمت میں لگ جانا بھی جائز نہیں دوسرے کاموں میں لگ کر ان کو بھلا دینا تو کیسے جائز ہوتا۔- صلہ رحمی اور رشتہ داری کے تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کی خبر گیری اور ادائے حقوق کی تاکید قرآن کریم کی بیشمار آیات میں مذکور ہے۔- اور بخاری ومسلم کی حدیث میں روایت انس (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی رزق میں وسعت اور کاموں میں برکت عطا فرماویں تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کے معنی یہی ہیں کہ جن سے رشتہ داری کے خصوصی تعلقات ہیں ان کی خبر گیری اور بقدر گنجائش امداد واعانت کرے۔- اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں والا اعرابی آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مجھے یہ بتلا دیجئے کہ وہ عمل کون سا ہے جو جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو (بغوی)- اور صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صلہ رحمی اتنی بات کا نام نہیں کہ تم دوسرے عزیز کے احسان کا بدلہ ادا کردو اور اس نے تمہارے ساتھ کوئی احسان کیا ہے تو تم اس پر احسان کردو بلکہ اصل صلہ رحمی یہ ہے کہ تمہارے رشتہ دار عزیز تمہارے حقوق میں کوتاہی کرے تم سے تعلق نہ رکھے تم پھر بھی محض اللہ کے لئے اس سے تعلق کو قائم رکھو اور اس پر احسان کرو۔ - رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے تعلقات کو نبھانے ہی کے خیال سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے نسب ناموں کو محفوظ رکھو جن کے ذریعہ تمہارے اپنے رشتہ دار محفوظ رہ سکیں اور تم ان کے حقوق ادا کرسکو پھر ارشاد فرمایا کہ صلہ رحمی کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور مال میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے)- اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بڑی صلہ رحمی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں سے وہی تعلقات قائم رکھے جو باپ کے سامنے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ 21۝ۭ- وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ )- وہ لوگ قرابت کے رشتوں کو جوڑتے ہیں یعنی صلۂ رحمی کرتے ہیں اور حساب آخرت کے نتائج کی برائی سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اس دن حساب کے نتائج منفی ہونے کی صورت میں کہیں ہماری شامت نہ آجائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :38 یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح منحصر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: یعنی اﷲ تعالیٰ نے جن تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں پوری طرح ادا کرتے ہیں۔ اس میں رشتہ داروں کے تمام حقوق بھی داخل ہیں، اور دینی رشتے سے جو حقوق پیدا ہوتے ہیں، وہ بھی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ان سب پر ایمان بھی لاتے ہیں، اور جن کی اطاعت کا حکم دیاہے، ان کی اطاعت بھی کرتے ہیں