منافق کا نفسیاتی تجزیہ ان بزرگوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں اور ان کے بھلے انجام کی خبر دی جا رہی ہے جو آخرت میں جنت کے مالک بنیں گے اور یہاں بھی جو نیک انجام ہیں ۔ وہ منافقوں کی طرح نہیں ہوتے کہ عہد شکنی ، غداری اور بےوفائی کریں ۔ یہ منافق کی خصلت ہے کہ وعدہ کر کے توڑ دیں ۔ جھگڑوں میں گالیاں بکیں ، باتوں میں جھوٹ بولیں ، امانت میں خیانت کریں ۔ صلہ رحمی کا ، رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا ، فقیر محتاج کو دینے کا ، بھلی باتوں کے نباہ نے کا ، جو حکم الہٰی ہے یہ اس کے عامل ہیں ۔ رب کا خوف دل میں رکھتے ہوئے فرمان الہٰی سمجھ کر نیکیاں کرتے ہیں ، بدیاں چھوڑتے ہیں ۔ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں ، اسی لئے برائیوں سے بچتے ہیں ، نیکیوں کی رغبت کرتے ہیں ۔ اعتدال کا راستہ نہیں چھوڑتے ۔ ہر حال میں فرمان الہٰی کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ گو نفس حرام کاموں اور اللہ کی نافرمانیوں کی طرف جانا چاہے لیکن یہ اسے روک لیتے ہیں اور ثواب آخرت یاد دلا کر مرضی مولا رضائے رب کے طالب ہو کر نافرمانیوں سے باز رہتے ہیں ۔ نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں ۔ رکوع ، سجدہ ، قعدہ ، خشوع خضوع شرعی طور بجا لاتے ہیں ۔ جنہیں دینا اللہ نے فرمایا ہے انہیں اللہ کی دی ہوئی چیزیں دیتے رہتے ہیں ۔ فقرا ، محتاج ، مساکین اپنے ہوں یا غیر ہوں ۔ ان کی برکتوں سے محروم نہیں رہتے ۔ چھپے کھلے ، دن رات ، وقت بےوقت ، برابر راہ للہ خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ قباحت کو احسان سے ، برائی کو بھلائی سے ، دشمنی کو دوستی سے ٹال دیتے ہیں ۔ دوسرا سرکشی کرے یہ نرمی کرتے ہیں ۔ دوسرا سر چڑھے یہ سر جھکا دیتے ہے ۔ دوسروں کے ظلم سہ لیتے ہیں اور خود نیک سلوک کرتے ہیں ۔ تعلیم قرآن ہے آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96 ) 23- المؤمنون:96 ) بہت اچھے طریقے سے ٹال دو تو دشمن بھی گاڑھا دوست بن جائے گا ۔ صبر کرنے والے ، صاحب نصیب ہی اس مرتبے کو پاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے اچھا انجام ہے ۔ بروج و بالا خانے وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالا خانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں ۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لئے ۔ ضحاک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیا ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے ۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے ارد گرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے ۔ ان کے بڑے باپ دادے ، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے ، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا جیسے آیت ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21 ) 52- الطور:21 ) جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لئے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں ۔ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کا پڑوس ، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام ۔ مسند کی حدیث میں ہے جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضا آ گئی ۔ رحمت کے فرشتوں کو حکم الہٰی ہو گا کہ جاؤ انہیں مبارک باد دو فرشتے کہیں گے اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں جناب باری جواب دے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے طبرانی میں ہے کہ سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے ، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے ، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں ۔ جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہو گی اس وقت ندا ہوگی کہ میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے ، میری راہ میں ستائے جاتے تھے ، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ ۔ اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی ؟ اللہ رب العزت فرمائے گا یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں ۔ اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہو گا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مومن سے پوچھا جائے گا ۔ مومن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا ۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا ۔ ایک روایت میں ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے آیت ( سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ 24ۭ ) 13- الرعد:24 ) اور اسی طرح ابو بکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم ( اس کی سند ٹھیک نہیں )
20۔ 1 یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام (اوامرو نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورة اعراف میں گزر چکی ہے۔ 20۔ 2 اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ ۔۔ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عقلوں والوں کی چند صفات بیان فرمائیں۔ ان میں سب سے پہلی صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد توحید کو پورا کرنا ہے، جیسا کہ سورة اعراف (١٧٢) میں ہے۔ ” وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ “ سے ہر اس عہد کو توڑنے سے اجتناب کرنا مراد ہے جسے پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پہلے خاص اپنے عہد کے بعد اب عام عہد کا ذکر فرمایا۔ ان منافقین کی طرح نہیں جن میں سے کوئی جب عہد کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے، جب جھگڑتا ہے تو بدکلامی پر اتر آتا ہے، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اسے کوئی امانت سونپی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔
تیسری آیت سے ان دونوں فریق کے خاص اعمال اور علامات کا بیان شروع ہوا ہے پہلے احکام الہیہ کے ماننے والوں کی صفات یہ ذکر فرمائی ہیں (آیت) الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں مراد اس سے وہ تمام عہد و پیمان ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لئے ہیں جن میں سب سے پہلا ربوبیت ہے جو ازل میں تمام ارواح کو حاضر کرکے لیا گیا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں جس کے جواب میں سب نے یک زبان ہو کر کہا تھا بلی یعنی کیوں نہیں آپ ضرور ہمارے رب ہیں اسی طرح تمام احکام الہی کی اطاعت تمام فرائض کی ادائیگی اور ناجائز چیزوں سے اجتناب کی منجانب اللہ وصیت اور بندوں کی طرف سے اس کا اقرار مختلف آیات قرآن میں مذکور ہے - دوسری صفت وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ ہے یعنی وہ کسی عہد ومیثاق کی خلاف ورزی نہیں کرتے اس میں وہ عہد و پیمان بھی داخل ہیں جو بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہیں جن کا ذکر ابھی پہلے جملے میں عَهْدِ اللّٰهِ کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور وہ عہد بھی جو امت کے لوگ اپنے نبی و رسول سے کرتے ہیں اور وہ معاہدے بھی جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے،- ابوداؤد نے بروایت عوف ابن مالک یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) اجمعین سے اس پر عہد اور بیعت لی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور پانچ وقت نماز کو پابندی سے ادا کریں گے اور اپنے امراء کی اطاعت کریں گے اور کسی انسان سے کسی چیز کا سوال نہ کریں گے۔- جو لوگ اس بیعت میں شریک تھے ان کا حال پابندی عہد میں یہ تھا کہ اگر گھوڑے پر سواری کے وقت ان کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تو کسی انسان سے نہ کہتے کہ یہ کوڑا اٹھا دو بلکہ خود سواری سے اتر کر اٹھاتے تھے،- یہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے دلوں میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عظمت اور جذبہ اطاعت کا اثر تھا ورنہ یہ ظاہر تھا کہ اس طرح کے سوال سے منع فرمانا مقصود نہ تھا جیسے حضرت عبداللہ ابن مسعود ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہو رہے تھے دیکھا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے ہیں اور اتفاق سے ان کے دخول مسجد کے وقت آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمہ نکلا کہ بیٹھ جاؤ عبداللہ بن مسعود جانتے تھے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سڑک پر یا بےموقع کسی جگہ کوئی ہے تو وہیں بیٹھ جائے مگر جذبہ اطاعت نے ان کو آگے قدم بڑھانے نہ دیا دروازہ سے باہر ہی جہاں یہ آواز کان میں پڑی اسی جگہ بیٹھ گئے - احکام و ہدایات :- مذکورہ آیات میں انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق خاص خاص احکام و ہدایات آئی ہیں بعض صراحۃ اور بعض اشارۃ مثلا۔- ١ الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ سے ثابت ہوا کہ جو معاہدہ کسی سے کرلیا جائے اس کی پابندی فرض اور اس کی خلاف ورزی حرام ہے خواہ وہ معاہدہ اللہ اور رسول سے ہو جیسے ایمانی یا مخلوقات میں کسی سے ہو خواہ مسلمان سے یا کافر سے عہد شکنی بہرحال حرام ہے،
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ 20ۙ- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔
(٢٠۔ ٢١) اور یہ حضرات خداوندی کی پوری طرح بجاآوری کرتے ہیں اور کبھی فرائض خداوندی کی ادائیگی کو ترک نہیں کرتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں یا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے پر قائم رہتے ہیں اور اپنے پروردگار کے حکم کی بجا آوری کرتے ہیں اور عذاب کی سختی سے ڈرتے ہیں۔
آیت ٢٠ (الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ )- قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت ١٧٧ میں بھی ہم ان سے ملتے جلتے یہ الفاظ پڑ ھ آئے ہیں : (وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا) ۔ اللہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں سے ایک تو وہ عہد الست ہے (بحوالہ الاعراف : ١٧٢) جو ہم نے عالم ارواح میں اللہ کے ساتھ کیا ہے پھر ہر بندۂ مؤمن کا میثاق شریعت ہے کہ میں اللہ کے تمام احکامات کی تعمیل کروں گا۔ پھر اللہ کا مؤمن کے ساتھ کیا گیا وہ سودا بھی ایک عہد ہے جس کا ذکر سورة التوبہ۔ آیت ١١١ میں ہے اور جس کے مطابق اللہ نے مؤمنین کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ آیت زیر نظر میں یہ ان خوش قسمت لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ساتھ کیے گئے تمام عہد درجہ بدرجہ پورے کرتے ہیں۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :37 اس سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر ۱۳٤ و ۱۳۵ ) ۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے ، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے ، اور اسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالی کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے ۔ خدا کے رزق سے پلنا ، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاق بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا ، الا یہ کہ نادانستہ کبھی احیانا اس سے کوئی لغزش ہو جائے ۔