Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف فی الواقع حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے ۔ حضرت یوسف کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے ۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں ۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں ۔ یقینا یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے ۔ یہ یاد رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی ( قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ١٣٦؁ ) 2- البقرة:136 ) میں سے لفظ اسباط پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا جاہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہاجاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے ۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف میں سے ایک کی نسل تھی ۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا واللہ اعلم ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ یوسف کا پاپ ہی کاٹو ۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے ۔ ہم ہی ہم نظر آئیں ۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے ۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو ۔ یا کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو ۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا ۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے ۔ بےوجہ ، بےقصور صرف عداوت میں آکر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں ۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف کی قوت ہی نہ تھی ۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف کو نبی بنائے ، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے ۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہوگئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو ۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو ۔ یہ رشتے داری کے توڑنے ، باپ کی نافرمانی کرنے ، چھوٹے پر ظلم کرنے ، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضلیت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں ۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں ۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ پھول سے نازک بےزبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے ۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی اس قصے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] قصہ یوسف اور سائلین یعنی کفار مکہ کے حالات میں مماثلت کی وجوہ :۔ یہ پوچھنے والے کفار مکہ تھے انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جواب میں جو سیدنا یوسف اور ان کے بھائیوں کے حالات زندگی آئے ہیں وہ خود انھیں کے حالات پر منطبق ہونے والے ہیں کفار مکہ اور برادران یوسف کے تقابلی مطالعہ میں جو عبرت کی نشانیاں یا وجوہ مماثلت پائی جاتی ہیں ان کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ ۔۔ : یہاں سے یوسف (علیہ السلام) کے قصے کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ ” اٰيٰتٌ“ ” آیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ عبرتیں، نصیحتیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں جو اس واقعہ میں ذکر ہوئی ہیں، چونکہ وہ بہت سی ہیں اور بہت سے لوگوں سے متعلق ہیں، مثلاً ایک طرف بھائیوں کی نفرت، حسد، بدگمانی، اس زمانے کے لوگوں کے حالات، آزاد لوگوں کو غلام بنا لینا، ان کا انداز حکومت، ان کے قوانین، شیطان کا بہکانا، اپنوں کے ظلم، پیاروں سے جدائی، بےوطنی، غلامی کے صدمے، حسن کی وجہ سے آنے والی آزمائشیں، عزیز کی بیوی کے عشق کی شورش اور طغیانی اور یوسف (علیہ السلام) کی عفت کا امتحان، پھر قید خانے کی آزمائش ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا اپنے کام پر غالب ہونے کا مظاہرہ ہے، یوسف (علیہ السلام) کا تمام دشمنوں، حاسدوں اور مخالفوں کی خواہش کے برعکس اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ کمالات علم و حکمت، اخلاص نیت، حسن عمل اور صبر و تقویٰ کی بدولت جیل اور غلامی سے نکل کر قرب شاہی اور حکومت کے وسیع اختیارات کا حصول ہے۔ جابر و ظالم بھائیوں کی ان کے سامنے بےبسی اور ان سے صدقے کے سوال پر مجبور ہونا ہے۔ پھر اس سارے عرصے میں یوسف (علیہ السلام) کا ہر زیادتی کرنے والے سے انتقام کے بجائے حسن سلوک، بےمثال صبر اور عفو و درگزر ہے اور آخر میں یوسف (علیہ السلام) کے خواب گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعبیر کا ظہور ہے اور اس تمام عظمت و رفعت کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کا آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ سے اسلام پر موت اور صالحین کے ساتھ ملانے کی دعا ہے۔ غرض ایک ایک بات اپنے اندر بہت سی نشانیاں اور عبرتیں رکھتی ہے۔ - لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ : یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے : ” منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی ؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر (رض) نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس (رض) سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس (رض) سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انھیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف (علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ “ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہل عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ )[ حٰآ السجدۃ : ١٠ ] ” اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔ “ اور جیسا کہ سموئل نے کہا ؂- سَلِیْ إِنْ جَھِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْھُمْ - فَلَیْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَھُوْلُ- ” اے مخاطبہ اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کرلے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “- اور انیف بن زبان نے کہا ہے ؂ - فَلَمَّا الْتَقَیْنَا بَیَّنَ السَّیْفُ بَیْنَنَا - لِسَاءِلَۃٍ عَنَّا حَفِیٍّ سُؤَالُھَا - ” تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کردیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔ “- عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ (التحریر والتنویر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- یوسف (علیہ السلام) کے اور ان کے (علاتی) بھائیوں کے قصہ میں (خدا کی قدرت اور آپ کی نبوت کے) دلائل موجود ہیں ان لوگوں کے لئے جو (آپ سے ان کو قصہ) پوچھتے ہیں (کیونکہ یوسف (علیہ السلام) کو ایسی بےکسی اور بےبسی سے سلطنت و حکومت تک پہنچا دینا یہ خدا ہی کا کام تھا جس سے مسلمانوں کے لئے عبرت اور قوت ایمان حاصل ہوگی اور یہود جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ پوچھا تھا ان کے لئے اس میں دلیل نبوت مل سکتی) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان (علاتی) بھائیوں نے (باہمی مشورہ کے طور پر) یہ گفتگو کی کہ (یہ کیا بات ہے کہ یوسف اور ان کا (حقیقی) بھائی (بنیامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں حالانکہ (وہ دونوں کم عمری کی وجہ سے ان کی خدمت کے قابل بھی نہیں اور) ہم ایک جماعت ہیں (کہ اپنی قوت و کثرت کی وجہ سے ان کی ہر طرح کی خدمت بھی کرتے ہیں) واقعی ہمارے باپ کھلی غلطی میں ہیں (اس لئے تدبیر یہ کرنی چاہئے کہ ان دونوں میں بھی زیادہ پیار یوسف سے ہے اس کو کسی طرح ان کے پاس سے ہٹانا چاہئے جس کی صورت یہ ہے کہ) یا تو یوسف کو قتل کر ڈالو یا اس کو کسی (دوردراز) سر زمین میں ڈال آؤ تو (پھر) تمہارے باپ کا رخ خالص تمہاری طرف ہوجاوے گا اور تمہارے سب کام بن جاویں گے انہی میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو (کہ وہ بڑا جرم ہے) اور ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دو (جس میں اتنا پانی نہ ہو جس میں ڈوبنے کا خطرہ ہو کیونکہ وہ تو قتل ہی کی ایک صورت ہے البتہ بستی اور راہ گذر سے بہت دور بھی نہ ہو) تاکہ انکو کوئی راہ چلتا مسافر نکال لے جائے اگر تم کو (یہ کام) کرنا ہی ہے (تو اس طرح کرو اس پر سب کی رائے متفق ہوگئی اور) سب نے (مل کر باپ سے) کہا کہ ابا اس کی کیا وجہ ہے کہ یوسف کے بارے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے (کہ کبھی کہیں ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے) حالانکہ ہم اس کے (دل وجان سے) خیرخواہ ہیں (ایسا نہ چاہئے بلکہ) آپ اس کو کل ہمارے ساتھ (جنگل) بھیجئے کہ ذرا وہ کھاویں کھیلیں اور ہم ان کی پوری حفاظت رکھیں گے، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (مجھے ساتھ بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حزن اور ایک خوف، حزن تو یہ کہ) مجھ کو یہ بات غم میں ڈالتی ہے کہ اس کو تم (میری نظروں کے سامنے سے) لے جاؤ اور (خوف یہ کہ) میں یہ اندیشہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جاوے اور تم (اپنے مشاغل میں) اس سے بیخبر رہو (کیونکہ اس جنگل میں بھیڑئیے بہت تھے) وہ بولے اگر اس کو بھیڑیا کھالے اور ہم ایک جماعت کی جماعت (موجود) ہوں تو ہم بالکل ہی گئے گذرے ہوے (غرض کہہ سن کر یعقوب (علیہ السلام) سے یہ ان کو لے کر چلے) تو جب ان کو (اپنے ساتھ جنگل) لے گئے اور (قرار داد سابق کے مطابق) سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیں (پھر اپنی تجویز پر عمل بھی کرلیا) اور (اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی کے لئے) ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ (تم مغموم نہ ہو ہم تم کو یہاں سے خلاصی دے کر بڑے رتبہ پر پہنچادیں گے اور ایک دن وہ ہوگا کہ) تم ان لوگوں کو یہ باتے جتلاؤ گے اور وہ تم کو (اس وجہ سے کہ غیر متوقع طور پر شاہانہ صورت میں دیکھیں گے) پہچانیں گے بھی نہیں (چنانچہ واقعہ اسی طرح پیش آیا کہ بھائی مصر پہنچنے اور آخرکار یوسف (علیہ السلام) نے ان کو جتلایا هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ یوسف (علیہ السلام) کا تو یہ قصہ ہوا) اور (ادھر) وہ لوگ اپنے باپ کے پاس عشاء کے وقت روتے ہوئے پہنچے (اور جب باپ نے رونے کا سبب پوچھا تو) کہنے لگے ابا ہم سب تو آپس میں دوڑ لگانے میں (کہ کون آگے نکلے) لگ گئے اور یوسف کو ہم نے (ایسی جگہ جہاں بھیڑیا آنے کا گمان نہ تھا) اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا بس (اتفاقا) ایک بھیڑیا (آیا اور) ان کو کھا گیا اور آپ تو ہمارا کا ہے کو یقین کرنے لگے گو ہم کیسے ہی سچے ہوں اور (جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آنے لگے تھے تو) یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے تھے (کہ کسی جانور کا خون ان کی قمیص پر ڈال کر اپنے قول کی سند کے لئے پیش کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے (دیکھا تو کرتا کہیں سے پھٹا نہیں تھا ( کمارواہ الطبری عن ابن عباس تو) فرمایا (یوسف کو بھیڑیئے نے ہرگز نہیں کھایا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو میں صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (صبرجمیل کی یہ تفسیر کہ اس کے ساتھ کوئی حرف شکایت نہ ہو طبری نے مرفوع حدیث کے حوالہ سے بیان کی ہے) اور جو باتیں تم بتاتے ہو ان میں اللہ ہی مدد کرے (کہ اس وقت مجھے ان پر صبر آجائے اور آئندہ تمہارا جھوٹ کھل جائے بہرحال حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر کر کے بیٹھ رہے) اور (یوسف (علیہ السلام) کا یہ قصہ ہوا کہ اتفاق سے ادھر) ایک قافلہ آ نکلا (جو مصر کو جا رہا تھا) اور انہوں نے اپنا آدمی پانی لانے کے واسطے (یہاں کنویں پر) بھیجا اور اس نے اپنا ڈول ڈالا (یوسف (علیہ السلام) نے ڈول کو پکڑ لیا جب ڈول باہر آیا اور یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو خوش ہو کر) کہنے لگا بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا (قافلہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی خوش ہوئے) اور ان کو مال (تجارت) قرار دے کر (اس خیال سے) چھپالیا (کہ کوئی دعویدار نہ کھڑا ہوجائے تو پھر اس کو مصر لے جا کر بڑی قیمت پر فروخت کریں گے) اور اللہ کو ان سب کی کارگزاریاں معلوم تھیں (ادھر وہ بھائی بھی آس پاس لگے رہتے اور کنویں میں یوسف کی خبرگیری کرتے کچھ کھانا بھی پہنچاتے جس سے مقصد یہ تھا کہ یہ ہلاک بھی نہ ہوں اور کوئی آ کر انھیں کسی دوسرے ملک میں لے جائے اور یعقوب (علیہ السلام) کو خبر نہ ہو اس روز جب یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں نہ دیکھا اور پاس ایک قافلہ پڑا دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچنے یوسف (علیہ السلام) کا پتہ لگ گیا تو قافلہ والوں سے کہا کہ ہمارا غلام ہے بھاگ کر آگیا تھا اور اب ہم اس کو رکھنا نہیں چاہتے) اور (یہ بات بنا کر) ان کو بہت ہی کم قیمت پر (قافلہ والوں کے ہاتھ) بیچ ڈالا یعنی گنتی کے چند درہم کے بدلے میں اور (وجہ یہ تھی کہ) یہ لوگ کچھ ان کے قدر دان تو تھے ہی نہیں (کہ ان کو عمدہ مال سمجھ کر بڑی قیمت سے بیچتے بلکہ ان کا مقصد تو ان کو یہاں سے ٹالنا تھا)- معارف و مسائل :- سورة یوسف کی مذکور بالا آیتوں میں سے پہلی آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس سورة میں آنے والے قصہ یوسف (علیہ السلام) کو محض ایک قصہ نہ سمجھو بلکہ اس میں سوال کرنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور ہدایتیں ہیں اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا ان کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر مدینہ طیبہ میں پہنچی تو یہاں کے یہودیوں نے اپنے چند آدمی اس کام کے لئے مکہ معظمہ بھیجے کہ وہ جاکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کریں اسی لئے یہ سوال ایک مبہم انداز میں اس طرح کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے نبی ہیں تو یہ بتلائیے کہ وہ کونسا پیغمبر ہے جس کا ایک بیٹا ملک شام سے مصر لے جایا گیا اور باپ اس کے غم میں روتے روتے نابینا ہوگئے،- یہ واقعہ یہودیوں نے اس لئے انتخاب کیا تھا کہ نہ اس کی کوئی عام شہرت تھی نہ مکہ میں کوئی اس واقعہ سے واقف تھا اور اس وقت مکہ میں اہل کتاب میں سے بھی کوئی نہ تھا جس سے بحوالہ تورات و انجیل اس قصہ کا کوئی جزء معلوم ہوسکتا ان کے اس سوال پر ہی پوری سورة یوسف نازل ہوئی جس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) کا پورا قصہ مذکور ہے اور اتنی تفصیل سے مذکور ہے کہ تورات و انجیل میں بھی اتنی تفصیل نہیں اس لئے اس کا بیان کرنا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا ہوا معجزہ تھا،- اور اس آیت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قطع سوال یہود کے خود یہ واقعہ ایسے امور پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے بڑی ہدایتیں اور احکام و مسائل موجود ہیں کہ جس بچہ کو بھائیوں نے ہلاکت کے غار میں ڈال دیا تھا اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور کس طرح اس کی حفاظت کی اور اپنے خاص بندوں کو اپنے احکام کی پابندی کا کس قدر گہرا رنگ عطا فرمایا کہ نوجوانی کے زمانے میں تعیش کا بہترین موقع ملتا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے خوف سے نفس کی خواہشات پر کیسا قابو پاتے ہیں کہ صاف اس بلا سے نکل جاتے ہیں اور یہ کہ جو شخص نیکی اور تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے مخالفین کے مقابلہ میں کیسی عزت دیتے ہیں اور مخالفین کو اس کے قدموں میں لا ڈالتے ہیں یہ سب عبرتیں اور نصحیتیں اور قدرت الہیہ کی عظیم نشانیاں ہیں جو ہر تحقیق کرنے والے اور غور کرنے والے کو معلوم ہو سکتی ہیں (قرطبی ومظہری)- اس آیت میں یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر ہے ان کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے یوسف (علیہ السلام) سمیت بارہ لڑکے تھے ان میں سے ہر لڑکا صاحب اولاد ہوا سب کے خاندان پھیلے چونکہ یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اس لئے یہ سب بارہ خاندان بنی اسرائیل کہلائے،- ان بارہ لڑکوں میں دس بڑے لڑکے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت لیا بنت لیان کے بطن سے تھے ان کی وفات کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے لیّا کی بہن راحیل سے نکال کرلیا ان کے بطن سے دو لڑکے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین پیدا ہوئے اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین تھے باقی دس علاتی یعنی باپ شریک تھے یوسف (علیہ السلام) کی والدہ راحیل کا انتقال بھی ان کے بچپن ہی میں بنیامین کی ولادت کے ساتھ ہوگیا تھا (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝ ٧- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧) یوسف (علیہ السلام) اور ان کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لیے دلائل موجود ہیں، یہ آیت علماء یہود کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ( لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ )- یعنی جن لوگوں ( قریش مکہ) نے یہ سوال پوچھا ہے اور جن لوگوں (یہود مدینہ) کے کہنے پر پوچھا ہے ان سب کے لیے اس قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر وہ صرف اس ایک قصے کو حقیقت کی نظروں سے دیکھیں اور اس پر غور کریں تو بہت سے حقائق نکھر کر ان کے سامنے آجائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یہ بظاہر ان کافروں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال پوچھا تھا کہ بنو اسرائیل کس وجہ سے فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہوئے تھے؟ یعنی اگرچہ ان کے پوچھنے کا اصل مقصد تو اپنے خیال کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے بس کرنا ہے، لیکن اگر ان میں ذرا بھی عقل ہو تو اس واقعے میں ان کے لیے بہت سی عبرتیں ہیں۔ اول تو یہ سبق ہی کیا کم ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر اس واقعے کا جاری ہونا آپ کی نبوت کی کھلی دلیل ہے۔ دوسرے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف جتنی ساشیں کی گئیں، چاہے وہ ان کے بھائیوں نے کی ہوں، یا زلیخا اور اس کی سہیلیوں نے، آخر کار ان ساری سازشوں کا پول کھل گیا، اور عزت اور فتح تمام تر حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے حصے میں آئی۔