33۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعا اپنے دل میں کی۔ اس لئے کہ ایک مومن کے لئے دعا بھی ایک ہتھیار ہے۔ حدیث میں آتا ہے، سات آدمیوں کو قیامت والے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے ایک ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن و جمال سے بھی آراستہ ہو اور جاہ و منصب کی حامل ہو۔ لیکن وہ اس کے جواب میں کہہ دے کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں (صحیح بخاری)
[٣٢] مصری تہذیب کی فحاشی کا نمونہ :۔ غور فرمائیے۔ یہ دور سیدنا یوسف کے لیے کس قدر ابتلاء کا دور تھا۔ پہلے ایک عورت پیچھے پڑی تھی۔ اب شہر بھر کے رؤسا کی حسین و جمیل بیگمات آپ کے پیچھے پڑگئیں جو زبانی تو سیدنا یوسف کو زلیخا کی بات مان لینے اور قید سے بچ جانے کی تلقین کر رہی تھیں مگر حقیقتاً ان میں سے ہر ایک انھیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آپ کا شہر میں آزادانہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اب آپ کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے تھے۔ ایک یہ کہ ان عورتوں کی بات مان لیں اور دوسرے یہ کہ قید ہونا گوارا کرلیں۔ ضمناً اس واقعہ سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بےحیائی کس قدر عام تھی اور اس فحاشی کے سلسلہ میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بےباکی حاصل تھی اور ان کے مقابلہ میں مرد کتنے کمزور تھے یا کس قدر دیوث تھے ؟- سیدنا یوسف کی دعا اور قید کو ترجیح :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف نے اپنے آپ پروردگار سے ہی فریاد کی کہ اس دور ابتلاء میں تو ہی مجھے ثابت قدم رکھ سکتا ہے اور ان عورتوں کی مکاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ میں تو اس گندے ماحول سے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قید کی مشقت گوارا کرلوں۔- [٣٣] عالم بےعمل جاہل :۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے وہ شرعی اعتبار سے جاہل ہے اور جاہل کے لفظ کا اس پر اطلاق ہوسکتا ہے۔
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ ً ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) کے لیے یہ سخت امتحان کا وقت تھا، ان کے سامنے ایک طرف معصیت، یعنی اللہ کی نافرمانی ہے جس کے نتیجے میں ان کی ہر طرح ناز برداری ہوتی۔ دوسری طرف مصیبت ہے جو قید کی صورت میں ہے اور عزیز مصر کی بیوی قسم کھا کر (لام تاکید اور نون تاکید قسم کا فائدہ دیتے ہیں) اپنی حکم عدولی کی صورت میں قید کروانے کا عزم ظاہر کر رہی ہے۔ اس امتحان میں اللہ کے خاص بندے کبھی معصیت الٰہی کو ترجیح نہیں دیتے، بلکہ مصیبت قبول کرکے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ : الإِْمَامُ الْْعَادِلُ ، وَ شَابٌّ نَشَأَ فِيْ عِبَادَۃِ رَبِّہِ ، وَ رَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلٰی ذٰلِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَ جَمَالٍ فَقَالَ اِنِّيْ أَخَاف اللّٰہَ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَی حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ )” سات آدمی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس (کے عرش) کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا : 1 عادل حکمران۔ 2 وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوو نما پائی۔ 3 وہ آدمی جس کا دل مسجدوں سے اٹکا ہوا ہے۔ 4 وہ دو آدمی جنھوں نے اللہ ہی کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کی، اسی پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ 5 وہ آدمی جسے کسی اثر و رسوخ اور حسن و جمال والی عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہا : میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ 6 وہ آدمی جس نے صدقہ کیا اور اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ 7 وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔ : ٦٦٠۔ مسلم : ١٠٣١ ] یا اللہ تو اپنے فضل سے ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرما۔ (آمین)- ” يَدْعُوْنَنِيْٓ“ اور ” كَيْدَهُنَّ “ (جمع مؤنث کے صیغوں) سے پوری مجلس دعوت گناہ دینے کے لیے آراستہ کرنا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ بالتفصیل اوپر گزرا۔ ” اَصْبُ “ ” صَبَا یَصْبُوْ “ سے ہے جس کا معنی مائل ہونا ہے۔ اصل میں ” اَصْبُوْ “ تھا، ” وَاِلَّا تَصْرِفْ “ کا جواب ہونے کی وجہ سے واؤ گرگئی۔ اس آیت سے دو نہایت اہم سبق ملتے ہیں، ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ مدد نہ کرے اور اس کی دستگیری نہ ہو تو کوئی شخص بھی اپنے آپ کو گناہ سے، خصوصاً عورتوں کے فتنے سے نہیں بچا سکتا، دوسرا یہ کہ جب کوئی شخص اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں۔ یہ ہے یوسف (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا کہ عفت و پاک دامنی پر ثابت قدم رکھنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آ کر گناہ کی طرف مائل ہوجاؤں گا۔
اور قرآن کریم کے بعض الفاظ جو آگے آتے ہیں ان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے مثلا يَدْعُوْنَنِي اور كَيْدِكُنَّ جن میں چند عورتوں کا قول بصیغہ جمع ذکر کیا گیا ہے،- حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ یہ عورتیں بھی اس کی موافقت اور تائید کر رہی ہیں اور ان کے مکر وکید سے بچنے کی ظاہری کوئی تدبیر نہ رہی تو پھر اللہ جل شانہ کی طرف ہی رجوع فرمایا اور بارگاہ رب العزت میں عرض کیا رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ یعنی اے میرے پالنے والے یہ عورتیں مجھے جس کام کی طرف دعوت دیتی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر آپ ہی ان کے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں تو ممکن ہے کہ میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں اور نادانی کا کام کر بیٹھوں یوسف (علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ جیل خانہ مجھے پسند ہے کوئی قید و بند کی طلب یا خواہش نہیں بلکہ گناہ کے مقابلہ میں اس دنیوی مصیبت کو آسان سمجھنے کا اظہار ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) قید میں ڈالے گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ آپ نے قید میں اپنے آپ کو خود ڈالا ہے کیونکہ آپ نے کہا تھا السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ یعنی اس کی نسبت مجھ کو جیل خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر آپ عافیت مانگتے تو آپ کو مکمل عافیت مل جاتی اس سے معلوم ہوا کہ کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لئے دعاء میں یہ کہنا کہ اس سے تو یہ بہتر ہے کہ فلاں چھوٹی مصیبت میں مجھے مبتلاکر دے مناسب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہر مصیبت اور بلاء کے وقت عافیت ہی مانگنی چاہئے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر کی دعاء مانگنے سے ایک شخص کو منع فرمایا کہ صبر تو بلاء و مصیبت پر ہوتا ہے تو اللہ سے صبر کی دعاء مانگنے کے بجائے عافیت کی دعاء مانگو (ترمذی) اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ مجھے کوئی دعاء تلقین فرما دیجئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے رب سے عافیت کی دعاء مانگا کریں حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تلقین دعاء کا سوال کیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی عافیت مانگا کریں (مظہری ازطبرانی )- اور یہ فرمانا کہ اگر آپ ان کے مکر وکید کو دفع نہ کریں گے تو ممکن ہے کہ میں انکی طرف مائل ہوجاؤں یہ عصمت نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ عصمت کا تو حاصل ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو گناہ سے بچانے کا تکوینی طور پر انتظام فرما کر اس کو گناہ سے بچا لیں اور گو بمقتضاء نبوت یہ مقصد پہلے ہی سے حاصل تھا مگر پھر بھی غایت خوف ادب سے اس کی دعاء کرنے پر مجبور ہوگئے،- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر گناہ کا کام جہالت سے ہوتا ہے علم کا تقاضا گناہوں سے اجتناب ہے (قرطبی)
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْہِ ٠ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَيْہِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰہِلِيْنَ ٣٣- سجن - السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33]- ( س ج ن ) السجن - ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔
(٣٣) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اے میرے پروردگار جس فضول کام کی طرف یہ مجھے بلارہی ہیں اس سے تو جیل میں جانا ہی مجھے بہتر ہے۔- اور اگر آپ انکے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں گے تو ان کی صلاح کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور آپ کی نعمت سے نادان ہوجاؤں گا یا یہ کہ نادانی کا کام کر بیٹھوں گا۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :28 یہ آیات ہمارے سامنے ان حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام مبتلا تھے ۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے ۔ غریبی ، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے ۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے ۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں ۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں ۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے ۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے ، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ میلان پیدا ہو وہ فورا اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں ۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے ان بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں ۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے ۔ مگر ضبط نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں ، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے ۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب ، میں ایک کمزور انسان ہوں ، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں ، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا ، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں ۔ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا ۔ دیانت ، امانت ، عفت ، حق شناسی ، راست روی ، انضباط ، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جو اب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے ، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں ابھر آئیں ، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں ۔
22: بعض روایات میں ہے ان عورتوں نے جو پہلے زلیخا کو ملامت کر رہی تھیں، حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھنے بعد اُلٹی حضرت یوسف علیہ السلام کو نصیحت کرنی شروع کردی کہ تمہیں اپنی مالکہ کا کہنا ماننا چاہئے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عورتوں میں بھی کچھ نے انہیں تنہائی میں نصیحت کے بہانے بلا کر گناہ کی دعوت دینی شروع کی۔ اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی دُعا میں صرف زلیخا کا نہیں، بلکہ تمام عورتوں کا ذکر فرمایا۔