Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی بنی نوع انسان کی اکثریت ایسی ہی تھی جو احسن تقویم پر برقرار رہنے کے بجائے اسفل السافلین کی پستی تک جا پہنچی۔ پھر انہی قوموں پر اللہ کے عذاب آتے رہے اور وہ تباہ و برباد ہوتی رہیں۔ نبی ہمیشہ اس وقت مبعوث کیے جاتے ہیں جب کوئی قوم اسفل السافلین کی پستیوں میں جاگرتی ہے پھر ان انبیاء پر بھی تھوڑے ہی لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔ پھر ان ایمان لانے والوں اور اعمال صالح بجا لانے والوں کی نسلیں بھی بعد میں انتشار، شرکیہ عقائد یا ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا ہوجاتی ہے جو ایمان بالآخرت کو عملاً باطل بنا دیتے ہیں اور صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو انبیاء پر صحیح طور پر ایمان لاتے، صحیح عقائد پر قائم رہتے اور انہیں عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ یہی لوگ اس صفت احسن تقویم کا حق ادا کرتے ہیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا اور انہی لوگوں کے لیے اخروی نجات اور غیر منقطع اجر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(الا الذین امنوا و عملوا الصلحت…: اور اگر یہ احسن تقویم کے مطابق ایمان لا کر عمل صالح کرے تو اس کو ایسا اجر ملے گا جو کبھی نمنقطع نہیں ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس تفسیر پر اگلی آت میں جو مؤمنین صالحین کے استثناء یعنی الا الذین امنو وعملو الصلحت قلھم اجر غیر ممنون کا ذکر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر بڑھاپے میں کے حالات اور عجز و درماندگی نہیں آتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جسمانی بیکاری اور مادی خرابی کا نقصان ان کو نہیں پہنچتا بلکہ نقصان صرف ان لوگو کو پہنچتا ہے جنہوں نے اپنی ساری فکر اور توانائی اسی مادی درستی پر خرچ کی تھی وہ اب ختم ہوگئی اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں بخلاف مؤمنین صالحین کے کہ ان کا اجر وثواب کبھی قطع ہونیوالا نہیں۔ اگر دنیا میں بڑھاپے کی بیماری کمزوری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری میں بھی عمل کم ہوجانے کے باوجود ان کے نامہ اعمال میں وہ سب اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کلھنے والے فرشتے کو حکم دیدیتے ہیں کہ جو جو عمل خیر یہ اپنی تندرستی میں کیا کرتا تھا وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھتے رہو (رواہ البغوی فی شرح السنہ و البخاری عن ابی موسیٰ مثلہ فی المریض والمسافر) اس کے علاوہ اس مقام پر مؤمنین صالحین کی جزاء جنت اور اس کی نعمتوں کو بیان کرنے کے بجائے لھم اجرغیر ممنون فرمایا ہے یعنی ان کا اجر کبھی مقطوع و منقطع ہونیوکالا نہیں۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ صلہ دنیا کی مادی زندگی ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے لئے بڑھاپے اور صنعف میں ایسے مخلف رفقاء مہیا فرما دیتے ہیں جو ان کے آخری لمحہ تک ان سے روحانی فوائد اٹھاتے ہیں اور ان کی ہر طرح کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح بڑھاپے کا وہ وقت جب انسان مادی اور جسمانی طور پر معطل بیکار اور لوگوں پر بار سمجھا جاتا ہے، اللہ کے یہ بندے اس وقت بھی بیکار نہیں ہوتے اور بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ رددنہ اسفل سفلین عام انسانوں کے لئے نہیں بلکہ کفار و فجار کے لئے ہے۔ جنہوں نے خدا داد احسن تقویم اور انسانی کمالات و شرافت اور عقل کو مادی لذائذ کے پیچھے برباد کردیا تو اس ناشکری کی سزا میں ان کو اسفل السلافلین میں پہنچا دیا جائے گا، اس صورت میں الا الذین امنوا کا استثناء اپنے ظاہری مفہوم پر رہتا ہے کہ اسفل سافلین میں پہنچنے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور عمل صالح کے پابند رہے کیونکہ ان کا اجر ہمیشہ جاری رہے گا۔ (کذافی المظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝ ٦ ۭ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - مَمْنُونٍ- - هو المنّة بالقول، وذلک أن يمتنّ به ويستکثره، وقیل معناه : لا تعط مبتغیا به أكثر منه، وقوله : لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] قيل : غير معدود کما قال : بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] وقیل : غير مقطوع ولا منقوص . ومنه قيل : المَنُون للمَنِيَّة، لأنها تنقص العدد وتقطع المدد .- وقیل : إنّ المنّة التي بالقول هي من هذا، لأنها تقطع النّعمة وتقتضي قطع الشّكر،- بعض نے کہا ہئ کہ منہ بالقول مراد ہے یعنی احسان جتلانا اور اسے بہے بڑا خیال کرنا ۔ بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے زیادہ کی طلب کے لئے احسان نہ کر اور آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] ان کے لئے بےانتہا اجر ہے ۔ میں بعض نے غیر ممنون کے معنی غیر محدود یعنی ان گنت کئے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ بغیر حساب فرمایا ہے : ۔ بعض نے اس معنی غیر مقطوع ولا منقوص کئے ہیں یعنی ان کا اجر نہ منقطع ہوگا اور نہ سہی کم کیا جائے گا ۔ اسی سے المنون بمعنی موت ہے کیونکہ وہ تعداد کو گھٹاتی اور عمر کو قطع کردیتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے “- اب مذکورہ پستی سے صرف وہی لوگ نکل پائیں گے جو اپنے شعور و حواس سے کام لیتے ہوئے اپنے خالق اور معبود کو پہچانیں گے یعنی اس پر ایمان لائیں گے اور پھر محنت کر کے اپنے کردار و عمل کو اس کی منشاء ومرضی کے مطابق ڈھالیں گے ‘ یعنی اعمال صالحہ کا اہتمام کریں گے۔ - فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۔ ” تو ان کے لیے ایسا اجر ہوگا جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :5 جن مفسرین نے اسفل سافلین سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت کی ہے جس میں انسان اپنے ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں ان کے لیے بڑھاپے کی اس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جا ئیں گی اور انہی کے مطابق وہ اجر پائیں گے ۔ ان کے اجر میں اس بات پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اس دور میں ان سے وہ نیکیاں صادر نہیں ہوئیں ۔ اور جو مفسرین اسفل سافلین کی طرف پھیرے جانے کا مطلب جہنم کے ادنی ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں ، وہ اس درجہ کی طرف سے مناسبت نہیں رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اس سورت میں کہا گیا ہے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اخلاقی پستی میں جو گرنے والے لوگ گرتے گرتےسب نیچوں سے نیچ ہو جاتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی زندگی عمل صالح کے سانچے میں ڈھال لی وہ اس پستی میں گرنے سے بچ گئے اور اسی احسن تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا ، اس لیے وہ اجر غیر ممنون کے مستحق ہیں ، یعنی ایسے اجر کے جو نہ ان کے استحقاق سے کم دیا جائے گا ، اور نہ اس کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani