Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ جواب قسم ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے صرف انسان کو دراز قد، سیدھا بنایا ہے جو اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے، پھر اس کے اعضا کو نہایت تناسب کے ساتھ بنایا، ان میں جانوروں کی طرح بےڈھنگا پن نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] انسان کی دوسرے جانداروں پر فضیلت کن باتوں میں ؟ اولوالعزم انبیاء کے مساکن کی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کھائی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ اسے جسم سیدھا اور استوار دیا گیا ہے جو اور کسی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ پھر اسے فکر و فہم، علم و عقل، قیاس و استنباط اور علت و معلول سے نتائج اخذ کرنے کی جو قوتیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ اور کسی مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ آدم کو مسجود ملائکہ بنایا گیا۔ زمین اور اس میں موجود اشیاء کو اس کے لیے مسخر کردیا گیا۔ انبیاء اسی نوع سے مبعوث ہوئے جو اللہ کے ہاں افضل الخلائق ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لقد خلقنا الانسان…: قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ سر زمین شام میں پیدا ہونے والے جلیل القدر پیغمبروں اور طور سینا اور شہر مکہ کی شہرت کا باعث بننے والے پیغمبروں کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان چار چزیوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم تقویم کے لفظی معنے کسی چیز کے قوام اور بنیاد کو درست کرنے کے ہیں۔ احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ اس کی جبلت و فطرت کو بھی دوسری مخلوقت کے اعتبار سے احسن بنایا گیا اور اس کی جسمانی ہئیت اور شکل و صورت کو بھی دنیا کے سب جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا۔- انسان تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین ہے :۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین بنایا ہے۔ ابن عربی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں انسان سے احسن نہیں کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے حیات کیساتھ عالم، قادر، متکلم، سمیع، بصیر، مدبر اور حکیم بنایا ہے اور یہ سب صفات دراصل خود حق سبحانہ، و تعالیٰ کی ہیں۔ چناچہ بخاری و مسلم کی روایت میں آیا کہ ان اللہ خلق ادم علی صورتہ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پیر پیدا فرمایا ہے۔ مراد اس سے یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا کوئی درجہ اس کو بھی دیا گیا ہے ورنہ حق تعالیٰ ہر شکل و صورت سے بری ہے۔ (قرطبی) - محسن انسانی کا ایک عجیب واقعہ :۔ قرطبی نے اس جگہ نقل کیا ہے کہ عیسیٰ بن موسیٰ ہاشمی جو خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار کے مخصوص لوگوں میں سے تھے اور اپنی بیوی سے بہت محبت رکھتے تھے ایک روز چاندی رات میں بیوی کے ساتھ بیٹھے ہوئے بول اٹھے انت طالق ثلاثاً ان لم تکونی احسن من القمر یعنی تم پر تین طلاق ہیں، اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہو، یہ کہتے ہی بیوی اٹھ کر پردہ میں چلی گئی کہ آپ نے مجھے طلاق دیدی، بات ہنسی دل لگی کی تھی مگر طلا قکا حکم یہی ہے کہ کسی طرح بھی طلاق کا صریح لفظ بیوی کو کہہ دیا جائے تو طلاق ہوجاتی ہے خواہ ہنسی دل لگی ہی میں کیا جائے۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے رات بڑی بےچینی اور رنج و غم میں گزاری صبح کو خلیفہ وقت ابوجعفر منصور کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا قصہ سنایا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ منصور نے شہر کے فقہا اہل فتویٰ کو جمع کر کے سوال کیا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ طلاق ہوگئی کیونکہ چاند سے زیادہ حسین ہونے کا کسی انسان کے لئے امکان ہی نہیں، مگر ایک عالم جو امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے تھے خاموش بیٹھے رہے۔ منصور نے پوچھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں تب یہ بولے اور بسم اللہ الرحمٰٓن الرحیم پھڑ کر سورة تین تلاوت کی اور فرمایا کہ امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا احسن تقویم میں ہونا بیان فرما دیا ہے، کوئی شئے اس سے زیادہ حسین نہیں۔ یہ سن کر سب علماء فقہا حیرت میں رہ گئے کوئی مخالفت نہیں کی اور منصور نے حکم دے دیا کہ طلاق نہیں ہوئی۔- اس سے معلوم ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سب سے زیادہ حسین ہے ظاہر کے اعتبار سے بھی اور باطن کے اعتبار سے بھی، حسن و جمال کے اعتبار سے بھی اور بدنی ساخت کے اعتبار سے بھی، اس کے سر میں کیسے کیسے اعضاء کیسے کیسے عجیب کام کر رہوے ہیں کہ ایک مستقل فیکٹری معلوم ہوتی ہے جس میں بہت سی نازک باریک خود کار مشینیں چل رہی ہیں۔ یہی حال اس کے سینہ اور پیٹ کا ہے اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں کی ترکیب و ہئیت ہزاروں حکمتوں پر مبنی ہے۔ اسی لئے فلاسفہ نے کہا ہے کہ انسان ایک عالم اصغر یعنی پودے عالم کا ایک نمونہ ہے۔ سارے عالم میں جو چیزیں بکھری ہوئی ہیں وہ سب اس کے وجود میں جمع ہیں (قرطبی) - صوفیائے کرام نے بھی اس کی تائید کی اور بعض حضرات نے انسان کے سر سے پیر تک کا سراپا لے کر اشیائے عالم کے نمونے اس میں دکھلائے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝ ٤ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- تَقْوِيمُ- وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] وذلک إشارة إلى ما خصّ به الإنسان من بين الحیوان من العقل والفهم، وانتصاب القامة الدّالّة علی استیلائه علی كلّ ما في هذا العالم، وتَقْوِيمُ السّلعة : بيان قيمتها . والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، قال الشاعر : أقوم آل حصن أم نساء وفي عامّة القرآن أريدوا به والنّساء جمیعا، وحقیقته للرّجال لما نبّه عليه قوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ الآية [ النساء 34]- تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ تقویم السلعۃ : سامان کی قیمت لگانا ۔ القوم ۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ۔ اور شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 328 ) اقوم ال حصن ام نساء کہ آل حصن مرد ہیں یا عورتیں ؟ ۔ اور قرآن پاک میں عموما مرد عورتیں سبھی مراد لئے گئے ہیں لیکن اصل میں یہ مردوں کی جماعت پر بولاجاتا ہے جس پر کہ آیت : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] مرد عورتوں پر راعی اور حاکم ہیں ۔ میں بھی تنبیہ پائی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(4 ۔ 5) ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچہ میں ڈھالا ہے اور پھر آخرت میں اس کو دوزخ میں داخل کردیں گے مثلاً ولید بن مغیرہ اور کلدہ کا فر، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عمدہ سانچہ میں ڈھالا ہے، پھر جب وہ اپنی جوانی پوری کرلیتا ہے تو اسے پستی کی عمر کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ اب وہی نیکیاں کار آمد آتی ہیں جو وہ اپنی جوانی میں کرچکا ہوتا ہے - البتہ جو حضرات ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے اس قدر ثواب ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا کہ ان کی نیکیوں کا سلسلہ بڑھاپے اور مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ تو اے ولید یا یہ کہ اے کلدہ ان تما باتوں کو سن کر پھر کون سی چیز تجھ کو قیامت کو جھٹلانے پر آمادہ کر رہی ہے کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم اور عادل نہیں۔- شان نزول : ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ الخ - ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ذلیل ترین عمر کو پہنچ گئے تھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جب کہ ان کی عقلیں جا چکیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا عذر نازل فرمایا کہ جو حضرات عقلیں زائل ہونے سے پہلے عمل صالح کرچکے ہیں ان کے لیے ان کا اجر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ “- ہم نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کیا تھا : وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً ۔ (بنی اسراء یل) ” اور ہم نے بڑی عزت بخشی ہے اولادِ آدم (علیہ السلام) کو اور ہم اٹھائے پھرتے ہیں انہیں خشکی اور سمندر میں اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور انہیں فضیلت دی اپنی بہت سی مخلوق پر ‘ بہت بڑی فضیلت “۔ نسل انسانی کی عزت و تکریم کی انتہا یہ ہے کہ ان کے جدامجد کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا (صٓ: ٧٥) اور مسجود ِملائک بنایا۔- اگر تمہیں یہ دنیا ظالموں ‘ بدکاروں اور گھٹیا انسانوں سے بھری نظر آتی ہے تو اللہ نے بھی تمہارے سامنے اپنے ایسے چار بندوں کی مثالیں پیش کردی ہیں جو عظمت انسانی کے زندہ وجاوید ثبوت ہیں۔ کیا ان مثالوں کو دیکھنے کے بعد بھی کوئی عقل کا اندھا یہ دعویٰ کرے گا کہ انسان کے اندر خیر اور عظمت کا کوئی پہلو سرے سے موجود ہی نہیں ؟ بہرحال اگر کوئی شخص عظمت کے ان میناروں کو دیکھ لینے کے بعد بھی انسانی عظمت کا قائل نہ ہو اور اس عظمت و اکرام کو پانے کے لیے اپنا رخ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یقینا اس کا شمار نسل انسانی کے ان افراد میں ہوگا جو شرفِ انسانیت سے نیچے گر کر حیوانوں سے بھی بدتر ہوچکے ہیں : اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط (الاعراف : ١٧٩)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :3 یہ ہے وہ بات جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہ طور اور مکہ کے پر امن شہر کی قسم کھائی گئی ہے ۔ انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ اعلی درجہ کا جسم عطا کیا گیا ہے جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا ۔ اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں ۔ پھر چونکہ نوع انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی اسے منصب نبوت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے ۔ اس لیے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں ان مقامات کی قسم کھائی گئی ہے جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں ۔ شام و فلسطین کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک بکثرت انبیاء مبعوث ہوئے ۔ کوہ طور وہ مقام ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی ۔ رہا مکہ معظمہ تو اس کی بنا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ہاتھوں پڑی ، انہی کی بدولت وہ عرب کا مقدس ترین مرکزی شہر بنا ، حضرت ابراہیم ہی نے یہ دعا مانگی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا اے میرے رب اس کو ایک پر امن شہر بنا ( البقرہ ۔ 126 ) اور اسی دعا کی یہ برکت تھی کہ عرب میں ہر طرف پھیلی ہوئی بد امنی کے درمیان صرف یہی ایک شہر ڈھائی ہزار سال سے امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا پس کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوع انسانی کو ایسی بہترین ساخت پر بنایا کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani