Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی باپ کے سہارے سے بھی محروم تھا، ہم نے تیری دست گیری اور چارہ سازی کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] یتیم ہونے پر آپ کو بہترین سرپرست ملتے رہے :۔ آپ کی پیدائش سے دو ماہ پیشتر ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے تو آپ کی سرپرستی کا ذمہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے لیا جو اپنی صلبی اولاد سے بڑھ کر آپ پر شفقت اور پیار کرتے تھے۔ ابھی چھ ہی سال کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی انتقال کرگئیں اور آپ دونوں طرف سے یتیم ہوگئے۔ آٹھ سال کے ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مہربان دادا عبدالمطلب کی بھی وفات ہوگئی۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرپرستی کی ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک چھوٹے چچا ابو طالب نے سنبھالی۔ جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت ملی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برادری کے لوگ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن ہوگئے تو ابو طالب نے اسلام نہ لانے کے باوجود ہر تنگی ترشی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا۔ برادری کی دشمنی اور عداوت کا سارا بار اپنے سر مول لیا اور ہر طرح کے خطرات سے بےنیاز ہو کر نبوت کے آغاز سے دس سال بعد تک آپ کی سرپرستی اور حفاظت کی ذمہ داری کو بڑے احسن طریقے سے نباہا۔ حتیٰ کہ شعب ابی طالب کے تین سال بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ محصور رہے۔ ١٠ نبوی میں یہ سہارا بھی ختم ہوگیا یعنی ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ (اوس اور خزرج) کو اسلام کی نعمت عطا فرمائی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیعت عقبہ کے بعد مدینہ تشریف لے گئے۔ انصار مدینہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا جو ذمہ لیا تھا اسے جس جراتمندانہ طریق سے انہوں نے پورا کیا وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان بتایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یتیم ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرپرست ایسے عطا کیے جاتے رہے جو اپنی جان سے بڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزیز رکھتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(الم یجدک یتیماً فاوی :” اوی یووی ایوائ “ (افعال) جگہ دینا۔ اس میں آپ کے ابتدائی حالات کا بیان ہے، آپ ماں کے پیٹ میں تھے کہ والد فوت ہوگئے۔ والدہ نے آپ کو پالا۔ چھ برس کے تھے کہ والدہ فوت ہوگئیں، پھر دادا نے پرورش کی۔ آٹھ برس کے تھے کہ وہ بھی فوت ہوگئے، پھر چچا ابوطالبنے بیٹوں سے بڑھ کر پالا۔ یہ سب اسباب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مہیا کئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اوپر طعنہ کفار کے جواب میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انعامات الہیہ کے دنیا و آخرت میں فائض ہونے کا اجمالی ذکر آیا ہغے اس میں اس کی تھوڑی سی تفصیل تین خاص نعمتوں کے ذکر سے فرمائی گئی ہیں اول الم بحمدک یتیماً فاوی یعنی ہم نے آپ کو یتیم پایا کہ والد کا انتقال ولادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور انہوں نے کوئی مال و جائیداد بھی نہ چھوڑی تھی جس سے آپ کی پرورش ہو سکے، تو ہم نے آپ کا ٹھکانہ بنادیا، یعنی آپ کے دادا عبدالمطلب اور ان کے بعد چچا ابوطالب کے دلوں میں آپ کی ایسیم حبت ڈالدی کہ صلبی اولاد سے زیادہ آپ کی تربیت میں کوشش کرتے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى۝ ٦ ۠- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اب اس پر نعمتیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ استشہاد فرماتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر آپ کی کفات اور زمہ داری کے لے حضرت ابوطالب کو ٹھہرا دیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی ۔ ” کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ‘ پھر پناہ دی “- یہ آیات سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہی یتیمی کی حالت میں ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا سہارا بھی چھن گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لیا تو دو سال بعد وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ تایا زبیر بن عبدالمطلب سرپرست بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کفالت کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تایا زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر اکثر تاریخی حوالوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسا دراصل جناب ابوطالب کے کردار کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے جان بوجھ کر باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے) ۔ اس کے بعد جناب ابوطالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرپردست شفقت رکھا اور انہی کی سرپرستی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوانی کی عمر کو پہنچے۔ آیت کے لفظ ” فَاٰوٰی “ میں ان تمام دنیوی سہاروں کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان تمام رشتہ داروں کے دلوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے محبت اور چاہت پیدا کی تھی۔ اسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ایسی بنائی تھی کہ جو کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بچپن میں سہارا دیا تھا۔ سورة طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حکمت کا ذکر اس طرح آیا ہے : وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج (آیت ٣٩) کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) میں نے آپ پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے اور یوں وہ آپ (علیہ السلام) کو قتل کرنے سے باز رہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :6 یعنی تمہیں چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہو جانے کا کیا سوال ، ہم تو اس وقت سےتم پر مہربان ہں جب تم یتیم پیدا ہوئے تھے حضور ابھی بطن مادر ہی میں چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اس لیے آپ دنیا میں یتیم ہی کی حیثیت سے تشریف لائے ۔ مگر اللہ تعالی نے ایک دن بھی آپ کو بے سہارا نہ چھوڑا ۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں ۔ ان کی شفقت سے محروم ہوئےتو 8 سال کی عمر تک آپ کے جد امجد نے آپ کو اس طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ ان کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا ۔ ان کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں کر سکتا ، حتی کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپ کی دشمن ہو گئی تھی اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں سینہ سپر رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے، اور والدہ کا بھی بہت کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے دادا عبدالمطلب اور آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی ایسی محبت ڈال دی کہ اُنہوں نے آپ کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز رکھ کر پالا تھا۔