Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر روح نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانا اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں ۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب ، خالق ، مالک ، معبود صرف وہی ہے ۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بجوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں؟ کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں؟ فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں ۔ اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے ( ابن جریر ) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو عہد توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا ۔ مسند میں ہے نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کہ میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں پھر آپ نے مبطلون تک تلاوت فرمائی ۔ یہ روایت موقوف ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے ۔ حضرت ضحاک بن مزاحم کے جھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا جابر نے حکم کی بجا آوری کی ، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بجے سے کیا سوال ہو گا اور کون سوال کرے گا ؟ فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کیا جائے گا ۔ میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے؟ فرمایا میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آ گئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے ۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کجھ فائدہ نہ دے گا ۔ بچپن میں ہی جو مر گیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا ۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے ۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکلایں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں نے انہیں جہنم کیلئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں؟ آپ نے فرمایا جو جنتی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا ( ابوداؤد ) اور حدیث میں ہے کہ اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟ فرمایا یہ تیری اولاد ہے ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک کو حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟ فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے پوچھا ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال کہا یا اللہ چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر پس جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کیلئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ، فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤد کو ہبہ کر دیئے ہیں ۔ بات یہ ہے چونکہ آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدم خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم نے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے ، یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں اور روایت میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا یہ کہ میرا شکریہ کیا جائے ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں؟ فرمایا یہ انبیاء ہیں ۔ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی ۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو انہوں نے کہا لبیک وسعد یک فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں پھر سب کو ملا دیا کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا ؟ فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے ۔ پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی ، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا Ċ۝ۙ ) 33- الأحزاب:7 ) ، میں ہے ۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت ( فطرۃ اللہ ) میں ہے اسی لئے فرمان ہے آیت ( ھذا نذیر من النزر الا ولی ) اسی کا بیان اس آیت میں ہے ( وما وجدنا لا کثرھم من عھد ) ( مسند احمد ) حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گذرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنے ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت ( من بنی آدم ) فرمایا اور آیت ( من ظھور ھم ) کہا ورنہ من آدم اور من ظھرہ ہوتا ۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٦٥؀ۧ ) 6- الانعام:165 ) اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا ۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت ( شھدنا علی انفسانا ) میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ 17؀ ) 9- التوبہ:17 ) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت ( وانہ علی ذالک لشھید ) ہے ۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ 34؀ۧ ) 14- ابراھیم:34 ) اس نیت میں تمہارے کا منہ مانگا دیا ۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی ۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے ۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

172۔ 1 یہ عہد حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالیٰ نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا کیوں نہیں ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں واسنادہ لامطعن فیہ (فتح القدیر) اس کی سند میں کوئی طعن نہیں نیز امام شوکانی فرماتے ہیں۔ یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جاناصحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرنا جائز نہیں ہے۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے اس کا ناک کان کٹا نہیں ہوتا۔ اور صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کردیتا ہے۔ الحدیث۔ یہ فطرت یا دین فطرت یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٥] سابقہ آیت میں ایک خاص عہد کا ذکر تھا جو یہود سے لیا گیا تھا اور اس آیت میں عام عہد کا ذکر ہے جو فرداً فرداً تمام انسانوں سے لیا گیا تھا اور یہ اس دور کا واقعہ ہے جب اللہ تعالیٰ آدم کو پیدا کرچکے تھے اور خلافت ارضی کے لیے انہیں منتخب کیا جا چکا تھا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور ان کی نسل سے تاقیامت پیدا ہونے والی اولاد کی روحوں کو اپنے سامنے حاضر کرلیا اور ان ارواح کو وہی شکل عطا کی گئی جو ان کی پیدائش کے بعد انہیں میسر ہونے والی تھی اور بعض احادیث کے مطابق ان ارواح کی شکل چیونٹیوں کی سی تھی۔ پھر ان ارواح کو مخاطب کر کے فرمایا : اس بھری کائنات کو خوب دیکھ بھال کر بتلاؤ کہ یہاں میرے سوا تمہیں کوئی اور پروردگار نظر آتا ہے اور کیا تمہارا پروردگار بھی میں ہی نہیں ؟ تو ان سب ارواح نے مل کر یقین کے ساتھ یہ شہادت دی کہ اے اللہ صرف تو ہی ہمارا پروردگار ہے۔ بالفاظ دیگر یہ اس بات کی شہادت تھی کہ ہم کبھی کسی دوسرے کو تیرا شریک نہیں بنائیں گے۔- عہد الست کی تفصیل اور حالات ارضی :۔ یہ واقعہ محض تمثیلی طور پر بیان نہیں ہوا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ اس خارجی کائنات میں فی الواقع اسی طرح وقوع پذیر ہوا تھا جس طرح آدم (علیہ السلام) کی خلافت کے متعلق آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پیشتر اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے مکالمہ کا واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا اور یہ اقرار اس لیے لیا گیا تھا کہ خلافت ارضی کی بنیاد اس وقت تک اٹھ ہی نہیں سکتی جب تک انسان ان دو باتوں کا اقرار نہ کرلے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا یقینی طور پر کوئی خالق موجود ہے اور دوسرے یہ کہ وہی خالق اس کائنات کی تربیت کر کے اس کو حد کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس کے سوا کوئی پروردگار نہیں گویا یہی شہادت خلافت ارضی کے لیے بنیادی پتھر کا کام دیتی ہے اگر اس بنیاد کو نیچے سے کھینچ لیا جائے تو خلافت ارضی کا تصور بھی محال ہے لہذا بنی آدم کی تمام تر ارواح میں اس بنیادی حقیقت کی تخم ریزی کردی گئی۔- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہد اتنا اہم تھا تو انسان کو یاد کیوں نہیں رہا ؟ اس کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انسان کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تھا پھر اس سے پیدا ہوا کہاں پیدا ہوا ؟ کس وقت ہوا۔ غرض یہ کہ بیشمار ایسی باتیں ہیں جو انسان کو یاد نہ رہنے کے باوجود اپنی جگہ پر ٹھوس حقیقتیں ہوتی ہیں لہذا یاد نہ رہنے کا عذر معقول نہیں ہوسکتا اور حقیقی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ وہ عہد انسان کو ہر وقت یاد رہے کیونکہ اس صورت میں انسان اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا تھا اور یہ بات مشیت الہٰی کے خلاف ہے کیونکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے لہذا اس واقعہ کو انسان کے شعور میں نہیں بلکہ تحت الشعور یا وجدان میں رکھ دیا گیا اور یہ اسی داعیہ کا اثر ہے کہ بعض دفعہ پکے کافر اور دہریہ قسم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا مصیبت کے وقت لاشعوری طور پر اسے پکارنے لگتے ہیں۔- اس عہد کے لاشعور میں موجود ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انسان میں دو طرح کی استعدادیں رکھی گئی ہیں ایک بالقوۃ، دوسری بالفعل۔ مثلاً ایک انسان پینٹر بننا چاہتا ہے تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس میں یہ استعداد بالقوۃ موجود ہو یعنی وہ پینٹر بننے کی صلاحیت رکھتا ہو پھر اسے اس کے مطابق خارجی ماحول میسر آجائے یعنی اسے کوئی استاد وقت اور متعلقہ آلات اور سامان مل جائے تو محنت سے وہ پینٹر بن جائے گا۔ اس وقت اس کی وہ استعداد جو بالقوۃ تھی وہ بالفعل میں تبدیل ہوگئی اور اگر انسان یہ چاہے کہ وہ فرشتہ بن جائے تو وہ کبھی نہ بن سکے گا خواہ لاکھوں کوششیں کرے کیونکہ اس میں فرشتہ بننے کی استعداد بالقوۃ موجودہی نہیں ہے۔- قرآن کس لحاظ سے ذکر اور تذکرہ ہے ؟ :۔ اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس عہد الست کی یاد اور خلافت ارضی کی استعداد انسان میں بالقوۃ موجود ہے پھر جب اسے خارج سے موافق ماحول اور سامان میسر آجاتا ہے تو اس کی یہی استعداد بالفعل میں تبدیل ہوجاتی ہے موافق سامان اور ماحول سے یہاں مراد اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں ہیں جو انسان کی استعداد کو صحیح راستے پر چلا دیتی ہیں تو اس ماحول سے ایسا صالح عنصر وجود میں آجاتا ہے جو خلافت کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے معیار پر پورا اترتا ہے اسی لیے قرآن میں انبیاء و رسل کو مذکر (اس عہد الست بربکم کی یاددہانی کرانے والے) اور خود قرآن کو ذکر اور تذکرہ (یاد دہانی) کہا گیا ہے گویا انبیاء (علیہ السلام) اور کتابوں کا یہ کام ہوتا ہے جو استعداد انسان کے اندر بالقوۃ موجود تھی اس کو یاد دہانی کراتے رہیں اور اسے بالفعل کے مقام پر لے آئیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ ۔۔ : یہاں تک رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے بنی آدم کی ہدایت کا جو اہتمام فرمایا اس کا ذکر تھا، اب کائنات میں اور خود انسان کی ذات (اَنْفُسِهِمْ ) میں ہدایت کی جو دلیلیں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں ان کا ذکر ہے۔ اہل علم نے اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ یہ جانے کہ میرا ایک رب ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے روزی دیتا ہے اور یہ بات جب اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو نسلاً بعد نسل پیدا کرتا ہے اور بنی آدم میں سے کسی کی پشت سے اس کا نطفہ جدا کرکے ماں کے رحم میں اس کی اولاد پیدا کرتا ہے، اسی وقت اس اولاد کی فطرت میں رکھ کر اس کے نفس اور اس کی ذات میں اپنے رب ہونے کے اتنے دلائل رکھ دیتا ہے گویا خود اسے اپنے آپ پر گواہ بنا دیتا ہے کہ اس کا رب اللہ ہے۔ گویا وہ پیدا ہی اسلام پر ہوتا ہے۔ ایک بوند جو جونک بنی، پھر مضغہ بنی، پھر ہڈیاں، پھر کامل اعضا والا جان دار انسان، یہ اور بیشمار نشانیاں خود اس کی ذات اور کائنات میں اس بات کی کافی شہادت ہیں کہ اس کا ایک رب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ) [ حٰم السجدۃ : ٥٣ ] ” عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یقیناً یہی حق ہے۔ “ اور فرمایا : (وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٠، ٢١ ] ” اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمہارے نفسوں میں بھی تو کیا تم نہیں دیکھتے ؟ “ اور شہادت ضروری نہیں زبان ہی سے ہو، قرآن مجید کے مطابق حالت کی بھی شہادت ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بالْكُفْرِ ۭ )[ التوبۃ : ١٧ ] ” مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ “ اور فرمایا : (اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْد، وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ) [ العادیات : ٦، ٧ ] ” بیشک انسان اپنے رب کا یقیناً بہت ناشکرا ہے اور بیشک وہ اس بات پر یقیناً خود گواہ ہے۔ “- معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت ہی توحید ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ “ [ بخاری، الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین : ١٣٨٥ ] اس لیے انسان کی ذات میں اور کائنات میں موجود اللہ تعالیٰ کے رب واحد ہونے کے دلائل ہی اس بات کے لیے کافی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ اس لیے بعض علماء نے کہا کہ اگر کوئی بھی رسول نہ آتا تو انسان پر عقل، فطرت سلیمہ اور اپنی ذات اور کائنات میں موجود توحید کے بیشمار دلائل کی وجہ سے شرک سے بچنا لازم تھا، اگر وہ شرک کرے تو اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ اس سے مؤاخذہ فرمائے۔ مگر قرآن مجید سے اللہ تعالیٰ کا یہ بیحد و حساب رحم و کرم ثابت ہے کہ انسان کے نفس پر اس کی اپنی شہادت کے باوجود وہ رسولوں کے ذریعے سے حق واضح کیے بغیر عذاب نہیں دیتا، فرمایا : (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) [ بنی إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ دیکھنے کے لیے آنکھ میں نور ہونا بھی ضروری ہے اور سورج، چاند یا کسی اور چیز کے ذریعے سے روشنی ہونا بھی ضروری ہے، آنکھ میں روشنی نہ ہو یا باہر روشنی نہ ہو تو نظر نہیں آتا۔ فطرت میں رکھی ہوئی عقل اور کائنات کے دلائل رب کی پہچان کے لیے آنکھ کے نور کی طرح ہیں اور پیغمبر سورج اور چاند کی طرح اس کے لیے دلائل کو روشن کرکے سمجھانے والے ہیں۔ شیخ صالح آل الشیخ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں فرمایا کہ اہل السنہ کے بہت سے ائمہ مثلاً شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن کثیر، ابن ابی العز حنفی شارح طحاویہ، شیخ عبد الرحمان سعدی اور دوسرے کئی ائمہ (رض) نے ” واخذ ربک “ کی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے۔ واضح رہے کہ آنکھ اور سورج کی روشنی کی مثال ان ائمہ کی تفسیر کا حصہ نہیں۔ - دوسری تفسیر وہ میثاق (عہد و پیمان) ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تمام اولاد آدم کو نکال کر ان سے لیا اور جو عموماً عہد الست سے مشہور ہے، وہ عبداللہ بن عباس اور دوسرے صحابہ (رض) سے منقول ہے۔ چناچہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نعمان (نون کے فتحہ کے ساتھ) یعنی عرفہ میں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے میثاق (عہد و پیمان) لیا، چناچہ اس کی پشت سے تمام اولاد جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی تھی نکالی اور اس کے آگے بکھیر دی، پھر ان سے آمنے سامنے بات کی، فرمایا : (اَلست بربکم)” کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ انھوں نے کہا : (بلٰی) کیوں نہیں، ہم نے شہادت دی (ایسا نہ ہو) کہ تم قیامت کے دن کہو ہم اس سے غافل تھے۔ آخر آیات تک۔ [ أحمد : ١؍٢٧٢، ح : ٢٤٥٩۔ مستدرک حاکم : ٢؍٥٤٤، ح : ٤٠٠٠ ] حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے، شوکانی اور بہت سے علماء نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے، مگر قرآن کے الفاظ اور حدیث کے الفاظ میں کئی لحاظ سے فرق ہے، ایک تو یہ کہ آیت میں (مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ ) ہے ” مِنْ آدَمَ “ نہیں، دوسرا ( مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ) ہے ” مِنْ ظَہْرِہِ “ نہیں۔ تیسرا (ذُرِّيَّتَهُمْ ) ہے، ” ذُرِّیَّتَہُ “ نہیں، چوتھا یہ کہ فرمایا : (وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ) گواہ کو وہ بات یاد تو ہونی چاہیے جس کی گواہی اس نے دینی ہے جبکہ وہ عہد کسی کو یاد نہیں، البتہ انسان کے نفس اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور توحید کے دلائل کا وہ خود فطری شاہد ہے، یہ الگ بات ہے کہ گندے عقیدوں والوں کے ساتھ مل کر اس کی فطرت پر پردہ پڑگیا ہو۔ اگر کوئی کہے کہ بیشک آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکلتے وقت کیا ہوا عہد ہمیں یاد نہیں مگر پیغمبروں کا اس میثاق کو یاد کرا دینا ہی کافی ہے تو حافظ ابن کثیر (رض) نے اس کا جواب دیا ہے کہ مشرک تو پیغمبروں کی کوئی بات صحیح مانتے ہی نہیں تھے، ان کا یاد کرا دینا ان پر حجت کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ (جب کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اس گواہ بنانے کو بطور حجت ذکر فرمایا ہے، جس طرح رسولوں کے بھیجنے کو بطور حجت ذکر فرمایا ہے) غرض ابن ابی العز نے شرح عقیدہ طحاویہ میں آیت اور احادیث کے درمیان دس فرق بیان کیے ہیں۔ اس لیے دونوں الگ الگ ہیں، ہاں تطبیق کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو نکالنا بھی آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اس کی اولاد کو نکالنے ہی کی تفصیل ہے۔ (واللہ اعلم)- اَنْ تَقُوْلُوْا : یہ اصل میں ” لِءَلَّا تَقُوْلُوْا “ یا ” کَرَاھَۃَ اَنْ تَقُوْلُوْا “ ہے، یعنی یہ عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تو یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگو کہ ہم تو اس سے بیخبر تھے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( ان سے اس وقت کا واقعہ ذکر کیجئے) جب کہ آپ کے رب نے ( عالم ارواح میں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تو خود ان کی اولاد کو اور) اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ( ان کو سمجھ عطا کرکے) ان سے انہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے ( اس عقل خداداد سے حقیقت امر کو سمجھ کر) جواب دیا کہ کیوں نہیں ( واقعی آپ ہمارے رب ہیں، حق تعالیٰ نے وہاں جتنے ملائکہ اور مخلوقات حاضر تھے سب کو گواہ کرکے سب کی طرف سے فرمایا) ہم سب واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں ( اور یہ اقرار اور شہادت سب اس لئے ہوا کہ) تاکہ تم لوگ ( یعنی جو تم میں ترک توحید اور اختیار شرک پر سزا پائیں) قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس ( توحید) سے محض بیخبر تھے یا یوں کہنے لگو کہ ( اصل) شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد ان کے نسل میں ہوئے ( اور عادةً نسل عقائد و خیالات میں تابع اپنی اصل کے ہوتی ہے اس لئے ہم بےخطا ہیں، پس ہمارے فعل پر تو ہم کو سزا ہو نہیں سکتی، اگر ہوگی تو لازم آتا ہے کہ ان بڑوں کی خطا میں ہم ماخوذ ہوں) سو کیا ان غلط راہ (نکالنے) والوں کے فعل پر آپ ہم کو ہلاکت میں ڈالے دیتے ہیں ( سو اب اس اقرار و اشہاد کے بعد تم یہ عذر نہیں پیش کرسکتے پھر اس کے بعد ان سب سے وعدہ کیا گیا کہ یہ عہد تم کو دنیا میں پیغمبروں کے ذریعہ سے یاد دلایا جائے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا یہاں بھی اول میں اِذْ اَخَذَ کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ آپ کو اس واقعہ کے ذکر کا حکم ہوا) آخر میں بھی اس یاد دھانی کو جتلاتے ہیں کہ) ہم اسی طرح ( اپنی) آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ( تاکہ ان کو اس عہد کا ہونا معلوم ہوجائے) اور تاکہ ( معلوم ہونے کے بعد شرک وغیرہ سے) وہ باز آجائیں۔- معارف و مسائل :- عہد الست کی تفصیل و تحقیق :- ان آیتوں میں اس عظیم الشان عالمگیر عہد و پیمان کا ذکر ہے جو خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے درمیان اس وقت ہوا جب کہ مخلوق اس جہان کون و فساد میں آئی بھی نہ تھی، جس کو عہد ازل یا عہد الست کہا جاتا ہے۔ - اللہ جل شانہ سارے عالموں کا خالق ومالک ہے، زمین و آسمان اور ان کے درمیان اور ان کے ماسوا جو کچھ ہے اس کی مخلوق اور ملک ہے، نہ اس پر کوئی قانون کسی کا چل سکتا ہے، نہ اس کے کسی فعل پر کسی کو کوئی سوال کرنے کا حق ہے۔ لیکن اس نے محض اپنے فضل و کرم سے عالم کا نظام ایسا بنایا ہے کہ ہر چیز کا ایک ضابطہ اور قانون ہے، قانون کے موافق چلنے والوں کے لئے ہر طرح کی دائمی راحت اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے ہر طرح کا عذاب مقرر ہے۔ پھر خلاف ورزی کرنے والے مجرم کو سزا دینے کے لئے اس کا ذاتی علم محیط کافی تھا جو عالم کے ذرہ پر حاوی ہے اور اس کے لئے کھلے اور چھپے ہوئے تمام اعمال و افعال بلکہ دلوں میں پوشیدہ ارادے تک بالکل ظاہر ہیں اس لئے کوئی ضرورت نہ تھی کہ نگران مقرر کئے جائیں، اعمال نامے لکھے جائیں، اعمال تولے جائیں اور گواہ کھڑے کئے جائیں۔- لیکن اسی نے خالص اپنے فضل و کرم سے یہ بھی چاہا کہ کسی کو اس وقت تک سزا نہ دیں جب تک دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادتوں سے اس کا جرم اس کے سامنے اس طرح کھل کر نہ آجائے کہ وہ خود بھی اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرلے اور اپنے آپ کو مستحق سزا سمجھ لے۔- اس کے لئے ہر انسان کے ساتھ اس کے ہر عمل اور قول کو لکھنے والے فرشتے مقرر فرما دیئے (آیت) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ، یعنی کوئی کلمہ انسان کی زبان سے نہیں نکلتا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نگرانی کرنے والا فرشتہ مقرر نہ ہو، پھر محشر میں میزان عدل قائم فرما کر انسان کے اعمال نیک و بد کو تولا جائے گا، اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو نجات پائے گا اور گناہوں اور جرائم کا پلہ بھاری ہوگیا تو گرفتار عذاب ہوگا۔ - اس کے علاوہ جب احکم الحاکمین کا دربار عام محشر میں قائم ہوگا تو ہر ایک کے عمل پر شہادتیں بھی لی جائیں گی بعض مجرم گواہوں کی تکذیب کریں گے تو اس کے ہاتھ پاؤں اور اعضاء وجوارح سے اور اس زمین و مکان سے جس میں یہ افعال کئے گئے گواہی لی جائے گی وہ سب بحکم خداوندی گویا ہو کر صحیح صحیح واقعات بتلا دیں گے یہاں تک کہ مجرمین کو انکار و تکذیب کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا وہ اعتراف و اقرار کریں گے، (آیت) فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ۔- پھر رؤف و رحیم مالک نے اس نظام عدل و انصاف کے قائم کرنے ہی پر اکتفاء نہیں فرمایا، اور دنیا کی حکومتوں کی طرح نرا ایک ضابطہ اور قانون ان کو نہیں دے دیا بلکہ قانون کے ساتھ ایک نظام تربیت قائم کیا جیسے بلا تشبیہ کے کوئی شفیق باپ اپنے گھریلو معاملات کو درست رکھنے اور اہل و عیال کو تہذیب و ادب سکھانے کے لئے کوئی گھریلو قانون اور ضابطہ بناتا ہے کہ جو شخص اس کے خلاف کرے گا اس کو سزا ملے گی، مگر اس کی شفقت و عنایت اس کو اس پر بھی آمادہ کرتی ہے کہ ایسا انتظام کرے جس کے سبب ان میں سے کوئی سزا کا مستحق نہ ہو بلکہ سب کے سب اس ضابطہ کے مطابق چلیں، بچہ کے لئے اگر صبح کو اسکول جانے کی ہدایت اور اس کے خلاف کرنے پر سزا مقرر کردی ہے تو باپ سویرے اس کی بھی فکر کرتا ہے کہ بچہ اس کام کے لئے وقت سے پہلے تیار ہوجائے۔ - رب العالمین کی رحمت اپنی مخلوق پر ماں اور باپ کی شفقت و رحمت سے کہیں زائد ہے اس لئے اس نے اپنی کتاب کو محض قانون اور تعزیرات نہیں بنایا بلکہ ایک ہدایت نامہ بنایا ہے اور ہر قانون کے ساتھ ایسے طریقے بھی سکھائے ہیں جن کے ذریعہ قانون پر عمل سہل ہوجائے۔ اسی نظام ربوبیت کے تقاضے سے اپنے انبیاء بھیجے ان کے ساتھ آسمانی یدایت نامے بھیجے، فرشتوں کی بہت بڑی تعداد نیکیوں کی طرف ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لئے مقرر فرمادی۔ اسی نظام ربوبیت کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ ہر قوم اور ہر فرد کو غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے رب کریم کو یاد کرنے کے لئے مختلف قسم کے سامان پیدا کئے، زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اور دن رات کے تغیرات اور خود انسان کے اپنے وجود کی کائنات میں اپنی یاد دلانے والی ایسی نشانیاں رکھ دیں کہ اگر ذرا بھی ہوش سے کام لے تو کسی وقت اپنے مالک کو نہ بھولے، (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، یعنی زمین میں اہل بصیرت کے لئے ہماری نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے وجود میں بھی، کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے۔ - اسی طرح غافل انسان کو بیدار کرنے اور عمل صا لح پر لگانے کے لئے ایک انتظام رب العالممین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ افراد اور جماعتوں اور قوموں سے مختلف اوقات اور حالات میں اپنے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ عہد و پیمان لے کر ان کو قانون کی پابندی کے لئے تیار کیا گیا۔ - قرآن مجید کی متعدد آیات میں بہت سے معاہدات و مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے جو مختلف جماعتوں سے مختلف اوقات و حالات میں لئے گئے، انبیاء (علیہم السلام) سے عہد لیا گیا کہ جو کچھ ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے پیغام رسالت ملے وہ اپنی اپنی امتوں کو ضرور پہنچا دیں گے، اس میں ان کے لئے کسی کا خوف اور لوگوں کی ملامت و توہین کا اندیشہ حائل نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کی اس مقدس جماعت نے اپنے اس معاہدہ کا پورا حق ادا کردیا، پیغام رسالت کے پہنچانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔- اسی طرح ہر رسول و نبی کی امت سے اس کا معاہدہ لیا گیا کہ وہ اپنے اپنے انبیاء کا اتباع کریں گے، پھر خاص خاص اہم معاملات میں خصوصیت کے ساتھ اس کے پورا کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کا عہد لیا گیا، جس کو کسی نے پورا کیا کسی نے نہیں کیا۔ - انہی معاہدات میں سے ایک اہم معاہدہ وہ ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) سے ہمارے رسول کریم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں لیا گیا کہ سب انبیاء نبی امی خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کریں گے، اور جب موقع پائیں گے ان کی مدد کریں گے جس کا ذکر اس آیت میں ہے : (آیت) وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ، یہ تمام عہود و مواثیق حق تعالیٰ کی رحمت کاملہ کے مظاہر ہیں اور مقصد ان کا یہ ہے کہ انسان جو کثیر النسیان ہے اکثر اپنے فرائض کو بھول جاتا ہے، اس کو بار بار ان معاہدات کے ذریعہ ہوشیار کیا گیا تاکہ وہ ان کی خلاف ورزی کرکے تباہی میں نہ پڑجائے۔- بیعت لینے کی حقیقت :- انبیاء علہیم السلام اور ان کے نائب علماء و مشائخ میں بھی جو بیعت لینے کا دستور رہا ہے وہ بھی اسی سنت الہیہ کا اتباع ہے، خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے معاملات میں صحابہ کرام سے بیعت لی، جن میں سے بیعت رضوان کا تذکرہ قرآن کریم میں ان لفاظ کے ساتھ موجود ہے (آیت) لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ، یعنی اللہ راضی ہوگیا ان لوگوں سے جنہوں نے ایک خاص درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ - ہجرت سے پہلے انصار مدینہ کی بیعت عقبہ بھی اسی قسم کے معاہدات میں سے ہے۔ - بہت سے صحابہ کرام (رض) اجمعین سے ایمان اور عمل صالح کی پابندی پر بیعت لی۔ صوفیائے کرام میں جو بیعت مروّج ہے وہ بھی ایمان اور عمل صالح کی پابندی اور گناہوں سے بچنے کے اہتمام کا عہد ہے اور اسی سنت اللہ اور سنت الانبیاء کا اتباع ہے، اسی وجہ سے اس میں خاص برکات ہیں کہ انسان کو گناہوں سے بچنے اور احکام شرعیہ بجا لانے کی ہمت اور توفیق بڑھ جاتی ہے۔ بیعت کی حقیقت معلوم ہونے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جس طرح کی بیعت عام طور پر ناواقف جاہلوں میں رواج پاگئی ہے کہ کسی بزرگ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دینے ہی کو نجات کے لئے کافی سمجھ بیٹھتے ہیں، یہ سراسر جہالت ہے، بیعت ایک معاہدہ کا نام ہے، اس کا فائدہ جبھی ہے جب اس معاہدہ کو عملا پورا کیا جائے ورنہ وبال کا خطرہ ہے۔ - سورة اعراف کی گذشتہ آیت میں ان معاہدات کا ذکر تھا جو بنی اسرائیل سے احکام تورات کی پابندی کے سلسلے میں لئے گئے تھے، مذکور الصدر آیات میں اس عالمگیر معاہدہ کا بیان ہے جو تمام اولاد آدم سے اس عالم دنیا میں آنے سے بھی پہلے ازل میں لیا گیا جو عام زبانوں پر عہد الست کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ (آیت) وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ، ان آیتوں میں اولاد آدم کے لئے لفظ ذریت استعمال فرمایا ہے، امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ یہ لفظ دراصل لفظ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پیدا کرنے کے، قرآن کریم میں کئی جگہ یہ لفظ اس معنی کے لئے استعمال ہوا ہے (آیت) وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا، وغیرہ، اس لئے ذریت کا لفظی ترجمہ مخلوق کا ہوا، اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ یہ عہد ان تمام لوگوں کے لئے عام و شامل تھا جو آدم (علیہ السلام) کے واسطہ سے اس دنیا میں پیدا کئے جائیں گے۔ - روایات حدیث میں اس عہد ازل کی مزید کچھ تفصیلات آئی ہیں : - امام مالک، ابوداؤد، ترمزی اور امام احمد نے بروایت مسلم بن یسار نقل کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت فاروق اعظم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تھا، آپ سے جو جواب میں نے سنا ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا، پھر اپنا دست قدرت ان کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جو نیک انسان پیدا ہونے والے تھے وہ نکل آئے تو فرمایا کہ ان کو میں نے جنت کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے، پھر دوسری مرتبہ ان کی پشت پر دست قدرت پھیرا تو جتنے گناہ گار بد کردار انسان ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تھے ان کو نکال کھڑا کیا اور فرمایا کہ ان کو میں نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ دوزخ میں جانے ہی کے کام کریں گے۔ صحابہ میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ جب پہلے ہی جنتی اور دوزخی متعین کردیئے تو پھر عمل کس مقصد کے لئے کرایا جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو جنت کے لئے پیدا فرماتے ہیں تو وہ اہل جنت ہی کے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کسی ایسے ہی کام پر ہوتا ہے جو اہل جنت کا کام ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو دوزخ کے لئے بناتے ہیں تو وہ دوزخ ہی کے کام میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا خاتمہ بھی کسی ایسے ہی کام پر ہوتا ہے جو اہل جہنم کا کام ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو معلوم نہیں کہ وہ کس طبقہ میں داخل ہے تو اس کو اپنی توانائی اور قدرت و اختیار ایسے کاموں میں خرچ کرنا چاہئے جو اہل جنت کے کام ہیں اور یہی امید رکھنا چاہئے کہ وہ انہی میں سے ہوگا۔- اور امام احمد کی روایت میں یہی مضمون بروایت حضرت ابوالدرداء (رض) منقول ہے، اس میں اتنا اور زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ جو لوگ آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکلے وہ سفید رنگ کے تھے جن کو اہل جنت فرمایا، اور دوسری مرتبہ سیاہ رنگ کے تھے جن کو اہل جہنم قرار دیا۔ اور ترمذی میں یہی مضمون بروایت ابوہریرہ (رض) منقول ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ اس طرح قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد آدم جو ظہور میں آئی ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پر ایک خاص قسم کی چمک تھی۔- اب غور طلب یہ ہے کہ ان احادیث میں تو ذریت کو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے لینے اور نکالنے کا ذکر ہے اور قرآن کریم کے الفاظ میں بنی آدم یعنی اولاد آدم کی پشت سے نکالنا مذکور ہے۔ تطبیق اس کی یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان لوگوں کو نکالا گیا جو بلا واسطہ آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہونے والے تھے، پھر ان کی نسل کی پشت سے دوسروں کو اور اسی طرح جس ترتیب سے اس دنیا میں اولاد آدم پیدا ہونے والی تھی اسی ترتیب سے ان کو پشتوں سے نکالا گیا۔- حدیث میں سب کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے ان کی اولاد کو پھر اس اولاد سے ان کی اولاد کو ترتیب وار پیدا کیا گیا۔ قرآن مجید میں اس سب ذریت آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لینے میں اس کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ ذریت آدم جو اس وقت پشتوں سے نکالی گئی تھی صرف ارواح نہیں تھیں بلکہ روح اور جسم کا ایسا مرکب تھا جو جسم کے لطیف ترین ذرات سے بنایا گیا تھا، کیونکہ ربوبیت اور تربیت کی ضرورت زیادہ تر وہیں ہوتی ہے جہاں جسم و روح کا مرکب ہو اور جس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرنا ہو، ارواح کی یہ شان نہیں وہ تو اول سے آخر تک ایک ہی حال پر ہوتی ہیں، اس کے علاوہ احادیث مذکورہ میں جو ان کے رنگ سفید و سیاہ مذکور ہیں یا ان کی پیشانی کی چمک مذکور ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف روح بلا جسم نہیں تھی ورنہ روح کا تو کوئی رنگ نہیں ہوتا، جسم ہی کے ساتھ یہ اوصاف متعلق ہوتے ہیں۔ - اور اس پر کوئی تعجب نہ کیا جائے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسان ایک جگہ میں کس طرح سما گئے، کیونکہ حضرت ابوالدرداء کی حدیث مذکور میں اس کی بھی تصریح ہے کہ اس وقت جو ذریت پشت آدم (علیہ السلام) سے نکالی گئی تھی وہ اپنے اس ڈیل ڈول کے ساتھ نہیں تھی جس میں وہ دنیا میں آئیں گے بلکہ چھوٹی چیونٹی کے جثہ میں تھی، اور سائنس کی اس ترقی کے زمانہ میں تو کسی سمجھ دار انسان کو کوئی اشکال اس میں ہونا ہی نہیں چاہئے کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ایک چیونٹی کے جثہ میں کیسے ظاہر ہوا، آج تو ایٹم کے اندر تمام نظام شمسی کے موجود ہونے کا تجربہ کیا جا رہا ہے، فلم کے ذریعہ بڑی سے بڑی چیز کو ایک نقطہ کی مقدار دکھلایا جاسکتا ہے، اس لئے یہ کیا مشکل ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عہد و میثاق کے وقت تمام بنی آدم کو بہت چھوٹے جثہ میں وجود عطا فرمایا ہو۔ - عہد ازل کے متعلق چند سوال و جواب :- اس عہد ازل کے متعلق چند چیزیں اور قابل غور ہیں :- اول یہ کہ عہد و اقرار کس جگہ اور کس وقت لیا گیا ؟- دوسرے یہ کہ جب اقرار اس حال میں لیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سوا کوئی دوسرا انسان پیدا بھی نہ ہوا تھا تو ان کو یہ عقل و علم کیسے حاصل ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اس کے رب ہونے کا اقرار کریں، کیونکہ ربوبیت کا اقرار وہ کرسکتا ہے جس نے شان تربیت کا مشاہدہ کیا ہو اور یہ مشاہدہ اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے ؟ - پہلا سوال کہ یہ عہد و اقرار کس جگہ اور کس وقت لیا گیا، اس کے متعلق مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے جو روایت بسند قوی امام احمد، نسائی اور حاکم نے نقل کی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ عہد و اقرار اس وقت لیا گیا جب آدم (علیہ السلام) کو جنت سے زمین پر اتارا گیا، اور مقام اس اقرار کا وادی نعمان ہے جو میدان عرفات کے نام سے معروف و مشہور ہے ( تفسیر مظہری) - رہا دوسرا سوال کہ یہ نئی مخلوق جس کو ابھی وجود عنصری بھی پوری طرح عطا نہیں ہوا وہ کیا سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا کوئی پیدا کرنے والا اور پروردگار ہے، ایسی حالت میں ان سے سوال کرنا بھی ایک قسم کی ناقابل برداشت تکلیف ہے، اور وہ جواب بھی کیا دے سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق کا ئنات جس کی قدرت کاملہ نے تمام انسانوں کو ایک ذرہ کی صورت میں پیدا فرمایا اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ اس نے ان کو عقل و فہم اور شعور و ادراک بھی اس وقت بقدر ضرورت دے دیا ہو، اور یہی حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس مختصر وجود میں انسان کے تمام قوٰی کو جمع فرما دیا تھا جن میں سب سے بڑی قوت عقل و شعور کی ہے۔ - انسان کے اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ شانہ کی عظمت وقدرت کی وہ بیشمار نشانیاں ہیں جن پر ذرا بھی غور کرنے والا اللہ تعالیٰ کی معرفت سے غافل نہیں رہ سکتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، یعنی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لئے اور خود تمہارے وجود میں بھی، کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے۔ - یہاں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ازلی عہد و پیمان کتنا ہی یقینی اور صحیح کیوں نہ ہو مگر کم از کم یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد یہ عہد کسی کو یاد نہیں رہا تو پھر عہد کا فائدہ کیا ہوا ؟ - اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اسی نوع بنی آدم میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہمیں یہ عہد پوری طرح یاد ہے، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں، اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جس وقت یہ اقرار لیا گیا میرے آس پاس میں کون کون لوگ موجود تھے، ہاں یہ ظاہر ہے کہ ایسے افراد شاذ و نادر کے درجہ میں ہیں، اس لئے عام لوگوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو بالخاصہ اثر رکھتے ہیں، چاہے وہ کام کسی کو یاد رہے یا نہ رہے بلکہ اس کی خبر بھی نہ ہو مگر وہ اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ عہد و اقرار بھی ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے کہ دراصل اس اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفت حق کا ایک بیج ڈال دیا جو پرورش پارہا ہے چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو، اور اسی بیج کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالیٰ کی محبت و عظمت پائی جاتی ہے خواہ اس کا ظہور بت پرستی اور مخلوق پرستی کے کسی غلط پیرایہ میں ہو، وہ چند بدنصیب لوگ جن کی فطرت ہی مسخ ہو کر ان کا عقلی ذائقہ خراب ہوگیا اور میٹھے کڑوے کی پہچان جاتی رہی ان کے علاوہ باقی ساری دنیا کے اربوں انسان اللہ تعالیٰ کی دھن اور خیال اور عظمت سے خالی نہیں، پھر چاہے مادی خواہشات میں مبتلا ہو کر یا کسی گمراہ سوسائٹی میں پڑ کر وہ اس کو بھلا دیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کل مولود یولد علی الفطرة، وفی بعض الروایات علی ھذہ الملة (اخرجہ البخاری ومسلم) یعنی ہر پیدا ہونے والا دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو دوسرے خیالات میں مبتلا کردیتے ہیں، اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بندوں کو حنیف یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے پھر شیاطین ان کے پیچھے لگ گئے اور ان کو اس صحیح راستہ سے دور لے گئے۔- اسی طرح بالخاصہ اثر رکھنے والے بہت سے اعمال و اقوال ہیں جو اس دنیا میں بھی انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم سے جاری ہیں جن کا اثر یہ ہے کہ ان کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اور یاد رکھے یا نہ رکھے وہ بہرحال اپنا کام کرتے اور اپنا اثر دکھلاتے ہیں۔- مثلا بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت و تکبیر کہنے کی جو سنت، ہر مسلمان جانتا ہے اور الحمداللہ پورے عالم اسلام میں جاری ہے، اگرچہ بچہ نہ کلمات کے معنی سمجھتا ہے نہ اس کو بڑا ہونے کے بعد یاد رہتا ہے کہ میرے کان میں کیا الفاظ کہے گئے تھے، اس کی حکمت یہی تو ہے کہ اس کے ذریعہ اس اقرار ازلی کو قوت پہنچا کر کانوں کی راہ سے دل میں ایمان کی تخم ریزی کی جاتی ہے، اور اسی کا یہ اثر مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بڑا ہونے کے بعد اگرچہ یہ اسلام اور اسلامیات سے کتنا ہی دور ہوجائے مگر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور مسلمانوں کی فہرست سے الگ ہونے کو انہتائی برا سمجھتا ہے، اسی طرح جو لوگ قرآن کی زبان نہیں جانتے ان کو بھی تلاوت قرآن کا حکم شاید اسی حکمت پر مبنی ہے کہ اس سے بھی کم از کم یہ مخفی فائدہ ضرور پہنچ جاتا ہے کہ انسان کے قلب میں نور ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔- اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ یعنی یہ اقرار ہم نے اس لئے لیا ہے کہ تم قیامت کے دن یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے غافل تھے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس ازلی سوال و جواب سے تمہارے دلوں میں ایمان کی بنیاد ایسی قائم ہوگئی کہ ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو اللہ جل شانہ کی ربوبیت کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّيَّــتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ۝ ٠ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝ ٠ ۭ قَالُوْا بَلٰي۝ ٠ ۚۛ شَہِدْنَا۝ ٠ ۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اِنَّا كُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِيْنَ۝ ١٧٢ ۙ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

عہد الست - قول باری ہے واذاخذربک من بنی ادم من ظھور ھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ا ہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا تھا) ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں کو ایک ایک قرن یعنی دور کے لحاظ سے نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر اس فطری میلان کے بارے میں گواہ بنایا تھا جو اس نے ان کی عقول اور ان کی فطرت میں پیدا کردیا تھا تاکہ یہی فطری میلان اللہ کی ربوبیت کے اقرار کا مقتضی بن جائے۔ اس طرح ان سب کو یکجا کر کے ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواباً کہا تھا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں “۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی ربوبیت کے متعلق جو سوال کیا تھا وہ بعض انبیاء کی زبانی کیا گیا تھا۔ قول باری ہے ولقدذرانا لجھنم کثیراً من الجن والانس۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن و انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے) لفظ جہنم پر داخل حرف لام کو لام عاقبت کہتے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے فالتقطہ ال فرعون لبکون لھم عدواً وحزناً ۔ آل فرعون نے اسے اٹھا لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے غم کا سبب بن جائے) فرعون کے آل نے اس مقصد کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں اٹھایا تھا لیکن جب انجام کار کے طور پر یہی صورت سامنے آئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے بارے میں اس کا اطلاق کردیا۔ شاعر کا مصرعہ بھی یہی مفہوم ادا کرتا ہے۔ لدواللموت وابنواللخراب۔ موت کے لئے پیدا کردہ اور تخریب کے لئے تعمیر کرو۔ یہ شعر بھی ہے۔ وام سماک فلاتجزعی…فللموت ماغذت الوالدہ…اے ام سماک آنسو نہ بہا اور آہ و بکا نہ کر اس لئے کہ ماں اپنے بچوں کی پرورش موت کے لئے کرتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ واقعہ بھی بیان کیجیے جب کہ انکی اولاد کو ان کی پشتوں سے نکالا اور ان ہی سے اقرار لیا تو سب نے اس بات کا اقرار کیا کہ بیشک آپ ہمارے پروردگار ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ ان پر گواہ رہو اور ان سے کہا تم بھی ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے وعدہ نہیں لیا گیا تھا ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٢ (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ ) - یہ واقعہ عالم ارواح میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ انسانی جسم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اہل عرب جو اس وقت قرآن کے مخاطب تھے ان کی اس وقت کی ذہنی استعداد کے مطابق یہ ثقیل مضمون تھا۔ ایک صورت تو یہ تھی کہ انہیں پہلے تفصیل سے بتایا جاتا کہ انسانوں کی پہلی تخلیق عالم ارواح میں ہوئی تھی اور دنیا میں طبعی اجسام کے ساتھ یہ دوسری تخلیق ہے اور پھر بتایا جاتا کہ یہ میثاق عالم ارواح میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بجائے اس مضمون کو آسان پیرائے میں بیان کرنے کے لیے عام فہم الفاظ عام فہم انداز میں استعمال کیے گئے کہ جب ہم نے نسل آدم کی تمام ذریت کو ان کی پیٹھوں سے نکال لیا۔ یعنی قیامت تک اس دنیا میں جتنے بھی انسان آنے والے تھے ‘ ان سب کی ارواح وہاں موجود تھیں۔- (وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ج اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط) - یعنی پوری طرح ہوش و حواس اور خود شعوری ( ) کے ساتھ یہ اقرار ہوا تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی ہوچکی ہے کہ انسان کی خود شعوری ( ) ہی اسے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے جن میں شعور ( ) تو ہوتا ہے لیکن خود شعوری نہیں ہوتی۔ انسان کی اس خود شعوری کا تعلق اس کی روح سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص صرف انسان میں پھونکی ہے۔ چناچہ جب یہ عہد لیا گیا تو وہاں تمام ارواح موجود تھیں اور انہیں اپنی ذات کا پورا شعور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح انسانیہ سے یہ سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب ‘ تمہارا مالک ‘ تمہارا آقا نہیں ہوں ؟ - (قَالُوْا بَلٰی ج شَہِدْنَا ج) - تمام ارواح نے یہی جواب دیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے ‘ ہم اقرار کرتے ہیں ‘ ہم اس پر گواہ ہیں۔ اب یہاں نوٹ کیجیے کہ یہ اقرار تمام انسانوں پر اللہ کی طرف سے حجت ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے سورة المائدۃ کی آیت ١٩ میں آچکا ہے : اے اہل کتاب تمہارے پاس آچکا ہے ہمارا رسول جو تمہارے لیے (دین کو) واضح کر رہا ہے ‘ رسولوں کے ایک وقفے کے بعد ‘ مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تو آیا ہی نہیں تھا کوئی بشارت دینے والا اور نہ کوئی خبردار کرنے والا۔ تو یہ گویا اتمام حجت تھی اہل کتاب پر۔ اسی طرح سورة الانعام کی آیت ١٥٦ میں فرمایا : مبادا تم یہ کہو کہ کتابیں تو دی گئی تھیں ہم سے پہلے دو گروہوں کو اور ہم تو ان کتابوں کو (غیر زبان ہونے کی وجہ سے) پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ تو یہ اتمام حجت کیا گیا بنی اسماعیل پر کہ اب تمہارے لیے ہم نے اپنا ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ہی میں سے بھیج دیا ہے اور وہ تمہارے لیے ایک کتاب لے کر آیا ہے جو تمہاری اپنی زبان ہی میں ہے۔ لہٰذا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے اپنی کتابیں تو ہم سے پہلے والی امتوں پر نازل کی تھیں ‘ اور یہ کہ اگر ہم پر بھی کوئی ایسی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوتے۔ آیت زیر نظر میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ پوری نوع انسانی کے لیے حجت ہے۔ یہ عہد ہر روح نسانی اللہ سے کر کے دنیا میں آئی ہے اور اخروی مواخذے کی اصل بنیاد یہی گواہی فراہم کرتی ہے۔ نبوت ‘ وحی اور الہامی کتب کے ذریعے جو اتمام حجت کیا گیا ‘ وہ تاکیدمزید اور تکرار کے لیے اور لوگوں کے امتحان کو مزید آسان کرنے کے لیے کیا گیا۔ لیکن حقیقت میں اگر کوئی ہدایت بذریعہ نبوت ‘ وحی وغیرہ نہ بھی آتی تو روز محشر کے عظیم محاسبہ ( ) کے لیے عالم ارواح میں لیا جانے والا یہ عہد ہی کافی تھا جس کا احساس اور شعور ہر انسان کی فطرت میں سمو دیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :133 اوپر کا سلسلہ بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بندگی و اطاعت کا عہد لیا تھا ۔ اب عام انسانوں کی طرف خطاب کر کے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ، درحقیقت تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :134 جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا ، اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی ، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی ، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: ۔ ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور ( ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے ) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی ، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں ۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا ۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے ۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا ۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو ، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے ، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں ، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“ ۔ اس معاملہ کو بعض لوگ محض تمثیلی انداز بیان پر محمُول کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے ، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالم خارجی میں پیش آیا ۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیان واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں پیش کیا جائے گا ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں ۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع ان تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا ، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے ، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی و فرماں برداری ( اسلام ) کے سوا نہیں ہے ۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعید از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے ، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب از امکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور ، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے ۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحب عقل و شعور اور صاحب تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار ( ) لے ۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

88: اس آیت کریمہ میں جس عہد لینے کا ذکر ہے، حدیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد ان کی پشت سے جتنے اِنسان پیدا ہونے والے تھے، ان سب کو ایک جگہ اس طرح جمع فرمایا کہ وہ سب چیونٹیوں کے برابر جسم رکھتے تھے۔ پھر ان سے یہ عہد لیا کہ کیا وہ اﷲ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں؟ سب نے اقرار کیا کہ بیشک وہ اﷲ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں، (روح المعانی بحوالہ نسائی وحاکم وبیہقی وغیرہ) جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے تمام احکام کو مان کر ان پر عمل کریں گے، اور اس طرح اﷲ تعالیٰ نے اِنسان کو دُنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان سے اپنی اطاعت کا اقرار لے لیا تھا۔ دُنیا میں ایسے حضرات بھی ہوئے ہیں جن کو یہ واقعہ دُنیا میں آنے کے بعد بھی یاد رہا ہے، مثلاً حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے ان کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ’’یہ عہد مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں‘‘۔ (معارف القرآن ج : ۴، ص ۱۱۵) لیکن یہ درست ہے کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی اِنسان اس واقعے کو ایک عہد کی شکل میں تو بھول چکے ہیں، مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یاد نہ رہنے کے باوجود اپنا طبعی اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ اثر آج بھی دُنیا کے اکثر وبیشتر اِنسانوں میں موجود ہے کہ وہ اس کائنات کے ایک پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے ہیں، اور اس کی عظمت وکبریائی کے گن گاتے ہیں۔ جو لوگ مادی خواہشات کے گرداب میں پھنس کر اپنی فطرت خراب کرچکے ہوں، ان کی بات تو اور ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کی عظمت ومحبت ہر اِنسان کی فطرت میں سمائی ہوئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ کبھی فطرت سے دور کرنے والے بیرونی عوامل دور ہوتے ہیں تواِنسان حق کی طرف اس طرح دوڑتا ہے جیسے اس کو اپنی کھوئی ہوئی پونجی اچانک مل گئی ہو۔