Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی امت آپ کو پہچان جائے وہ بیان ہو رہے ہیں سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا ۔ مسند احمد میں ہے ایک صاحب فرماتے ہیں میں کچھ خرید و فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا اس شخص سے بھی مل لوں میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے اس کا نوجوان خوبصورت تنومند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کیلئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے کیا میری صفت اور میرے معبوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا ۔ اسی وقت اس کا وہ بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ مستدرک حاکم میں ہے حضرت ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کیلئے روانہ ہوئے ۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم حیلہ بن ایم غسانی کے ہاں گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتین کرلیں ۔ ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ۔ قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی ۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا ۔ قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑھے بادشاہ کا پائے تخت بھی انشاء اللہ عنقریب ہم اپنے قبضے میں کرلیں گے ۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے ۔ اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں ۔ اچھا تم بتاؤ تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں؟ اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا ۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو ہم نے کہا ناممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ ہم اپنے اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹائے شاہی محل کے پاس پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بےساختہ دعا ( لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ) کا نعرہ نکل گیا ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شام اور روم کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنے دین کو اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو ، چلو تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے تمام دربارپادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے ۔ جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا ؟ ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں ۔ اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟ ہم نے کہا السلام علیکم اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟ ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ سے ۔ پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں ۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) ۔ اللہ عزوجل کی قسم ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا ۔ بادشاہ ہیبت ذدہ ہو کر پوچھنے لگا کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آ جاتے ہیں؟ ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے ۔ بادشاہ کہنے لگا کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا ۔ ہم نے پوچھا یہ کیوں؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو ۔ پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا ۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟ ہم نے دونوں باتیں بتا دیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا ۔ تین دن جب گذرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلا نے آیا ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دوہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا منڈھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں ۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو خوبصورت لمبے لمبے ہیں ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ۔ کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے ۔ پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھونگر والے بال تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی ہم سے پوجھا انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت نوح علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ ، بہت خوبصورت آنکھیں ، کشادہ پیشانی ، لمبے رخسار ، سفید داڑھی ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا یہ حضرت محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے ۔ بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب وہ بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل حضور کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ کو آپ کی زندگی میں دیکھ رہا ہے ۔ پس وہ تھوڑی دیر تک غور سے اسے دیکھتا رہا پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو چھوڑ کر اسے بیچ میں ہی اس لئے کھول دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں ۔ پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی ۔ بال گھنگھریالے آنکھیں گہری نظریں تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے انکار کیا بادشاہ نے کہا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی ۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے ۔ ماتھا کشادہ تھا ، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہمارے انکار پر کہا یہ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں ۔ کہا یہ حضرت لوط علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دیکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ، کہا یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ خوبصورت اونچی ناک والے اچھے قامت والے نورانی چہرے والے جس میں خوف اللہ ظاہر تھا رنگ سرخی مائل سفید تھا پوجھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ، کہا یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا ، پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے لا علمی ظاہر کی تو کہا یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی سرخ رنگ بھری پنڈلیاں کشادہ آنکھیں اونجا پیٹ قدرے چھوٹا قد تلوار لٹکائے ہوئے ۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ۔ کہا یہ حضرت داؤد علیہ السلام ہیں پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم نکالا جس میں ایک صورت تھی موٹی رانوں والی لمبے پیروں والی گھوڑے سوار ۔ پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے کہا نہیں ، کہا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی ۔ سفید رنگ نوجوان سخت سیاہ داڑھی بہت زیادہ بال خوشنما آنکھیں خوبصورت چہرہ ۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں ۔ ہم نے پوچھا آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں؟ یہ تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تمامایاء کی اصلی صورت کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا ۔ بادشاہ نے جواب دیا بات یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء علیہم السلام ہیں ان سب کو دکھایا جائے پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا محفوظ تھیں ذوالقرنین نے انہیں وہاں سے لے لیا اور حضرت دانیال کو دیں ۔ پھر بادشاہ کہنے لگے کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہت چھوڑ دوں میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا ۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا ۔ جب ہم خلیفہ المسلمین امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روئے اور فرمانے لگے اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گذرتا ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں ۔ یہ روایت امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے ۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے ۔ حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں تورات میں ہوں وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا ہاں واللہ آپ کی صفتیں تورات میں ہیں جو قرآن میں بھی ہیں کہ اے نبی ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں ، آپ کا نام متوکل ہے ، آپ بدگو اور بد خلق نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے لا الہ الا اللہ کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے ۔ بند دلوں کو کھول دے گا ، بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا ، اندھی آنکھوں کو دیکھتی کر دے گا ۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے ۔ حضرت عطا فرماتے ہیں پھر میں حضرت کعب سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنی لغت میں دونوں کے الفاظ بولے ۔ بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بدخلق نہیں یہ بھی ھے کہ آپ بازاروں میں شور وغل کرنے والے نہیں ، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگذر کرنے والے ہیں ۔ عبداللہ بن عمرو کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے ۔ اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں واللہ اعلم ۔ طبرانی میں حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں تجارت کی غرض سے شام میں گیا وہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ، اس نے کہا اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے؟ میں نے کہا ضرور چنانچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں حضور کی کوئی شبیہ نہ آئی ، اسی وقت ایک اور عالم آیا ہم سے پوچھا کیا بات ہے؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے ، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے ۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل تھی ۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے موذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا آپ اسے بلا لائے امیر المومنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ، کہا کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ قرن ۔ آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا قرن کیا ہے؟ اس نے کہا گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے وہ امیر ہے دین میں بہت سخت ۔ فرمایا اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا ۔ آپ نے فرمایا اللہ عثمان پر رحم کرے تین بار یہ فرمایا پھر فرمایا اچھا ان کے بعد؟ اس نے کہا لوہے کے ٹکڑے جیسا ۔ حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے اس نے کہا اے امیر المومنین ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہہ رہا ہو ( ابو داؤد ) ان کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے برائیوں سے روکیں گے ۔ فی الواقع آپ ایسے ہی تھے کونسی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو؟ کونسی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو؟ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا ۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا ۔ قرآن شاہد ہے کہ ہر امت کے رسول کو پہلا حکم یہی ملا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے ۔ اسی کی ایک اور روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو ۔ پھر حضور کی ایک صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں بہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمھجنا وغیرہ اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں جیسے سور کا گوشت سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کر لی تھیں ۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصان کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے ۔ اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے ۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے ۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا ، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا ، سختی نہ کرنا ، مل کر رہنا ، اختلاف نہ کرنا ۔ آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں ۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گذریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں ۔ فرماتے ہیں میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر ۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا ۔ اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر ۔ ہمیں معاف فرما ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے ۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا ۔ پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

157۔ 1 یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لئے آیت قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معتبر ہے جس کی تفصیل محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہے۔ اس آیت سے بھی تصور دیگر مذاہب کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ 157۔ 2 معروف وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا۔ 157۔ 3 یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی۔ یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اسے قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی اجازت دی وغیرہ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ 157۔ 4 ان آخری الفاظ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہونگے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں نقصان اٹھانے والے اور ناکام ہونگے۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی و فروانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر مشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں، لیکن ان کی یہ ترقی عارضی بطور امتحان و خلاف معمول ہے۔ یہ انکی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح (وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ) 7 ۔ الاعراف :157) سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15 میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے۔ اس لیے اس ‏‏نور سے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفرو شرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نور من نور اللہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٤] بائیبل کی آپ کے متعلق بشارتیں :۔ اس آیت میں خطاب دور نبوی کے اہل کتاب اور دوسرے لوگوں سب کے لیے عام ہے کیونکہ آج بھی اللہ کی رحمت کے حصول کے ذرائع وہی ہیں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی دعا کے جواب میں بتلائے گئے تھے یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان لائیں، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اور مزید شرط یہ ہے کہ اس موجودہ نبی امی کی اطاعت و اتباع بھی کریں جس کی بشارت آج بھی تورات اور انجیل میں موجود ہے اور اہل کتاب انہیں پڑھتے اور اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں۔ مثلاً :- ١۔ استثناء باب ١٨، آیت ١٥ تا ١٩ ٢۔ متی باب ٢١، آیت ٣٣ تا ٤٦ ٣۔ یوحنا باب ١، آیت ١٩ تا ٢١ ٤۔ یوحنا باب ١٤، آیت ١٥ تا ١٧، نیز آیت ٢٥ تا ٣٠ ٥۔ یوحنا باب ١٤، آیت ٢٥ اور ٢٦ ٦۔ یوحنا باب ١٦، آیت ٧ تا ١٥- اور امی کا لفظ غالباً ام (یعنی والدہ) کی طرف منسوب ہے یعنی جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور کسی کا شاگرد نہیں ہوتا چناچہ آپ نے عمر بھر کسی مخلوق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا اس کے باوجود جن علوم و معارف شرعیہ کے آپ معلم بنے پوری دنیا اس کی معترف ہے اور پڑھے لکھے اور دانش وروں میں سے کسی کی طاقت نہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی پیش کرسکیں پس نبی امی کا لقب آپ کے لیے مایہ صد افتخار ہے اور آپ کے امی ہونے میں جو حکمت تھی وہ قرآن نے اسے متعدد مقامات پر بیان کردیا ہے۔- [١٥٥] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :۔ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ اتنا اہم ہے جسے تمام آسمانی شریعتوں میں واجب قرار دیا گیا ہے بہت سی قوموں پر محض اس لیے عذاب آیا کہ انہوں نے اس فریضہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ چناچہ کسی نبی کے سچا ہونے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ کیا وہ اپنے پیروؤں کو اس فریضہ کو بجا لانے کا حکم دیتا ہے یا نہیں۔ ہرقل شہنشاہ روم نے جب ابو سفیان کو بلا کر چند سوالات پوچھے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہ نبی کیسی باتوں کا حکم دیتا ہے تو ابو سفیان نے بتلایا کہ وہ فلاں فلاں (بھلے) کاموں کا حکم دیتا ہے اور فلاں فلاں برے کاموں سے روکتا ہے تو ہرقل نے کہا کہ تمام نبی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی)- [١٥٦] آپ کا بعض چیزوں کو حلال اور حرام کرنا :۔ وہ پاکیزہ اور حلال اشیاء جن کو یعقوب نے اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا پھر علمائے یہود نے ان چیزوں کو مستقل طور پر حرام قرار دے دیا یا وہ چیزیں جو ان کی نافرمانیوں کے باعث ان پر حرام کردی گئیں تھیں وہ سب شریعت محمدیہ میں حلال کردی گئیں۔ مثلاً اونٹ کا گوشت، گائے اور بکری کی چربی وغیرہ اور بعض حرام چیزوں کو یہود نے حلال قرار دے لیا تھا جنہیں آپ کی شریعت میں پھر سے حرام قرار دیا گیا جیسے سود اور غیر یہودی لوگوں کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے حلال اور جائز سمجھ کر حاصل کرنا اس جملہ کا روئے سخن اگرچہ اہل کتاب کی طرف معلوم ہوتا ہے تاہم اس کا حکم عام ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں چناچہ اللہ کے عطا کردہ اسی اختیار کی رو سے آپ نے تمام درندوں اور شکاری پرندوں اور گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام قرار دیا۔ علاوہ ازیں خبائث میں وہ اشیائے خوردنی بھی شامل ہیں جو گندی، باسی، بدبودار یا گل سڑ گئی ہوں۔- [١٥٧] بنی اسرائیل پر احکام میں سختی :۔ اس میں وہ قیود اور بندشیں بھی شامل ہیں جن کا انہیں شرعاً حکم تھا جیسے انہیں قتل کے بدلے صرف قصاص کا حکم دیا گیا تھا دیت یا خون بہا کی رعایت یا رخصت نہیں دی گئی تھی یا اگر ان کے جسم کے کسی حصہ پر پیشاب کے چھینٹے پڑجاتے، تو وہ جسم کا اتنا حصہ قینچی سے کاٹ دیتا (نسائی، کتاب الطہارۃ باب البول الی السترۃ یستربھا) جبکہ ہماری شریعت میں ایسا حصہ صرف دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اور ایسی بندشیں بھی جو ان کے علماء نے از خود عائد کرلی تھیں جیسے اگر ان کی کوئی عورت حائضہ ہوجاتی تو نہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتے نہ اس کے ساتھ کھاتے بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی نہ رہنے دیتے اور ایسی عورتوں کا کسی الگ جگہ رہائش کا بندوبست کیا کرتے تھے (مسلم، کتاب الحیض۔ باب جواز غسل الحائض راس زوجھا) جبکہ ہماری شریعت میں ماسوائے صحبت کے اور کوئی پابندی نہیں۔ پھر ان میں وہ پابندیاں بھی شامل تھیں جو ان کے فقیہوں نے فقہی موشگافیوں سے اور ان کے زاہدوں نے اپنی پرہیزگاری میں غلو کی وجہ سے اور جاہل عوام نے اپنے توہمات سے عائد کر رکھی تھیں۔ اس نبی امی کا کام یہ ہے کہ ایسی تمام جکڑ بندیوں کے بوجھ سے لوگوں کو نجات دے۔- [١٥٨] نور سے مراد کتاب وسنت یا وحی الہٰی :۔ اس نبی امی کی مذکورہ بالا صفات اور لوگوں پر اس کے احسانات کا ذکر کرنے کے بعد تمام لوگوں سے اللہ فرماتے ہیں کہ تمہیں ایسے نبی پر ایمان بھی لانا چاہیے اس کی عزت و تکریم میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا چاہیے اور اس کی حمایت میں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے اور اس روشنی کی پیروی کرنا چاہیے جو ہم نے اس کے ساتھ نازل فرمائی ہے روشنی سے مراد کتاب اللہ بھی ہے اور اس پر عمل کرنے کا طریق کار یعنی سنت نبوی بھی۔ اگر تم مذکورہ بالا کام کرو گے تو تب ہی تم کامیاب ہوسکتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ ۔۔ : یعنی اس زمانے میں میری رحمت کے خاص طور پر مستحق وہ لوگ ہیں۔۔ (قرطبی)- اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نو صفات مذکور ہیں اور الْاُمِّيَّ (جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو) کے لفظ سے یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود آپ میں جو کمال علم پایا جاتا ہے وہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے، جو ” علوم نبوت “ قرآن مجید اور احادیث کی شکل میں موجود ہیں انھیں پڑھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین قوموں کی راہنما بن گئی۔ - الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا۔۔ : اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل میں لفظی اور معنوی تحریف میں کم ہی کسر چھوڑی ہے، خصوصاً مختلف زبانوں کے تراجم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے بجائے اس کا ترجمہ کردیا ہے، حالانکہ نام کا ترجمہ نہیں کہا جاتا، پھر ترجمہ بھی اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے اور اصل زبان میں جو کتابیں تھیں وہ ملتی ہی نہیں، تاہم آج بھی تورات و انجیل میں وہ مقامات موجود ہیں جن میں بنی اسرائیل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے استثناء، باب ١٨، فقرہ ١٥ تا ١٩۔ باب ٣٣، فقرہ ٢۔ متی، باب ٣، فقرہ ١ تا ١٢۔ یوحنا، باب ١، فقرہ ١٩ تا ٢٢۔ باب ١٤، فقرہ ١٥ تا ١٧ اور ٢٥ تا ٢٧۔ باب ١٦، فقرہ ١٢ تا ١٥۔ علاوہ ازیں دیکھیے تورات کی پانچویں کتاب استثناء، باب ١٧، فقرہ ١٤۔ یوحنا، باب ١٦، فقرہ ١٢ تا ١٤۔- وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ ۔۔ : یعنی جو طیب چیزیں ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کردی گئی تھیں، یا انھوں نے خود انھیں اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (جیسے اونٹ کا گوشت اور چربی وغیرہ) وہ انھیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو انھوں نے حلال قرار دے رکھا تھا (جیسے سور کا گوشت اور شراب وغیرہ) وہ انھیں حرام قرار دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو چیز شریعت نے حلال قرار دی ہے وہ طیب ہے اور جو حرام قرار دی ہے وہ خبیث ہے۔- وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ ۔۔ : ” اِصْرٌ“ (بوجھ) سے مراد وہ سخت احکام ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نماز صرف عبادت خانوں ہی میں ادا کرنا، شرک کی حد قتل ہی ہونا وغیرہ اور ” وَالْاَغْلٰلَ “ (طوقوں) سے مراد وہ خود ساختہ پابندیاں ہیں جو ان کے علماء نے ان پر لگا رکھی تھیں، یا ان کے عوام نے جو رسوم خود اپنے آپ پر لازم قرار دے رکھی تھیں، مثلاً حائضہ کو کھانے پینے میں الگ کردینا، اس کی رہائش بھی الگ کردینا، جیسا کہ مسلمانوں میں نصرانیوں اور ہندوؤں کی دیکھا دیکھی موت کی رسوم تیجا، ساتواں، چالیسواں، پیدائش اور نکاح کی رسوم، مثلاً بچے کی پیدائش پر دروازے پر سِرَس یعنی شَرِینہ کے پتے لٹکانا، زچہ کی چارپائی پر لوہا رکھنا، کھسرے نچانا، ان پر خرچ کرنا، بےاولاد خاتون کو منحوس سمجھ کر گھر میں نہ آنے دینا، نکاح میں سہرا، گانا، مہندی، منگنی کی خود ساختہ رسمیں، اسی طرح نیوندرہ، سلامی اور جہیز وغیرہ جن سے لوگوں کی زندگی دشوار ہوچکی ہے اور جو نہ اللہ کی کتاب میں ہیں نہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں۔ اسی طرح اللہ بہتر جانتا ہے کہ پیغمبروں کی گستاخی کرنے والی حتیٰ کہ انھیں قتل تک کردینے والی اس امت کے احبارو رہبان نے کتنی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا ہوگا اور ختم اور میت بخشوانے وغیرہ کے نام پر لوگوں کا مال کس کس طرح کھایا ہوگا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام بوجھ اور طوق اتار کر اور وہ تمام پابندیاں توڑ کر اصل اسلام پیش فرمایا جو نہایت سادہ اور آسان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَحَبُّ الدِّیْنِ إِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ ) ” اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب آسان حنیفی دین ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر، قبل ح : ٣٩، تعلیقًا ] اور فرمایا : ( اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ) ” دین آسان ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ٣٩ ] ایک دوسری حدیث ہے : ( لاَ ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ٢٥٠ ] یعنی نہ ابتداءً نقصان پہنچانا جائز ہے نہ بدلے میں نقصان پہنچانا۔ نیز آپ صحابہ کرام (رض) کو ہمیشہ تلقین فرماتے : ( یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا )” آسانی کرو، تنگی مت کرو۔ “ [ بخاری، الأدب، باب قول - النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یسروا ولا تعسروا : ٦١٢٥ ]- افسوس مسلمانوں نے بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شریعت کے فرائض کی پابندی کرنا اور منع کردہ چیزوں سے اجتناب چھوڑ دیا اور اپنی اور اپنے مولویوں اور جاہل عوام کی خود ساختہ رسوم و رواج کے بوجھ اور طوق اپنے اوپر ڈال کر اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا۔ وہ حج پر نہیں جاتے مگر قبروں پر عرسوں میں ہزاروں لٹا دیتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے مگر مرشدوں کے وظائف پر گھنٹے لگا دیتے ہیں۔ زکوٰۃ و عشر نہیں دیتے مگر میت کے موقع پر دیگوں، ختموں اور مولوی صاحبان پر لاکھوں اڑا دیتے ہیں، نکاح کی رسوم پوری کرنے، جہیز بنانے کے لیے ساری عمر کے لیے مقروض ہوجاتے ہیں مگر لڑکیوں کو ورثہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اس کی شکایت اللہ کے سوا کس کے سامنے کی جائے۔ ۭفَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ ۔۔ : وہ نور جو آپ کے ساتھ اتارا گیا وحی الٰہی ہے جو قرآن و سنت کی صورت میں قیامت تک محفوظ ہے۔ ”ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ “ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد آپ کی آمد کا علم ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا، خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا کوئی اور، وہ ہرگز فلاح نہیں پاسکتا۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٦٢) کا حاشیہ (٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ( جن کی صفت یہ بھی ہے کہ) وہ ان کو نیک کاموں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بتلاتے ہیں ( گو وہ پہلی شرائع میں حرام تھیں) اور گندی چیزوں کو ( بدستور) ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو ( پہلے شرائع میں) بوجھ اور طوق ( لدے ہوئے) تھے ( یعنی سخت اور شدید احکام جن کا ان کو پابند کیا ہوا تھا) ان کو دور کرتے ہیں ( یعنی ایسے سخت احکام ان کی شریعت میں منسوخ ہوجاتے ہیں) سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ( یعنی قرآن) ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں ( کہ ابدی عذاب سے نجات پائیں گے)- معارف و مسائل - خاتم النبین محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کے مخصوص صفات و فضائل :- پچھلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے جو اب میں ارشاد ہوا تھا کہ یوں تو اللہ کی رحمت ہر چیز ہر شخص کے لئے وسیع ہے آپ کی موجودہ امت بھی اس سے محروم نہیں، لیکن مکمل نعمت و رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ایمان وتقوی اور زکوة وغیرہ کی مخصوص شرائط کو پورا کریں۔ - اس آیت میں ان لوگوں کا پتہ دیا گیا ہے کہ ان شرائط پر پورے اترنے والے کون لوگ ہوں گے اور بتلایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو رسول امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کریں، اس ضمن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند خصوصی فضائل و کمالات اور علامات کا بھی ذکر فرما کر آپ پر صرف ایمان لانے کا نہیں بلکہ آپ کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ فلاح آخرت کے لئے ایمان کے ساتھ اتباع شریعت وسنت ضروری ہے۔- الرسول النبی الامی اس جگہ رسول اور نبی کے دو لقبوں کے ساتھ آپ کی ایک تیسری صفت امی بھی بیان کی گئی ہے، امی کے لفظی معنی ان پڑھ کے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، عام قوم عرب کو قرآن میں ا میین اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اور امی ہونا کسی انسان کے لئے کوئی صفت مدح نہیں بلکہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے، مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علوم و معارف اور خصوصیات اور حالات و کمالات کے ساتھ امی ہونا آپ کے لئے بڑی صفت کمال بن گئی ہے، کیونکہ اگر علمی عملی اخلاقی کمالات کسی لکھے پڑھے آدمی سے ظاہر ہوں تو وہ اس کی تعلیم کا نتیجہ ہوتے ہیں لیکن ایک امی محض سے ایسے بیش بہا علوم اور بےنظیر حقائق و معارف کا صدور اس کا ایک ایسا کھلا ہوا معجزہ ہے جس سے کوئی پرلے درجے کا معاند و مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا، خصوصا جبکہ آپ کی عمر شریف کے چالیس سال مکہ مکرمہ میں سب کے سامنے اس طرح گزرے کہ کسی سے نہ ایک حرف پڑھا نہ سیکھا ٹھیک چالیس سال کی عمر ہونے پر یکایک آپ کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوا جس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی مثال لانے سے ساری دنیا عاجز ہوگئی، تو ان حالات میں آپ کا امی ہونا آپ کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلام الہی ہونے پر ایک بہت بڑی شہادت ہے، اس لئے امی ہونا اگرچہ دوسروں کے لئے کوئی صفت مدح نہیں مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بہت بڑی صفت مدح و کمال ہے، جیسے متکبر کا لفظ عام انسانوں کے لئے صفت مدح نہیں بلکہ عیب ہے مگر حق تعالیٰ شانہ کے لئے خصوصیت سے صفت مدح ہے۔ - آیت میں چوتھی صفت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ آپ کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کی صفات و حالات کو لکھا ہوا پائیں گے بلکہ يَجِدُوْنَهٗ کا لفظ اختیار کیا گیا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو لکھا ہوا پائیں گے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تورات و انجیل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ایسی تفصیل و وضاحت کے ساتھ ہوں گی کہ ان کو دیکھنا ایسا ہوگا جیسے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ لیا، اور تورات و انجیل کی تخصیص یہاں اس لئے کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل انہیں دو کتابوں کے قائل ہیں ورنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات وصفات کا ذکر زبور میں بھی موجود ہے۔- آیت مذکورہ کے اصل مخاطب موسیٰ (علیہ السلام) ہیں جس میں ان کو بتلایا گیا ہے کہ دنیا و آخرت کی مکمل فلاح آپ کی امت کے ان لوگوں کا حصہ ہے جو نبی امی خاتم الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کا اتباع کریں جن کا ذکر وہ تورات و انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے۔- تورات و انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور علامات :- موجودہ تورات و انجیل بیشمار تحریفات اور تغیر و تبدل ہوجانے کے سبب قابل اعتماد نہیں رہی، اس کے باوجود اب بھی ان میں ایسے کلمات موجود ہیں جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پتہ دیتے ہیں، اور اتنی بات بالکل واضح ہے کہ جب قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ خاتم الانبیاء کی صفات و علامات تورات و انجیل میں لکھی ہوئی ہیں، اگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہوتی تو اس زمانہ کے یہود و نصارٰی کے لئے تو اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا ہتھیار ہاتھ آجاتا کہ اس کے ذریعہ قرآن کی تکذیب کرسکتے تھے کہ تورات و انجیل میں کہیں نبی امی کے حالات کا ذکر نہیں، لیکن اس وقت کے یہود و نصارٰی نے اس کے خلاف کوئی اعلان نہیں کیا، یہ خود اس پر شاہد ہے کہ اس وقت تورات و انجیل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات و علامات واضح طور پر موجود تھیں جس نے ان لوگوں کی زبانوں پر مہر لگادی۔- خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات تورات و انجیل میں لکھی تھیں ان کا کچھ بیان تو قرآن کریم میں بحوالہ تورات و انجیل آیا ہے اور کچھ روایات حدیث میں ان حضرات سے منقول ہے جنہوں نے اصلی تورات و انجیل کو دیکھا اور ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر مبارک پڑھ کر ہی وہ مسلمان ہوئے۔ - بیہقی نے دلائل النبوة میں نقل کیا ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا وہ اتفاقا بیمار ہوگیا تو آپ اس کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تورات پڑھ رہا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا کہ اے یہودی میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی ہے کہ کیا تو تورات میں میرے حالات اور صفات اور میرے ظہور کا بیان پاتا ہے ؟ اس نے انکار کیا تو بیٹا بولا یا رسول اللہ یہ غلط کہتا ہے، تورات میں ہم آپ کا ذکر اور آپ کی صفات پاتے ہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں آنحضرت اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اب یہ مسلمان ہے انتقال کے بعد اس کی تجہیز وتکفین مسلمان کریں، باپ کے حوالہ نہ کریں (مظہری) اور حضرت علی مرتضی فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ ایک یہودی کا قرض تھا، اس نے آکر اپنا قرض مانگا آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں کچھ مہلت دو ، یہودی نے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک میرا قرض ادا نہ کردو، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہیں اختیار ہے میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی جگہ بیٹھ گئے اور ظہر، مغرب عشاء کی اور پھر اگلے روز صبح کی نماز یہیں ادا فرمائی، صحابہ کرام یہ ماجرا دیکھ کر رنجیدہ اور غضبناک ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ یہودی کو ڈرا دھمکا کر یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو تاڑ لیا اور صحابہ سے پوچھا یہ کیا کرتے ہو ؟ تب انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ہم اس کو کیسے برداشت کریں کہ ایک یہودی آپ کو قید کرے، آپ نے فرمایا کہ ” مجھے میرے رب نے منع فرمایا ہے کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں، یہودی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی یہودی نے کہا اشھد ان لآ الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ، اس طرح مشرف باسلام ہو کر اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنا آدھا مال اللہ کے راستہ میں دے دیا، اور قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں نے اس وقت جو کچھ کیا اس کا مقصد صرف یہ امتحان کرنا تھا کہ تورات میں جو آپ کی صفات بتلائی گئی ہیں وہ آپ میں صحیح طور پر موجود ہیں یا نہیں، میں نے تورات میں آپ کے متعلق یہ الفاظ پڑھے ہیں : محمد بن عبدللہ، ان کی ولادت مکہ میں ہوگی اور) ہجرت طیبہ کی طرف اور ملک ان کا شام ہوگا، نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ سخت بات کرنے والے نہ بازاروں میں شور کرنے والے فحش اور بےحیائی سے دور ہوں گے۔- اب میں نے ان تمام صفات کا امتحان کرکے آپ میں صحیح پایا، اس لئے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ میرا آدھا مال ہے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں، اور یہ یہودی بہت مالدار تھا، آدھا مال بھی ایک بڑی دولت تھی۔ اس روایت کو تفسیر مظہری میں بحوالہ دلائل النبوة بیہقی نقل فرمایا ہے۔ - اور امام بغوی نے اپنی سند کے ساتھ کعب احبار سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ تورات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ محمد اللہ کے رسول اور منتخب بندے ہیں، نہ سخت مزاج ہیں نہ بیہودہ گو، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے بلکہ معاف فرما دیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، ولادت آپ کی مکہ میں اور ہجرت طیبہ میں ہوگی، ملک آپ کا شام ہوگا اور امت آپ کی حمادین ہوگی، یعنی راحت وکلفت دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وشکر ادا کرے گی، ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت وہ تکبیر کہا کرے گی، وہ آفتاب کے سایوں پر نظر رکھے گی تاکہ اس کے ذریعہ اوقات کا پتہ لگا کر نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھا کرے) وہ اپنے نچلے بدن پر تہبند استعمال کریں گے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو وضو کے ذریعہ پاک صاف رکھیں گے) ان کا اذان دینے والا فضا میں آواز بلند کرے گا، جہاد میں ان کی صفیں ایسی ہوں گی جیسے نماز جماعت میں، رات کو ان کی تلاوت اور ذکر کی آوازیں اس طرح گونجیں گی جیسے شہد کی مکھیوں کا شور ہوتا ہے “ (مظہری)- ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت سہل مولی خیثمہ سے سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت سہل نے فرمایا کہ میں نے خود انجیل میں محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات پڑھی ہیں کہ ” وہ نہ پست قد ہوں گے نہ بہت دراز قد، سفید رنگ دو زلفوں والے ہوں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان ایک مہر نبوت ہوگی، صدقہ قبول نہ کریں گے، حمار اور اونٹ پر سوار ہوں گے، بکریوں کا دودھ خود دوہ لیا کریں گے پیوند زدہ کرتہ استعمال فرماویں گے اور جو ایسا کرتا ہے وہ تکبر سے بری ہوتا ہے، وہ اسماعیل (علیہ السلام) کی ذریت میں ہوں گے، ان کا نام احمد ہوگا۔ “- اور ابن سعد نے طبقات میں، دارمی نے اپنے مسند میں، بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت نقل کی ہے، جو یہود کے سب سے بڑے عالم اور تورات کے ماہر مشہور تھے، انہوں نے فرمایا کہ تورات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ الفاظ مذکور ہیں، اے نبی ہم نے آپ کو بھیجا ہے سب امتوں پر گواہ بنا کر اور نیک عمل کرنے والوں کو بشارت دینے والا برے اعمال والوں کو ڈرانے والا بنا کر اور امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بنا کر، آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، نہ آپ سخت مزاج ہیں نہ جھگڑالو اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک وفات نہ دیں گے جب تک ان کے ذریعہ ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں یہاں تک کہ وہ لآ الہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں اور اندھی آنکھوں کو کھول دیں اور بہرے کانوں کو سننے کے قابل بنادیں اور بندھے ہوئے دلوں کو کھول دیں “- اس جیسی ایک روایت بخاری میں بروایت عبداللہ بن عمرو بن عاص بھی مذکور ہے۔- اور کتب سابقہ کے بڑے ماہر عالم حضرت وہب بن منبہ سے بیہقی نے دلائل النبوة میں نقل کیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی فرمائی کہ اے داؤد آپ کے بعد ایک نبی آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا، میں ان پر کبھی ناراض نہ ہوں گا اور وہ کبھی میری نافرمانی نہ کریں گے اور میں نے ان کے لئے سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں، ان کی امت امت مرحومہ ہے، میں نے ان کو وہ نوافل دیئے ہیں جو انبیاء کو عطا کی تھیں اور ان پر وہ فرائض عائد کئے ہیں جو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) پر لازم کئے گئے تھے یہاں تک کہ وہ محشر میں میرے سامنے اس حالت میں آئیں گے کہ ان کا نور انبیاء علہیم السلام کے نور کی مانند ہوگا، اے داؤد میں نے محمد اور ان کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے، میں نے ان کو چھ چیزیں خصوصی طور پر عطا کی ہیں جو دوسری امتوں کو نہیں دی گئیں۔ اول یہ کہ خطا و نسیان پر ان کو عذاب نہ ہوگا، جو گناہ ان سے بغیر قصد کے صادر ہوجائے اگر وہ اس کی مغفرت مجھ سے طلب کریں تو میں معاف کردوں گا، اور جو مال وہ اللہ کی راہ میں بطیب خاطر خرچ کریں گے تو میں دنیا ہی میں ان کو اس سے بہت زیادہ دے دوں گا، اور جب ان پر کوئی مصیبت پڑے اور وہ انا للہ وانا الیہ رجعون کہیں تو میں ان پر اس مصیبت کو صلوة و رحمت اور جنت کی طرف ہدایت بنادوں گا، وہ جو دعا کریں گے میں قبول کروں گا کبھی اس طرح کہ جو مانگا ہے وہی دے دوں اور کبھی اس طرح کہ اس دعا کو ان کی آخرت کا سامان بنا دوں۔ ( روح المعانی)- سینکڑوں میں سے یہ چند روایات تورات، انجیل، زبور کے حوالہ سے نقل کی گئی ہیں پوری روایات کو محدثین نے مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے۔- تورات و انجیل میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت مرحومہ کے خاص فضائل وصفات اور علامات کی تفصیل پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس آخری دور میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب اظہار الحق میں اس کو بڑے شرح و بسط اور تفصیل و تحقیق کے ساتھ لکھا ہے، اس میں موجودہ زمانے کی تورات و انجیل جس میں بےانتہا تحریفات ہوچکی ہیں ان میں بھی بہت سی صفات و فضائل کا ذکر موجود ہونا ثابت کیا ہے، اس کا عربی سے اردو میں ترجمہ حال میں شائع ہوچکا ہے، قابل دید ہے۔- سابقہ آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات و علامات کا تفصیلی بیان تھا جو تورات و انجیل اور زبور میں لکھی ہوئی تھیں، اس میں آحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ مزید صفات بھی مذکور ہیں۔ - جن میں پہلی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، معروف “ کے لفظی معنی جانا پہچانا ہوا، اور منکر کے لغوی معنی اوپرا، اجنبی جو پہچانا نہ جائے، اس جگہ معروف سے وہ نیک کام مراد ہیں جو شریعت اسلام میں جانے پہچانے ہوئے ہیں اور منکر سے وہ برے کام جو دین و شریعت سے اجنبی ہیں۔- اس جگہ اچھے کاموں کو معروف کے لفظ سے اور برے کاموں کو منکر کے لفظ سے تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین میں نیک کام صرف اس کو سمجھا جائے گا جو قرن اول کے مسلمانوں میں رائج ہوا اور جانا پہچانا گیا اور جو ایسا نہ ہو وہ منکر کہلائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ وتابعین نے جس کام کو نیک نہیں سمجھا وہ خواہ کتنا ہی بھلا معلوم ہو ازروئے شریعت وہ بھلا نہیں، احادیث صحیحہ میں اسی لئے ان کاموں کو جن کی تعلیم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین کی طرف سے نہیں پائی جاتی ان کو محدثات الامور اور بدعت فرما کر گمراہی قرار دیا ہے، معنی آیت کے اس جملہ کے یہ ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کریں گے اور برے کاموں سے منع فرمادیں گے۔- یہ صفت اگرچہ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں عام ہے اور ہونا ہی چاہئے کیونکہ ہر نبی اور رسول اسی کام کے لئے بھیجے جاتے ہیں کہ لوگوں کو نیک کاموں کی طرف ہدایت کریں اور برے کاموں سے منع کریں، لیکن اس جگہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات کے موقع پر اس کا بیان کرنا اس کی خبر دیتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس صفت میں دوسرے انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی خاص امتیاز اور خصوصیت حاصل ہے اور وہ امتیاز کئی وجہ سے ہے، اول اس کام کا خاص سلیقہ کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ان کے مناسب حال طریق سے فہمائش کرنا جس سے بات ان کے دل میں اتر جائے اور بھاری نہ معلوم ہو، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات میں غور کیا جائے تو اس کا مشاہدہ ہوگا کہ آپ کو حق تعالیٰ نے اس میں خصوصی اور امتیازی سلیقہ عطا فرمایا تھا، عرب کے بدوی جو اونٹ اور بکری چرانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے ان سے ان کے انداز فہم پر گفتگو فرماتے اور دقیق علمی مضامین کو ایسے سادہ الفاظ میں سمجھا دیتے تھے کہ ان پڑھ لوگوں کی بھی سمجھ میں آجائے اور قیصر و کسری اور دوسرے ملوک عجم اور ان کے بیھجے ہوئے ذی علم و فہم سفراء سے ان کے انداز کے مطابق گفتگو ہوتی تھی اور بلا استثناء سب ہی اس گفتگو سے متاثر ہوتے تھے، دوسرے آپ کی اور آپ کے کلام کی خداداد مقبولیت اور دلوں میں تاثیر بھی ایک معجزانہ انداز رکھتی ہے بڑے سے بڑا دشمن بھی جب آپ کا کلام سنتا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا۔- اوپر بحولہ تورات جو صفات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیان کی گئی تھیں ان میں یہ بھی تھا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اندھی آنکھوں کو بینا اور بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا اور بند دلوں کو کھول دے گا، یہ اوصاف شاید اسی خصوصیت کا نتیجہ ہوں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ نے صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا امتیازی سلیقہ عطا فرمایا تھا۔ - دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے لئے پاکیزہ اور پسندیدہ چیزوں کو حلال فرماویں گے اور گندی چیزوں کو حرام، مراد یہ ہے کہ بہت سی پاکیزہ اور پسندیدہ چیزیں جو بنی اسرائیل پر بطور سزا کے حرام کردی گئی تھیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی حرمت کو ختم کردیں گے۔ مثلا حلال جانوروں کی چربی وغیرہ جو بنی اسرائیل کی بدکاریوں کی سزا میں ان پر حرام کردی گئی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حلال قرار دیا، اور گندی چیزوں میں خون اور مردار جانور، شراب اور تمام حرام جانور داخل ہیں اور تمام حرام ذرائع آمدنی بھی مثلا سود، رشوت جوا وغیرہ، ( السراج المنیر) اور بعض حضرات نے برے اخلاق و عادات کو بھی گندی چیزوں میں شمار فرمایا ہے۔- تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی (آیت) وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہٹا دیں گے لوگوں سے اس بوجھ اور بند کو جو ان پر مسلط تھی۔ - لفظ اصر کے معنی بارگراں کے ہیں جو آدمی کو حرکت کرنے سے روک دے اور اغلال غل کی جمع ہے، اس ہتھکڑی کو غل کہتے ہیں جس کے ذریعہ مجرم کے ہاتھوں کو اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور وہ بالکل بےاختیار ہوجاتا ہے۔ - اصر اور اغلال یعنی بار گراں اور قید سے مراد اس آیت میں وہ احکام شاقہ اور دشوار واجبات ہیں جو اصل دین میں مقصود نہ تھے بلکہ بنی اسرائیل پر بطور سزا کے لازم کردیئے گئے تھے، مثلا کپڑا ناپاک ہوجائے تو پانی سے دھو دینا بنی اسرائیل کے لئے کافی نہ تھا بلکہ یہ واجب تھا کہ جس جگہ نجاست لگی ہے اس کو کاٹ دیا جائے، اور کفار سے جہاد کرکے جو مال غنیمت ان کو ہاتھ آئے، ان کے لئے حلال نہیں تھا بلکہ آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا دیتی تھی، ہفتہ کے دن شکار کھیلنا ان کے لئے حرام تھا جن اعضاء سے کوئی گناہ صادر ہو ان اعضاء کو کاٹ دینا واجب تھا کسی کا قتل خواہ عمد ہو یا خطاء دونوں صورتوں میں قصاص یعنی قاتل کا قتل کرنا واجب تھا خون بہا دینے کا قانون نہ تھا۔ - ان احکام شاقة کو جو بنی اسرائیل پر نافذ تھے قرآن میں اصر اور اغلال فرمایا اور یہ خبر دی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سخت احکام کو منسوخ کرکے سہل احکام جاری فرماویں گے۔ اسی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا کہ میں نے تم کو ایک سہل اور آسان شریعت پر چھوڑا ہے جس میں نہ کوئی مشقت ہے نہ گمراہی کا اندیشہ۔- ایک حدیث میں ارشاد ہے الدین یسر یعنی دین آسان ہے، قرآن کریم نے فرمایا، (آیت) وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔- نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخصوص صفات کمال بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا، (آیت) فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ، یعنی تورات و انجیل میں نبی آخر الزمان کی واضح صفات و علامات بتلا دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی تعظیم کریں اور مدد کریں اور اس نور کا اتباع کریں جو آپ کے ساتھ بھیجا گیا ہے یعنی قرآن عظیم تو یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔- یہاں فلاح پانے کے لئے چار شرطیں ذکر کی گئی ہیں، اول آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان دوسرے آپ کی تعظیم و تکریم، تیسرے آپ کی امداد، چوتھے قرآن کریم کا اتباع۔- تعظیم و تکریم کے لئے اس جگہ لفظ عَزَّرُوْهُ لایا گیا ہے جو تعزیر سے مشتق ہے، تعزیر کے اصلی معنی شفقت کے ساتھ منع کرنے، حفاظت کرنے کے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے عَزَّرُوْهُ کے معنی تعظیم و تکریم کرنے کے بتلائے ہیں اور مبرد نے کہا کہ اعلی درجہ کی تعظیم کو تعزیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔- مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و محبت کے ساتھ آپ کی تائید و حمایت اور مخالفین کے مقابلہ میں آپ کی مدد کریں وہ مکمل فلاح پانے والے ہیں، زمانہ نبوت میں تو یہ تائید ونصرت آپ کی ذات کے ساتھ متعلق تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی شریعت اور آپ کے دین کی تائید و نصرت ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید و نصرت کا مصداق ہے۔ - قرآن کریم کو اس آیت میں نور سے تعبیر کیا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ جس طرح نور کے نور ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں، نور خود اپنے وجود کی دلیل ہوتا ہے، اسی طرح قرآن کریم خود اپنے کلام ربانی اور کلام حق ہونے کی دلیل ہے کہ ایک امی محض کی زبان سے ایسا اعلی وابلغ کلام آیا جس کی مثال لانے سے ساری دنیا عاجز ہوگئی، یہ خود قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔- نیز جس طرح نور خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسری اندھیریوں میں بھی اجالا کردیتا ہے اسی طرح قرآن کریم نے اندھیریوں میں پھنسی ہوئی دنیا کو تاریکیوں سے نکالا۔- قرآن کے ساتھ سنت کا اتباع بھی فرض ہے :- اس آیت کے شروع میں یہ (آیت) يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ فرمایا تھا اور آخر میں واتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ فرمایا۔ - ان میں سے پہلے جملہ میں نبی امی کے اتباع کا حکم ہے اور آخری جملہ میں قرآن کے اتباع کا۔ اس سے ثابت ہوا کہ نجات آخرت کتاب اور سنت دونوں کے اتباع پر موقوف ہے کیونکہ نبی امی کا اتباع ان کی سنت ہی کے اتباع کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔- رسول کا صرف اتباع بھی کافی نہیں، ادب و احترام اور محبت بھی فرض ہے :- اور ان دونوں جملوں کے درمیان عَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا ایسا اتباع مقصود نہیں جیسے عام دنیا کے حکام کا اتباع جبرا قہرا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ اتباع مقصود ہے جو عظمت و محبت کا نتیجہ ہو یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و محبت دل میں اتنی ہو کہ اس کی وجہ سے آپ کے احکام کے اتباع پر مجبور ہو، کیونکہ امت کو اپنے رسول سے مختلف قسم کے تعلقات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ امیر و حاکم ہے اور امت محکوم و رعیت، دوسرے یہ کہ رسول محبوب ہے اور پوری امت ان کی محب۔- ایک یہ کہ رسول اپنے کمالات علمی، عملی، اخلاقی کی بناء پر صاحب عظمت ہے، اور ساری امت ان کے مقابلہ میں پست اور عاجز۔- ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سب شانیں درجہ کمال میں پائی جاتی ہیں اس لئے امت پر لازم ہے کہ ہر شان کا حق ادا کریں، بحیثیت محبوب ہونے کے ان کے ساتھ گہری محبت رکھیں اور بحیثیت کمالات نبوت ان کی تعظیم و تکریم بجا لائیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ انبیاء کے بھیجنے کا مقصد ہی اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لیکن حق تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں صرف اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم و توقیر اور احترام و ادب کو بھی لازم قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس کے آداب سکھائے گئے ہیں۔- اس آیت میں تو عَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ کے الفاظ سے اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے اور ایک دوسری آیت میں بھی وَتُعَزِّرُوہٗ وَتُوَقِّرُوہٗ آیا ہے، اور کئی آیتوں میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایسی بلند آواز سے بات نہ کریں کہ آپ کی آواز سے بڑھ جائے (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ۔ - اور ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ، یعنی اے مسلمانو اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو، یعنی جس مجلس میں حضور تشریف فرما ہوں اور کوئی معاملہ پیش آئے تو آپ سے پہلے کوئی نہ بولے۔- حضرت سہل بن عبداللہ نے اس آیت کے معنی یہ بتلائے ہیں کہ آپ سے پہلے نہ بولیں اور جب آپ کلام کریں تو سب خموش ہو کر سنیں۔- ایک آیت قرآن میں اس کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارنے کے وقت ادب کا لحاظ رکھیں اس طرح نہ پکاریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں۔ (آیت) لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا، آخر آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کام بےادبی کا کیا گیا تو سارے اعمال حبط اور برباد ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باوجودیکہ ہر وقت، ہر حال میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام و تعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ کے نازل ہونے کے بعد حضرت صدیق اکبر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے تھے جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے، یہی حال حضرت فاروق اعظم کا تھا، (شفاء) - حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کوئی مجھے دنیا میں محبوب نہ تھا اور میرا یہ حال تھا کہ میں آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی نہ سکتا تھا، اور اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرے تو میں بیان کرنے پر اس لئے قادر نہیں کہ میں نے کبھی آپ کو نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں۔- ترمذی نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ مجلس صحابہ میں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاتے تھے تو سب نیچی نظریں کرکے بیٹھتے تھے، صرف صدیق اکبر اور فاروق اعظم آپ کی طرف نظر کرتے اور آپ ان کی طرف نظر فرما کر تبسم فرماتے تھے۔- عروہ بن مسعود کو اہل مکہ نے جاسوس بنا کر مسلمانوں کا حال معلوم کرنے کے لئے مدینہ بھیجا اس نے صحابہ کرام کو پروانہ وار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرتا اور فدا ہوتا ہوا دیکھ کر واپسی میں یہ رپورٹ دی کہ میں نے کسری و قیصر کے دربار بھی دیکھے ہیں اور ملک نجاشی سے بھی ملا ہوں مگر جو حال میں نے اصحاب محمد کا دیکھا وہ کہیں نہیں دیکھا، میرا خیال یہ ہے کہ تم لوگ ان کے مقابلہ میں ہرگز کامیاب نہ ہوگے۔- حضرت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث میں ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے تو صحابہ کرام باہر سے آواز دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلانا بےادبی سمجھتے تھے دروازہ پر دستک بھی صرف ناخن سے دیتے تھے تاکہ زیادہ کھڑکا اور شور نہ ہو۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی صحابہ وتابعین کا معمول یہ تھا کہ مسجد نبوی میں کبھی بلند آواز سے بات کرنا تو درکنار کوئی وعظ تقریر بھی زیادہ بلند آواز سے پسند نہ کرتے تھے، اکثر حضرات کا عالم یہ تھا کہ جب کسی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک لیا تو رونے لگے اور ہیبت زدہ ہوگئے۔- اسی تعظیم و توقیر کی برکت تھی کہ ان حضرات کو کمالات نبوت سے خاص حصہ ملا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء کے بعد سب سے اونچا مقام عطا فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝ ٠ ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ١٥٧ ۧ- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أُمِّيُّ- هو الذي لا يكتب ولا يقرأ من کتاب، وعليه حمل : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ [ الجمعة 2] قال قطرب : الأُمِّيَّة : الغفلة والجهالة، فالأميّ منه، وذلک هو قلة المعرفة، ومنه قوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] أي : إلا أن يتلی عليهم .- قال الفرّاء : هم العرب الذین لم يكن لهم کتاب، والنَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ [ الأعراف 157] قيل : منسوب إلى الأمّة الذین لم يکتبوا، لکونه علی عادتهم کقولک : عامّي، لکونه علی عادة العامّة، وقیل : سمي بذلک لأنه لم يكن يكتب ولا يقرأ من کتاب، وذلک فضیلة له لاستغنائه بحفظه، واعتماده علی ضمان اللہ منه بقوله : سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى [ الأعلی 6] . وقیل : سمّي بذلک لنسبته إلى أمّ القری.- الامی ۔ وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو ، اور نہ ہ کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو چناچہ آیت کریمہ ؛۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ ( سورة الجمعة 2) وہی تو ہے جس نے ان پڑھو میں انہی میں سے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو پیغمبر بناکر بھیجا ۔ میں امیین سے یہی مراد ہے قطرب نے کہا ہے کہ امییہ بمعنی غفلت جہالت کے ہے اور اسی سے امی ہے کیونکہ اسے بھی معرفت نہیں ہوتی چناچہ فرمایا ؛۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ ( سورة البقرة 78) اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سواخدا کی کتاب سے ) واقف نہیں ہیں ۔ یہاں الا امانی کے معنی الا ان یتلیٰ علیھم کے ہیں یعنی مگر یہ کو انہین پڑھ کر سنا یا جائے ۔ فراء نے کہا ہے کہ امیون سے مراد ہیں جو اہل کتاب نہ تھے اور آیت کریمہ ؛ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا ( سورة الأَعراف 157) اور ہو جو ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) رسول ( اللہ ) نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جن ( کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ امی اس امت یعنی قوم کی طرف منسوب ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو جس طرح کہ عامی اسے کہتے ہیں جو عوام جیسی صفات رکھتا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ آنحضرت کو امی کہنا اس بنا پر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھتے تھے ۔ بلکہ وحی الہی کے بارے میں اپنے حافظہ اور خدا کی اس ضمانت پر کہ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى ( سورة الأَعلی 6) ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے ۔ اعتماد کرتے تھے یہ صفت آپ کے لئے باعث فضیلت تھی ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ام القریٰ یعنی مکہ کی طرف نسبت ہے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - أصر - الأَصْرُ : عقد الشیء وحبسه بقهره، يقال : أَصَرْتُهُ فهو مَأْصُورٌ ، والمَأْصَرُ والمَأْصِرُ : محبس السفینة . قال اللہ تعالی: وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ [ الأعراف 157] أي : الأمور التي تثبطهم وتقيّدهم عن الخیرات وعن الوصول إلى الثواب، وعلی ذلك : وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنا إِصْراً [ البقرة 286] ، وقیل : ثقلا «3» . وتحقیقه ما ذکرت، والإِصْرُ : العهد المؤكّد الذي يثبّط ناقضه عن الثواب والخیرات، قال تعالی: أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلى ذلِكُمْ إِصْرِي [ آل عمران 81] . الإصار : الطّنب والأوتاد التي بها يعمد البیت، وما يَأْصِرُنِي عنک شيء، أي : ما يحبسني .- والأَيْصَرُ : کساء يشدّ فيه الحشیش فيثنی علی السنام ليمكن رکوبه .- ( ا ص ر ) الاصر ۔ ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز میں گرہ لگانے اور اس کو زبردستی روک لینا کے ہیں اصر یا صر اصرا فھو ماصور اور ماصر وماصر بندر گاہ پر جہاز کھڑا کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ ( سورة الأَعراف 157) اور ان پر سے بوجھ ۔۔۔ اتارتے ہیں ۔ یہاں اصر سے وہ دشواریاں مراد ہیں جو خیرات اور ثواب تک پہنچے سے ان کے لئے رکاوٹ بنی ہوئی تھیں اور آیت :۔ وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا [ البقرة : 286] میں بھی اصر اسی معنی پر محمول ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ اصر کے معنی بوجھ کے ہیں ۔ لیکن اس کی حقیقیت وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے ۔ نیز اصر اس عہد موکد کو بھی کہے ہیں جو خلاف ورزی کرنے والے کو ثواب اور خیرات سے روک دے چناچہ قرآن میں ہے :۔ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي [ آل عمران : 81] بھلا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا پختہ عہد لیا ۔ الاصار رسی یا میخ جن کے سہارے پر خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے ۔ مایاصرنی عتک شیئ مجھے تیرے پاس پہنچنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ الایصر۔ وہ کمبل جس میں خشک گھاس بھر کر اونٹ کی کوہان کے گرد لپیٹا جاتا ہے تاکہ اس پر آسانی کے ساتھ سواری ہوسکے ۔- غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] وقیل للبخیل : هو مَغْلُولُ الید . قال : وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلالَ الَّتِي كانَتْ عَلَيْهِمْ [ الأعراف 157] ، وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ- [ الإسراء 29] ، وَقالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ [ المائدة 64] ، أي : ذمّوه بالبخل . وقیل : إنّهم لمّا سمعوا أنّ اللہ قد قضی كلّ شيء قالوا : إذا يد اللہ مَغْلُولَةٌ أي : في حکم المقيّد لکونها فارغة- ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ اور ( کنایہ کے طور پر ) کنجوس شخص کو مغلول الید کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ [ الإسراء 29] اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا یعنی بہت تنگ کرلو ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ [ المائدة 64] اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہے ( یعنی اللہ بخیل ہے ) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں ۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر بخیل کا الزام لگاتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جب انہوں نے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا فیصلہ کردیا ہے تو کہنے لگے پھر تو اللہ کا ہاتھ مقید ہے یعنی فارغ ہونے کی وجہ سے مقید کے حکم میں ہے تو ہر آیت ناذل ہوئی اور آیت کریمہ : إِنَّا جَعَلْنا فِي أَعْناقِهِمْ أَغْلالًا[يس 8] ہم نے ان گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں ۔ سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انہیں ہر قسم کی خبر سے محروم کر رکھا ہے جس طرح کہ ان کے قلوب پر مہر لگانا اور آنکھ وکان پر پردہ ڈالنا ذکر کیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں جعلنا اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن یہ اس سزا کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں انہیں دی جائے گی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَجَعَلْنَا الْأَغْلالَ فِي أَعْناقِ الَّذِينَ كَفَرُوا[ سبأ 33] اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے ۔- عزر - التَّعْزِيرُ : النّصرة مع التّعظیم . قال تعالی: وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح 9] ، وقال عزّ وجلّ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ- [ المائدة 12] ، والتَّعْزِيرُ : ضربٌ دون الحدّ ، وذلک يرجع إلى الأوّل، فإنّ ذلک تأديب، والتّأديب نصرة ما لکن الأوّل نصرة بقمع ما يضرّه عنه، والثاني : نصرة بقمعه عمّا يضرّه . فمن قمعته عما يضرّه فقد نصرته . وعلی هذا الوجه قال صلّى اللہ عليه وسلم : «انصر أخاک ظالما أو مظلوما، قال : أنصره مظلوما فكيف أنصره ظالما ؟ فقال : كفّه عن الظّلم» «5» .- وعُزَيْرٌ في قوله : وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] ، اسمُ نبيٍّ.- ( ع ز ر ) التعزیر اس مدد کو کہتے ہو جو حزیہ تعظیم کے ساتھ ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح 9] اور اس کی مدد کرو ۔ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ [ المائدة 12] اور ان کی مدد کرو گے التعزیر ( ایضا ) کسی کو حد شرعی سے کم سزا دینا یہ بھی دراصل پہلے معنی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیونکہ تادیبی سزا بھی در حقیقت اس شخص کی اصلاح کے لئے ایک قسم کی مدد ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے معنی کا تعلق کیسی مضر چیز کو روکنے سے ہوتا ہے اور تادیب میں کسی کو مضر چیز سے روکا جاتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کسی کو مضر چیز سے روک دینا بھی اس کی مدد میں شامل ہے اسی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصر اخاک ظالما او مظلوما ) اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم یا مظلوم یہ سنکر ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر اس کے ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کرنے کے کیا معنی ہیں آنحضرت نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا اسے ظلم سے روک کر اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں ۔ میں عزیر (علیہ السلام) ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٧) اس پر اہل کتاب کو تکبر ہوا اور کہنے لگے کہ ہم اہل تقوی اور اہل کتاب ہیں اللہ تعالیٰ نے انکو بھی اس سے خارج کردیا اور فرما دیا کہ میری رحمت ان لوگوں کے لیے ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی پیروی کرتے ہیں، آپ انھیں توحید اور احسان کا حکم دیتے اور کفر وشرک سے روکتے ہیں اور جن چیزوں کو کتاب اللہ میں حلال کیا ہے جیسا کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ اور گائے، بکری کی چربی اس کو ان کے سامنے بیان کرتے ہیں۔- اب مردار خون اور سورکا گوشت وغیرہ کا حرام ہونا ان کے سامنے بیان کرتے ہیں اور جو ان لوگوں پر عہد تھے کہ جن کے توڑنے کی وجہ سے ان پر پاکیزہ چیزیں حرام ہوجاتی تھیں، ان کو اور جو سختیاں مثلا کپڑے وغیرہ پھاڑنا تھیں دور کرتے ہیں۔- عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے اور جان وتلوار سے آپ کی مدد کرتے اور قرآن کریم جو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ پر اتارا گیا ہے اس کے حلال کو وہ حلال اور حرام کو وہ حرام سمجھتے ہیں ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے نجات پانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٧ (اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ) - یعنی ہمارے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کریں گے جن کو رسول بنا کر بھیجا جائے گا۔ محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیوی اعتبار سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیوی معیار کے مطابق پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی امی تھے اور جن لوگوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا وہ بھی امی تھے ‘ کیونکہ ان لوگوں کے پاس اس سے پہلے کوئی کتاب تھی نہ کوئی شریعت۔- (الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز) - یعنی آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پیشین گوئیاں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات ‘ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں واضح علامات ان کو تورات اور انجیل دونوں میں ملیں گی۔- (یَاْمُرُہُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰٹہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ ) - بنی اسرائیل پر کچھ چیزیں ان کی شرارتوں کی وجہ سے بھی حرام کردی گئی تھیں ‘ جیسا کہ سورة النساء (آیت ١٦٠) میں ہم پڑھ آئے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر سے ایسی تمام بندشیں اٹھا دیں گے اور تمام پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال کردیں گے۔- (وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبآءِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ط) - یہ بوجھ اور طوق وہ بےجا اور خود ساختہ پابندیاں اور رسومات بھی ہیں جو معاشرے کے اندر کسی خاص طبقہ کے مفادات یا نمود و نمائش کی خواہش کی وجہ سے رواج پاتی ہیں ‘ بعد میں غریب لوگوں کو انہیں نبھانا پڑتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ان کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کی بلند ترین سطح پر بھی بڑی بڑی قباحتیں اور لعنتیں جنم لیتی ہیں جن کے بوجھ تلے مختلف اقوام بری طرح پس جاتی ہیں۔ مثلاً بادشاہت کا جبر ‘ جاگیرداری کا استحاصلی نظام ‘ سیاسی و معاشی غلامی ‘ رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانیت میں تفریق وغیرہ۔ تو اس آیت میں بشارت دی جا رہی ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور انسانیت کو غلط رسومات ‘ خود ساختہ عقائد اور نظام ہائے باطلہ کے بوجھوں سے نجات دلاکر عدل اور قسط کا نظام قائم کریں گے۔ - اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعلق کی شرائط مذکور ہیں جن میں سے ہر شرط پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے میرے کتابچے بعنوان : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کا مطالعہ مفید رہے گا۔- (فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ ) - یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے دو بنیادی تقاضے ہیں ‘ پہلا تقاضا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور دوسرا تقاضا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت۔ ان دونوں تقاضوں کے بارے میں دو احادیث ملاحظہ کیجیے۔ پہلی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ ) (١) تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہے جب تک کہ اس کی خواہش نفس تابع نہ ہوجائے اس چیز کے جو میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آیا ہوں۔ یعنی جو احکام اور شریعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر تشریف لائے ہیں ‘ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس سب کچھ کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ دوسری حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت انس بن مالک (رض) ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا یُوؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) (١) تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے باپ ‘ بیٹے اور تمام انسانوں سے۔ چناچہ یہ دونوں تقاضے پورے ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کا دعویٰ حقیقت بنے گا۔ ایک غایت درجہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع اور اطاعت ‘ دوسرے غایت درجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت۔- (وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ ) - جب مذکورہ بالا دو تقاضے پورے ہوں گے تو ان کے لازمی نتیجے کے طور پر دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم پیدا ہوگی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت دلوں پر راج کرے گی۔ جب اور جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک سنائی دے گا بےساختہ زبان پر درود وسلام آجائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سامنے آنے پر منطق و دلائل کا سہارا چھوڑ کر سرتسلیم خم کردیا جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب و احترام کے سلسلے میں یہ اصول ذہن نشین کرلیجئے کہ اگر کہیں کسی مسئلے پر بحث ہو رہی ہو ‘ دونوں طرف دلائل کو دلائل کاٹ رہے ہوں اور ایسے میں اگر کوئی کہہ دے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ضمن میں یوں فرمایا ہے تو حدیث کے سنتے ہی فوراً زبان بند ہوجانی چاہیے۔ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سن لینے کے بعد بھی کسی معاملے میں رائے زنی کرے۔ بعد میں تحقیق کی جاسکتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب کر کے جو فرمان سنایا گیا ہے درحقیقت وہ حدیث ہے بھی یا نہیں اور اگر حدیث ہے تو روایت و درایت کے اعتبار سے اس کا کیا مقام ہے۔ حدیث صحیح ہے یا ضعیف یہ سب بعد کی باتیں ہیں ‘ لیکن حدیث سن کر وقتی طور پر چپ ہوجانا اور سر تسلیم خم کردینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کا تقاضا ہے۔- وَنَصَرُوْہُ کے ضمن میں یہ نکتہ اہم ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس کام میں مدددرکار ہے ؟ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے کسی ذاتی کام کے لیے مدد چاہیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی ذاتی سلطنت و حکومت تو قائم نہیں کی ‘ جس کے قیام و استحکام کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدد کی ضرورت ہوتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی ذاتی جاگیر یا جائیداد بھی نہیں تھی ‘ جس کو سنبھالنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدد درکار ہوتی۔ دراصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے مدد چاہیے تھی جس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے تھے اور وہ تھا غلبۂ حق اور اقامت دین : (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ) (الصف : ٩) ۔ دین حق کے غلبے کے لیے کی جانے والی جاں گسل جدوجہد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدد گاروں کی ضرورت تھی اور اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ؟ کی صلائے عام تھی ‘ کہ مجھے اللہ کا دین غالب کرنا ہے ‘ یہ میرا فرض منصبی ہے ‘ کون ہے جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے اور میرا مدد گار بنے ؟ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی محنت ‘ صحابہ کرام (رض) کی قربانیوں اور اللہ کی نصرت سے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کر کے اپنے مشن کی تکمیل کردی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کچھ عرصہ دین غالب رہا ‘ پھر مغلوب ہوگیا اور آج تک مغلوب ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی دین غالب نہیں ہے۔ لہٰذا اب دین کو ساری دنیا میں غالب کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن آج بھی زندہ ہے ‘ یہ میدان اب بھی کھلا ہے۔ آج بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ (یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَار اللّٰہِ ) ( الصف : ١٤) کا قرآنی حکم آج بھی ہمیں پکار رہا ہے ۔- (وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗلا) - یہ گویا اس کٹھن مشن کی تکمیل کا راستہ بتایا گیا ہے۔ دین کے غلبے کی تکمیل قرآن کے ذریعے سے ہوگی ‘ یعنی تذکیر بالقرآن ‘ تبشیر بالقرآن ‘ تبلیغ بالقرآن ‘ انذار بالقرآن ‘ تعلیم بالقرآن وغیرہ۔ جیسے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے ذریعے سے لوگوں کا تزکیہ کیا : (یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق) (الجمعہ : ٢) اس طرح آج بھی ضرورت ہے کہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو ترغیب دی جائے ‘ ان کے دلوں کی صفائی کی جائے ‘ انہیں جہالت کے اندھیروں سے ہدایت کے اجالے کی طرف لایا جائے ‘ تاریک دلوں کے اندر ایمان کی شمعیں روشن کی جائیں۔ پھر ان لوگوں کو ایک مشن پر اکٹھا کیا جائے ‘ انہیں منظم کیا جائے ‘ ان میں منزل کی تڑپ پیدا کی جائے اور پھر باطل سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کردیا جائے۔ یہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ ‘ اور یہ ہے اس نور (قرآن) کی پیروی کرنے کا معروف راستہ۔ اور جو لوگ اس راستے پر چلیں گے ان کے بارے میں فرمایا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :112 حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اس پیغمبر پر ایمان لاؤ ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پرہیز کریں ۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نافرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے ۔ لہٰذا جب تک اس نافرمانی سے پرہیز نہ کرو گےتقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت الہٰی سے حصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے ۔ تو آج کسی انفاق مال پر اس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامت دین حق کی اس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ہو رہی ہے ۔ لہٰذا جب تک اس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہوگی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذر و نیاز کرتے ہو ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں ۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے ۔ لہٰذا جب تک ان پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہوگی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو ۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے”اُمّی“ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے ۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کی اُمّی ( ) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار ، اس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کرلیں ۔ چنانچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ ( آل عمران آیت۷۵ ) ”اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے ، اس کی پیروی قبول کرو گے تو میری رحمت سےحصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :113 مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں: استشناء ، باب ١۸ ، آیت ١۵ تا١۹ ۔ متی ، باب۲١ تا٤٦ ۔ یوحنا ، باب١ ، آیت١۹تا ۲١ ۔ یوحنا باب١٤ ، آیت١۵تا١۷ و آیت ۲۵تا۳۰ یوحنا ، باب١۵ ، آیت ۲۵ ۔ ۲٦ یوحنا ، باب١٦ ، آیت۷تا١۵ ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :114 یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے ، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :115 یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے ، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے ، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے توہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کس رکھا ہے ، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کر دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

75:: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک باقی رہنا تھا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو دعا کی تھی، وہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلوں کے لئے بھی تھی، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے وقت یہ بھی واضح فرمادیا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوں گے، ان کو دُنیا اور آخرت کی بھلائی اسی صورت میں مل سکے گی جب وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لاکر ان کی پیروی کریں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کی کچھ صفات بھی بیان فرمائیں، جن میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہوں گے۔ عام طور سے رسول کا لفظ ایسے پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے جو نئی شریعت لے کر آئے، لہٰذا اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نئی شریعت لے کر آئیں گے، جس میں کچھ فروعی احکام تورات کے احکام سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں، اور بنی اسرائیل کو اس وقت یہ نہ کہنا چاہئے کہ یہ توہماری شریعت سے مختلف احکام بیان کررہے ہیں، اس لئے ہم ان پر کیسے ایمان لائیں ؟ چنانچہ پہلے سے بتایا جارہا ہے کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اور جو رسول نئی شریعت لے کر آتے ہیں، ان کے فروعی احکام پہلے احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ اُمّی ہوں گے، یعنی لکھتے پڑھتے نہیں ہوں گے۔ عام طور سے بنی اسرائیل اُمّی نہیں تھے، بلکہ نسلی عربوں کو اُمّی کہا جاتا تھا، (۲: ۷۸۔ ۳: ۲۰۔ ۶۲: ۲) اور خود یہودی یہ لفظ عرب نسل کے لوگوں کے لئے کسی قدر حقارت کے پیرائے میں استعمال کرتے تھے، (دیکھئے سورۂ آل عمران ۳: ۷۵) اس لئے اس لفظ سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بجائے عربوں کی نسل سے مبعوث ہوں گے۔ آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کا ذکر مبارک تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہوگا، اس سے ان بشارتوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی تشریف آوری سے متعلق ان مقدس کتابوں میں دی گئی تھیں۔ آج بھی بہت سی تحریفات کے باوجود بائبل میں متعدد بشارتیں موجود ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’اظہار الحق‘‘ کا اردو ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ مرتبہ راقم الحروف۔ 76: اس سے اُن سخت اَحکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کئے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ اَحکام تو خود تورات میں تھے، اور اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اُس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کئے گئے تھے جس کا ذکر سور نسا (160:4) میں گذرا ہے۔ اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لئے تھے۔ شاید ’’بوجھ‘‘ سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور ’’گلے کے طوق‘‘ سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔