Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا ، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں ۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث ( انا اللہ افضل ) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں ، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے ، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اسمیں کوئی شک نہ کرنا ، دل تنگ نہ ہونا ، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا ، نہ کسی کا لحاظ کرنا ، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا ، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے ، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے ۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو ، اس کے قدم بہ قدم چلو ، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے ، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116 ) 6- الانعام ) یعنی اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے ۔ سورۃ یوسف میں فرمان ہے اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١] یہ سورة انعام سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی البتہ اس میں آٹھ آیات (آیت) ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ١٦٣۔ ) 7 ۔ الاعراف :163) سے لے کر ( وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ۚ ١٧١؀ ) 7 ۔ الاعراف :171) تک مدنی ہیں اور اس سورة کا نام اعراف اس لیے ہے کہ اس میں جنت اور دوزخ کے درمیانی مقام اعراف اور اصحاب اعراف کا ذکر آیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الۗمّۗصۗ: یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ مضامین سورة- تمام سورة پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ تر مضامین معاد (آخرت) اور رسالت سے متعلق ہیں، اور پہلی ہی آیت كِتٰبٌ اُنْزِلَ میں نبوت کا اور آیت نمبر 6 میں فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ میں معاد و آخرت کی تحقیق کا مضمون ہے، اور رکوع چہارم کے نصف سے رکوع ششم کے ختم تک بالکل آخرت کی بحث ہے۔ پھر رکوع ہشتم سے اکیسویں رکوع تک وہ معاملات مذکور ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں سے ہوئے ہیں۔ یہ سب مسئلے رسالت سے متعلق ہیں، اور ان قصص میں ساتھ ساتھ منکرین رسالت کی سزاؤں کا بھی ذکر چلا آیا ہے، تاکہ منکرین موجودین کو عبرت حاصل ہو، اور رکوع بائیس کے نصف سے تیئیس کے ختم تک پھر معاد کی بحث ہے، صرف ساتویں اور بائیسویں رکوع کے شروع میں اور آخری رکوع چوبیس کے اکثر حصہ میں توحید پر خاص بحث ہے، باقی بہت کم حصہ سورة کا ایسا ہے جس میں جزوی فروعی احکام بمناسب مقام مذکور ہیں (بیان القرآن)- خلاصہ تفسیر - الٓمٓصٓ، (اس کے معنی تو اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہے، جس پر امت کو اطلاع نہیں دی گئی بلکہ اس کی جستجو کو بھی منع کیا گیا، کِتٰب اُنزِل اِلَیک الخ) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جو (اللہ کی جانب سے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذریعہ (لوگوں کو سزائے نافرمانی سے) ڈرائیں، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں (کسی کے نہ ماننے سے) بالکل تنگی نہ ہونی چاہئے (کیونکہ کسی کے نہ ماننے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصل مقصد بعثت میں جو کہ حق بات پہنچانے کا ہے کوئی خلل نہیں آتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں دل تنگ ہوں) اور یہ (قرآن خصوصیت کے ساتھ) نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے (آگے عام امت کو خطاب ہے کہ جب قرآن کا منّزل من اللہ ہونا ثابت ہوگیا تو) تم لوگ اس (کتاب کا) اتباع کرو جو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے (اتباع کتاب یہ ہے کہ اس کی دل سے تصدیق بھی کرو اور اس پر عمل بھی) اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر (جس نے تمہاری ہدایت کے لئے قرآن نازل کیا) دوسرے رفیقوں کا اتباع مت کرو، (جو تم کو گمراہ کرتے ہیں جیسے شیاطین الجن والانس مگر باوجود اس مشفقانہ فہمائش کے) تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو، اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ان کو (یعنی ان کے رہنے والوں کو ان کے کفر و تکذیب کی بناء پر) ہم نے تباہ و برباد کردیا اور ان پر ہمارا عذاب (یا تو) رات کے وقت پہنچا (جو سونے اور آرام کرنے کا وقت ہے) یا ایسی حالت میں (پہنچا) کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے (یعنی کسی کو کسی وقت کسی کو کسی وقت) سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلتی تھی کہ واقعی ہم ظالم (اور خطاوار) تھے (یعنی ایسے وقت اقرار کیا جب کہ اقرار کا وقت گزر چکا تھا، یہ تو دنیوی عذاب ہوا) پھر (اس کے بعد آخرت کے عذاب کا سامان ہوگا کہ قیامت میں) ہم ان لوگوں سے (بھی) ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے (کہ تم نے پیغمبروں کا کہنا مانا یا نہیں) اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے (کہ تمہاری امتوں نے تمہارا کہنا مانا یا نہیں ؟ (آیت) یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم، اور دونوں سوالوں سے مقصود کفار کو زجر و تنبیہ ہوگی) پھر چونکہ ہم پوری خبر رکھتے ہیں خود ہی (سب کے روبرو ان کے اعمال کو) بیان کردیں گے، اور ہم (عمل کے وقت اور جگہ سے) غائب تو نہ تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الۗمّۗصۗ۝ ١ ۚ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٢- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) المص۔ اس کے معنی مراد اللہ تعالیٰ ہی جاننے والے ہیں یا یہ کہ یہ قسم ہے کہ جس کے ساتھ کھائی گئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

یہ حروف مقطعات ہیں ‘ اور جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ‘ حروف مقطعات کا حقیقی اور یقینی مفہوم کسی کو معلوم نہیں اور یہ کہ ان تمام حروف کے مفاہیم و مطالب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان راز کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید کی دو سورتیں ایسی ہیں جن کے شروع میں چار چار حروف مقطعات آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی سورة الاعراف ہے اور دوسری سورة الرعد ‘ جس کا آغازا آآّرٰسے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تین حروف مقطعات (اآآّ ) سورة البقرۃ اور سورة آل عمران میں آچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

المص : سورہ بقرہ کے شروع میں گزرچکا ہے کہ یہ علیحدہ علیحدہ حروف جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں، اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنیٰ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اور ان کے معنیٰ سمجھنے پر دین کی کوئی بات موقوف بھی نہیں ہے۔