Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔ ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ) 003:164 اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کرتے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] یہ کفار کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں کیوں نازل نہیں ہوتا۔ جسے ہم دیکھ سکیں اور ہمیں یقین آجائے۔ اور پیغمبر جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ سچ کہتا ہے ؟ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں آتا تو یہ دہشت کے مارے فوراً مرجاتے انہیں ایمان لانے یا انکار کرنے کی مہلت ہی کہاں ملتی۔ فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کے متحمل انبیاء ہی ہوسکتے ہیں۔ چناچہ آپ نے جبریل فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دو بار دیکھا تھا۔ آپ نے بتایا کہ اس کے چھ سو پر تھے اور اس کی جسامت سے تمام افق بھر گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب قول اللہ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ ) کسی دوسرے نبی کا جبریل فرشتہ کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنا احادیث سے ثابت نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ : یہ نبوت کے منکرین کا ایک اور اعتراض ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف رسول بھیجنا ہی تھا تو وہ انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا، یا فرشتہ اس کے ساتھ ساتھ پھرتا اور کہتا کہ یہ اللہ کا رسول ہے، اس پر ایمان لے آؤ، ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ - وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ۔۔ : یہ پہلا جواب ہے۔ (رازی) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے معجزہ طلب کرے اور وہ اسے دکھا دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے، اس لیے اگر فرشتے اصل صورت میں نازل ہوتے تو ان کے پاس عذاب لے کر آتے اور ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ دیکھیے سورة حجر (٦ تا ٨) اور سورة فرقان (٢١، ٢٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت کے نزول کا بھی ایک واقعہ ہے کہ یہی عبداللہ بن ابی امیہ اور نضر بن حارث اور نوفل بن خالد ایک مرتبہ جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہم تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب ایمان لائیں گے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان سے ایک کتاب لے کر آئیں، اور اس کے ساتھ چار فرشتے آئیں جو اس کی گواہی دیں کہ یہ کتاب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہے اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔- اس کا جواب حق تعالیٰ نے اہک تو یہ دیا کہ یہ غفلت شعار ایسے مطالبات کرکے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں، کیونکہ قانون الٓہی یہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی پیغمبر سے کسی خاص معجزہ کا مطالبہ کرے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیا جائے، تو اگر وہ پھر بھی مانیں اور اسلام لانے میں ذرا تاخیر کریں تو پھر ان کو عذاب عام کے ذریعہ ہلاک کردیا جاتا ہے، یہ قوم اہل مکہ بھی یہ مطالبہ کسی نیک نیتی سے تو کر نہ رہی تھی، جس سے مان لینے کی توقع کی جاتی، اس لئے فرمایا : وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ یعنی اگر ہم ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھلا دیں کہ فرشتہ بھیج دیں اور یہ قوم ماننے والی تو ہے نہیں، تو معجزہ کے دیکھنے کے بعد بھی جب خلاف ورزی کرے گی تو اللہ کا حکم ان کے ہلاک کرنے کے لئے جاری ہوجائے گا، اور اس کے بعد ان کو ذرا بھی مہلت نہ دی جائے گی، اس لئے ان کو سمجھنا چاہئے کہ ان کی مانگی ہوئی کوئی نشانی اگر ظاہر نہیں کی گئی تو اس میں ان کی خیر ہے۔- اسی بات کا ایک دوسرا جواب چوتھی آیت میں دوسرے انداز سے دیا گیا کہ یہ سوال کرنے والے عجیب بیوقوف ہیں کہ فرشتوں کے نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ فرشتوں کے نازل ہونے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ فرشتہ اپنی اصلی ہیئت و صورت میں سامنے آجائے تو اس کی ہیت کو تو کوئی انسان برداشت نہیں کرسکتا، بلکہ ہول کھا کر فوراً مرجانے کا خطرہ ہے۔- دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ بشکل انسانی آئے، جیسے جبریل امین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بہت مرتبہ بشکل انسانی آئے ہیں، تو اس صورت میں اس سوال کرنے والے کو جو اعتراض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہے وہی اس فرشتہ پر بھی ہوگا، کہ یہ اس کو ایک انسان ہی سمجھے گا۔- ان تمام معاندانہ سوالات کے جواب دینے کے بعد پانچویں آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا کہ یہ استہزاء و تمسخر اور ایذاء رسانی کا معاملہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی سب رسولوں کو ایسے دلدوز اور ہمت شکن واقعات سے سابقہ پڑا ہے، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور انجام یہ ہوا کہ استہزاء و تمسخر کرنے والی قوم کو اس عذاب نے آپکڑا جس کا تمسخر کیا کرتے تھے۔- خلاصہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تبلیغ احکام ہے، وہ کرکے آپ اپنے قلب کو فارغ فرما لیں اس کا اثر کسی نے کچھ لیا یا نہیں، اس کی نگہداشت آپ کے ذمہ نہیں، اس لئے اس میں مشغول ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلب کو مغموم نہ کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۝ ٠ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۝ ٨- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) اور یہ عبداللہ بن امیہ اور دیگر کافر یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا جسے ہم دیکھ سکیں اور اس کی باتیں بھی سنیں تو اگر ان کی درخواست کے مطابق ہی معاملہ ہوتا تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا اور ان کی روحیں قبض ہوجاتیں اور ان کا خاتمہ ہوجاتا اور پھر ان کو مہلت بھی نہ دی جاتی اور اگر ہم رسول کسی فرشتہ کو کرکے بھیجتے تب بھی اسے انسانی شکل میں ہی میں بھیجتے تاکہ لوگ ان اس کو دیکھ سکیں تو پھر فرشتوں کے بارے میں بھی ان کے وہی اشکال اور اشتباہ ہوتے جو ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی صفت کے بارے میں شک ہو رہا ہے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لاَ یُنْظَرُوْنَ ) - یعنی اس دنیا کی زندگی میں یہ جو ساری آزمائش ہے وہ تو غیب کے پردے ہی کی وجہ سے ہے۔ اگر غیب کا پردہ اٹھ جائے تو پھر امتحان ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تو پھر نتیجے کا اعلان کرنا ہی باقی رہ جاتا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :5 یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے ، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی ۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالق ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اس طرح اسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سننے کے لیے چھوڑ دے ۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ، اس کا رعب بٹھاتا ، اس کی ماموریت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :6 یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے ۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا ، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا ۔ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا ۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے ، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں ، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں ۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دنیوی زندگی ، جو دراصل مہلت امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب ، غیب ہے ۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا ، یہ مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا ۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدت ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یہ دنیا چونکہ انسان کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی غیبی حقیقت آنکھوں سے دکھا دی جاتی ہے تو اس کے بعد ایمان لانا معتبر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے فرشتوں کو دیکھ کر ایمان لائے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔ کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر کوئی فرشتہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لے کر آتا ہے تو وہ اس طرح آئے کہ ہم اسے دیکھ سکیں۔ قرآن کریم نے اس کا پہلا جواب تو یہ دیا ہے کہ اگر فرشتے کو انہوں نے آنکھ سے دیکھ لیا تو پھر مذکورہ بالا اصول کے مطابق ان کا ایمان معتبر نہیں ہوگا اور پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ یہ ایمان لا سکیں دوسرا جواب اگلے جملے میں ہے۔