ہر چیز کا مالک اللہ ہے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ، سب اللہ کا ہے ، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے ، پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقینا آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے ، حضور سے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہو گا ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا ، اولیاء اللہ ان ہوضوں پر آئیں گے جو انبیاء کی ہوں گی ۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لئے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب ، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے ہر نبی کے لئے ہوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ، جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں ، زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے ، سب کا مالک وہی ہے ، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے ، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے ۔ پھر اپنے نبی کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ حکم دیتا ہے کہ آپ اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا ، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بےنیاز ہے ، فرماتا ہے میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ، ایک قرأت میں والا یطعم بھی ہے یعنی وہ خود نہیں کھاتا ، قبا کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، ہم بھی آپ کے ساتھ گئے ، جب حضور کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا ، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں ، ہم اس کی ناشکری نہیں کرتے ، نہ اس سے کسی وقت ہم بےنیاز ہو سکتے ہیں ، الحمد للہ اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، کپڑے پہنائے ، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی ، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اے پیغمبر اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں ، پھر فرماتا ہے خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا ، یہ بھی اعلان کر دیجئے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی ، سچی کامیابی یہی ہے اور آیت میں فرمایا ہے جو بھی جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا اس نے منہ مانگی مراد پالی ۔ فوز کے معنی نفع مل جانے اور نقصان سے بچ جانے کے ہیں ۔
12۔ 1 جس طرح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ " یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے " لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقینا عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان وامان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) 007:156 اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
[١٢] اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس لیے دیا ہے کہ مشرکین اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے تھے وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اب اگر وہ اس بات کا اقرار کرتے تو اس اقرار سے استدلال ان کے خلاف پڑتا تھا اور اگر انکار کرتے تو یہ بات ان کے عقیدہ کے خلاف تھی لہذا جب انہوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی تو اللہ نے خود ہی اس کا جواب دے دیا۔ اور یہ جواب ایسا تھا جو ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔- [١٣] ویسے تو انسان کا تربیت اور پرورش پانا بھی اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک ایک قدم پر اللہ کی رحمت شامل ہو تو تب ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے مزید برآں یہ کہ وہ مشرکوں کو شرک کرتے دیکھتا ہے۔ کافروں کو اپنی آیات کا انکار اور ہٹ دھرمی کرتے دیکھتا ہے۔ لیکن انہیں ہلاک نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں بھی رزق دیئے جاتا ہے اور اس کی وجہ محض اس کی رحمت ہے۔ چناچہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری رحمت میرے غصہ پر سبقت لے گئی ہے۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی المائ)- پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو ہلاک کرنے کا ذکر کیا تو ساتھ ہی اس آیت میں اپنی صفت رحمت کا ذکر اس انداز سے کیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت پر صفت رحمت بہرحال اور اکثر ادوار میں غالب رہی ہے علاوہ ازیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں سب سے پہلے اپنی ذات پر، پھر اپنی سب سے اہم صفت رحمت پر اور آخر میں آخرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔- [١٤] یعنی عقل اور فطرت سلیمہ دونوں سے کام لینا چھوڑ دیا ہے لہذا وہ خود ہی خسارہ میں رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔۔ : وعظ و نصیحت اور ڈرانے کے بعد انھی تینوں اصولوں (کائنات کی ابتدا، اسے دوبارہ زندہ کرنے اور انبیاء کی نبوت) کو ثابت کرنے پر دلیل قائم کی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کافروں سے پوچھیے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے ؟ اس سوال کا مقصد ڈانٹ اور پھٹکار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیجیے کہ اللہ کے سوا کون ہوسکتا ہے اور یہ جملہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی زبانی ادا کیا گیا ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرنا لازم کرلیا ہے، وہ توبہ و استغفار قبول کرتا ہے اور اسی صفت رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے تمہیں دنیا میں مہلت دی ہے، فوراً نہیں پکڑتا، لیکن قیامت کے دن تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنے پاس کتاب میں، جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، اپنے متعلق لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ “- [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ویحذرکم اللہ نفسہ۔۔ ) : ٧٤٠٤ ]- لیکن یہ رحمت قیامت کے دن صرف اہل ایمان کے لیے ہوگی، کافروں کے لیے اللہ تعالیٰ سخت غضب ناک ہوگا۔ دنیا میں اس رحمت سے مسلم اور کافر، نیک اور بد سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ الأعراف : ١٥٦] ” اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ( ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) رہا دنیا میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا) [ بنی إسرائیل : ٢٠ ] ” ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے اور تیرے رب کی بخشش کبھی بند کی ہوئی نہیں۔ “ - ۭلَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ۔۔ : یعنی قیامت کا آنا ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کرسکتا، اس سے انکار اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل و فطرت سے کام نہیں لیتا اور خسارے کے سودے پر اڑا ہوا ہے، نفع کے سودے کی خواہش ہی نہیں رکھتا، حالانکہ اللہ نے فرمایا : ( فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ “
خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان مخالفین سے بطور الزام حجت کے) کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملک ہے (اوّل تو وہ بھی یہی جواب دیں گے جس سے توحید ثابت ہوگی، اور اگر کسی وجہ سے مثل خوف مغلوبیت کے جواب نہ دیں تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملک ہے (اور ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) اللہ تعالیٰ نے (اپنے فضل سے توبہ کرنے والوں کے ساتھ) مہربانی فرمانا اپنے ذمہ لازم فرما لیا ہے (اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ اگر تم نے توحید کو قبول نہ کیا تو پھر سزا بھی بھگتنا پڑے گی، کیونکہ) تم کو خدا تعالیٰ قیامت کے روز (قبروں سے زندہ اٹھا کر میدان حشر میں) جمع کریں گے (اور قیامت کی حالت یہ ہے کہ) اس کے آنے میں کوئی شک نہیں (مگر) جن لوگوں نے اپنے کو (یعنی اپنی عقل و نظر کو) ضائع (یعنی معطل) کرلیا ہے، سو وہ ایمان نہ لاویں گے (اور ان سے بطور اتمام حجت یہ بھی کہئے کہ) اللہ ہی کے ملک میں ہے جو کچھ رات میں اور دن میں رہتے ہیں، (اس کے اور اس سے پہلی آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مجموعہ کا حاصل یہ نکلا کہ جتنی چیزیں کسی مکان میں ہیں یا کسی زمان میں ہیں سب اللہ کی مملوک ہیں) اور وہی سب سے بڑا سننے والا جاننے والا ہے (پھر اثبات توحید کے بعد ان سے) کہئے کہ کیا اللہ کے سوا جو کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے ہیں اور جو (سب کو) کھانا کھلاتے ہیں اور ان کو کوئی نہیں کھلاتا (کیونکہ وہ کھانے پینے کی احتیاج سے بالاتر ہیں، تو کیا ایسے اللہ کے سوا) کسی کو اپنا معبود قرار دوں (آپ اس استفہام انکاری کی تشریح میں خود) فرما دیجئے (کہ میں غیر اللہ کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہوں جو عقل و نقل کے خلاف ہے) مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کرلوں (جس میں عقیدہ توحید بھی آگیا) اور (مجھ کو یہ کہا گیا کہ) تم مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔- معارف و مسائل - آیت قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں کفار سے سوال کیا گیا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کی تمام کائنات کا مالک کون ہے ؟ پھر خود ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ سب کا مالک اللہ ہے، کفار کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی جواب دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جواب کفار مکہ کے نزدیک بھی مسلم ہے وہ اگرچہ شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے مگر زمین و آسمان اور کل کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ - لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ میں لفظ الیٰ یا تو فی کے معنی میں ہے، اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب اولین و آخرین کو قیامت کے دن میں جمع فرما دیں گے، اور یا جمع فی القبور مراد ہے، تو مطلب یہ ہوگا کہ قیامت تک سب انسانوں کو قبروں میں جمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ روز قیامت میں سب کو زندہ کریں گے (قرطبی)- كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو ایک نوشتہ اپنے ذمہ وعدہ کا تحریر فرمایا جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، جس کا مضمون یہ ہے : ان رحمتی تغلب علی غضبی، یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی (قرطبی)- اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اس میں اشارہ ہے کہ شروع آیت میں جو اللہ تعالیٰ کی عموم رحمت کا ذکر ہے کفار و مشرکین اگر اس سے محروم ہوئے تو وہ خود اپنے عمل سے محروم ہوئے، انہوں نے حصول رحمت کا طریقہ یعنی ایمان اختیار نہیں کیا (قرطبی)
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ۭ قُلْ لِّلہِ ٠ۭ كَتَبَ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ٠ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَا رَيْبَ فِيْہِ ٠ۭ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٢- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(١٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل مکہ سے سوال کریں کہ یہ تمام مخلوقات کس کی ملکیت ہیں اول تو وہ جواب دیں گے اور اگر وہ جواب نہ دے سکیں تو آپ فرما دیجیے کہ اس اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی وجہ سے عذاب کو موخر کرکے اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن تم سب کو جمع کریں گے، جس دن کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔- مگر جن لوگوں نے اپنی جسمانی منازل خدام اور بیبیوں کو ضائع کردیا ہے۔ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان نہیں لائیں گے۔
آیت ١٢ (قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط قُلْ لِّلّٰہِ ط) - دراصل یہ کہنا اس اعتبار سے ہے کہ مشرکین مکہ بھی یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کا مالک اور خالق اللہ ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ وہ ایسے احمق نہیں تھے۔ اپنے ان معبودوں کے بارے میں ان کا ایمان تھا : (ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط ) ( یونس : ١٨) کہ یہ اللہ کی جناب میں ہماری شفاعت کریں گے۔ سورة العنکبوت (آیت ٦١) میں الفاظ آئے ہیں : (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ہیں اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو یہ لازماً کہیں گے کہ اللہ نے چناچہ وہ لوگ کائنات کی تخلیق کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس کا مالک بھی اللہ ہی کو سمجھتے تھے۔ البتہ ان کا شرکیہ عقیدہ یہ تھا کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے بڑے چہیتے اور لاڈلے ہیں ‘ اللہ کے ہاں ان کے بڑے اونچے مراتب ہیں ‘ یہ ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑوا لیں گے۔- (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط) اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔- یہ لزوم اس نے خود اپنے اوپر کیا ہے ‘ ہم اس پر کوئی شے لازم قرار نہیں دے سکتے۔- (لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط) (اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) - یہاں ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قیامت کا دن تو بڑا سخت ہوگا ‘ جس میں احتساب ہوگا ‘ سزا ملے گی۔ پھر یہاں پر رحمت کے لزوم کا ذکر کس حوالے سے آیا ہے ؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رحمت کا ظہور قیامت کے دن خاص اہل ایمان کے لیے ہوگا۔ اس لحاظ سے یہاں خوشخبری ہے انبیاء و رسل کے لیے ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین کے لیے ‘ اور اہل ایمان کے لیے ‘ کہ جو سختیاں تم جھیل رہے ہو ‘ جو مصیبتیں تم لوگ برداشت کر رہے ہو ‘ اس وقت دنیا میں جو تنگی تمہیں ہو رہی ہے ‘ اس کے بدلے میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وہ وقت آکر رہے گا جب تمہاری ان خدمات کا بھر پور صلہ ملے گا ‘ تمہاری ان ساری سر فروشیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرمحشر قدرافزائی کا اعلان ہوگا۔ کبھی تمہیں یہ خیال نہ آنے پائے کہ ہم تو اپنا سب کچھ یہاں اللہ کے لیے لٹا بیٹھے ہیں ‘ پتا نہیں وہ دن آئے گا بھی یا نہیں ‘ پتا نہیں کوئی ملاقات ہوگی بھی یا نہیں ‘ پتا نہیں یہ سب کچھ واقعی حق ہے بھی یا نہیں ان وسوسوں کو اپنے دل و دماغ سے دور رکھو ‘ اور خوشخبری سنو : (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط)
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :9 یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو ، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں ۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا ۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب دینا چاہتے ہیں ، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انہیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا ۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے ۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے ۔