Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] یہ لوگ کس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ کو نبوت عطا کرنے سے پہلے اللہ میاں کو ان سے مشورہ کرلینا چاہئے تھا۔ کہ نبوت و رسالت کا مستحق کون ہوسکتا ہے ؟ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے۔ دوسرے انعامات بھی اللہ تعالیٰ نے جس جس کو دیئے ہیں ان میں بھی ان کا کچھ عمل دخل نہیں۔ اللہ نے کسی کو عقل زیادہ دی ہے کسی کو علم دیا ہے۔ کسی کو دولت زیادہ دی ہے اور کسی کو اولاد زیادہ اور کسی کو کم اور کسی کو بالکل نہیں دی۔ کسی کو قوت کار زیادہ دی ہے کسی کو جسمانی قوت زیادہ دی ہے، کسی کو حسن دیا ہے، کسی کو کوئی خوبی دی ہے، تو کسی کو کوئی دوسری خوبی دے دی ہے۔ اب یہ کیا چاہتے ہیں کہ ایک ہی شخص کو ساری خوبیاں دے دی جائیں یا کسی شخص کو کوئی بھی خوبی نہ دی جائے ؟ حالانکہ جو کچھ اللہ نے تقسیم کردی ہے۔ اسی سے دنیا کا نظام قائم ہے۔ امیر کو غریب کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے کام کاج کرے اور غریب کو امیر کی ضرورت ہے کہ اس کا کام کاج کرکے اپنے لیے روزی کمائے۔ اسی طرح شاگرد کو استاد کی اور استاد کو شاگردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرضیکہ اسی اختلاف صفات کی بنا پر ہر شخص دوسرے کا محتاج ہے اور ان صفات کی تقسیم میں وہ خود بھی بےبس ہیں چہ جائیکہ دوسروں کے متعلق اور بالخصوص نبوت جیسی اعلیٰ درجہ کی نعمت کے متعلق دخل در معقولات کرنے لگیں۔- [٣٢] نبوت اللہ کی خاص نعمت اور رحمت ہے :۔ یہاں رحمت سے مراد رحمت خاص یا نبوت ہے۔ یعنی نبوت و رسالت کا شرف اس مال و دولت، ساز و سامان اور چودھراہٹوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے جن کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو۔ جب اللہ نے دنیا کی روزی اور دوسرا ساز و سامان بھی ان کی تجویز پر تقسیم نہیں کیا تو کیا نبوت ان کی تجویز اور رائے کے مطابق کسی کو دے گا ؟ اللہ تعالیٰ ٹھیک جانتا ہے کہ اس رحمت خاص کا اصل مستحق کون ہے اور کسے اس رحمت سے نوازنا چاہئے ؟- [٣٣] کیونکہ دنیا کا مال فنا ہوجانے والا ہے اور اس کا کوئی بھروسا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت خاص یعنی نبوت تو دونوں جہانوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) اھم یقسمون رحمت ربک : یہا ن کے اعترضا کا جواب ہے۔” رحمت “ کا لفظ اگرچہ عام ہے، جس میں ہر رحمت شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد نبوت و رسالت ہے، کیونکہ ان کا اعترضا اسی پر تھا۔” رحمت ربک “ (تیرے رب کی رحمت) کے الفاظ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخطاب کرنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کی بلندی کا اظہار ہو رہا ہے۔ یعنی کیا تیرے رب کی رحمت نبوت و رسالت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں ؟ نہیں، یہ اختیار اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ یہ رحمت کسے عطا کرنی ہے۔ یہ جاہل اپنی حیثیت کو بھول کر اس قدر دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہا ن کا ہر شخص چاہتا ہے کہ اللہ کی کتاب اسی کو دی جائے، فرمایا :(بل یرید کل امری منھم ان یونی صحفاً منشرۃ) (المدثر : ٥٢)” بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیئے جائیں۔ “ حتیٰ کہ انہوں نے ایمان لانے کی شرط ہی نبوت دیا جانا ٹھہرائی، فرمایا :(واذا جآء تھم ایۃ قالوا لن لومن حتی نونی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجرموا صغار عند اللہ و عذاب شدیداً بما کانوا یمکرون) (الانعام : ١٢٣)” اور جب ان کی اس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیے، اللہ کے ہاں بڑی ذلت پہنچے گی اور بہت سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ فریب کیا کرتے تھے۔ “- خلاصہ یہ کہ تیرے رب کی رحمت کی تقسیم اس کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون اس کے قابل ہے۔ یہ کافر دنیا کے مال و جاہ کی وجہ سے ان لوگوں کو رسالت کے قابل سمجھ رہے ہیں جو اللہ کے ہاں ایک تنکے کا وزن نہیں رکھتے اور مال نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نبوت کے لئے نا الہ قرار دے رہے ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ قلب و نفس والا، خاندانی شرافت میں سب سے بلند اور انسانی خوبیوں میں سب سے ممتاز ہے۔- (٢) نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا : یعنی نبوت و رسالت تو بہت ہی بلند چیز ہے، ہم نے تو دنیا میں ان کی روزی کی تقسیم کا اختیار بھی ان کو یا کسی دوسرے کو نہیں دیا، بلکہ اسے خود تقسیم کیا ہے، حالانکہ وہ ہمارے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، تو قرآن نازل کرنے کا اختیار انھیں کیسے دے سکتے ہیں ؟- (٢) ورفعنا بعضہم فوق بعض درجت : اس مختصر سے جملے میں اللہ تعالیٰ نے کئی حقیقتیں بیان فرما دی ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں اور روزیوں کی تقسیم میں برابری نہیں رکھی، بلکہ ان میں دجات رکھے ہیں، کسی کو غنی بنادیا کسی کو فقیر، کوئی ذہین ہے کوئی کند ذہن، کوئی بیوقوف ہے کوئی عقل مند اور کوئی اس سے بڑھ کر عقل مند ، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی خادم ہے کوئی مخدوم، کوئی مالک ہے کوئی مملوک، کوئی اندھا ہے کوئی بیا ن، کوئی باعزت ہے کوئی ذلیل اور کوئی حاکم کوئی محکوم۔ کمیونسٹوں کا نعرہ کہ ہم تمام لوگوں میں دلوت کی مساوات پیدا کریں گے، سخت دھوکا تھا۔ یہ اللہ کے فیصلے کے خلاف ہے، نہ ایسا ہوسکتا ہے نہ کمیونسٹوں سے ہوسکا۔ رزق اور اللہ تعالیٰ کی دوسری عنایتوں کی عطا میں یکسانیت کے بجائے درجات کی کمی بیشی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ دنیا میں اس کا مقصد آزمائش ہے۔ (دیکھیے انعام : ١٦٥) درجات کا یہ فرق آخرت میں اس یس بھی زیادہ ہوگا۔ دیکھیے سورة نحل (٧١) ، بنی اسرائیل (٢١) اور سورة روم (٢٨) ۔- دوسری حقیقت یہ کہ وہ کمی بیشی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جسے جس درجے میں رکھا ہے اس پر قناعت کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ کسی کو خوبصورت بنایا بدصورت ، قوی بنایا یا ضعیف عقل مند بنایا بےوقوف، آنکھیں عطا کردیں یا نابیان کردیا، ہر ایک کو اسی طرح رہنا پڑے گا جس طرح خلاق عالم نے اس کے لئے طے کردیا ہے۔- (٤) لیتخذ بعضھم بعضاً سخریاً :(اتخذ فلان فلانا سخریاً “ یعنی فلاں نے فلاں کو اپنا تابع بنالیا، یا اپنے کام یا خدمت میں لگا لیا۔ یہ تیسری حقیقت ہے کسی مال دار کا مال یا دنیوی عزہ جاہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ ہی کسی فقیر کا فقر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے، بلکہ درجات کا یہ تفاوت نص - نے اس لئے کھا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت رہے اور وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام معطل ہوجائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ایک شخص کو مال نہیں دیا، مگر اسے کسی کام کی صلاحیت اور قوت بخش دی، دوسرے کو کمزور بنادیا جو خود نہ کام کرسکتا ہے نہ محنت، مگر اسے دولت بخش دی جس کے ساتھ وہ ان لوگوں کو مزدور رکھ سکتا ہے جن کے پاس مال نہیں۔ اسی طرح کسی کے پاس ایک ہنر ہے دوسرے کے پاس دوسرا، دونوں ایک دوسرے سے کام لیتے ہیں۔ ان میں ضروری نہیں کہ کام لینے والا متر بے میں بھی اس سے اونچا ہو جس سے کام لے رہا ہے۔ کتنے ہی ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے کمالات کے مالک ان لوگوں کے پاس ملازمت کر رہے ہیں جو مطلق جاہل ہیں۔ یہاں کوئی بڑے سے بڑا ایسا نہیں جو چھوٹے سے چھوٹے کا محتاج نہ ہو، حتی کہ بادشاہ بھی حجام، باورچی اور دوسرے خدمت گاروں کا محتاج ہے اور خدمت گار اس کے محتاج ہیں، اسی سے نظام عالم چل رہا ہے۔ اگر سب برابر ہوجائیں تو وہ ایک قدم نہیں چل سکتا۔- (٥) ورحمت ربک خیر مما یجمعون :” رحمت ربک “ کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد نبوت ہے، یعنی نبوت و رسالت کا شرف تو دنیوی مال و جاہ اور ساز و سامان سے کہیں اعلیٰ ہے۔ جب دنیا کی دلوت اس نے ان کی تقسیم پر نہیں رکھی تو رسالت ان کی تجویز پر کیسے دے گا ؟ دوسرا یہ کہ اس سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں، یعنی یہ لوگ دنیا کے جس فانی مال و متاع اور عزہ جاہ کو سمیٹنے کی تگ و دو میں دن رتا لگے ہوئے ہیں، ت یرے رب کی رحمت یعنی آخرت کی دائمی نعمتیں ان سے بدرجہا بہتر ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تقسیم معیشت کا قدرتی نظام :- (آیت) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ (ہم نے تقسیم کیا ہے ان کے درمیان ان کی معیشت کو) مقصد یہ ہے کہ ہم نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے کہ یہاں ہر شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے کی امداد کا محتاج ہو اور تمام لوگ اسی باہمی احتیاج کے رشتے میں بندھے ہوئے پورے معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اس آیت نے کھول کر یہ بات بتلا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقسیم معیشت کا کام (اشتراکیت کی طرح) کسی با اختیار انسانی ادارے کے سپرد نہیں کیا جو منصوبہ بندی کے ذریعہ یہ طے کرے کہ معاشرے کی ضروریات کیا ہیں ؟ انہیں کس طرح پورا کیا جائے وسائل پیداوار کو کس تناسب کے ساتھ کن کاموں میں لگایا جائے اور ان کے درمیان آمدنی کی تقسیم کس بنیاد پر کی جائے ؟ اس کے بجائے یہ تمام کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کا محتاج بنا کر دنیا کا نظام ہی ایسا بنادیا ہے جس میں اگر (اجارہ داریوں وغیرہ کے ذریعہ) غیر فطری رکاوٹیں پیدا کی جائیں تو وہ نظام خود بخود یہ تمام مسائل حل کردیتا ہے۔- باہمی احتیاج کے اس نظام کو موجودہ معاشی اصطلاح میں طلب و رسد کا نظام کہا جاتا ہے۔ طلب و رسد کا قدرتی قانون یہ ہے کہ جس چیز کی رسد کم ہو اور طلب زیادہ اس کی قیمت بڑھتی ہے لہٰذا وسائل پیداوار اس چیز کی تیاری میں زیادہ نفع دیکھ کر اسی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جب رسد طلب کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے تو قیمت گھٹ جاتی ہے چناچہ اس چیز کی مزید تیاری نفع بخش نہیں رہتی اور وسائل پیداوار اس کے بجائے کسی اور ایسے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت زیادہ ہو۔ اسلام نے طلب و رسد کی انہی قدرتی قوتوں کے ذریعہ دولت کی پیدائش اور تقسیم کا کام لیا ہے اور عام حالات میں تقسیم معیشت کا کام کسی انسانی ادارے کے حوالہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منصوبہ بندی کے خواہ کتنے ترقی یافتہ طریقے دریافت کر لئے جائیں لیکن ان کے ذریعہ معیشت کی ایک ایک جزوی ضرورت کا احاطہ ممکن نہیں اور اس قسم کے معاشرتی مسائل عموماً ایسے ہی قدرتی نظام کے تابع چلتے ہیں۔ زندگی کے بیشتر معاشرتی مسائل اسی طرح قدرتی طور پر خود بخود طے پاتے ہیں، اور انہیں حکومت کی منصوبہ بندی کے حوالہ کرنا زندگی میں ایک مصنوعی جکڑ بند پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات کہ دن کا وقت کام کے لئے ہے اور رات کا سونے کے لئے کسی معاہدہ عمرانی یا انسانی منصوبہ بندی کے تحت طے نہیں پائی، بلکہ قدرت کے خود کار نظام نے خود بخود یہ فیصلہ کردیا ہے، اسی طرح یہ مسئلہ کہ کون شخص کس سے شادی کرے طبعی مناسبتوں کے فطری نظام کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے اور اسے منصوبہ بندی کے ذریعہ حل کرنے کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ یا مثلاً یہ بات کہ کون شخص علم وفن کے کس شعبہ کو اپنا میدان بنائے، اسے طبعی ذوق اور مناسبت کے بجائے حکومت کی منصوبہ بندی کے حوالہ کردینا ایک خواہ مخواہ کی زبردستی ہے اور اس سے نظام فطرت درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نظام معیشت کو بھی قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور ہر شخص کے دل میں وہی کام ڈال دیا ہے جو اس کے لئے زیادہ مناسب ہے اور جسے وہ بہت طریقے سے انجام دے سکتا ہے چناچہ ہر شخص خواہ وہ ایک خاکروب ہی کیوں نہ ہو اپنے کام پر خوش ہے اور اسی کو اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتا ہے۔ (آیت) کل حزب بما لدیہم فرحون، البتہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام نے افراد کو اتنی آزادی نہیں دی کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت سمیٹ کر دوسروں کے لئے رزق کے دروازے بند کر دے، بلکہ ذرائع آمدنی میں حلال و حرام کی تفریق کر کے سود، سٹہ، قمار اور ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے دیا ہے پھر جائز آمدنی پر بھی زکوٰة و عشر وغیرہ کے واجبات عائد کر کے ان خرابیوں کا انسداد کردیا ہے جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں پائی جاتی ہیں اس کے باوجود بھی اگر کبھی اجارہ داریاں قائم ہوجائیں تو ان کو توڑنے کے لئے حکومت کی مداخلت کو جائز رکھا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں، اس موضوع پر احقر کے مستقل رسالہ ” مسئلہ سود “ اسلام کا نظام تقسیم دولت اور ” اسلامی نظام میں معاشی اصلاحات “ ملاحظہ فرمائے جائیں۔- معاشی مساوات کی حقیقت :- (آیت) وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے) اس سے معلوم ہوا کہ معاشی مساوات (اس معنی میں کہ دنیا کے تمام افراد کی آمدنی بالکل برابر ہو) نہ مطلوب ہے نہ ممکن العمل۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے ہر رکن پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں اور کچھ حقوق دیئے ہیں اور دونوں میں اپنی حکمت سے یہ تناسب رکھا ہے کہ جس کے ذمہ جتنے فرائض ہیں اس کے اتنے ہی حقوق ہیں۔ انسان کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں ان کے ذمہ چونکہ فرائض سب سے کم ہیں کہ وہ شرعاً حلال و حرام اور ناجائز و جائز کے مکلف نہیں ہیں اس لئے ان کے حقوق بھی سب سے کم ہیں چناچہ انسان کو ان کے معاملہ میں وسیع آزادی عطا کی گئی ہے کہ وہ ان سے چند معمولی سی پابندیوں کے ساتھ جس طرح چاہے نفع اٹھا سکتا ہے۔ چناچہ بعض حیوانات کو وہ کاٹ کر کھاتا ہے بعض پر سواری کرتا ہے، بعض مخلوقات کو پامال کرتا ہے مگر اسے ان مخلوقات کی حق تلفی نہیں سمجھا جاتا۔ اس لئے کہ ان مخلوقات پر چونکہ فرائض کم ہیں اس لئے ان کے حقوق بھی کم ہیں۔ پھر کائنات میں سب سے زیادہ فرائض انسان اور جنات پر عائد کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے ہر قول و فعل اور ہر نقل و حرکت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں اور اگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو آخرت کے عذاب کے مستحق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو حقوق بھی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ عطا کئے ہیں۔ پھر انسانوں میں یہ لحاظ ہے کہ جس کی ذمہ داری اور فرائض دوسروں سے زیادہ ہیں، اس کے حقوق بھی زائد ہیں۔ انسانوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری انبیاء (علیہم السلام) پر ہوتی ہے، چناچہ ان کو بہت سے حقوق بھی دوسروں سے زائد عطا کئے گئے ہیں۔- نظام معیشت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی رعایت رکھی ہے کہ ہر شخص کو اتنے معاشی حقوق دیئے جائیں جتنے فرائض کی ذمہ داری وہ اپنے سر لے، اور ظاہر ہے کہ فرائض میں یکسانیت کا پیدا ہونا بالکل ناممکن اور ان میں تفاوت ناگزیر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہر شخص کے معاشی وظائف و فرائض دوسروں سے بالکل مساوی ہوں اس لئے کہ معاشی وظائف و فرائض انسانوں کی فطری صلاحیتوں پر موقوف ہیں جن میں جسمانی طاقت، صحت، دماغی قویٰ اور عمر، ذہنی معیار، چستی اور پھرتی جیسی خبریں داخل ہیں اور یہ بات ہر شخص کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ ان اوصاف کے اعتبار سے انسانوں میں یکسانیت اور مساوات پیدا کرنا بڑی سے بڑی ترقی یافتہ اشتراکی حکومت کے بس میں بھی نہیں، جب انسانوں کی صلاحیتوں میں تفاوت ناگزیر ہے تو ان کے فرائض میں بھی لازماً تفاوت ہوگا اور معاشی حقوق چونکہ انہی فرائض پر موقوف ہیں اس لئے معاشی حقوق یعنی آمدنی میں بھی تفاوت ناگزیر ہے کیونکہ اگر سب کی آمدنی بالکل مساوی کردی جائے اور فرائض میں تفاوت رہے تو اس سے کبھی عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ اس صورت میں بعض لوگوں کی آمدنی ان کے فرائض سے زیادہ اور بعض کی ان کے فرائض سے کم ہوجائے گی جو صریح ناانصافی ہے۔- اس سے واضح ہوگیا کہ آمدنی میں مکمل مساوات کسی بھی دور میں قرین انصاف نہیں ہو سکتی لہٰذا اشتراکیت اپنی ترقی کے انتہائی دور (مکمل کمیونزم) - (اشتراکیت کا کہنا یہ ہے کہ فی الحال تو آمدنی کی مکمل مساوات ممکن نہیں، لیکن اگر اشتراکیت کے ابتدائی اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے تو ایک وقت ایسا آجائے گا جب آمدنی میں مکمل مساوات یا املاک میں مکمل اشتراک پیدا ہوجائے گا اور یہ مکمل کمیونزم کا دور ہوگا)- میں بھی جس مساوات کا دعویٰ کرتی ہے وہ کسی بھی حال میں نہ قابل عمل ہے اور نہ قرین عدل و انصاف۔ البتہ یہ طے کرنا کہ کس کے فرائض زیادہ اور کس کے کم ہیں، اور ان کی مناسبت سے اسے کتنے حقوق ملنے چاہئیں ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے اور انسان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس سے وہ اس بات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرسکے۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ماہر اور تجربہ کار انجینئر نے ایک گھنٹہ میں اتنی آمدنی حاصل کرلی ہے جو ایک غیر ہنر مند مزدور نے دن بھر منوں مٹی ڈھو کر بھی حاصل نہیں کی، لیکن اگر انصاف سے دیکھا جائے تو قطع نظر اس سے کہ مزدور کی دن بھر کی آزاد محنت ذمہ داری کے اس بوجھ کے برابر نہیں ہو سکتی جو انجینئر نے اٹھا رکھا ہے۔ انجینئر کی یہ آمدنی صرف اس ایک گھنٹے کی محنت کا صلہ نہیں بلکہ اس میں سالہا سال کی اس دماغ سوزی، عرق ریزی اور جانفشانی کے صلے کا ایک حصہ بھی شامل ہے جو اس نے انجینئرنگ کی تعلیم و تربیت اور پھر اس میں تجربہ و مہارت حاصل کرنے میں برداشت کی ہے۔ اشتراکیت نے اپنے ابتدائی دور میں آمدنی کے اس تفاوت کو تسلیم تو کرلیا ہے چناچہ تمام اشتراکی ممالک میں آبادی کے مختلف طبقات کے درمیان تنخواہوں کا زبردست تفاوت پایا جاتا ہے لیکن ٹھوکر یہاں کھائی ہے کہ تمام وسائل پیداوار کو حکومت کی تحویل میں دے کر وسائل کے لئے فرائض کا تعین اور پھر ان کی مناسبت سے ان پر آمدنی کی تقسیم بھی تمام تر حکومت ہی کے حوالہ کردی ہے۔ حالانکہ جیسا اوپر عرض کیا گیا فرائض اور حقوق کے درمیان تناسب باقی رکھنے کے لئے انسان کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے چناچہ اشتراکیت کے طریق کار کے تحت ملک بھر کے انسانوں کی روزی کا تعین حکومت کے چند کارندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے اور انہیں یہ اختیار مل گیا ہے کہ جس شخص کو جتنا چاہیں دیں، جتنا چاہیں روک لیں۔ اول تو اس میں بد دیانتیوں اور اقربا نوازیوں کو ایک بڑا میدان مل جاتا ہے جس کے سہارے افسر شاہی پھلتی پھولتی ہے، دوسرے اگر حکومت کے تمام کارندوں کو فرشتہ بھی تصور کرلیا جائے اور وہ فی الواقعہ یہی چاہیں کہ ملک میں آمدنی کی تقسیم حق و انصاف کی بنیاد پر ہو تو ان کے پاس آخر وہ کونسا پیمانہ ہے جس سے وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ ایک انجینئر اور ایک مزدور کے فرائض میں کتنا تفاوت ہے، اور اس کی نسبت سے ان کی آمدنیوں میں کتنا تفاوت قرین انصاف ہے۔- واقعہ یہ ہے کہ اس بات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ انسانی عقل کے ادراک سے قطعی ماورا ہے اس لئے اسے قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ آیت زیر بحث (آیت) وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ۔ میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس تفاوت کا تعین ہم نے انسانوں کے حوالہ کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا مطلب یہاں بھی یہی ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی ضروریات دوسرے کے ساتھ وابستہ کر کے نظام ایسا بنادیا ہے کہ ہر شخص اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے دوسرے کو اتنا دینے پر مجبور ہے جتنے کا وہ مستحق ہے۔ یہاں بھی باہمی احتیاج پر مبنی طلب و رسد کا نظام ہر شخص کی آمدنی کا تعین کرتا ہے، یعنی ہر شخص اس بات کا فیصلہ خود کرتا ہے کہ جتنے فرائض میں نے اپنے ذمہ لئے ہیں ان کا کتنا معاوضہ میرے لئے کافی ہے اس سے کم ملے تو یہ کام کرنے پر راضی نہ ہو اور یہ زیادہ مانگنے لگے تو کام لینے والا اس سے کام نہ لے۔ (آیت) لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا کا یہی مطلب ہے کہ ہم نے آمدنی میں تفاوت اس لئے رکھا ہے تاکہ ایک شخص دوسرے سے کام لے سکے ورنہ سب کی آمدنی برابر ہوتی تو کوئی کسی کے کام نہ آتا۔- ہاں البتہ بعض غیر معمولی حالات میں بڑے بڑے سرمایہ دار طلب و رسد کے اس قدرتی نظام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غریبوں کو اس بات پر مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجرت پر کام کریں۔ اسلام نے اول تو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے وسیع احکام کے ذریعہ نیز اخلاقی ہدایات اور تصور آخرت کے ذریعہ ایسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکا ہے، اور اگر کبھی کسی مقام پر یہ صورت پیدا ہوجائے تو اسلامی حکومت کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ ان غیر معمولی حالات کی حد تک وہ اجرتوں کا تعین کرسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ صرف غیر معمولی حالات کے لئے ہے اس لئے اس مقصد کے لئے تمام وسائل پیداوار کو حکومت کے حوالہ کردینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔- اسلامی مساوات کا مطلب :- مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آمدنی میں مکمل مساوات نہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ نہ عملاً کہیں قائم ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے، اور نہ یہ اسلام کو مطلوب ہے۔ البتہ اسلام نے جس مساوات کو قائم کیا ہے وہ قانون، معاشرت اور ادائے حقوق کی مساوات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا قدرتی طریق کار کے تحت جس شخص کے جتنے حقوق متعین ہوجائیں انہیں حاصل کرنے کے قانونی، تمدنی اور معاشری حق میں سب برابر ہیں اس بات کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ ایک امیر یا صاحب جاہ و منصب انسان اپنا حق عزت کے ساتھ با آسانی حاصل کرلے اور غریب کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں اور ذلیل و حقیر ہونا پڑے۔ قانون امیر کے حقوق کی حفاظت کرے اور غریب کو بےیارو مددگار چھوڑ دے، اسی کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا :- واللہ ما عندی اقویٰ من اضعیف حتی اخذ الحق لہ ولا عندی اضعف من القوی حتیٰ اخذ الحق منہ ” خدا کی قسم میرے نزدیک ایک کمزور آدمی سے زیادہ قوی کوئی نہیں تا وقت کہ میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور میرے نزدیک ایک قوی آدمی سے زیادہ کمزور کوئی نہیں جب تک کہ میں اس سے (کمزور) کا حق وصول نہ کرلوں “۔- اس طرح ٹھیٹھ معاشی نقطہ نظر سے اسلامی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں ہر شخص کو کمائی کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور اسلام اس بات کو گوارہ نہیں کرتا کہ چند بڑے بڑے دولت مند مال و دولت کے دہانوں پر قابض ہو کر اپنی اجارہ داریاں قائم کرلیں اور چھوٹے تاجروں کے لئے بازار میں بیٹھنا دوبھر بنادیں۔ چناچہ سود، سٹہ، قمار، ذخیرہ اندوزی اور اجارہ دارانہ تجارتی معاہدوں کو ممنوع قرار دے کر نیز زکوٰة، عشر، خراج، نفقات، صدقات اور دوسرے واجبات عائد کر کے ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس میں ہر انسان اپنی ذاتی صلاحیت، محنت اور سرمایہ کے تناسب سے کمائی کے مناسب مواقع حاصل کرسکتا ہے اور اس سے ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود آمدنی کا جو تفاوت باقی رہے وہ درحقیقت ناگزیر ہے اور جس طرح انسانوں کے درمیان حسن و جمال، قوت و صحت، عقل و ذہانت اور آل و اولاد کے تفاوت کو مٹانا ممکن نہیں، اسی طرح اس تفاوت کو بھی مٹایا نہیں جاسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَہُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ۝ ٠ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَہُمْ مَّعِيْشَتَہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا۝ ٠ ۭ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝ ٣٢- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امتداد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق منزلہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا یہ لوگ آپ کے رب کی عطا کردہ نبوت اور اس کی کتاب کو جس پر چاہیں خود تقسیم کرنا چاہتے ہیں مال و دولت تو ہم نے تقسیم کر رکھا ہے اور ہم نے مال وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے پر ترقی دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے کو خدم و حشم بناتے رہیں اور کتاب و نبوت اس دنیوی مال و دولت سے جسے یہ کافر سمیٹتے پھرتے ہیں بہتر ہے یا یہ کہ کہ جنت اہل ایمان کے لیے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ” کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کریں گے ؟ “- نبوت اور وحی اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہماری اس رحمت کا حقدار کون ہے اور ہم یہ فیصلہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق کرتے ہیں کہ اس بلند مرتبے پر کسے فائز ہونا ہے۔ چناچہ ہم نے خود اس منصب کے لیے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب فرمایا ہے اور آپ کو رحمت ٌللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ہمارے اس فیصلے پر اعتراض کرنے کا حق انہیں کس نے دیا ہے ؟- نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ” ہم نے ان کے درمیان ان کی معیشت کا سامان دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ہے “- وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ” اور ان میں سے بعض کو بعض پر ہم نے درجات میں فوقیت دے دی ہے “- کسی کو کھاتے پیتے والدین کے گھر پیدا کر کے پیدائشی طور پر خوشحال بنا دیا ہے تو کسی کو اس حال میں رکھا ہے کہ اسے دن بھر مشقت کر کے بھی دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہوتا۔- لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ” تاکہ بعض لوگ دوسروں کو خدمت گار بنا سکیں۔ “- اگر وہ سب کو ایک جیسا بنا دیتا تو کوئی کسی کی ملازمت کیوں کرتا ؟ اور مختلف کام کرنے والے مزدور کہاں سے ملتے ؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی اسی درجہ بندی کی بدولت دنیا میں ہر قسم کا کام کرنے والے پیشہ ور لوگ دستیاب ہیں اور اسی وجہ سے یہ کارخانہ ٔ تمدن چل رہا ہے۔- وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ” اور آپ کے رب کی رحمت کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔ “- سورة یونس میں بالکل یہی الفاظ قرآن مجید کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : - یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِج وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ - ” اے لوگو آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے امراض) کی شفا اور اہل ایمان کے حق میں ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ) کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے۔ تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں۔ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :31 یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں: پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ ( یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے ) ۔ دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے ، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی کسی اور کے حوالے نہیں کر دی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت ، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز ، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن ، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا ، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا یا گونگا بہرا ، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں ۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے ۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، شہرت ، دولت ، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں ۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا ، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے ۔ تیسری بات یہ کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو ، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے ، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو ، بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل ، علم ، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار ، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں ، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :32 یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص ، یعنی نبوت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو ، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دی گئی ہے ۔ یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت کا معیار کچھ اور ہے ۔ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے ۔ اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یہاں رحمت سے مراد نبوت ہے، اور مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ جو تجویز پیش کر رہے ہیں کہ قرآن مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر نازل ہونا چاہئے تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اس فیصلے کا حق دار سمجھتے ہیں کہ نبوت کی رحمت کس کو عطا کی جائے، کسی کو نہ کی جائے۔ 9: یہاں پھر رحمت سے مراد نبوت ہے، اور مطلب یہ ہے کہ نبوت تو بہت اعلی درجے کی چیز ہے اس کی تقسیم کا کام ان لوگوں کے حوالے کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دنیا کا مال ودولت اور روزی کے ذرائع جو نبوت سے بہت کم درجے کی چیز ہے ان کی تقسیم بھی ہم نے ان لوگوں کے حوالے نہیں کی، کیونکہ یہ اس کے بھی اہل نہیں تھے،، بلکہ خود ایسا نظام بنایا ہے جس کے ذریعے ہر شخص کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے دوسرے کا محتاج بنادیا ہے، اس باہمی احتیاج کی بنیاد پر لوگوں کی آمدنی میں بھی فرق ہے، اور اسی فرق کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے کی حاجتیں پوری کرتا ہے ؛ تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کا یہی مطلب ہے، اس مسئلے کی مکمل تفصیل کے لئے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن کا مطالعہ فرمایا جائے۔