Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کم عقل اور یتیموں کے بارہ میں احکامات اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں ، مال کو اللہ تعالیٰ نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہئے ، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بےوقوف ہو اور بےدین ہو بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو ، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ( سفہاء ) سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں ، اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک رحمتہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں ، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں ۔ پھر فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو ابن عباس فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کر پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے دے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا فرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو ۔ ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبر گیری کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے ۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں ، یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ، بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے ، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، اس میں علماء کے تین قول ہیں ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے دوسرے یہ کہ نہیں تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جواب ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا ؟ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا ، سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ ۔ جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے ، مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے ، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھیئے اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے ، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لئے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لئے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے ، اس لئے کہ آیت میں بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے ، ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے ، ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لئے ضرورتاً کس چیز سے ماروں؟ فرمایا جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر ، حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لئے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں؟ آپ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کی کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبر گیری رکھتا ہے ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے نہ حاجت سے زیادہ لے ، ( موطا مالک ) حضرت عطاء بن رباح حضرت عکرمہ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عطیہ عوفی حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے دوسرا قول یہ ہے کہ تنگ دستی کے دور ہو جانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لئے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہو گا ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا ( ابن ابی الدنیا ) یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کو اسناد صحیح ہے ، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے ، ابن عباس سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں معروف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے لائق ہی خرچ کرے تا کہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے ، حصرت عامر شعبی فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے تو بیشک کھا لے لیکن پھر ادا کرنا ہوگا ، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے اس کی تفسیریوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا ، لیکن عبارت یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لئے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے ، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو ، دوسری آیت میں ہے آیت ( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6 ۔ الانعام:152 ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے پھر اگر تمہیں حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے کھاؤ پیو پھر اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آچکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو ، تا کہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے ، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا ، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے ابو ذر میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لئے چاہتا ہوں وہی تیرے لئے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] نادان کے حقوق کی ملکیت کی حد :۔ اس آیت میں نادان سے مراد صرف نادان یتیم ہی نہیں بلکہ کوئی بھی فرد ہوسکتا ہے مثلاً چھوٹا بھائی نادان ہے تو بڑا بھائی اسے اس کا مال نہ دے اور چھوٹا عقلمند اور بڑا نادان ہے تو چھوٹا بھائی اس کا مال اس کے تصرف میں نہ رکھے۔ وجہ یہ ہے کہ مال تو ذریعہ قیام زندگی ہے اگر کسی نادان کے ہتھے چڑھ جائے گا تو وہ فضول، ناجائز یا گناہ کے کاموں میں اجاڑ دے گا اور اس کے برے اثرات تمام معاشرہ پر پڑیں گے۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر ہوتے ہیں اتنے غیر محدود نہیں کہ اگر وہ اس چیز کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو تب بھی اس کے حقوق سلب نہ کیے جاسکیں۔ ایسی صورتوں میں اس نادان کا کوئی قریبی رشتہ دار یا حکومت اس کے مال پر تصرف رکھے گی۔ اس کی خوراک اور پوشاک اسے اس کے مال سے مہیا کی جائے اور جو بات اس سے کہی جائے اس کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر کہی جائے۔ اور اگر یتیم کا مال تجارت یا مضاربت پر لگایا جاسکتا ہو تو اسے تجارت پر لگایا جائے اور منافع سے اس کی خوراک اور پوشاک کے اخراجات پورے کیے جائیں سیدنا عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ یتیموں کا مال تجارت پر لگایا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ ہی ان کے مال کو کھاجائے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال بھی اگر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی اور دوسری یہ کہ جہاں تک ممکن ہو یتیموں سے اور ان کے اموال سے خیر خواہی ضروری ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہاں بےسمجھوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھوٹے بچے اور ناتجربہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی، یعنی اگر یتیم ناتجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھانے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے، مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ ابوموسیٰ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تین آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں مگر ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ایک وہ آدمی جس کی بیوی بدخلق تھی پھر اس نے اسے طلاق نہیں دی اور ایک آدمی جس کا کسی شخص کے ذمے مال تھا مگر اس نے اس پر کوئی گواہ نہیں بنایا اور ایک وہ آدمی جس نے کسی سفینہ (بےوقوف) کو اپنا مال دے دیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم بیوقوفوں کو اپنے مال مت دو ۔ (صحیح الجامع : ٣٠٧٥) اس آیت سے علماء نے سفیہ (کم عقل) پر ” حجر “ (پابندی) کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے لین دین پر پابندی لگا سکتا ہے۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- گزشتہ آیات میں یتیموں کے مال ان کو سپرد کردینے اور عورتوں کے مہر ان کو ادا کرنے کا حکم گذر چکا ہے جس سے بظاہر یہ مستفاد ہوسکتا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا مال بہرحال ان کے حوالہ کردینا چاہئے، خواہ ان کو معاملات کا سلیقہ بھی نہ ہو اور وہ اموال کی حفاظت پر بھی قادر نہ ہوں، اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ان آیات میں فرمایا ہے کہ کم عقلوں کو اموال سپرد نہ کرو اور ان کی جانچ کرتے رہو، جب اموال کی حفاظت اور ان کے مصارف کی سوجھ بوجھ ان کے اندر محسوس ہونے لگے تو اموال ان کے سپرد کردو۔ - خلاصہ تفسیر - (اور اگر یتیم بالغ ہوجائیں جس کا مقتضی مال کا سپرد کردینا ہے جیسا آگے آتا ہے لیکن کم عقل ہوں تو) تم (ان) کم عقلوں کو اپنے (یعنی ان کے) وہ مال مت دو جن کو اللہ تعالیٰ نے (ایسے کام کا پیدا کیا ہے کہ ان کو) تمہارے (سب کے) لئے مایہ زندگی بنایا ہے (مطلب یہ کہ مال قدر کی چیز ہے، ان کو ابھی مت دو کہ بےقدری کر کے اڑا دیں گے) اور ان مالوں میں (سے) ان کو کھلاتے رہو پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو (یعنی ان کو تسلی کرتے رہو کہ مال تمہارا ہے، تمہاری خیر خواہی کی وجہ سے ابھی تمہارے ہاتھ میں نہیں دیا، ذرا سمجھ دار ہوجاؤ گے تو تم ہی کو دے دیا جائے گا) اور (جب مال سپرد کرنے کے لئے ہوشیاری دیکھنا ضروری ہے تو) تم یتیموں کو (بالغ ہونے سے پہلے ہوشیاری وتمیز داری کی باتوں میں) آزما لیا کرو (کیونکہ بالغ ہونے کا وقت تو سپردگی مال کا وقت ہے، تو آزمائش پہلے سے چاہئے، مثلاً کچھ کچھ سودا سلف اس سے منگا لیا اور دیکھا کہ کیسے سلیقہ سے خرید کر لائے، یا کوئی چیز فروخت کی دے دی اور دیکھا کہ اس کو کس طرح فروخت کیا) یہاں تک کہ (ان کو آزمایا جائے) کہ جب وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جاویں (یعنی بالغ ہوجاویں، کیونکہ نکاح کی پوری قابلیت بلوغ سے ہوتی ہے۔ ) پھر (بعد بلوغ و آزمائش) اگر ان میں ایک گو نہ تمیز دیکھو (یعنی حفاظت و رعایت مصالح مال کا سلیقہ اور انتظام ان میں پاؤ ں) تو ان کے اموال ان کے حوالے کردو (اور اگر ہنوز سلیقہ یا انتظام نہ معلوم ہو تو چندے اور حوالہ نہ کیا جائے) اور ان اموال (یتامی) کو ضرروت سے زائد اٹھا کر اور اس خیال سے کہ یہ بالغ ہوجاویں گے (پھر ان کو حوالہ کرنا پڑے گا) جلدی جلدی اڑا کر مت کھا ڈالو اور (اگر اس طرح نہ اڑا دیں، بلکہ تھوڑا کھانا چاہیں تو اس کا یہ حکم ہے کہ) جو شخص (اس مال سے) مستغنی ہو (یعنی اس کے پاس بھی بقدر کفایت موجود ہے گو صاحب نصاب نہ ہو) سو وہ تو اپنے کو بالکل (تھوڑا کھانے سے بھی) بچائے اور جو شخص حاجت مند ہو تو وہ مناسب مقدار سے (یعنی جس میں حاجات ضروریہ رفع ہوجاویں) کھلا ہے (برت لے) پھر جب (بعد وجود شرائط یعنی بلوغ و رشد مذکور کے) ان کے اموال ان کے حوالے کرنے لگو تو (بہتر ہے کہ) ان (کے اموال ان کو دیدینے) پر گواہ بھی کرلیا کرو، شاید کسی وقت کچھ اختلاف واقع ہو تو گواہ کام آویں) اور (یوں تو) اللہ تعالیٰ ہی حساب لینے والا کافی ہے (اگر خیانت نہ کی ہو تو گواہوں کا نہ ہونا بھی مضر نہیں، کیونکہ اصل حساب جن کے متعلق ہے وہ تو اس کی صفائی جانتے ہیں اور اگر خیانت کی ہے تو گواہوں کا ہونا کوئی نافع نہیں، کیونکہ جن سے حساب کا سابقہ ہے وہ اس کا ملوث ہونا ہونا جانتے ہیں، صرف ظاہری انتظام کے لئے گواہوں کا ہونا مصلحت ہے۔ )- معارف و مسائل - مال سرمایہ زندگی ہے اور اس کی حفاظت لازمی ہے :۔- ان آیات میں ایک طرف تو مال کی اہمیت اور انسانی معاش میں اس کا بڑا دخل ہونا بیان فرما کر اس کی حفاظت کا داعیہ قلوب میں پیدا کیا گیا، دوسری طرف حفاظت اموال کے متعلق ایک عام کوتاہی کی اصلاح فرمائی گئی، وہ یہ کہ بہت سے آدمی طبعی محبت سے مغلوب ہو کر ناتجربہ کار نابالغ بچوں اور ناواقف عورتوں کو اپنے اموال حوالہ کردیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مال کی بربادی اور بہت جلد افلاس و تنگدستی ہوتی ہے۔ عورتوں بچوں اور کم عقلوں کو اموال سپرد نہ کئے جائیں :۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ ہدایت فرمائی کہ اپنا پورا مال کم عقل بچوں عورتوں کے سپرد کر کے خود ان کے محتاج نہ بنو، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوام اور منتظم بنایا ہے تم مال کو خود اپنی حفاظت میں رکھ کر بقدر ضرورت ان کے کھلانے پہنانے پر خرچ کرتے رہو اور اگر وہ مال کو اپنے قبضہ میں لینے کا مطالبہ بھی کریں تو ان کو معقول بات کہہ کر سمجھا دو ، جس میں دلشکنی بھی نہ ہو اور مال بھی ضائع نہ ہونے پائے، مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ سب تمہارے ہی لئے رکھا ہے، ذرا تم ہوشیار ہوجاؤ گے تو تمہیں دے دیا جائے گا۔- حضرت عبداللہ بن عباس کی اس تفسیر پر آیت کا مفہوم ان سب عورتوں، بچوں اور کم عقل ناتجربہ کار لوگوں کو شامل ہے، جن کو مال سپرد کردینے پر مال میں نقصان کا خطرہ ہے، خواہ وہ اپنی بچے ہوں یا یتیم بچے اور خواہ وہ مال ان بچوں اور یتیموں کا اپنا ہو یا اولیاء کا ہو ........ یہی تفسیر حضرت ابوموسی اشعری سے بھی منقول ہے اور امام تفسیر حافظ طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔- پچھلی اور اگلی آیتوں کا سیاق اگرچہ اس حکم کو بھی یتیم بچوں کے ساتھ مخصوص کرنے کا رجحان پیدا کرسکتا ہے، لیکن الفاظ کا عموم اپنی جگہ ہے، جس میں یتیم اور غیر یتیم سب بچے داخل ہیں اور شاید اس جگہ اموالکم بصیغہ خطاب فرمانے میں یہی حکمت ہو کہ وہ اپنے اموال کو بھی شامل ہے اور وہ یتیموں کے اموال کو بھی، جب تک ان میں ہوشیاری نہ آئے ان کی ذمہ داری میں ہونے کی وجہ سے گویا انہی کے اموال ہیں اور اس سے پہلی آیات میں واتوا الیتمی اموالھم فرما کر اصل حقیت کو واضح بھی کردیا گیا ہے کہ یتیموں کے مال انہی کو دینا ہے، جس کے بعد کوئی مغالطہ باقی نہیں رہ سکتا۔- مال کی حفاظت ضروری امر ہے اور اس کو ضائع کرنا گناہ ہے اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے کوئی شخص مقتول ہوجائے تو شہید ہے، جیسا کہ جان کی حفاظت کرتے ہوئے مقتول ہونے پر شہادت کا درجہ موعود ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے جو شخص مقتول ہوجائے وہ شہید ہے (یعنی ثواب کے اعتبار سے شہیدوں میں شمار ہے۔ “ )- ” نیک آدمی کے لئے اس کا اچھا اور پاکیزہ مال بہترین متاع حیات ہے۔ “- ” جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہو اس کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں۔ “- آخر کی ان دونوں میں حدیثوں میں یہ بات بتائی ہے کہ صالح اور متقی آدمی کا مال پاس رکھنا اس کے حق میں مضر نہیں ہے، کیونکہ ایسا شخص اللہ سے خوف کھاتے ہوئے اپنے مال کو گناہوں میں خرچ کرنے سے بچے گا، بہت سے اولیاء اللہ اور صوفیاء زاہدین سے جو مال کی برائی منقول ہے، وہ انہی لوگوں کے حق میں ہے جو گناہوں میں خرچ کر کے اپنے کمائے ہوئے مال کو آخرت کے عذاب کا ذریعہ بناتے ہیں اور چونکہ انسان طبعی طور پر مال دار ہونے کے بعد اسراف اور دیگر معاصی سے محفوظ رہنے کی فکر چھوڑ دیتا ہے، اس لئے مال سے دور رہنے کو محبوب سمجھا گیا ہے، بقدر ضررت تھوڑا بہت کمایا اور اللہ کا نام لیا اور مال کے حساب سے اپنی جان بچائی، یہ پرانے بزرگوں کا طرز تھا دور حاضر میں لوگوں میں دین و ایمان کی اہمیت زیادہ نہیں ہے، دنیوی ساز و سامان کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور معمولی سی تکلیف ہی نہیں بلکہ ظاہری فیشن کے خلاف ورزی ہوجانے پر دین چھوڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے مال حلال کسب کرنے اور اس کو محفوظ رکھنے کی زیادہ اہمیت ہے، اسی طرح کے لوگوں کے لئے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی تنگدستی انسان کو بعض اوقات کافر بنا سکتی ہے۔ “- حضرت سفیان ثوری نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : کان المال فیما مضی یکرہ فاما الیوم فھوترس المومن، یعنی ” زمانہ سابق میں مال کو پاس رکھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ مال مومن کی ڈھال ہے۔ “- نیز انہوں نے فرمایا : من کان فی یدہ من ھذہ شیاً فلیصلحہ فانہ زمان ان احتاج کان اول من بیدل دینہ، یعنی جس کے پاس دراہم ودنانیر میں سے کچھ موجود ہو اسے چاہئے کہ اس مال کو مناسب طریقہ پر کام میں لائے کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ اگر کچھ حاجت پیش آگئی تو انسان سب سے پہلے حاجت پوری کرنے کے لئے اپنے دین ہی کو خرچ کرے گا۔ “ مطلب یہ ہے کہ حاجت پوری کرنے کی اہمیت دین پر چلنے سے زیادہ ہوگئی۔ (مشکوة ص ١٩٤)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝ ٥- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قيام - والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله :- كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم .- قيام - اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیت بنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - كسا - الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] - ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نادانوں اور بیوقوفوں کو ان کا مال حوالے کرنا - اسلام مال وجائد اد کی حفاظت کا حکم دیتا ہے - قول باری ہے (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ناوان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تاویل وتفسیر میں اہل کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنامال اپنی اولاد کے درمیان تقسیم نہ کرے اور پھر خودان کا دست نگربن جائے، جبکہ اس کی اولاد کو اس کا دست نگرہونا چاہیئے اور عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ اس طرح حضرت ابن عباس (رض) نے آیت کی اس کے ظاہر اور اس کی حقیقت کے مقتضیٰ کے مطابق تفسیر کی اس لیے کہ قول باری (اموالکم) اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنا مال نادانوں کے حوالے کرنے کی نہی کا خطاب ہر شخص کو ہے۔ اس لیے کہ حوالہ کردینے کی صورت میں گویا اپنا مال ضائع کردینا ہے کیونکہ نادان لوگ مال کی حفاظت اور اس میں اضافہ کرنے سے عاجزہوتے ہیں۔ نادان لوگوں سے آپ کی مراد بچے اور عورتیں ہیں جو مال کی حفاظت کے نااہل ہوتے ہیں نیز اس امرپر بھی دلالت ہورہی ہے کہ ایک شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال کا کسی ایسے فرد کو وکیل اور کارپروازبنادے جس میں نادانی اور بیوقوفی کی صفت پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان جیسے لوگوں کو اپنے مال کے متعلق وصیت کرے۔ نیز یہ دلالت بھی ہورہی ہے کہ ایک شخص کے ورثاء کم عمرہوں تو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے مال کے متعلق کسی ایسے شخص کو وصیت کرے جو امانت دارہو اور ان ورثاء کی خاطر اس مال کی دل وجان سے حفاظت کرسکتا ہو۔- اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مال کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے اور اس کی حفاظت دیکھ بھال اور نگرانی واجب کردی گئی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (التی جعل اللہ لکم قیا ما) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا ہے۔ کہ اس نے ہمارے جسموں کی زندگی اور قیام کا ذریعہ مال کو بنادیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مال دنیامیں سے کوئی حصہ عطاکیا ہے۔ اس پر اس میں سے اللہ کا حق یعنی زکوۃ و صدقات اداکرنا لازم ہے پھر باقی ماندہ مال کی حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اصلاح معاش اور حسن تدبیر کی ترغیب دی ہے، یہ بات اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں کئی مواقع پر بیان فرمائی ہے۔ چناچہ قول باری ہے۔ (ولاتبذرتبذیرا ان لمبذرین کانوا اخوان الشیطین، اور بلاضرورت خرچ نہ کرو بیشک بلاضرورت مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں) نیز قول باری ہے (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعدملومامحسورا۔ اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر نہ رکھو، اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو کہ پھر ملامت زدہ اور تھکاہاربن کر بیٹھ رہو) نیز قول باری ہے (والذین اذا انفقوالم یسرفواولم یقتروا، اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ ہی کنجوسی) اللہ تعالیٰ نے اموال کی حفاظت اور گواہوں، دستاویز اوررہن کے ذریعے قرض میں دی ہوئی رقموں کو محفوظ کرلینے کے جو احکامات دیئے ہیں جن کا ذکرہم پہلے کر آئے ہیں وہ بھی اصلاح معاش اور حسن تدبیر کے سلسلے میں دی جانے والی ترغیب کی ایک کڑی ہیں۔ قول باری (التی جعل اللہ لکم قیاما، کی اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان اموال کانگران ومحافظ بنا ہے۔ اس لیے انہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے نہ دوجوان کے ضیاع کا سبب بن جائیں۔- اسلام میں مال ودولت کا ضائع کرنا منع ہے - آیت زیر بحث کی ایک اور تاویل سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ آیت کا اصل مفہوم یہ ہے ، ناوانوں کو ان کے اموال حوالے نہ کرو۔ اموال کی اضافت دراصل سفہاء یعنی نادانوں کی طرف ہے۔ اب الفاظ میں اموال کی جو اضافت مخاطبین کی طرف ہے تو اس کی مثال یہ قول باری ہے (ولاتقتلوا انفسکم، تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) یہاں (انفسکم) سے مراد یہ ہے کہ ، تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح قول باری (فاقتلوا انفسکم، تم اپنے آپ کو قتل کرو) کا یہی مفہوم ہے۔ نیز قول باری (واذدختلم بیوتا فسلمواعلی انفسکم، اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کرو) کا مفہوم یہ ہے کہ گھروں میں رہنے والوں کو سلام کرو۔ اس تاویل کی بناپرنادانوں اور بیوقوفوں پر ان کے اموال کے سلسلے میں پابندی ہوگی اور انہیں نادانی اور بے وقوفی زائل ہونے تک ان کے اموال سے دوررکھاجائے گا۔- یہاں سفہاء کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے، تمہاری اولاد اور اہل وعیال میں سے سفیہ اور بے وقوف، نیز فرمایا : عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ سعید بن جبیر، حسن اور سدی نیز ضحاک اور قتادہ کے نزدیک عورتیں اور بچے سفہاء گنے جاتے میں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس میں مال کے متعلق سفاہت اور نادانی کی صفت پائی جاتی ہو خواہ اس پر پابندی لگی ہو یا نہ لگی ہو، شعبی نے ابوبردہ سے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ آپ نے فرمایا : تین افرادای سے ہیں جو اللہ سے دعا مانگتے ہیں لیکن اللہ ان کی دعاقبول نہیں کرتا، ایک تو وہ شخص جس کی بیوی بداخلاق اور بدزبان ہو اور وہ طلاق دے کر اپنی جان نہ چھڑائے۔ دوسراوہ جو اپنا مال کسی بیوقوف کے حوالے کردے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولاتوتوالسفھاء اموالکم) اور تیسراوہ شخص جس نے کسی کو قرض میں اپنی رقم دی اور اس پر گواہی نہ قائم کی ہو۔ مجاہد سے مروی ہے کہ سفہاء سے مراد عورتیں ہیں کہ ایک قول ہے کہ سفابت کے اصل معنی حلم اور بردباری کے لحاظ سے ہلکاپن کے ہیں اسی بناء پر فاسق کو سفیہ کہا گیا ہے اس لیے کہ اہل دین اور اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی وزن اور مقام نہیں ہوتا۔ ناقص العقل کو بھی سفیہ کہاجاتا ہے اس لیے کہ اس میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ آیت زیربحث میں جسن سفہاء کا ذک رہے ان کی سفابت میں کوئی خدمت کا پہلو نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اللہ کی نافرنی کا مفہوم ظا ہوتا ہے بلکہ انہیں سفہاء صرف ان کی عقل کی کمی اور مال کی حفاظت میں ان کی سمجھ بوجھ کی قلت کی بناء پر کہاگیا ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ اس بات کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہم بچوں اور عورتوں کو مال بطور ہبہ دے سکتے ہیں۔ ایک صحابی حضرت بشیر (رض) نے اپنے بیٹے نعمان (رض) کو بطورہبہ کچھ دینے کا ارادہ کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس سے صرف اس لیے روک دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو یکساں طریقے پر ہبہ نہیں کیا تھا۔ اس بیان کی روشنی میں سفہاء کو ہماری طرف سے اموال نہ دینے کے معنی پر آیت کے کیسے محمول کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں تملیک اور مال کسے ہبہ کے معنی نہیں ہیں۔ اس میں تو مفہوم یہ ہے کہ ہم اموال کو ان کے ہاتھوں میں دے دیں جبکہ انہیں ان کی حفاظت کی کوئی خاص پروانہ ہو۔ دوسری طرف ایک انسان کے لیے جائز ہے کہ نابالغ یا عورت کو بطورہبہ کوئی مال دے دے جس طرح کہ وہ بالغ عقلمند کو ہبہ کے طورپر کوئی چیزدے سکتا ہے۔ پہلی صورت میں صرف اتنی بات ہوئی کہ اس ہبہ کو بچے کا ولی اپنے قبضے میں لے کر اس کی حفاظت کرے گا اور اسے ضائع ہونے نہیں دے گا۔ آیت میں اللہ تعانے ہمیں اس سے روکا ہے کہ ہم اپنے اموال بچوں اور عورتوں کے ہاتھوں میں دے دیں جوان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے نااہل ہوتے ہیں۔- قول باری ہے (فارزقوھم فیھا واکسوھم، ان نادانوں کو ان اموال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ) یعنی انہیں ان اموال میں سے کھلاؤ اس لیے کہ یہاں حرف، فی، حرف، من ، کے معنی میں ہے اس لیے کہ حروف پر آگے پیچھے صفات ک اورودہوتارہتا ہے جس کی بناپربعض حروف بعض دوسرے حروف کے قائمقام ہوکران کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم) میں معنی ، مع اموالکم، کے ہیں، یعنی ان کے اموال اپنے اموال کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اموال کو سفہاء کے حوالے کردینے سے روک دیا ہے جوان اموال کی حفاظت کا کام سرانجام نہیں دے سکتے اور یہ حکم دیا کہ ہم انہیں ان اموال میں سے ان کی خوراک اور لباس کا بندوبست کریں۔ اگر آیت سے مراد ہمیں اپنے اموال انہیں حوالے کرنے سے روکنا ہے جیسا کہ آیت کا ظاہراس کا مقتضی ہے تو پھر اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اپنی بیوی اور نادان اولاد اور بیویوں کانان ونفقہ ہم پر واجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ ہم ان پر اپنے اموال میں سے خرچ کریں۔ اگر آیت کی تاویل وہ ہے جسے ان لوگوں نے اختیارکیا ہے جن کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ بات ہے کہ ہم ان کے اموال اس وقت تک ان کے حوالے نہ کریں جب تک ان میں سفاہت کی صفت موجودہوتو پھر اس صورت میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے اموال میں سے ان پر خرچ کریں، یہ بات دوجوہ سے ایسے لوگوں پر پابندی پر دلالت کرتی ہے اول یہ کہ انہیں ان کے اموال سے دوررکھا گیا ہے دوم ان پر خرچ کرنے اور ان کی خوراک اور لباس کی خریداری کے سلسلے میں ہمیں ان کے اموال میں تصرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔- قول باری ہے (وقولوالھم قولا معروفا، ان سے بھلی بات کہو) مجاہد اورابن جریج کا قول ہے کہ (قولا معروفا) سے مراد نیکی اور صلہ رحمی کرنے کے لیے موزوں اور جائز طریقے پر ان سے مناسب الفاظ میں وعدہ کرلینا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد بھلے الفاظ میں ان سے گفتگو کرنا اور اس کے لیے نرم لہجہ اختیارکرنا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (فاماالیتیم فلاتقھر، اور تم یتیم پر سختی نہ کرو) یا جس طرح یہ قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھافقل لھم قولا میسورا، اگر تمھیں ان سے پہلوتہی کرنا پڑے اس انتظار میں کہ تیرے پروردگار کی طرف سے وہ کشایش آئے جس کی تمہیں امیدہوتوان سے نرمی کی بات کہہ دو ۔ ) ایک قول یہ بھی ہے یہاں، قول معروف، سے تادیب و تنبیہ نیزراست روی اور نیکی کی بدایت اور اخلاق حسنہ کے حصول کی راہنمائی مراد لینا بھی جائز ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد ہمیں یہ نصیحت کرنا ہے کہ تم ان کے لیے اپنے اموال میں سے خوراک وپوشاک کے اخراجات اداکروتو اس موقعہ پر ان سے بھلے اور مناسب الفاظ میں گفتگوکرو اورا نہیں اپنی بیزاری کا اظہارکرکے نیز انہیں ذ (رح) لیل کرکے اور نظروں سے گراکر ان کی ایذارسانی نہ کروجیسا کہ ارشادباری ہے (واذاحضرالقسمۃ اولوالقربی والیتامی والمساکین فارزقوھم منہ وقولوالھم قولا معروفا، اور جب تقسیم ترکہ کے وقت رشتہ دار، یتیم اور مساکین آجائیں توا نہیں بھی اس میں سے کچھ حصہ دو اور ان سے عمدہ انداز میں گفتگوکرو) یعنی مناسب الفاظ میں گفتگو اوراظہار بیزاری اور احسان جتانے سے پرہیز نیز یہ قول باری بھی ہے (لاتبطلواصدقاتکم بالمن والاذی اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اورتکلیف پہنچاکربربادنہ کرو) یہ بھی درست ہے کہ مذکورہ بالاتمام معانی آیت (وقولوالھم قولا معروفا) میں مراد ہوں ۔- واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) اور تم ان کم عقل یتیم عورتوں اور لڑکوں کو وہ مال جو تمہارے لیے مایہ زندگی ہے، مت دو باقی اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور تم ہی اس چیز کے نگران ومحافظ رہو کیوں کہ تم صحیح مصارف کو زیادہ جانتے ہو اور ان کی تسلی کے لیے معقول بات کہتے رہو کہ ابھی دوں گا وغیرہ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا) - معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو نادانوں اور ناسمجھ لوگوں (سُفَہاء) پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جو ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے۔ ایسے بچے اگر یتیم ہوجائیں تو وہ وراثت میں ملنے والے مال کو اللوں تللوں میں اڑا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے مال کے بےجا استعمال کی معاشرتی سطح پر روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ میرا مال ہے ‘ میں جیسے چاہوں خرچ کروں چناچہ اس مال کو اَمْوَالَکُمْ “ کہا گیا کہ یہ اصل میں معاشرے کی مشترک بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ انفرادی ملکیت ہے ‘ لیکن پھر بھی اسے معاشرے کی مشترک بہبود میں خرچ ہونا چاہیے۔ ِ - (وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ ) (وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ) - اسی اصول کے تحت برطانوی دور کے ہندوستان میں مقرر کردیے جاتے تھے۔ اگر کوئی بڑا جاگیردار یا نواب فوت ہوجاتا اور یہ اندیشہ محسوس ہوتا کہ اس کا بیٹا آوارہ ہے اور وہ سب کچھ اڑا دے گا ‘ ختم کر دے گا تو حکومت اس میراث کو اپنی حفاظت میں لے لیتی اور ورثاء کے لیے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کردیتی۔ باقی سب مال و اسباب جمع رہتا تھا تاکہ یہ ان کی آئندہ نسل کے کام آسکے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :8 یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے ۔ اس میں امت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام تمدن و معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو خراب کر دیں ۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں ۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں ، لیکن جہاں تک حقوق مالکانہ کے آزادانہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مضر نہ ہو ۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحب مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومت اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں ، یا جو لوگ اپنی دولت کو برے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں ، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات زندگی کا بندوبست کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یتیموں کے سرپرستوں کی ذمہ داریاں بیان کی جارہی ہیں کہ ایک طرف تو انہیں یتیموں کے مال کو امانت سمجھ کر انتہائی احتیاط سے کام لینا ہے، دوسری طرف یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ یتیموں کا پیسہ ایسے وقت ان کے حوالے کیا جائے جب ان میں روپے پیسے کی ٹھیک ٹھیک دیکھ بھال کی سمجھ اور اسے صحیح مصرف پر خرچ کرنے کا سلیقہ آ چکا ہو۔ جب تک وہ نا سمجھ ہیں، ان کا مال ان کی تحویل میں نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ خود مطالبہ کریں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردیا جائے تو انہیں مناسب انداز میں سمجھا دینا چاہئے۔ اگلی آیت میں اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان یتیم بچوں کو آزماتے رہنا چاہئے کہ آیا وہ اتنے سمجھ دار ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے مال کے صحیح استعمال کا سلیقہ آگیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ صرف بالغ ہوجانا بھی کافی نہیں، بلوغ کے بعد بھی اگر وہ سمجھ دار نہ ہو پائے ہوں تو مال ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ بلکہ جب یہ محسوس ہوجائے کہ ان میں سمجھ آگئی ہے تب مال ان کے حوالے کیا جائے۔