Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وراثت کی مزید تفصیلات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا ، وصیت اور قرض کے بعد ۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو ، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے ، پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹیوں کی ہی طرح ہیں بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا ۔ پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو ، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو ، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہو جائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے آیت ( من بعد وصیتہ ) کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے ۔ ( کلالہ ) مشتق ہے اکلیل سے اکلیل کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے ، یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے وارث ارد گرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں ، صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کلالہ کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری الذمہ ہیں ، کلالہ وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے ابو بکر کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے ( ابن جریر وغیرہ ) ابن عباس فرماتے ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد ، حضرت علی ، ابن مسعود ، ابن عباس ، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین ، شعبی ، نخعی ، حسن ، قتادہ ، جابر بن زید ، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں ، بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے ، ابن لباب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد ، جیسے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرأت ہے ، حضرت صدیق وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں ، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں ، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے ، چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت ، حضرت عمر کا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کے لئے دوہرا اور عورت کے لئے اکہرا ، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے تاوقتیکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو ، آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں ، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا تم ان کے ساتھ شریک ہو ، حضرت عثمان سے بھی اسی طرح شریک کر دینا مروی ہے ، اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی مروی ہے ، حضرت سعید بن مسیب ، قاضی شریح ، مسروق ، طاؤس ، محمد بن سیرین ، ابراہیم نخعی ، عمر بن عبدالعزیز ، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے ، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے ہیں ، ہاں حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد ام کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لئے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے ، بلکہ وکیع بن جراح کہتے ہیں حضرت علی سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں ، حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے ، ابن عباس سے بھی مشہور یہی ہے ، شعبی ، ابن ابی لیلی ، ابو حنیفہ ، ابو یوسف ، محمد بن حسن ، حسن بن زیادہ ، زفر بن ہذیل ، امام احمد ، یحییٰ بن آدم ، نعیم بن حماد ، ابو ثور ، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے ہیں ابو الحسن بن لبان فرضی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز پھر فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے ، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو ، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو ، اس کے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا اللہ کے حکم اور اس کی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے ( ابن ابی حاتم ) نسائی میں حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح مروی ہے بعض روایتوں میں حضرت ابن عباس سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ، امام ابن جریر کے قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے ، ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لئے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے ، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، مالک احمد بن حنبل ابو حنیفہ کا قول یہی ہے ، شافعی کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے ، حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں وہ نہ کھولے جائیں ، حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اسکا یہ اقرار جائز نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے ، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو ، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں ، یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لئے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں ( اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب ہے ۔ مترجم ) پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل احکام ہیں اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) اس طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔ 12۔ 2 بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا اگر زیادہ ہونگی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) 12۔ 3 کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہی جو کہ سر کو اس کے اطراف و جوانب سے وارث قرار پایا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلہ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ 12۔ 4 اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث میں اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں آرہا ہے یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مرد و زن ( ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 004:011 کا قانون چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے لئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولاد میں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے بہرحال ایک بھائی یا ایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 12۔ 5 ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہونگے، نیز ان میں مذکر اور مؤنث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مراد مرد ہو یا عورت۔ 12۔ 6 میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گا اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمت نہیں دیتے ہیں نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کردی گئی (روح المعانی) 12۔ 7 بایں طور پر وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کردیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہیں لیا ہو، گویا اقرار کا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] میت اگر عورت ہے تو اس کے خاوند کو آدھا ترکہ ملے گا۔ بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو خاوند کو ٤ ١ ملے گا۔ اور اگر میت مرد ہے تو بیوی کو ٤ ١ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو ٤ ١ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر میت کی اولاد بھی ہو خواہ وہ کسی بھی بیوی سے ہو تو بیوی یا بیویوں کو ٨ ١ ملے گا۔ ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں یہ ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ (یہ زوجین کے حصے ہوئے)- [٢٤] کلالہ کی میراث :۔ کَلالۃ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں نہ دادا دادی، اور نہ اولاد اور نہ پوتے پوتیاں۔ خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت وہ کلالہ ہے البتہ اس کے بہن بھائی ہوسکتے ہیں۔- بہن بھائی بھی تین قسم کے ہوتے ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بھائی جن کے والدین ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے بہن بھائی جن کی مائیں الگ الگ اور باپ ایک ہو (٣) اخیافی یعنی ایسے سوتیلے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اس آیت میں جن بہن بھائیوں کا ذکر ہے وہ بالاتفاق اخیافی یعنی ماں کی طرف سے بھائیوں کا ہے اور اسی سورة کی آیت نمبر ١٧٦ میں دوسرے بہن بھائیوں کا ذکر ہے اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ ٣ ١ ہے۔ اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ہر ایک کا ٦ ١ اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو بھی انہیں ٣ ١ سے زیادہ نہیں ملے گا۔ اور یہ ٣ ١ حصہ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ مرد کو عورت سے دگنا نہیں ملے گا۔ اور اگر صرف ایک ہی بھائی یا ایک ہی بہن ہو تو اسے ٦ ١ ملے گا۔ باقی پہلی صورت میں ٣ ٢ اور دوسری صورت میں ٦ ٥ بچ جائے گا۔ کلالہ باقی پورے حصہ کے متعلق وصیت کرسکتا ہے یا پھر یہ حصہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا بشرطیکہ کوئی عصبہ نہ مل رہا ہو۔ - [٢٥] وصیت کے ذریعہ نقصان پہنچانے کی صورتیں :۔ وصیت میں میت یوں نقصان پہنچا سکتا ہے کہ اندازہ سے زیادہ وصیت کر جائے۔ اور یہ تہائی سے بھی زیادہ ہو یا عمداً ایسا کرے تو اس سے وارثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایسی وصیت کی اصلاح کر دینی چاہیے تاکہ ورثاء کو نقصان نہ ہو۔ اسی طرح میت مرتے وقت کسی فرضی قسم کے قرضہ کا اقرار کر جائے تو وہ قرض لینے والے کو ممنون اور ورثاء کو نقصان پہنچا سکتا ہے حتیٰ کہ محروم بھی بنا سکتا ہے اسی لیے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور حلیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے ان قوانین کے مقرر کرنے میں سختی نہیں کی۔ بلکہ ان کی زیادہ سے زیادہ سہولت کا خیال رکھا ہے۔- کتاب و سنت میں جن ورثاء کے حصے مقرر کردیئے گئے ہیں انہیں ذوی الفروض کہتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ درج ذیل ورثاء کے حصے سنت کی رو سے مقرر ہیں۔ چناچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- (١) دادا کا حصہ - ١۔ سیدنا عمران (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگا۔ میرا پوتا مرگیا ہے، مجھے اس کے ترکہ سے کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا چھٹا حصہ وہ چلا گیا تو آپ نے اسے بلا کر کہا کہ تیرے لیے ایک چھٹا حصہ اور ہے۔ پھر اس کی وضاحت کی کہ یہ دوسرا چھٹا حصہ تمہارے لیے بطور خوراک (ابو داؤد) اور ترمذی میں لک عصبہ یعنی بطور عصبہ ہے۔ (ترمذی، ابو اب الفرائض، باب فی میراث الجد، ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب ماجاء فی میراث الجد)- (٢) دادی اور نانی کا حصہ - ٢۔ سیدنا بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ماں نہ ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جدہ (دادی یا نانی) کا چھٹا حصہ مقرر فرمایا۔ (ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب فی الجدۃ)- (٣) اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی ہو - ٣۔ سیدنا ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں بیٹی، پوتی اور بہن کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ بیٹی کو نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو تہائی پورا ہوجائے (مونث اولاد کا زیادہ سے زیادہ حصہ) باقی بہن کو ملے گا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ)- (٤) اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہو - ٤۔ اسود بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) یمن میں ہمارے پاس معلم اور امیر بن کر آئے۔ ہم نے ان سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے مرتے وقت ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی انہوں نے بیٹی کو نصف دیا اور بہن کو بھی نصف دیا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات) اور ابو داؤد میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔ اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقید حیات تھے۔ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب من کان لیس لہ ولد ولہ اخوات )- (٥) بھتیجے کا حصہ پھوپھی سے - ٥۔ سیدنا عمر (رض) (تعجب سے) فرمایا کرتے تھے کہ بھتیجا تو پھوپھی کا وارث ہے مگر پھوپھی بھتیجے کی وارث نہیں (موطا۔ کتاب الفرائض، باب فی میراث العمۃ)- مزید احکام وراثت - ١۔ ذوی الفروض یعنی جن کے حصے کتاب و سنت نے مقرر کردیئے ہیں ان کی تفصیل اوپر گزر چکی۔- وارثوں کی دو اقسام :۔ ٢۔ عصبات۔ عصبہ میت کے قریب ترین رشتہ دار مرد کو کہتے ہیں اور ذوی الفروض کی ادائیگی کے بعد جو بچے وہ اسے ملتا ہے۔ جیسے سعد بن ربیع کے بھائی کو آپ نے دو بیٹوں کا ٣ ٢ اور بیوی کا ٨ ١، باقی ٢٤ ٥ حصہ دلایا تھا۔ عصبہ کے متعلق آپ نے فرمایا :- ٣۔ اللہ کے مقرر کردہ حصے حصہ داروں کو ادا کرو۔ پھر جو باقی بچے وہ قریب ترین رشتہ دار مرد کا ہے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولدمن ابیہ وامہ۔ مسلم۔ کتاب الفرائض۔ باب الحقوا الفرائض باھلھا)- بسا اوقات ذوی الفروض عصبہ کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتے ہیں مثلاً میت کی اولاد صرف دو بیٹیاں ہیں۔ نہ والدین ہیں نہ بیوی۔ تو بیٹیوں کو ٣ ٢ ملے گا اور باقی کے لیے عصبہ تلاش کرنا پڑے گا لیکن اگر ان بیٹیوں کے ساتھ ایک بیٹا بھی ہو تو بیٹا چونکہ عصبہ ہے لہذا وہ بہنوں کو بھی عصبہ بنا دے گا اور تقسیم اس طرح ہوگی، بیٹے کا ٢ ١ اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کا ٤ ١۔- عصبہ کی تلاش۔ سب سے پہلے عصبہ اولاد سے دیکھا جائے گا۔ پھر اوپر کی طرف سے۔ پھر چچاؤں میں سے پھر ان کے بیٹوں سے۔- مولیٰ کا عصبہ - ٤۔ آپ نے فرمایا۔ ( آزاد کردہ غلام کے) ورثہ کا (عصبہ کی حیثیت سے) حقدار وہ ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ باب میراث السائبہ۔ مسلم، کتاب الفرائض۔ باب انما الولاء لمن اعتق)- ٥۔ ذوی الارحام : اگر ذوی الفروض اور عصبہ بھی موجود نہ ہو اور صرف بھانجے بھانجیاں، دوہتے دوہتیاں، ماموں وغیرہ ہوں۔- ٦۔ آپ نے فرمایا جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔ وہی اس کی طرف سے دیت دے گا اور وہی وارث ہوگا۔ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب میراث ذوی الارحام)- اب ہم قانون میراث کی چند مزید وضاحتیں پیش کرتے ہیں :- عرب میں رائج وراثت کے تین طریقے :۔ اسلام کا قانون میراث نازل ہونے سے پیشتر عرب میں وراثت کے تین طریقے رائج تھے (١) ایک دوسرے سے عہد۔ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کو کہہ دیتا کہ میری جان تیری جان، میرا خون تیرا خون، میں تیرا وارث تو میرا وارث۔ جب کوئی شخص کسی سے ایسا عہد کرلیتا تو اس کے مقابلہ میں بھائی یا بیٹے کسی کو بھی ورثہ نہیں ملتا تھا۔ (٢) اوراقرباء کو وراثت سے محروم کرنے کا دوسرا طریقہ متبنّیٰ بنانے کا تھا۔ اگر کسی کی نرینہ اولاد نہ ہوتی تو وہ کوئی متبنیٰ بنا لیتا تھا جو اس کی پوری میراث کا حقدار سمجھا جاتا تھا (٣) اور اگر اولاد میں میراث تقسیم ہوتی تو اس کی صورت یہ تھی کہ حصہ صرف ان بیٹوں کو ملتا تھا جو میت کی طرف سے نیزہ لے کر لڑ سکتے تھے۔ اسلام کے قانون میراث نے پہلے دو طریق کو تو کلیتہ منسوخ کردیا اور تیسرے میں یہ اصلاح کی کہ ورثہ لڑکیوں کو بھی ملے، چھوٹے بچوں کو بھی ملے اور والدین کو بھی۔- جب مہاجرین نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مہاجرین کی معاش اور آباد کاری کا مسئلہ پیش آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین اور انصار میں مواخات کا سلسلہ قائم کیا۔ اس وقت تک احکام میراث نازل نہیں ہوئے تھے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان بھائی بھائی مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔ پھر جب مہاجرین کی معاشی حالت قدرے سنبھل گئی تو یہ قانون منسوخ کردیا گیا اور وراثت کے تفصیلی احکام اس سورة میں نازل ہوئے۔- اسلامی قانون وراثت کا مدار تین چیزوں پر ہے : نسب، نکاح اور ولائ - (١) نسب میں تین پہلوؤں کو اس ترتیب سے ملحوظ رکھا کہ سب سے پہلے اولاد کا جیسا کہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ 11 ؀) 4 ۔ النسآء :11) دوسرے نمبر پر والدین کے حصوں کا ذکر ہوا اور تیسرے نمبر پر بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔- (٢) نکاح سے مراد مختلف صورتوں میں میاں اور بیوی کے حصوں کا ذکر ہے۔- (٣) اور ولاء سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا آزاد کردہ غلام جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو اس کا وارث وہ مالک ہوتا ہے جس نے اسے آزاد کیا تھا اور یہ صورت آج کل مفقود ہے۔- نکاح کی بنا پر بھی حصوں کا ذکر نسبتاً آسان ہے کہ میت اگر عورت ہو اور بےاولاد ہو تو مرد کو اس کی میراث کا آدھا ملے گا اور اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ اسی طرح اگر میت مرد بےاولاد ہو تو بیوی کو یا اس کی سب بیویوں کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اولاد والا ہے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو آٹھواں حصہ بحصہ برابر ملے گا۔- اب نسب کے رشتہ داروں کے حصے ذرا قابل فہم ہیں۔ کیونکہ ان کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند مشہور و معروف عام صورتیں درج ذیل ہیں :- ١۔ جو مرد یا عورت بوڑھا ہو کر اپنی طبعی موت مرتا ہے تو اس وقت عموماً اس کے والدین دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں اور اگر بہن بھائی ہوں تو الگ گھروں والے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اولاد ہی وارث ہوتی ہے۔ اب اگر اولاد ایک بیٹا ہی ہے تو زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب میراث کا وارث ہوگا اور زیادہ بیٹے ہوں تو سب اس باقی حصہ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے اور بہن بھائی اگر ملے جلے ہیں تو لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ کی نسبت سے ورثہ ملے گا۔ اور اگر لڑکا ایک بھی نہیں ایک لڑکی ہے تو اسے کل کا نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو انہیں کل کا ٣ ٢ ملے گا۔- ٢۔ اس کے بعد عام صورت یہ ہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو۔ اگر دونوں زندہ ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو کل کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر باپ زندہ نہیں اور دادا زندہ ہے تو باپ کا حصہ دادا کو مل جائے گا۔ اور ماں زندہ نہیں لیکن نانی زندہ ہے تو ماں کا حصہ نانی کو مل جائے گا اور بقول بعض اگر نانی زندہ نہیں اور دادی زندہ ہے تو ماں کا حصہ دادی کو مل جائے گا۔ اور اگر دونوں زندہ ہیں تو یہی چھٹا حصہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ والدین کا اور زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکال لینے کے بعد باقی میراث اولاد میں تقسیم ہوگی بحساب مذکر ٢ حصے اور مونث ایک حصہ۔- اس صورت میں کبھی ایک الجھن بھی پیش آسکتی ہے مثلاً میت عورت ہے جس کے والدین بھی زندہ ہیں شوہر بھی اور دو لڑکیاں بھی۔ لڑکیوں کا ٣ ٢ حصہ اور والدین میں سے ہر ایک کا ٦ ١ یعنی دونوں کا ٣ ١ حصہ، اور خاوند کا ٤ ١۔ بالفاظ دیگر جائیداد کے کل بارہ حصے کرنے چاہئیں۔ جن میں سے ٨ تو لڑکیاں لے گئیں ٣ خاوند لے گیا اور ٢ حصے والدہ کے اور ٢ حصے والد کے۔ یہ کل ١٥ حصے بنتے ہیں (یعنی حاصل جمع ایک سے بڑھ جاتی ہے) ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں عول کہتے ہیں۔ اس صورت میں کل جائیداد کے ١٢ کے بجائے پندرہ حصے کر کے انہیں مذکورہ بالا حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔- اسی طرح اگر عصبہ نہ مل رہا ہو تو اس کے برعکس صورت بھی پیش آسکتی ہے۔ مثلاً میت مرد ہے جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ ماں زندہ ہے لیکن باپ فوت ہوچکا ہے۔ دادا بھی نہیں اور اولاد صرف ایک لڑکی ہے۔ گویا اس کے وارث صرف ماں اور بیٹی میں اور عصبہ کوئی بھی نہیں مل رہا۔ حصوں کے لحاظ سے جائیداد ٦ حصوں میں تقسیم ہوگی جن میں سے ٣ حصے تو بیٹی لے گی اور ایک حصہ ماں۔ باقی ٢ حصے بچ جائیں گے ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ اس صورت میں یہ حصے بھی اسی نسبت سے ان دونوں کو مل جائیں گے۔ بالفاظ دیگر یہ میراث ہی ٦ کی بجائے ٤ حصوں میں تقسیم کر کے ٣ حصے بیٹی کو اور ایک ماں کو دے دیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ ذوی الفروض کی موجودگی میں بقیہ ترکہ ذوی الارحام کو نہیں ملتا۔ بلکہ پھر انہیں پر تقسیم ہوجاتا ہے۔ )- (٣) تیسری عام صورت یہ ہے کہ ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ابھی اولاد بھی نہ ہوئی تھی کہ زوجین میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا اور اس کے والدین زندہ ہیں لیکن اور کوئی بہن بھائی نہیں تو اس صورت میں ماں کو ایک تہائی، میت اگر مرد ہے تو عورت کو ایک چوتھائی اور باقی ١٢ ٥ باپ کو ملے گا۔ اور اگر میت عورت ہے تو ماں کے ٤ حصے، خاوند کے ٦ حصے اور باپ کو صرف ٢ حصے یا ماں کا نصف ملے گا۔ اور اگر بہن بھائی بھی ہیں تو ماں کو ٦ ١ حصہ ملے گا۔ یعنی ماں کے دو حصے، بیوی کے تین حصے باقی سات حصے باپ کو ملیں گے۔ اور اگر میت بیوی تھی تو ماں کے ٢ خاوند کو اور باپ کو ٤ حصے مل جائیں گے۔- یہ چند عام صورتیں بیان کردی گئیں ورنہ میراث کی اتنی صورتیں بن جاتی ہیں جن کا حصران حواشی میں ممکن نہیں۔ میں نے ان کی تفصیل اپنی کتاب تجارت اور لین دین کے احکام کے پندرہویں باب احکام وراثت میں درج کردی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں مال چھوڑ کر مریں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو تمہیں آدھا مال ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہے، ایک یا زائد بیٹے بیٹیاں یا پوتے یا پڑپوتے، خواہ تم سے یا کسی اور خاوند سے تو تمہیں چوتھا حصہ ملے گا اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا اور تمہارے فوت ہونے کی صورت میں اگر تمہاری اولاد یا اولاد کی اولاد ہے، پھر وہ خواہ ان بیویوں سے ہے یا کسی اور سے، بہرحال بیویوں کو آٹھواں حصہ ملے گا، قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد، پھر بیوی ایک ہو یا زیادہ سب چوتھائی یا آٹھویں حصے میں شریک ہوں گی، اس پر اجماع ہے۔ - يُّوْرَثُ كَلٰلَةً : اگر کوئی مرد یا عورت مرجائے، اس کا نہ والد ہو نہ اولاد تو اسے ” کلالہ “ کہتے ہیں۔ بعض ایسی میت کے وارثوں ” کلالہ “ کہتے ہیں۔ بہرحال دونوں پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ - وَّلَهٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ: بھائی بہن تین طرح کے ہوتے ہیں : 1 عینی یعنی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ 2 علاتی، یعنی جن کا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں۔ 3 اخیافی، جن کی ماں ایک ہو اور باپ مختلف ہوں۔ یہاں بالاتفاق اخیافی بھائی بہن مراد ہیں، جیسا کہ ایک قراءت میں بھی ہے۔ - 4 اخیافی بھائی چار احکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں : 1 یہ صرف ماں کی جہت سے ورثہ لیتے ہیں۔ 2 ان میں سے مرد اور عورت کو مساوی حصہ دیا جاتا ہے۔ 3 ان کو صرف میت کے کلالہ ہونے کی صورت میں حصہ ملتا ہے۔ 4 خواہ کتنے ہی ہوں ان کا حصہ ثلث سے زیادہ نہیں ہوتا، مثلاً ایک میت کا شوہر، ماں، دو اخیافی اور دو عینی بھائی موجود ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک شوہر کو نصف (٢؍١) ملے گا، ماں کو سدس (٦؍١) ملے گا اور بقیہ تہائی حصے میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ عینی بھائی بھی شریک ہوں گے۔ عمر (رض) نے ایک مقدمہ میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ صحابہ میں سے عثمان، ابن مسعود، ابن عباس اور زید بن ثابت (رض) اور ائمہ میں سے امام مالک اور امام شافعی ; کا یہی مسلک ہے، البتہ علی (رض) اخیافی بھائیوں کو دیگر سگے بھائیوں کے عصبہ ہونے کی وجہ سے محروم قرار دیتے ہیں۔ امام شوکانی (رض) نے اس دوسرے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر۔ فتح القدیر)- فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ : ایک سے زیادہ ہوں تو مرد ہو یا عورتیں، یا مرد اور عورتیں ملے ہوئے ہوں، سب میں تیسرا حصہ برابر تقسیم کردیا جائے گا، یعنی یہاں مرد کو عورت پر فضیلت نہیں ہوگی، جیسا کہ آیت میں : ” شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ “ سے معلوم ہوتا ہے۔ عمر (رض) نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ محض اجتہاد سے نہیں کیا جاسکتا۔ (ابن کثیر)- ۙغَيْرَ مُضَاۗرٍّ ۚ : یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور اس کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے۔ وصیت میں نقصان پہنچانا ایک تو یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے، اس صورت میں تہائی سے زائد وصیت کا نفاذ نہیں ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وارث کو مزید رعایت سے زائد مال دلوایا جائے، اس کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، الا یہ کہ تمام وارث برضا و رغبت اسے قبول کرلیں۔ قرض میں نقصان پہنچانا یہ ہے کہ محض وارثوں کا حق تلف کرنے کے لیے مرنے والا اپنے ذمے کسی ایسے قرض کا اقرار کرے جو حقیقت میں اس کے ذمے نہ ہو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” وصیت میں نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔ “ [ السنن الکبریٰ للنسائی ١٠؍٦٠، ح : ١١٠٢٦ و سندہ صحیح ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط آیات :- یہاں تک ان مستحقین میراث کے حصص کا بیان تھا جن کا میت کے ساتھ نسب اور ولادت کا رشتہ تھا، مذکورہ آیت میں بعض دوسرے مستحقین کا ذکر ہے اور میت سے ان کا رشتہ نسب کا نہیں، بلکہ ازدواج کا ہے، جس کا بیان یہ ہے :- اور تم کو آدھا ملے گا اس ترکہ کا جو تمہاری بیبیاں چھوڑ جاویں، اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو، (نہ مذکر نہ مونث نہ واحد نہ کثیر) اور اگر ان بیبیوں کے کچھ اولاد ہو (خواہ تم سے ہو یا پہلے شوہر سے) تو (اس صورت میں) تم کو ان کے ترکہ سے ایک چوتھائی ملے گا (یہ کل دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں بقیہ دوسرے ورثاء کو ملے گا، لیکن ہر صورت میں یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا دین (اگر ہو تو اس کے نکالنے) کے بعد (ملے گا) اور بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤ ( خواہ وہ ایک ہو یا کئی ہوں تو وہ چوتھائی سب میں برابر بٹ جاوے گا) اگر تمہارے کچھ اولاد نہ ہو ( نہ مذکر نہ مونث نہ واحد نہ کثیر) اور اگر تمہاری کچھ اولاد ہو (خواہ ان بیبیوں سے یا اور عورت سے) تو (اس صورت میں) ان کو (خواہ وہ ایک ہو یا کئی) تمہارے ترکہ سے آٹھواں حصہ ملے گا (یہ بھی دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں بقیہ دوسرے ورثاء کو ملے گا، لیکن یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کر جاؤ یا دین (اگر ہو تو اسکے بھی نکالنے) کے بعد (ملے گی)- معارف ومسائل - شوہر اور بیوی کا حصہ :۔ - مندرجہ بالا سطور میں شوہر اور بیوی کے حصوں کی تعیین کی گئی ہے اور پہلے شوہر کا حصہ بتایا، شاید اس کو مقدم کرنے کی وجہ یہ ہو کہ اس کی اہمیت ظاہر کرنا مقصود ہے، کیونکہ عورت کی وفات کے بعد شوہر دسرے گھر کا آدمی ہوجاتا ہے، اگر اپنے میکہ میں عورت کا انتقال ہوا ہو اور اس کا مال وہیں ہو تو شہر کا حصہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے، گویا اس زیادتی کا سدباب کرنے کے لئے شوہر کا حصہ پہلے بیان فرمایا اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ فوت ہونے والی عورت نے اگر کوئی بھی اولاد نہ چھوڑی ہو تو شوہر کے بعد اداء دین و انفاذ وصیت کے مرحومہ کے کل کا نصف ملے گا اور باقی نصف میں دوسرے ورثاء مثلاً مرحومہ کے والدین، بھائی بہن، حسب قاعدہ حصہ پائیں گے۔- اور اگر مرنے والی نے اولاد چھوڑی ہو، ایک ہو یا دو ہوں یا اس سے زائد ہوں، لڑکا ہو یا لڑکی ہو، اس شوہر سے ہو جس کو چھوڑ کر وفات پائی ہے، یا اس سے پہلے کسی اور شوہر سے ہو، تو اس صورت میں موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے اداء دین و انفاذ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی ملے گا اور بقیہ تین چوتھائی حصے دوسرے ورثاء کو ملیں گے ........ یہ شوہر کے حصہ کی تفصیل تھی۔- اور اگر میاں بیوی میں سے مرنے والا شوہر ہے اور اس نے کوئی اولاد نہیں چھڑی تو اداء دین و انفاذوصیت کے بعد بیوی کو مرنے والے کے کل مال کا چوتھائی ملے گا اور اگر اس نے کوئی اولاد چھوڑی ہے، خواہ اس بیوی سے ہو یا کسی دوسری بیوی سے تو اس صورت میں بعد ادا دین و وصیت کے آٹھواں حصہ ملے گا، اگر بیوی ایک سے زائد ہے تو بھی مذکورہ تفصیل کے مطابق ایک بیوی کے حصہ میں جتنی میراث آئے گی، وہ ان سب بیویوں میں تقسیم کی جائے گی، یعنی ہر عورت کو چوتھائی اور آٹھواں حصہ نہیں ملے گا، بلکہ سب بیویاں چوتھائی اور آٹھویں حصہ میں شریک ہوں گی اور ان دونوں حالتوں میں شوہر، بیوی کو ملنے کے بعد جو کچھ ترکہ بچے گا وہ ان کے دوسرے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔- مسئلہ :۔ - یہ دیکھنا چاہئے کہ بی بی کا مہر ادا ہوگیا ہے یا نہیں، اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو دوسرے قرضوں کی طرح اولاً کل مال سے دین مہر ادا ہوگا اس کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا اور مہر لینے کے بعد عورت اپنی میراث کا حصہ بھی میراث میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے وصول کرلے گی اور اگر میت کا مال اتنا ہے کہ مہر ادا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا تو بھی دوسرے دیون کی طرح پورا مال دین مہر میں عورت کو دے دیا جائے گا اور کسی وارث کو کچھ حصہ نہ ملے گا۔- خلاصہ تفسیر - ربط آیت :- نسب اور ازدواج سے جو رشتے پیدا ہوتے ہیں ان کے مختصر حقوق بیان کرنے کے بعد اب ایسے میت کے ترکہ کا حکم بیان کیا جا رہا ہے جس نے اولاد یا والدین نہ چھوڑے ہوں - اور اگر کوئی میت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت، ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں (یعنی باپ دادا) اور نہ فروع ہوں (یعنی اولاد اور بیٹے کی اولاد) اور اس (میت) کے ایک بھائی یا ایک بہن (اخیافی) ہو، تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر یہ لوگ اس سے (یعنی ایک سے) زیادہ ہوں (مثلاً دو ہوں یا اور زیادہ) تو وہ سب تہائی میں (برابر کے) شریک ہوں گے (اور ان میں مذکر و مونث کا برابر حصہ ہے اور بقیہ میراث دوسرے ورثاء کو اور اگر کوئی اور نہ ہو تو پھر انہی کو دی جائے گی یہ دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد جس کی وصیت کردی جاوے یا (اگر) دین (ہو تو اس کے بھی نکالنے) کے بعد (ملے گی) بشرطیکہ (وصیت کرنے والا) کسی (وارث) کو ضرر نہ پہنچاوے (نہ ظاہرانہ اردة ظاہراً یہ کہ مثلاً ثلث سے زیادہ وصیت کرے، تو وہ وصیت میراث پر مقدم نہ ہوگی اور ارادۃ یہ کہ رہے ثلث کے اندر، لیکن نیت یہ ہو کہ وارث کو کم ملے، یہ ظاہراً نافذ ہوجاوے گی، لیکن گناہ ہوگا) یہ (جس قدر یہاں تک مذکور ہوا) حکم کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں (کہ کون مانتا ہے کون نہیں مانتا اور نہ ماننے والوں کو جو فوراً سزا نہیں دیتے، تو وجہ یہ کہ) حلیم (بھی ہیں۔ )- معارف ومسائل - کلالہ کی میراث :۔- ان سطور میں کلالہ کی میراث بیان کی گئی ہے، کلالہ کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں، جو علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کی ہیں، مشہور تعریف یہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں مذکور ہے کہ جس مرنے والے کے اصول اور فروع نہ ہوں وہ کلالہ ہے۔- صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ کلالہ اصل میں مصدر ہے جو کلال کے معنی میں ہے اور کلال کے معنی ہیں تھک جانا جو ضعف پر دلالت کرتا ہے، باپ بیٹے والی قرابت کے وسا قرابت کو کلالہ کہا گیا، اس لئے کہ وہ قرابت باپ بیٹے کی قرابت کی نسبت سے کمزور ہے۔- پھر کلالہ کا اطلاق اس مرنے والے پر بھی کیا گیا جس نے نہ اولاد چھوڑی اور نہ والد اور اس وارث پر بھی اطلاق کیا گیا جو مرنے والے کا ولد اور والد نہ ہو، لغت کے اعتبار سے جو اشتقاق بتلایا اس کا تقاضا ہے کہ لفظ ” ذو “ مقدر ہو اور کلالہ بمعنی ” ذوکلالہ “ ہوگا، یعنی ضعیف رشتہ والا، پھر اس مال موروث پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا، جو ایسے میت نے چھوڑا ہوا جس کا کوئی ولد اور والد نہ ہو۔ - حاصل کلام یہ کہ اگر کوئی شخص مرد یا عورت وفات پا جائے اور اس کے نہ باپ ہو نہ دادا اور نہ اولاد ہو اور اس نے ایک بھائی یا بہن ماں شریک چھوڑے ہوں، تو ان میں سے اگر بھائی ہے تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور نہیں ہے تو بہن کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زیادہ ہوں مثلاً ایک بھائی ایک بہن ہو یا دو بھائی یا دو بہنیں ہوں تو یہ سب مرنے والے کے کل ماں کے تہائی حصے میں شریک ہوں گے اور اس میں مذکر کو مونث سے دوہرا نہیں ملے گا، علامہ قرطبی فرماتے ہیں ولیس فی الفرائض موضع یکون فیہ الذکرو الانثی سوآء الا فی میراث الاخوة للام - بہن بھائی کا حصہ :۔- واضح رہے کہ اس آیت میں اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی کا حصہ بتلایا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے لیکن یہ قید بالاجماع معتبر ہے، حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی قرات بھی اس آیت میں اس طرح ہے : ولہ اخ اواخت من امہ جیسا کہ علامہ قرطبی، صاحب المعانی اور ابوبکر حصاص اور دیگر حضرات نے نقل کیا ہے، گو یہ قرات متواتر نہیں ہے، لیکن اجماع امت ہونے کی وجہ سے معمول بہا ہے اور اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورة نساء کے ختم پر بھی کلالہ کی میراث کا ذکر کیا ہے، وہاں بتایا ہے کہ اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا ملے گا اور اگر ایک بھائی ہو تو اپنی بہن کے پورے مال کا وارث بنے گا اور اگر دو بہنیں ہوں تو دو تہائی مال پائیں گی اور اگر متعدد بھائی بہن ہوں تو مذکر کو مونث سے دوہرا دیا جائے گا سورت کے ختم پر جو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے، عینی حقیقی بہن بھائی اور علاتی یعنی باپ شریک بہن بھائی کا ذکر ہے، اگر یہاں علاتی اور عینی بھائی بہن کو شامل کرلیا جائے تو احکام میں تعارض لازم آجائے گا۔- وصیت کے مسائل :۔- اس رکوع میں تین مرتبہ میراث کے حصے بیان کر کے یہ فرمایا کہ حصوں کی یہ تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، کہ میت کی تجہیز و تکفین کے بعد کل مال سے قرضے ادا کرنے کے بعد جو بچے اس میں سے تہائی مال وصیت نافذ ہوگی اگر اس سے زیادہ وصیت ہو تو اس کا شرعاً اعتبار نہیں، ضابطہ میں ادائے دین انفاذ وصیت سے مقدم ہے، اگر تمام مال ادائے دیون میں لگ جائے تو نہ وصیت نافذ ہوگی نہ میراث چلے گی، اس رکوع میں تینوں جگہ جہاں جہاں وصیت کا ذکر آیا ہے وہاں وصیت کا ذکر دین سے پہلے کیا گیا ہے، اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کا حق دین سے مقدم ہے، حضرت علی (رض) نے اس غلط فہمی کو رفع کرتے ہوئے فرمایا۔- ” یعنی آپ حضرات یہ آیت تلاوت کرتے ہیں۔” من بعد وصیتہ توصون بہاء او دین “ اس میں گو لفظ وصیت مقدم ہے، لیکن عملی طور پر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دین کے بعد رکھا ہے۔ “- تاہم یہ نکتہ معلوم ہونا ضروی ہے کہ اگر عملاً وصیت موخر ہے، تو لفظاً اس کو دین سے پہلے کیوں بیان کیا گیا، صاحب روح المعانی اس بارے میں لکھتے ہیں :- وتقدیم الوصیة علی الذین ذکرا مع ان الدین مقدم علیھا حکما لاظھار کمال العنایة بتنفیذ ھالکونھا مظنة للتفریط فی ادائھا الخ۔ ” یعنی آیت میں دین پر وصیت کی تقدیم کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ میراث کی طرح بغیر کسی عوض کے ملتی ہے اور اس میں رشتہ دار ہونا بھی ضروری نہیں، اس لئے وارثین کی جانب سے اس کو نافذ کرنے میں کوتاہی ہونے یا دیر ہوجانے کا قوی اندیشہ تھا اپنے مورث کا مال کسی کے پاس جاتا ہوا دیکھنا اس کو ناگوار ہوسکتا تھا، اس لئے شان وصیت کا اہتمام فرماتے ہوئے دین پر اس کو مقدم کیا گیا پھر یہ بھی بات ہے کہ قرض کا ہر میت پر ہونا ضروری نہیں اور اگر زندگی میں رہا ہو تو موت تک اس کا باقی رہنا بھی ضروری نہیں اور اگر موت کے وقت موجود بھی ہو تب بھی چونکہ اس کا مطالبہ حق دار کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے ورثا بھی انکار نہیں کرسکتے اس وجہ سے اس میں کوتاہی کا احتمال بہت کم ہے، بخلاف وصیت کے کہ جب میت مال چھوڑتا ہے تو اس کا یہ بھی دل چاہتا ہے کہ صدقہ جاریہ کے طور پر اپنے مال کا حصہ کسی کارخیر میں صرف کر جائے، یہاں چونکہ اس مال میں کسی کی طرف سے مطالبہ نہیں ہوتا، اس لئے وارثوں کی طرف سے کوتاہی کا امکان تھا، جس کا سدباب کرنے کے لئے بطور خاص ہر جگہ وصیت کو مقدم کیا گیا ہے۔- مسئلہ :۔ اگر دین اور وصیت نہ ہو تو تجہیز و تکفین کے بعد بچا ہوا کل مال وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا۔- مسئلہ :۔ وارث کے حق میں وصیت کرنا باطل ہے، اگر کسی نے اپنے لڑکے، لڑکی، شوہر یا بیوی کے لئے یا کسی ایسے شخص کے لئے وصیت کی جس کو میراث میں حصہ ملنے والا ہے تو اس وصیت کا کچھ اعتبار نہیں، وارثوں کو صرف میراث کا حصہ ملے گا، اس سے زیادہ کے وہ مستحق نہیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا :- ” اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے پس کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت معتبر نہیں۔ “- ہاں اگر دیگر وارث اجازت دیدیں تو جس وارث کے لئے وصیت کی ہے، اس کے حق میں وصیت نافذ کر کے باقی مال شرعی طریقہ پر تقسیم کیا جائے جس میں اس وارث کو بھی اپنے حصہ کی میراث ملے گی، بعض روایات حدیث میں الا ان یشآء الورثة کا استثناء بھی مذکور ہے۔ (کما ذکر صاحب الہدایتہ)- غیر مضار کی تفسیر :۔- کلالہ کی میراث کے خاتمہ پر یہ بتانے کے بعد کہ یہ میراث وصیت اور دین کے بعد نافذ ہوگی، لفظ غیر مضار فرمایا یہ قید اگرچہ صرف اسی جگہ مذکور ہے، لیکن اس سے پہلے جو دو جگہ وصیت اور دین کا ذکر ہے وہاں پر بھی معتبر اور معمول یہ ہے مطلب اس کا یہ ہے کہ مرنے والے کے لئے وصیت یا دین کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے وصیت کرنے یا اپنے اوپر قرض کا فرضی اقرار کرنے میں وارثوں کو محروم کرنے کا ارادہ ہونا اور اس ارادہ پر عمل کرنا سخت ممنوع ہے، اور گناہ کبیرہ ہے۔- دین یا وصیت کے ذریعہ ضرر پہنچانے کی کئی صورتیں ممکن ہیں، مثلاً یہ کہ قرض کا جھوٹا اقرار کرلے، کسی دوست وغیرہ کو دلانے کے لئے یا اپنے مخصوص مال کو جو اس کا اپنا ذاتی ہے یہ ظاہر کر دے کہ فلاں شخص کی امانت ہے، تاکہ اس میں میراث نہ چلے، یا ایک تہائی سے زائد ملا کی وصیت کرے، یا کسی شخص پر اپنا قرض ہو اور وہ وصول نہ ہوا ہو، لیکن جھوٹ یہ کہہ دے کہ اس سے قرض وصول ہوگیا، تاکہ وارثوں کو نہ مل سکے، یا مرض الوفات میں ایک تہائی سے زیادہ کسی کو ہبہ کر دے۔- یہ صورتیں ضرر پہنچانے کی ہیں، ہر مورث جو دنیا سے جا رہا ہے اسے زندگی کے آخری لمحات میں اس طرح کے اضرار سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔- مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کی تاکید :۔ - میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا وصیة من اللہ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کئے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم وصیت اور مہتمم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا واللہ علیم حلیم یعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعہ سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لئے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ لگنا چاہئے کہ میں بچ گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ يُّوْصِيْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۝ ٠ ۭ وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۝ ٠ ۭ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّلَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ يُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۝ ٠ ۙ غَيْرَ مُضَاۗرٍّ۝ ٠ ۚ وَصِيَّۃً مِّنَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۝ ١٢ ۭ- نصف - نِصْفُ الشیءِ : شطْرُه . قال تعالی: وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] ، وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] ، فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] ، وإِنَاءٌ نَصْفَانُ : بلغ ما فيه نِصْفَهُ ، ونَصَفَ النهارُ وانْتَصَفَ : بلغ نصْفَهُ ، ونَصَفَ الإزارُ ساقَهُ ، والنَّصِيفُ : مِكْيالٌ ، كأنه نِصْفُ المکيالِ الأكبرِ ، ومِقْنَعَةُ النِّساء كأنها نِصْفٌ من المِقْنَعَةِ الكبيرةِ ، قال الشاعر : سَقَطَ النَّصِيفُ وَلَمْ تُرِدْ إِسْقَاطَهُ ... فَتَنَاوَلَتْهُ وَاتَّقَتْنَا بِالْيَدِوبلغْنا مَنْصَفَ الطریقِ. والنَّصَفُ : المرأةُ التي بيْنَ الصغیرةِ والکبيرةِ ، والمُنَصَّفُ من الشراب : ما طُبِخَ فذهب منه نِصْفُهُ ، والإِنْصَافُ في المُعامَلة : العدالةُ ، وذلک أن لا يأخُذَ من صاحبه من المنافع إِلَّا مثْلَ ما يعطيه، ولا يُنِيلُهُ من المضارِّ إلَّا مثْلَ ما يَنالُهُ منه، واستُعْمِل النَّصَفَةُ في الخدمة، فقیل للخادم : نَاصِفٌ ، وجمعه : نُصُفٌ ، وهو أن يعطي صاحبَه ما عليه بإِزاء ما يأخذ من النَّفع . والانْتِصَافُ والاسْتِنْصَافُ : طَلَبُ النَّصَفَةِ.- ( ن ص ف ) نصف الشئیء کے منعی حصہ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا ہے وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] تو اس کو بھائی کے تر کہ میں سے آدھا حصہ ملے گا ۔ اناء نصفان آدھا بھرا ہو بر تن نصف النھار وانتصف دن کا نصف ہوجانا دو پہر کا وقت نصف الا زار ساقۃ ازار کا نصف پنڈلی تک ہونا ۔ نصیف غلہ ناپنے کے ایک پیمانے کا نما ہے گویا وہ مکیال اکبر ( بڑا پیمانہ ) کا نصف ہے اور اس کے معنی عورتوں کی اوڑ ھنی یا دو پٹہ بھی آتے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 469 ) سقط النصیب ولم تردا سقاطہ فتنا ولتہ واتقتنا بالید اوڑھنی سر سے گر می اور اس نے عمدا نہیں گرائی تھی پھر اس نے بد حواسی میں ) اسے سنبھالا اور ہاتھ کے ذریعے ہم سے پر دہ کیا ۔ بلغنا منصب الطریق ہم نے آدھا سفر طے کرلیا لنصف متوسط عمر کی عورت ادھیڑ عمر المنصف شراب جو آگ پر پکانے کے بعد آدھا رہ گیا ہو ۔ الانصاب کے معنی کسی معاملہ عدل سے کام لینے کے ہیں یعنی دوسرے سے صرف اسی قدر فائدے حاصل کرے جتنا کہ اسے پہنچا ہے ۔ اور نصفۃ کے معنی خدمت بھی آتے ہیں ۔ اور خادم کو ناصف کہا جاتا ہے اس کی جمع نصف آتی ہے اس نام میں اشارہ ہے کہ خدام کو حق خدمت پورا پورا ملنا چاہیئے ۔ الا نتصاف والا ستنصاب طلب خد مت کرنا - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - دين ( قرض)- والتَّدَايُنُ والمداینة : دفع الدَّيْن، قال تعالی:إِذا تَدايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى [ البقرة 282] التداین والمداینۃ ۔ قرض کا معاملہ کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِذا تَدايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى [ البقرة 282] جب تم آپس میں کیسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - کلالَةُ :- اسم لما عدا الولد والوالد من الورثة، وقال ابن عباس : هو اسم لمن عدا الولد ، وروي أنّ النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم سئل عن الكَلَالَةِ فقال : «من مات ولیس له ولد ولا والد» «فجعله اسما للميّت، وکلا القولین صحیح . فإنّ الكَلَالَةَ مصدر يجمع الوارث والموروث جمیعا، وتسمیتها بذلک، إمّا لأنّ النّسب کلّ عن اللّحوق به، أو لأنّه قد لحق به بالعرض من أحد طرفيه، وذلک لأنّ الانتساب ضربان :- أحدهما : بالعمق کنسبة الأب والابن .- والثاني : بالعرض کنسبة الأخ والعمّ ، قال قطرب : الكَلَالَةُ : اسم لما عدا الأبوین والأخ، ولیس بشیء، الکلالۃ باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث بھی ہو وہ کلالۃ ہے ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کلالۃ ہر اس وارث کو کہتے ہیں جو اولاد کے علاوہ ہو ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت سے کلا لۃ کے متعلق در یافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ۔ من مات ولیس لہ ولد والا والد کہ گلالۃ ہر اس میت کو کہتے ہیں جس کا باپ اور اولاد زندہ نہ ہوں ۔ اس حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود میت کو کو کلالہ قرار دیا ہے اور کلالہ کے یہ دونوں معنی صحیح ہیں کیونکہ کلالۃ مصدر ہے جو وارث اور مورث دو نوں پر بولاجا سکتا ہے گویا کلالہ یا تو اس لئے کہتے ہیں کہ سلسلہ نسب اس تک ۔۔۔۔۔ پہنچنے سے عاجز ہوگیا ہے اور یا اس لئے کہ وہ نسب کسی ایک جانب یعنی جانب اصل یا جانب فرع سے اس کے ساتھ با لواسطہ پہنچتا ہے اور یہ یعنی دو احتمال اس لئے ہیں کہ نسبی تعلق دو قسم پر ہے امتساب با لعمق ( یعنی بارہ راست تعلق ) جیسے باپ بیٹے کا باہمی تعلق نسبت بالعرض یعنی بالواسطہ جیسے بھائی یا چچا کے ساتھ ( ر شتے کی نسبت ) قطر ب کا قول ہے کہ والدین اور بھائی کے علاوہ باقی رشتہ دروں کو کلالۃ کہا جاتا لیکن یہ قول بلا دلیل ہے بعض نے کہا ہے کہ کلا لۃ کا لفظ ہر وارث پر بولا جاتا ہے - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ولھن الربع مماترکتم ان لم یکن لکم ولدفان کان لکم ولدفلھن الثمن مماترکتم، اگر تم صاحب اولاد نہیں ہوتوتمھاری بیویوں کو تمھارے ترکے کا چوتھائی ملے گا۔ اور اگر تم صاحب اولاد ہوتوا نہیں تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ) یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک شخص کی چارہویاں ہوگی تو وہ آٹھویں حصے میں شریک ہوں گی۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر ماں باپ ہوں توشوہر اور بیوی کے ہوتے ہوئے انہیں کتنا حصہ ملے گا۔- حضرت علی (رض) حضرت عمر (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عثمان (رض) اور حضرت زیدبن ثابت (رض) کا قول ہے کہ بیوی کو چوتھائی حصہ ماں کو باقی ماندہ کا تہائی اور باقی ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ شوہر کی صورت میں اسے نصف، ماں کو باقی ماندہ کا تہائی اور بقیہ ترکہ باپ کو مل جائے گا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ ان صورتوں میں بیوی اور شوہرکوان کا مقررہ حصہ ملے گا۔ ماں کو مکمل ایک تہائی حصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو جائے گا۔ آپ کا قول ہے کہ مجھے کتاب اللہ میں باقی ماندہ کا ثلث یعنی تہائی کہیں نظر نہیں آتا۔ ابن سیرین سے بھی حضرت ابن عباس (رض) کے قول کی طرحروایت منقول ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابن سیرین کے ساتھ والدین کی صورت میں حضرت ابن عباس (رض) کے ہم مسلک ہیں۔ لیکن شوہر کے ساتھ والدین کی صورت میں ان کے ہم مسلک نہیں ہیں۔ اس لیے کہ وہ ماں کو باپ پر فضیلت دیتے ہیں۔ تاہم صحابہ کرام ان کے بعد آنے والے تابعین عظام اور فقہائے امصارپہلے قول کے قائل ہیں۔ ان سے اختلاف رکھنے والے حضرت ابن عباس اور ابن سیرین کا قول ہم نے نقل کردیا ہے۔- ظاہر قرآن کی دلالت بھی اسی پر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ارشادباری ہے (فان لم یکن لہ ولدو ورثہ ابواہ فلامہ الثلث) اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں ماں اور باپ کے درمیان میراث کے تین حصے کردیئے، ایک حصہ ماں کا اور دوحصے باپ کے جس طرح کہ بیٹے اور بیٹی کے درمیان اس کے تین حصے کردیئے چناچہ ارشاد باری ہے (للذذکرمثل حظ الانثیین) یہی صورت بھائی اور بہن کے درمیان میراث کی تقسیم کی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فللذکرمثل حظ الانثیین) جب شوہر اوربیوی کے حصوں کا تعین ہوگیا اور انہوں نے اپنے اپنے حصے لے لیئے اور پھر باقی ماندہ کہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم ہوگیا جس نسبت سے شوہر اوربیوی کے دخول سے پہلے ہوتا نیز اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہوتی تو بھی ان کے درمیان ترکے کی تقسیم اسی نسبت سے عمل میں آتی تو ان تمام باتوں سے یہ ضروری ہوگیا، کہ شوہر اور بیوی کا اپنا اپنا مقررہ حصہ حاصل کرلیناباقی ماندہ ترکے کو ماں باپ کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم کرنے کا موجب بن گیا، جس کے یہ دونوں شوہر اوربیوی کے دخول سے پہلے مستحق تھے۔ یعنی باقی ماندہ ترکے کے تین حصے کرکے ایک حصہ ماں کو اوردوحصے باپ کو دیئے جائیں، ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ماں باپ دونوں کی حیثیت ان دو شخصوں کی طرح ہے۔ جو کسی مال میں شراکت رکھتے ہوں۔ اگر اس مال کا کوئی استحقاق کی بناپر کسی تیسیرے کو مل جائے گا تو باقی ماندہ مال ان دونوں شریکوں کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا جس کا وہ شروع سے استحقاق رکھتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔- بیٹے کی اولاد کی میراث - شریعت اسلامی ذاتی ملکیت کے انکار کی نفی کرتی ہے - ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے صلبی اولاد مراد ہے اور اگر صلبی اولادنہ ہوتوپھربیٹے کی اولاد مراد ہوگی۔ اس لیے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص پوتے پوتیاں چھوڑکروفات پاجائے گا تو اس کا ترکہ آیت کے حکم مطابق ان میں ہر پوتے کو دو اورہرپوتی کو ایک کی نسبت سے تقسیم کردیاجائے گا۔ اسی طرح اگر میت کی ایک پوتی ہوگی توا سے نصف ترکہ اور ایک سے زائد ہوں گی توا نہیں دوتہائی ملے گا۔ صلبی اولاد کی موجودگی میں جو تقسیم ہوتی ہے یہ تقسیم بھی اسی طرح کی ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ آیت میں اپنی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹوں کی اولاد مراد ہے۔ ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (یابنی ادم، اسے اولادآدم) اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ صلبی اولادپر اس کا اطلاق حقیقت کے طورپر اوربیٹے کی اولاد پر مجازی طورپر ہوتا ہے۔ اس بناپرصلبی اولاد کی موجودگی میں بیٹے کی اولاد نظرانداز ہوجاتی ہے اور ترکے میں انکے ساتھ شامل نہیں ہوتی۔ بیٹے کی اولاد دوصورتوں میں سے ایک کے اندرترکے کی حق دارہوتی ہے یاتوصلبی اولاد موجونہ ہو۔ اس صورت میں پوتے پوتیاں صلبی اولاد کی قائم مقام ہوجاتی ہیں یاصلبی اولاد پورے ترکے کی حق وارنہ بن رہی ہو، مثلا ایک یا اس سے زائد بیٹیاں ہوں۔ اس صورت میں بیٹے کی اولاد باقی ماندہ یا بعض صورتوں میں پورے ترکے کی وارث ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ بات کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے پوتیاں ان کے ساتھ میراث میں اس طرح شریک ہوجائیں جس طرح صلبی اولاد کی آپس میں شراکت ہوتی ہے توا نہیں اس کا حق حاصل نہیں ہوتا۔- اگریہ کہاجائے کہ جب ولدکا اسم ، صبلی اولاد کے لیے حقیقت اور بیٹے کی اولاد کے لیے مجاز ہے تو پھر ایک ہی لفظ سے دونوں مراد لینادرست نہیں۔ اس لیے کہ ایک لفظ کا بیک وقت حقیقت اور مجاز ہوناممتنع ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ صلبی اولاد اورپوتے پوتیاں ایک لفظ سے ایک ہی صورت میں مراد نہیں ہوتے کیونکہ صلبی اولاد کی موجودگی کی صورت میں وہ مرادہوں اور عدم موجوگی کی صورت میں بیٹے کی اولاد مرادہو۔ اس طرح یہ لفظ اپنے حقیقی اور مجازی معنوں میں دوالگ الگ حالتوں میں محمول ہورہا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپناتہائی مال فلاں فلاں اشخاص کی اولاد کے نام وصیت کرتاہوں۔ اگر ان میں سے ایک شخص کی صلبی اولاد اور دوسرے کے بیٹے کی اولاد ہو تو وصیت دونوں کے حق میں جاری ہوجائے گی اور ایک کے بیٹے کی اولاد کا دوسرے کی صلبی اولاد کے ساتھ وصیت میں شامل ہوناممتنع نہیں ہوگا۔ امتناع کی صورت وہ ہوتی ہے جب ایک شخص کی صلبی اولاد کے ساتھ اس کے بیٹے کی اولاد بھی شامل ہوجائے۔ اور اگر اس کی صلبی اولاد کے ساتھ دوسرے کے بیٹے کی اولاد شامل ہوجائے تو اس میں کوئی امتنا ع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے ہر ایک کی صلبی اولاد کے دخول کا مقتضی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹے کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں اگر کسی شخص کی صلبی اولاد موجودنہ ہو اورپوتے پوتیاں ہوں تو وہ اس لفظ کے تحت آجائیں گے۔ اس کی وجہ جواز یہ ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں ہر انسان کو خطاب ہے اس لیے ہر شخص اپنے دائرے میں اس حکم مخاطب ہے۔ اب جس شخص کی صلبی اولاد ہوگی تو یہ لفظ انہیں بطورحقیقت شامل ہوگا۔ اور پھر بیٹے کی اولاد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کی حقیقی اولادنہ ہوبل کہ پوتے پوتیاں ہوں وہ اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہوگا۔ اس لیے یہ لفظ اس کے پوتے، پوتیوں کو شامل ہوجائے گا۔- اگریہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔ جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔- آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور تمھارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔- ایک شخص اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی چھوڑجائے توبیٹی کو ذوی الفروض ہونے کی حیثیت سے نصف ترکہ اور پوتی کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ ترکہ عصبات کو مل جائے گا۔ اگر کسی کی دوبیٹیاں چند پوتیاں اور ایک پڑپوتا ہوجوظاہ رہے نسب کی درجہ بندی میں ان پوتیوں سے نچلے درجے پر ہوگا، عورتوں اکہرا اور مردوں کادوہراحصہ، کے اصول پر تقسیم کردیاجائے گا۔ اگر کسی کی دوبیٹیاں ایک پوتا اور ایک پوتی رہ جائے تو دونوں بیٹیوں کو دوتہائی اور باقی ماندہ ترکہ پوتے اور پوتی کے درمیان درج بالااصول کے مطابق تقسیم ہوجائے گا صحابہ اور تابعین کے تمام اہل علم کا یہی قول ہے۔ البتہ عبداللہ بن مسعو (رض) د سے مروی ہے کہ آپ بیٹیوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ پوتے یاپڑپوتے کودے دیتے تھے اور پوتیوں کو محروم رکھتے تھے کیونکہ دو بیٹیوں نے دوتہائی حصے کی تکمیل کرلی اور اب پوتیوں کے لیے کچھ نہیں رہا البتہ اگر دوتہائی میں سے کچھ بچ جاتاتو اس صورت میں آپ پوتیوں کو وہی باقی ماندہ حصے دے دیتے، تاکہ دوتہائی کی تکمیل ہوجائے ۔ مثلاکسی کی ایک بیٹی اور چندپوتیاں ہوں تو اس صورت میں بیٹی کو نصف اور پوتیوں کو چھٹاحصہ مل جائے گا، تاکہ دوتہائی کی حد کی تکمیل ہوجائے۔ اگر ان کے ساتھ پوتابھی ہوتا تو آپ پوتیوں کو چھٹے حصے سے زائد نہ نہ دیتے۔ حقیقی اور علاتی بہنوں کی صورت میں بھی آپ کا یہی مسلک ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر پوتیاں تنہا ہوتیں تو اس صورت میں بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دینے کے بعد ان کے لیے کچھ نہ پچتا۔ اسی طرح اگر ان کا بھائی بھی موجودہوتو انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ان میں سے کسی کے ساتھ چچازادبھائی ہوتاتو بھی انہیں کچھ نہ ملتا۔- اسلامی نظام معیشت میں ہر فرد کئی حیثیتوں سے جائیداد کا مالک بنتا ہے - تاہم دوسرے تمام اہل علم کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لیے کہ پوتیاں بعض دفعہ ذوی الفروض کی حیثیت سے اپناحصہ لیتی ہیں اور بعض دفعہ عصبہ ہونے کی بناپرا نہیں حصہ ملتا ہے۔ ان کا بھائی بلکہان سے نچلے درجے کا مذکرا نہیں عصبہ بنادیتا ہے۔ جس طرح صلبی بیٹیوں کا معاملہ ہے۔ کبھی تو وہ ذوی الفروض کی حیثیت سے اپناحصہ لیتی ہیں اور کبھی عصبہ ہونے کی بنیادپر۔ اب اگر بیٹیاں تنہاہوں تو وہ دوتہائی ترکے سے زائد کی حق دار نہیں ہوتی ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی زیادہ کیوں نہ ہواگران کے ساتھ ان کا بھائی بھی موجودہو اورفرض کریں کہ ان کی اپنی تعداددس ہو تو اس صورت میں ترکے کے چھ حصے ہوکرپانچ حصے انہیں مل جائیں گے اور اس طرح انہیں تنہا ہونے کی بہ نسبت بھائی کے ساتھ ہونے کی صورت میں زیادہ حصہ ہاتھ آئے گا۔ اس طرح پوتیوں کا بھی حکم ہے کہ جب صلبی بیٹیاں دوتہائی لے لیں گی تو ان کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں بچے گا لیکن اگر ان کے ساتھ ان کا بھائی ہوگا تو یہ عصبہ بن جائیں گی اور پھر باقی ماندہ تہائی مال ان کے درمیان (للذکرمثل حظ الانثیین) کے اصول کے تحت تقسیم ہوجائے گا۔- ان حضرات کے قول کے مطابق یہی صورت اس وقت اختیار کی جائے گی جب دوبیٹیاں، ایک پوتی اور ایک بہن ہوگی۔ دونوں بیٹیوں کو دوتہائی ترکہ مل جائے گا اور باقی ایک تہائی بہن کے حصے میں آئے گا پوتی محروم رہے گی کیونکہ اس صورت میں اگر پوتے کی عدم موجودگی میں پوتی کوئی حصہ لیتی توا سے حصہ بیٹیوں کے ذوی الفروض ہونے کی بناپرملتا۔ مگر بیٹیوں نے اپنا دوتہائی حصہ مکمل کرلیا ہے۔ اس لیے ان کے حصے میں سے اس کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں بچا۔ اس صورت میں بہن باقی ماندہ ترکے کی زیادہ حق دارہوگی کیونکہ وہ بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ ہوجاتی ہے اور وہ کچھ لیتی ہے عصبہ ہونے کی بناپرلیتی ہے۔ لیکن اگر پوتی کے ساتھ اس کا بھائی بھی ہوگاتو باقی ماندہ ترکہ ان دونوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوگا اور بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔- ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابوداؤدنے، انہیں عبداللہ بن عامربن زرارہ نے، انہیں علی بن مسہرنے اعمش سے، انہوں نے ابوقیس اودی سے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل اودی سے کہ ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) اور سلمان بن ربیعہ کی خدمت میں آکرسوال کیا کہ مرنے والے کی ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن زندہ ہیں ان کے درمیان ترکے کی تقسیم کس طرح ہوگی ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف مل جائے گا اور پوتی کو کچھ نہیں ملے ۔ ساتھ ہی انہوں نے سائل سے کہا کہ ابن مسعو (رض) د سے بھی جاکرپوچھ لووہ بھی اس مسئلے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ جب سائل حضرت ابن مسعو (رض) د کی خدمت میں گیا تو آپ نے فرمایا : اگر میں بھی یہی کہوں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں کی صف سے نکل جاؤں گا، البتہ میں اس کا وہی فیصلہ کروں گا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا، بیٹی کو نصف ترکہ اور پوتی کو چھٹاحصہ ملے گا اور اس طرح دوتہائی حصوں کی تکمیل ہوجائے گی۔ باقی ماندہ ترکہ بہن کو مل جائے گا۔ پوتی یہ چھٹاحصہ ذوالفروض کی حیثیت سے حاصل کرے گی عصبہ ہونے کی بناپر نہیں ۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صرف ایک قول ہے جس کا ہم اوپر ذکرکرآئے ہیں اور جو حضرت ابوموسیٰ اشعر (رض) ی اور سلمان بن ربیعہ کی طرف منسوب ہے۔ اس طرح یہ ایک اتفاق مسئلہ بن گیا۔ اگر پوتی کے ساتھ اس کا بھائی بھی ہوتاتو اس صورت میں دوسرے اہل علم کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) دکا کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ اس صورت میں بیٹی کو نصف ترکہ مل جاتا اور باقی ماندہ ترکہ پوتے اور پوتی کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجاتا۔ اس صورت میں پوتی کو چھٹاحصہ نہیں ملتا۔ جس طرح کہ پوتے کی عدم موجودگی میں اسے مل جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوتی کبھی توذوی الفروض کی حیثیت سے حق دارہوتی ہے۔ اور کبھی اپنے بھائیوں کی موجودگی میں عصبہ ہونے کی بناپر حصہ لیتی ہے جیسا کہ صلبی بیٹیوں کے حصوں کی کیفیت ہے۔- ایک بیٹی چندپوتیوں اور ایک پوتے کی صورت میں حضرت ابن مسعو (رض) دکاقول ہے کہ بیٹی کو نصف ترکہ ملے گا اور باقی نصف ترکہ پوتے اور پوتیوں میں دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے۔ کیونکہ حضرت ابن مسعو (رض) دا نہیں چھٹے حصے سے زائددینے کے قائل نہیں ہیں۔ اس صورت میں آپ نے ذوی الفروض اور عصبہ کو الگ الگ اعتبار نہیں کیا بل کہ چھٹے سے زائدنہ دینے میں مقررہ دوتہائی حصے کا اعتبار کیا۔ اور حصہ کم ہوجانے کی صورت میں مقاسمہ، کا اعتبار کیا۔ یہ بات خلاف قیاس ہے۔ واللہ اعلم۔- کلالہ کا بیان - دین اسلام ذہنی جمودکاقائل نہیں بلکہ تحقیق وجستجوپرزوردیتا ہے - قول باری ہے (فان کان رجل یورث کلالۃ اؤامرء ۃولہ اخ او اخت فلکل واحد منھمااسدس، اور اگر وہ مردیا عورت بےاولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ زندہ نہ ہوں مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجودہوتوبھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹاحصہ ملے گا)- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ نفس میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں اور اس کے بعض ورثاء کو بھی کلالہ کانامدیتے ہیں قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ یہاں کلالہ میت کا نام ہے۔ اور یہ اس کی حالت اور صفت ہے۔ اسی بناپریہ منصوب ہے۔ سحیط بن عمیرنے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک دفعہ فرمایا : ایک زمانہ گذر گیا اور میں کلالہ کے معنی سے بیخبر رہا۔ دراصل کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ عاصم احول نے شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) ن فرمایا : کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ حضرت عمر (رض) جب ابوئوئو مجوسی کے ہاتھوں نیزے سے زخمی ہوگئے تو اس دوران یعنی موت کے قریب فرمایا کہ میرے خیال میں کلالہ وہ شخص ہے جس کی نہ اولاد ہو اورنہ ہی والدین ہوں لیکن مجھے اللہ سے اس بات پر شرم آتی ہے کہ میں اس بارے میں ابوبکر سے اختلاف کروں۔ اس لیے کہتا ہوں کہ کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ طاؤس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے آپ نے کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ، صحیح بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے۔ میں نے عرض کیا، آپ نے کیا کہا ہے۔ فرمانے لگے۔ میں نے یہ کہا ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جو بے اولاد ہو اور اس کے والدین بھی نہ ہوں، سفیان بن عیینہ نے عمروبن دینار سے، انہوں نے حسن بن محمد سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایاــــــ: وہ شخص جس کی نہ اولاد اور نہ ہی والدین ہوں ۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (ان امرؤھلک لیس لہ ولد ولہ اخت، اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور اس کی کوئی اولادنہ ہو اور ایک بہن ہو) یہ سن کر آپ ناراض ہوگئے اور مجھے ڈانٹ دیا۔- ظاہر آیت اور صحابہ کے اقوال جو ہم نے اوپر نقل کیے ہیں اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خودمیت کو کلالہ کہاجاتا ہے، اس لیے کہ ان حضرات کا قول ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یہ اس میت کی صفت ہوسکتی ہے جس کے ترکے کی وارثت کا معاملہ ہو۔ اس لیے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ان حضرات نے کلالہ سے وہ وارث مراد نہیں لیئے جن کو اولاد نہ ہو اور نہ ہی اس کے والدین ہوں ۔ کیونکہ وارث کی اولاد اور والدین کی موجودگی مرنے والے کے ترکے میں اس کی میراث کے حکم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی، بلکہ میت کے اندراس صفت کی موجودگی کی بناپر اس کی میراث کے حکم میں تغیر وتبدل پیدا ہوتا ہے۔ ایسی روایتیں موجود ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کلالہ کا اسم بعض ورثاء پر بھی محمول ہوتا ہے شعبہ نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابربن عبد (رض) اللہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ، میری میراث کا کیا بنے گا۔ ؟ میراوارث کلالہ ہے۔ اس پر فرائض یعنی میراث کی آیت نازل ہوئی۔ محمد بن المنکدر سے ان الفاظ کی روایت میں شعبہ تنہاء ہیں یعنی کسی اور راوی نے ان سے یہ الفاظ روایت نہیں کیئے۔ اس روایت میں حضرت جابر (رض) نے یہ بتایا کہ ان کے ورثاء کلالہ ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جابر (رض) کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی۔ ابن عون نے عمروبن سعید روایت کی، انہوں نے حمیدبن عبدالرحمن سے، انہوں نے فرمایا کہ ہمیں بنی سعد کے ایک شخص نے بتایا کہ حضرت سعد (رض) مکہ میں بیمارپڑگئے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کلالہ کے سوامیرا کوئی وارث نہیں ہے۔ اس روایت میں بھی یہ بات بتائی گئی ہے کہ ورثاء کلالہ ہوتے ہیں۔ حضرت سعد (رض) کی حدیث حضرت جابر (رض) کی حدیث سے پہلے کی ہے۔ اس لیے کہ حضرت سعد (رض) کی بیماری کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا۔ اس میں آیت کا ذکر نہیں ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ الوداع پیش آیا تھا تھا جبکہ کچھ دوسروں کے خیال میں یہ فتح مکہ کے سال کی بات ہے۔ ایک قول ہے کہ درست بات فتح مکہ کے سال کی ہے۔ حضرت جابر (رض) کی حدیث کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے آخری ایام سے ہے۔ اس لیئے یہ بات مدینہ منورہ میں پیش آئی۔ شعبہ نے ابواسحق سے روایت کی ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ، آپ سے لوگ کلالہ کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں کہہ دیجیئے اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے) اور آخری نازل ہونے والی سورت سورة براء ۃ ہے۔ یحییٰ بن آدم نے کہا کہ، ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت پہنچی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اس سے فرمایا (یکفیک آیۃ الصیف اس کے جواب کے لیے گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت کو کافی سمجھو) آپ کا اشارہ قول باری (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) کی طرف تھا۔ اس لیے کہ یہ آیت گرمیوں میں نازل ہوئی تھی جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ تشریف لے جانے کی تیاریوں میں تھے اس دوران آپ پر آیت حج (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھرتک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو وہ اس کا حج کرے) نازل ہوئی۔ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی یہ آخری آیت تھی پھر آپ مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے اور عرفات کے مقام پر عرفہ کے دن آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی، میں نے آج تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل کردی اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی) تاآخر آیت۔ پھر اگلے دن یعنی یوم النحرکو (واتقوایوما ترجعون فیہ الی اللہ، اس دن سے ڈروجب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤگے) تاآخریہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات تک کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ ہم نے اسی طرح سنا ہے۔ یحییٰ نے مزید فرمایا : ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلالہ کا مفہوم دریافت کیا آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ جو شخص وفات پاجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والد ہو۔ ایسے شخص کے ورثاء کلالہ ہیں۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان روایات اور آیات کی تاریخ کا کہیں ذکر نہیں ہے اس لیے کہ تاریخ کے علم کی بناپرکلالہ کا حکم بدل سکتا ہے۔ لیکن جب آیات اور روایات کا ذکر شروع ہوگیا تو اس کے ضمن میں اس کا بھی ذکرآ گیا اس سے ہمارا مقصدصرف یہ ہے کہ ان آیات وردایات سے یہ بھی واضح ہوجائے کہ کلالہ کے اسم کا مصداق کبھی تومرنے والاہوتا ہے اور کبھی اس کے ورثاء ہوتے ہیں۔- کلالہ کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ جریر نے ابواسحق الشیبانی سے انہوں نے عمروبن مرثد، انہوں نے سعیدبن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلالہ کی وراثت کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ، کیا اللہ تعالیٰ نے اسے بیان نہیں فرمادیا ہے ؟ پھر آپ نے آت (وان کان رجل یورث کلالۃ) کی تلاوت فرمائی تھی اللہ تعالیٰ نے پھر یہ آیت نازل فرمائی (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) تاآخر آیت۔ حضرت عمر (رض) پوری طرح مفہوم سمجھ نہ سکے، آپ نے اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) سے اس لفظ کا مفہوم دریافت کرنا، چناچہ ایک دن حضرت حفصہ (رض) نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر اس لفظ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے سن کرفرمایاتمھارے والدنے تمہارے ذمے یہ کام لگایا ہے۔ سیراخیال ہے کہ وہ اس لفظ کے معنی کبھی بھی نہیں جان سکیں گے۔ چناچہ حضرت عمر (رض) بھی یہی کہا کرتے تھے کہ میں شاید اس کے مفہوم سے کبھی بھی آگاہ نہ ہوسکوں، جبکہ اس کے بارے میں میرے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی یہ رائے دے چکے ہیں۔ سفیان نے عمروبن مرہ سے، انہوں نے اپنے والدمرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ تین باتیں ایسی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے ان کی وضاحت فرماجاتے تو یہ بات مجھے دنیا ومافیھا سے زیادہ پسندیدہ ہوتی، اول کلالہ ، دوم خلافت اور سوم ربوا، قتادہ نے سالم بن ابی الجعد سے انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کے متعلق اس قدر سوالات نہیں کیئے جس قدرکلالہ کے متعلق کیئے۔ حتی کہ ایک دفعہ آپ نے میرے سینے میں انہی انگشت مبارک چھبوتے ہوئے فرمایا : اس بارے میں گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت تمہارے لیے کافی ہوگی۔ حضرت عمر (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا : لوگو آگاہ رہو، میں لے کلالہ کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا ہے۔- کلالہ کی مزید تشریح - ہماری نقل کردہ مذکورہ روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عمر (رض) کلالہ کے متعلق قطعیت کے ساتھ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے اور اس لفظ کے معنی اور مراد کے متعلق آپ کو ہمیشہ التباس ہی رہا۔ سعیدبن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کلالہ کے مفہوم پر ایک تحریر لکھی تھی جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو آپ نے اسے ضائع کردیا اور فرمایا کہ اس بارے میں تم لوگ اپنی اپنی رائے پر عمل کرنا یہ توکلالہ کے متعلق آپ سے ایک روایت ہوئی۔- تاہم اس کے متعلق آپ سے مروی یہ ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والدین ہوں یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ فرد ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ حضرت ابوبکر (رض) حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت کے مطابق کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔- محمد بن سالم نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعو (رض) د سے یہ روایت کی ہے کہ کلالہ وہ ہے جو والد اور ولد کے ماسواہو۔ حضرت زیدبن ثابت (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ کلالہ وہ ہے جو ولد کے علاوہ ہو۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ صحابہ کرام اس پر متفق ہیں کہ ولد کلالہ نہیں ہے۔ اختلاف صرف والد کے متعلق ہے۔ جمہورکاقول یہ ہے والدکلالہ سے خارج ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت یہی ہے۔ دوسری روایت میں ان کے نزدیک کلالہ وہ ہے جو ولد کے ماسواہو۔ اس لفظ کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے کی درج بالا صورتیں رہیں، ادھرحضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق جب دریافت کیا تو آپ نے انہیں آیت کے مضمون ومفہوم کی طرف رجوع کرنے کے لیئے فرمایا۔- وہ آیت یہ تھی (یستفتونک ، قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) حضرت عمر (رض) اہل زبان تھے اور آپ سے لغت کی معرفت کا طریقہ پوشیدہ نہیں تھا۔ ان سب باتوں کی روشنی میں یہ چیزثابت ہوگئی کہ کلالہ کے اسم کی معرفت دراصل لغت کے ذریعے حاصل ہونے والی نہیں تھی بلکہ یہ ان متشابہ آیات میں سے ہے جن کے معانی پر اللہ نے ہمیں محکم آیات سے استدلال کرنے اور انہیں ان کی طرف لوٹا نے کا حکم دیا ہے۔- اسی بناپرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کلالہ کے متعلق حضرت عمر (رض) کے سوال کا جواب نہیں دیابل کہ اس کے معنی کے امتنباط اور اس پر استدلال کا مشورہ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں کئی معانی پر دلالت موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ جب آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ پر بطورنص اس کے معنی سے مطلع کرنا لازم نہیں آیا۔ اس لیے کہ اگر یہ بات آپ پر لازم ہوتی تو آپ اسے بیان کیئے بغیرنہ رہتے۔- وہ اس طرح کہ جس صورت حال کے تحت آپ سے کلالہ کے متعلق پوچھا گیا تھا وہ ایسی نہیں تھی کہ کلالہ کے حکم کانفاذفوری طورپرعمل میں آنالازم ہوجاتا۔ اگر صورت حال ایسی ہوتی تو آپ اس کا مفہوم بیان کیئے بغیر نہ رہتے۔ آپ سے حضرت عمر (رض) کا سوال نص کے واسطے سے اس لفظ کے معنی کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے والے مستفسرکاسوال تھا۔- اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے یہ بات لازم نہیں تھی کہ آپ لوگوں کو جلی وخفی نیزدقیق احکام کی اطلاع دیتے رہیں۔ اس لیے کہ بعض احکام تو اپنے اسم اور صفت کے ساتھ مذکورہوتے ہیں اور بعض پر دلالت موجودہوتی ہے جوان کے متعلق ایسے قطعی علم تک پہنچانے والی ہوتی ہے۔ جس کے بعد کوئی احتمال باقی نہیں رہتا اور بعض کو اجتہادرائے کے حوالے کردیاجاتا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو اس سلسلے میں اجتہادرائے کی طرف راجع کردیا تھا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عمر (رض) کو اجتہاد کا اہل سمجھتے تھے اور انہیں ان لوگوں میں شمار کرتے تھے جن کے متعلق ارشادباری ہے (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، تو یہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جوان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔- اس میں احکام کے متعلق اجتہادرائے کی گنجائش پر دلالت بھی موجود ہے نیز یہ کہ اجتہادرائے ایک ایسی اصل اور بنیاد ہے جس کی طرف نئے پیداشدہ مسائل کے احکام معلوم کرنے اور متشابہ آیات کے معانی پر استدلال کرنے اور محکم آیات پر ان معانی کی بنیادرکھنے کے سلسلے میں رجوع کیا جاسکتا ہے۔- کلالہ کے معنی کے استخراج کے سلسلے میں اجتہاد کی گنجائش پر صحابہ کرام کا اتفاق کرلینا بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرام میں سے بعض کا قول ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی اولاد نہ ہو اورنہ ہی والدین ہوں جبکہ بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ جس کی اولادنہ ہو وہ کلالہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے متعلق مختلف جوابات دیئے اور بعض مواقع پرسکوت اختیار فرمایا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن حضرات نے اپنے اپنے اجتہادرائے سے کام لے کر اس لفظ کے متعلق جو کچھ فرمایا دوسرے حضرات کی طرف سے ان کی تردید نہیں ہوئی جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ احکام کے متعلق اجتہاد رائے سے کام لینے کی گنجائش پر سب کا اتفاق تھا۔- اس سے ایک اور بات پر دلالت ہوتی ہے وہ یہ کہ ابوعمران الجونی نے حضرت جندب (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من قال فی القرآن برایہ فاصاب فقداخطا، جو شخص قرآن کی تاویل وتفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہے گا تو بات درست ہونے کے باوجود وہ خطاکار ہوگا۔ ) اس سے مرادوہ شخص ہے جو علم تفسیر و تاویل کے مسلمہ اصول وقواعد کو نظر انداز کرکے اور ان کے ذریعے استدلال کیئے بغیر اپنے خیال ودہم میں پیدا ہونے والی بات کو تفسیر و تاویل کا درجہ دید سے۔ اس کے برعکس جو شخص قرآن سے استنباط واستدلال کرے گا اور اپنے استدلال واستنباط کی بنیادآیات محکمات پر رکھے گا جن پر سب کا اتفاق ہے۔ ایسا شخص قابل ستائش ہے اور ارشاد باری (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) کی روشنی میں وہ عنداللہ ماجور بھی ہوگا۔- اہل لغت نے بھی لفظ کلالہ کے مفہوم کے متعلق لب کشائی کی ہے۔ ابوعبیدہ معمربن المثنی کا قول ہے کہ کلالہ ہراس شخص کو کہتے ہیں جس کانہ باپ وارث ہورہاہو اورنہ بیٹا۔ ایسے شخص کو عرب کلالہ کہتے ہیں یہ لفظ فعل تکلل بمعنی تعطف، کا مصد رہے چناچہ محاورہ ہے، تکللہ النسب، یعنی نسب نے اسے گھیرلیا۔- ابوعبیدہ نے مزید کہا ہے کہ جن حضرات نے آیت میں لفظ (یورث) کی حرف راء کی کسرہ کے ساتھ قرأت کی ہے انہوں نے اس سے وہ شخص مراد لیا ہے جو میت کانہ ولدہو اور نہ والد ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حسن اور ابورجاء العطاردی نے بھی کسرہ یعنی زیر کے ساتھ اس لفظ کی قرأت کی ہے۔- ایک قول ہے کہ لغت میں کلالہ کے اصل معنی احاطہ یعنی گھیرلینے کے ہیں۔ اس سے لفظ اکلیل (تاج) بنا ہے اس لیئے کہ یہ پورے سرکوگھیرلیتا ہے۔ اسی سے ایک اور لفظ کل (سارا) بنا ہے۔ اس لیے کہ یہ لفظ ان تمام افراد کا احاطہ کرلیتا ہے جو اس کے تحت آتے ہیں نسب کے لحاظ سے کلالہ وہ بھائی بہن ہیں جو ولد اوروالدکوگھیرلیتے ہیں اور ان کی طرف پلٹتے ہیں۔ ولد اوروالدکلالہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ نسب کی بنیاد اورستون جس پر نسب کی انتہاء ہوتی ہے۔ وہ ولد اوروالد ہیں۔ ان کے ماسوابقیہ تمام رشتہ دار اس سے خارج ہیں۔ ان دونوں کو یہ صرف اس لیے احاطہ کیئے ہوتے ہیں کہ جس شخص کی طرف یہ منسوب ہوتے ہیں اس کی طرف ان کا انتساب ولادت کے علاوہ کسی اور جہت سے ہوتا ہے اور ان کی حیثیت اس تاج کی سی ہوتی ہے جو سرکوگھیرے ہوئے ہوتا ہے۔- یہ تشریح ان حضرات کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے جنہوں نے کلالہ سے ولد اوروالد کے علاوہ دوسرے ورثاء مراد لیے ہیں۔ جب ولدکلالہ نہیں ہوسکتا تو والد بھی کلالہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی میت کی طرف نسبت ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں کی نسبت یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ان میں کسی کی بھی میت کی طرف نسبت ولادت کی جہت سے نہیں ہوتی جن حضرات نے کلالہ کی تاویل میں یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ولد کے ماسو اورثاء ہیں اور صرف ولد کو اس سے باہررکھا ہے تاشاید ان کے نزدیک اس کا سبب یہ ہو کہ ولد کا جودوالد سے ہوتا ہے گویا ولدوالد کے وجود کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ جبکہ والدولد کے وجود کا حصہ نہیں ہوتا۔- جس طرح بھائی بہن اس شخص کے وجود کا حصہ نہیں ہوتے جس کی طرف یہ اخوت یعنی بھائی بہن کے رشتے سے منسوب ہوتے ہیں۔ اس طرح ان حضرات نے ایسے ورثاء کو کلالہ قراردیاجومیت کی طرف اس حیثیت سے منسوب نہیں ہوتے کہ یہ اس کے وجود کا حصہ ہوں۔ اس کے برعکس میت کی طرف جس وارث کی اس حیثیت سے نسبت ہورہی ہے کہ وہ اس کے وجود کا حصہ ہے وہ ان کے نزدیک کلالہ نہیں ہوتا۔ کلالہ کا لفظ زمانہ جاہلیت میں معروف تھا۔ عامربن الطفیل کا شع رہے۔- ؎ فانی وان کنت ابن فارس عامر وفی السرمنھاوالصریح المھذب - فماسودتنی عامرعن کلالۃ ابی اللہ ان اسموابامرولااب - میں اگرچہ قبیلہ عامر کے شہسوارکابیٹا، اس قبیلے کا ایک خالص فرد، صحیح النسب اور مہذب ہوں۔ تاہم اتنی بات ضرورکہوں گا کہ مجھے قبیلہ عامرنے دادا کی نسبت سے اپنا سردار نہیں بنایا۔ اللہ کو ہرگز یہ بات پسند نہیں کہ میں ماں کے ذریعے بلندی کے زینے طے کروں یا باپ کے ذریعے۔ شاعرکایہ قول اس پر دلالت کررہا ہے کہ اس نے اپنے جداعلی کو جس کی طرف اس کے قبیلے کا انتساب ہوتا ہے۔ کلالہ قراردیا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ اسے سیادت کا یہ مرتبہ نسب اور کلالہ یعنی جداعلی کی بناپر نہیں ملابل کہ اس نے یہ سیادت وقیادت اپنی ذاتی خوبیوں کی بناپرحاصل کی ہے۔- بعض کا قول ہے کہ جب دورشتہ داروں میں دوری پیدا ہوجائے تو اس وقت یہ فقرہ کہاجاتا ہے۔ کلت الرحم بین فلان وفلان، یعنی دونوں کی رشتہ داری میں دوری ہوگئی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی شخص کا بوجھ برداشت کرتا رہے اور پھر اس سے دورہوجائے توکہاجاتا ہے۔ حمل فلان علی فلان ثم کل عنہ، یعنی بوجھ برداشت کرتارہا پھر اس سے دورہوگیا۔- عاجزہوکربیٹھ رہنے کو کلال کہتے ہیں کیونکہ اس کیفیت کی بناپر اسے اپنے مقصد اورمنزل کا حصول اور زیادہ بعید نظرآتا ہے۔ فرزوق کا شع رہے۔- ؎ ورثتم قناۃ الملک غیرکلالۃ عن ابنی مناف عبدشمس وھاشم - اے میرے محمد وحین تم مناف کے دو بیٹوں عبدشمس اور ہاشم سے سلطنت کے نیز سے یعنی عصائے شاہی کے وارث ہوئے، کلالہ سے نہیں۔- یعنی تم اپنے آباؤ اجداد کی بناپر اس سلطنت کے وارث ہوئے، بھائیوں اور چچاؤں کی وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوجگہ اپنی کتاب میں کلالہ کا ذکرکیا ہے۔ ایک تو یہ ہے (قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ ان امرء ھلک لیس لہ ولدولہ امحت فلھا نصف ماترک) تاآخر آیت۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی عدم موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کی میراث کا ذکرفرماتے ہوئے انہیں کلالہ کا نام دیا ہے۔ تاہم اس میں والد کی غیر موجودگی شرط ہے۔ اگر اس کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اس لیے کہ سورت کی ابتداء میں ارشادالٰہی ہے (وورثہ ابواہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس۔- یعنی باپ کی موجودگی میں بھائی بہنوں کے لیے کوئی میراث نہیں۔ اس طرح والد بھی ولد کی طرح کلالہ سے خارج ہوگیا۔ اس لیے کہ الہ تعالیٰ نے بھائی بہنوں کو جس طرح باپ کی موجود گی میں وارث قرار نہیں دیا اسی طرح بیٹے کی موجودگی میں بھی انہیں وارث نہیں بنایا۔ بیٹی بھی کلالہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی کی ایک یادوبٹیاں اور حقیقی یاعلاقی بھائی بہنیں ہوں تو بیٹیاں کلالہ نہیں ہوں گی۔ بلکہ ان کے ساتھ وارث ہونے والے بھائی بہن کلالہ ہوں گے۔- اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتداء میں بھی کلالہ کا ذکرکیا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامراۃ ولہ اخ اؤاخت فلکل واحد منھماالسدس فان کانوا اکثرمن ذلک فھم شرکاء فی الثلث)- یہاں آیت میں مذکورکلالہ سے مراد اخیافی بھائی بہن ہیں یہ والد اور اولاد یعنی بیٹے بیٹی کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) نے اس آیت کی قرأت اس طرح کی ہے۔ (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامرا ہولہ اخ اواخت لام)- تاہم اس کے باوجود اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہاں اخیانی بھائی بہن مراد ہیں، حقیقی یاعلاقی مراد نہیں ہیں۔ طاؤس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کلالہ وہ وارث ہے جو ولد کے ماسواہو۔ آپ نے والدین کی موجودگی میں اخیافی بھائی بہنوں کو چھٹے حصے کا وارث قراردیا۔ یہ وہ چھٹاحصہ ہے جس سے ماں کو محجوب کردیا گیا تھا۔ تاہم حضرت ابن عباس کا یہ قول شاذ ہے۔- ہم نے حضرت ابن عباس (رض) سے منقول وہ روایت بیان کردی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ کلالہ ولد اور والد کے ماسو اورثاء کو کہاجاتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اخیافی بہن بھائی تہائی حصے میں مساوی طورپرشریک ہوں گے بھائی کو بہن پر کوئی فضیلت نہیں ہوگی۔- دادا کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ کہ آیاوہ بطورکلالہ دارث ہوتا ہے یا نہیں کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس کی میراث کلالہ کے طورپر نہیں ہوتی۔ جبکہ کچھ دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وہ کلالہ ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو دادا کی موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کو وارث قراردیتے ہیں لیکن بہترقول یہ ہے کہ داداکلالہ سے خارج ہے۔ اس کے تین وجود بیان کیئے گئے ہیں۔- اول یہ کہ اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں کہ پوتاکلالہ نہیں ہوتا اس لیے کہ میت کی طرف اس کی نسبت ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ اس بناپردادا کا کلالہ سے نکل جانا واجب ہوگیا۔ اس لیے کہ میت اور دادا کے درمیان نسبت بھی ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ باپ کی طرح دادا بھی سلسلہ نسب میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے خارج نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ کلالہ سے باہر رہے اس لیئے کہ کلالہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہ رشتہ داری ہے جو نسب کو گھیرے ہوئے ہو اور اس کی طرف پلٹ رہی ہو یعنی ایسے رشتہ دارجونسب میں اصل کی حیثیت نہ کر رکھتے ہوں لیکن سلسلہ نسب کے ساتھ ان کا تعلق ضرورہو۔- ایک اور وجہ یہ ہے کہ اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ) تاآخر آیت میں داداداخل نہیں ہے بلکہ اس سے خارج ہے۔ اس کی موجودگی میں اخیافی بہن بھائی وارث نہیں ہوں گے جس طرح کہ بیٹے اور بیٹی کی موجود گی میں یہ وارث نہیں ہوتے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کلالہ سے باہر ہونے میں دادا کی حیثیت باپ کی طرح ہے۔ یہ چیز اس دلالت کررہی ہے کہ میراث میں دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کی مشارکت کی کی نفی میں بھی اس کی حیثیت باپ کی طرح ہے۔- اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ آپ نے اس سے پہلے جو یہ بیان کیا تھا کہ بیٹی کلالہ سے خارج ہے اور اس کی موجود گی میں اخیافی بھائی بہنیں وارث نہیں ہوں گی، البتہ حقیقی بھائی بہنیں وارث ہوں گی، اس پر آپ کی درج بالا وضاحت کی دلالت نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے داداکامعاملہ بھی یہی ہونا چاہیے۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے اپنی درج بالا وضاحت کو مسئلے کی علت قرار نہیں دیا تھا کہ معترض کا اعتراض ہم پر لازم آجائے۔ ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ بیٹے اور باپ کی طرح داداکو بھی لفظ کلالہ شامل نہیں ہے۔ اس لیے ظاہر آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ دادا کی غیرموجود گی میں بھائی بہن حق دارہوں۔ الایہ کہ دادا کے ساتھ انہیں وارث قراردینے کے لیے کوئی اور دلالت قائم ہوجائے۔- رہ گیا بیٹی کا معاملہ تو وہ اگرچہ کلالہ سے خارج ہے لیکن اس کی موجود گی میں حقیقی اور علاتی بھائی بہنوں کو وارث قراردینے کے لیے دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے ہم نے ظاہر آیت کے حکم سے اس صورت کی تخصیص کردی۔ اب بیٹی کے ماسوا ان تمام وارثوں کے لیے لفظ کا حکم باقی رہ گیا جنہیں کلالہ کا لفظ احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔- عول کا بیان - زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) پہلے شخص تھے جنہوں نے فرائض میں عول کا عمل جاری کیا تھا۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی خاص صورت میں ورثاء کے متعین حصے ترکے کے حصوں سے بڑھ جائیں تو اس وقت تمام حصہ واروں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی کرکے سب کے حصے پورے کردیئے جاتے ہیں۔ اس عمل کو علم الفرائض میں عول کہتے ہیں۔- جب وراثت کے مسئلوں میں ورثاء کے حصص کی تقسیم دشوارہوگئی اور ان میں الجھاؤپیدا ہوگیا تو حضرت عمرنے زچ ہوکرورثاء سے فرمایا : بخدا مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کن لوگوں کو اللہ نے مقدم کیا ہے۔ اور کن لوگوں کو مؤخرکیا ہے۔ حضرت عمر (رض) بڑے پرہیزگار اور خدا ترس انسان تھے۔ فرمایا : میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی گنجائش والی بات نہیں ہے کہ میں تمہارے درمیاحصوں کی نسبت سے ترکہ تقسیم کردوں اور ترکے کے حصوں میں کمی وجہ سے تمہارے حصص میں جو کمی آئے گی وہ تم تمام کے حصوں میں اسی نسبت سے داخل کردوں ۔- ابواسحق نے حارث سے، انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ دو بیٹیوں، والدین اور بیوی کی وراثت کے مسئلے میں آپ نے فرمایا کہ بیوی کا آٹھواں حصہ نواں حصہ بن جائے گا یعنی تقسیم ترکہ میں عول کا عمل جاری کیا جائے گا۔ حکم بن عتیبہ نے حضرت علی (رض) سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د اور حضرت زیدبن ثابت (رض) کا بھی یہی قول ہے۔- ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس بن المطلب پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عمر (رض) کو فرائض میں عول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سب سے پہلے حضرت عمر (رض) نے فرائض میں عول کیا، بخدا، اگر حضرت عمر (رض) ان ورثاء کو مقدم کردیتے جنہیں اللہ نے مقدم رکھا ہے۔ تو کسی مسئلے میں عول کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کن ورثاء کو مقدم رکھا ہے اور کن ورثاء کو مؤخرکیا ہے۔ ؟- اپ نے جواب میں فرمایا، ہرایساوارث جسے اگر اپنے مقررہ حصے سے ہٹناپڑے توہٹ کر کسی اور حصے کی طرف ہی منتقل ہوجائے۔ ایسے وارث کو اللہ نے مقدم کیا ہے اور جو وارث اپنے حصے سے منتقل ہوجانے کے بعد باقی ماندہ ترکہ میں ہی کچھ حاصل کرسکے ایسے وارث کو اللہ نے مؤخرکردیا ہے۔ اس اصول کے تحت شوہر، بیوی اور ماں ایسے وارث ہیں جنہیں اللہ نے مقدم رکھا ہے۔ اس لیے کہ ان بینوں میں سے ہر ایک اپنے حصے سے ہٹ کر کسی اور حصے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔- اس کے برعکس بیٹیاں اور بہنیں ذوی الفروض کے درجے سے گرکردوبیٹیوں اور بہنوں کی موجود گی میں عصبات کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ انہیں مردوں کی موجود گی میں باقی ماندہ ترکہ ملتا ہے۔ اس لیے ترکہ کے حصے کم ہوجانے کی صورت میں ہمیں ذوی الفروض کو ان کے حصے دے دینے چاہئیں اور ترکوں کے حصوں کی کمی کے نقصان کو ان کے علاوہ دوسرے وارثوں پر ڈالنا چاہیئے یہ وہ ورثاء ہیں جو عصبات ہونے کی بناپرباقی ماندہ ترکے کے حق دارہوتے ہیں۔- عبداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس (رض) سے مزید پوچھا کہ آپ نے اس معاملے میں حضرت عمر (رض) سے گفتگو کی تھی تو جواب دیا : حضرت عمر (رض) کی شخصیت بڑی بارعب تھی اور آپ متقی وپرہیزگار تھے۔ پھر آپ نے فرمایا : اگر مجھے اس معاملے میں حضرت عمر (رض) سے تبادلہ خیال کا موقع مل جاتاتو آپ ضرور اپنے قول سے رجوع کرلیتے، زہری کا قول ہے کہ اگر حضرت ابن عباس (رض) کے قول سے پہلے ایک عادل امام یعنی حضرت عمر (رض) اس مسئلے میں اپنے بات نہ کرچکے ہوتے اور اس کے متعلق آپ کا طریق کار یعنی عول جاری نہ ہوچکا ہوتاتو ابن عباس (رض) ہی کا قول قابل قبول ہوتا۔- حضرت عمر (رض) واقعی بڑے متقی اور پرہیزگار تھے۔ اس رائے میں کسی بھی اہل علم کو حضرت ابن عباس (رض) سے اختلاف نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرائض کا ذکر کیا اور اس میں عول کے طریق کارکا بھی تذکرہ کیا۔ پھر فرمایا : تمھاراکیاخیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس کا علم ریگستان عالج کی ریت کے تمام ذرات کی تعدادکا احاطہ کیے ہوئے ہے اس نے ایک ترکے میں نصف، نصف اور تہائی کے حصے مقرر کردیئے نصف اور نصف توٹھیک ہیں ان کے بعداب تہائی کے لیے گنجائش باقی رہ گئی۔- عطاء کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضرت آپ اس بات کانہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ مجھے۔ جب آپ کی یا میری موت واقع ہوجائے گی توہماراتر کہ میری اور آپ کی رائے کے خلاف لوگوں کے معمول بہ طریقے کے مطابق تقسیم ہوجائے گا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر لوگ چاہیں تو اس مسئلے پر میں ان سے مبابلہ کرنے کے لیے تیارہوں۔ ہم اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو بلالیں اور پھر مبابلہ کرکے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کا بار ڈالیں یادرکھواللہ تعالیٰ نے کسی مال یعنی ترکہ میں نصف نصف اور تہائی کے حصے مقرر نہیں کیے۔- قول اول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لیے نصف حقیقی بہن کے لیے نصف اور اخیافی بھائی بہنوں نے کے لیے تہائی ترکہ مقرر کردیا۔ اور اس تعین میں اس نے ان تینوں ورثاء کی اکھٹے موجودگی اور الگ الگ موجودگی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، اس لیے امکان کی حدتک ہرمسئلے میں نص قرآنی پر عمل کرنا واجب ہوگیا۔- جب یہ ورثاء الگ الگ آئیں اور ترکے میں ان کے حصوں کی گنجائش ہوتوتر کہ ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیاجائے گا لیکن جب یہ سب موجودہوں جس کی وجہ سے ترکے کے حصے یعنی مخرج ان کے مقررہ حصوں سے کم پر جائیں تو اس صورت میں ان کے حصوں میں ایک خاص نسبت سے ضرب کرکے آیت کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔- اب جو کوئی یہ طریقہ اختیارکرے گا کہ ترکے کی تقسیم کے سلسلے میں بعض ورثاء پر اقتصارکرکے بعض دوسروں کو ساقط کردے گایابعض کو ان کا پوراپوراحصہ دے کر بعض کے حصوں میں کمی کردے گا تو وہ کمی اور نقصان کو بعض ورثاء کے حصوں پر ڈالنے کا مرتکب ہوگا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سب کے مقررہ حصوں کا تعین یکساں طورپرہوا ہے۔- رہ گیا حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول کہ اللہ تعالیٰ نے جن ورثاء کو مقدم کیا ہے انہیں ترکے کے حصوں کی کمی کی صورتوں میں مقدم رکھاجائے اور جنہیں مؤخرکردیا ہے انہیں مؤخرکیاجائے تو اس میں درحقیقت آپ نے بعض کو مقدم کردیا ہے اور بعض کو مؤخر اورعصبہ ہونے کی صورت میں اسے باقی ماندہ ترکہ کا حق دار سمجھا ہے۔ لیکن جہاں تمام ورثاء ذوی الفروض ہوں اور عصبہ کی صورت نہ ہوتوایسی حالت میں کوئی وارث دوسرے کے مقابلے میں تقدیم کا زیادہ حق دار نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بہن کا حصہ قول باری (ولہ خت فلھا نصف ماترک) کے ذریعے منصوص ہے۔- جس طرح کہ شوہر، بیوی ، ماں اور اخیافی بھائی بہنوں کے حصے منصوص ہیں، اب اس حالت میں بہن کے حصے پر ان ورثاء کے حصے کیسے مقدم ہوگئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں اس کا حصہ بھی منصوص کردیا ہے۔ جس طرح کہ اس کے ساتھ موجوددوسرے ورثاء کے حصے منصوص ہیں۔ اب اس بناپر کہ اللہ تعالیٰ نے بہن کو ایک موقع پر ذوی الفروض سے نکال کر عصبہ بنادیا ہے یہ لازم نہیں آتا کہ اس صورت میں بھی اسے ذوی الفروض سے نکال دیاجائے جس میں اس کا ذوی الفروض ہونامنصوص ہے۔- جن آیات میں میراث کے حصے بیان کیئے گئے ہیں ان کی مخالفت میں یہ قول دراصل اس قول سے بھی بدت رہے جس میں ورثاء کے حصوں میں ضرب دے کر ان کے لیے نصف نصف اور تہائی کا اثبات کیا گیا ہے۔ مواریث میں اصولی طورپر اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں۔ قول باری ہے۔- (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین)- اب اگر مرنے والاہزادرہم چھوڑجاتا ہے اور دوسری طرف اس پر ایک شخص کے ہزاردرہم اور دوسرے کے ہزاررہم اور تیسرے کے پانچ سودرہم قرض ہوں تو اس صورت میں اس کے چھوڑے ہوئے ہزاردرہم ان تینوں قرضنحواہوں کے درمیان ان کے قرضوں کی نسبت سے تقسیم ہوجائیں گے۔ اس صورت میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ چونکہ ہزار کی رقم سے اڑھائی ہزار کی وصولی ممکن نہیں ہے اس لیے ان میں ایک خاص نسبت سے ضرب دینامحال ہے۔- اسی طرح اگر مرنے والا ایک شخص کے لیے اپنے تہائی مال کی اور دوسرے کے لیے چھٹے حصے کی وصیت کرجاتا ہے۔ لیکن ورثاء اس کی اجازت نہیں دیتے تو اس صورت میں تہائی مال کے اندریہ دونوں شخص اپنے متعلق کی جانے والی وصیتوں کی نسبت سے ضرب دیں گے ایک کے حصے کو سدس یعنی ١۔ ٦ سے اور دوسرے کے حصے کو ثلث یعنی ۔ ١۔ ٣ سے، یعنی اس تہائی مال کے چھ حصے کرکے چارحصے ایک کو اوردوحصے دوسرے کودے کردو اور ایک کی نسبت سے تقسیم کردیں گے حالانکہ تہائی سے نصف حصہ وصول کرنا محال ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹا اگر تنہاء ہوتوسارے مال کا حق دارہوتا ہے اور بیٹی تنہاء ہونے کی صورت میں نصف مال کی حق وارہوتی ہے۔- لیکن جب دونوں ایک ساتھ آجائیں تو بیٹے اور بیٹی کے حصوں کو ایک اور نصف سے ضرب دیں گے اور اس طرح ترکہ دونوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا۔ ترکے میں حصوں یعنی مخرج کی کمی اور ذوی الفروض کے حصوں میں زیادتی کے وقت اسی طرھ کا عمل ہوتا ہے جسے عول کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔- مشرکہ کا بیان - مشرکہ کے مسئلے میں صحابہ کر امرضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف رائے ہے۔ مشرکہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی وفات کے بعداس کا شوہر، اس کی ماں، اس کے اخیافی اور حقیقی بھائی بہن موجودہوں ۔- حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت موسیٰ اشعری کا قول ہے کہ شوہرکونصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ اور بھائی بہنوں کو تہائی حصہ ملے گا۔ حقیقی بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ سفیان ثوری نے عمروبن مرہ سے، انہوں نے عبداللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) سے اخیافی بھائی بہنوں نے کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا : تمہاراکیاخیال ہے کہ اگر ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہوتوآیاتم انہیں تہائی حصے سے زائد دے دوگے۔ لوگوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : اسی لیے ہم کسی صورت میں ان کے حصے میں کمی نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو عصبہ قراردیا اور چونکہ کوئی حصہ باقی نہیں رہا تھا۔ اس لیے وہ محروم قراردیئے گئے۔- حضرت عمر (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د اور حضرت زیدبن ثابت (رض) کا قول ہے کہ شوہر کو نصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ، اخیانی بھائی بہنوں کو تہائی مل چائے گا اس کے بعدحقیقی بھائی بہن اخیافی بھائی بہنوں کی طرف رجوع کرکے ان کے ساتھ اس طرح شریک ہوجائیں گے کہ انہیں حاصل شدہ تہائی حصہ ان سب کے درمیان مساوی طورپر تقسیم ہوجائے گا۔- معمرنے سماک بن فضل سے، انہوں نے دہب بن منبہ سے، انہوں نے حکم بن مسعود ثقفی سے روایت کی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کو کوددیکھا ہے کہ آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی مال میں شریک کردیا تھا۔ آیک آدمی نے آپ سے پوچھا کہ خلافت کے پہلے سال آپ کا فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ آپ نے سائل سے کہا کہ میرا کیا فیصلہ تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ آپ نے اخیانی بھائی بہنوں کو ترکے میں حق داربنایا تھا اور حقیقی بھائی بہنوں کو محروم رکھا تھا۔- اس پر آپ نے فرمایا : وہ صورت ہمارے اس فیصلے کے مطابق تھی اور یہ صورت ہمارے اس فیصلے کے مطابق ہے۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) انہیں شریک نہیں کرتے تھے۔ حتی کہ انہوں نے آپ کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ ہمارے اور میت کے درمیان باپ میں اشتراک ہے جبکہ اخیانی بھائی بہنوں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہ۔ رہ گئی ماں تو جس طرح وہ ان اخیانی بھائیوں کی ہے اسی طرح ہماری بھی ہے۔ اگر آپ ہمیں باپ کی وجہ سے محروم رکھتے ہیں تو ماں کی وجہ سے ہمیں وارث قراردیں جس طرح کہ ان اخیافی بھائی بہنوں کو ماں کی وجہ سے وارث قراردیتے ہیں۔- فرض کرلیں کہ ہمارا باپ گدھاتھا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم سب کی جو لانگاہ ایک ہی رحم ماد رہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کی اس دلیل کو سن کر فرمایا : تم ہی کہتے ہو۔ اور اس کے بعد آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو بھی اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی ترکے میں شریک کردیا۔- امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف ، امام محمد، زفر اورحسن بن زیادہ نے حضرت علی (رض) بن ابی طالب (رض) کا قول اختیارکیا ہے۔ کہ انہیں اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ شریک نہیں کیا جائے گا۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامراء ۃ ولہ اخ اؤاخت فلکل واحد منھماالسدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث)- آیت میں یہ حکم منصوص ہے کہ اخیانی بھائی بہنوں کے لیے تہائی ترکہ ہے رہ گئے حقیقی بھائی بہن تو ان کا حکم اپنے قول (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) تاقول باری (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فلذکرمثل حظ الانثیین) میں بیان کردیا۔- اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا بلکہ عصبہ ہونے کی بناپر ترکہ میں انہیں حق دارقرار دیا اور اصول یہ مقرر کردیا کہ مردوں اور عورتوں میں دو اور ایک کی نسبت ہوگی۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر مرنے والی شوہرماں ایک اخیانی بھائی اور حقیقی بھائی بہن چھوڑجائے توشوہر کو نصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ، اخیافی بھائی کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ چھٹاحصہ حقیقی بھائی بہنوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا اور یہ حقیقی بھائی بہن اخیافی بھائی کے حصے میں داخل نہیں ہونگے۔ جب حقیقی بھائی بہن ذوالفروض کے ساتھ عصبہ ہونے کی ہناپرباقی ترکہ کے حقدارہوتے ہیں ذوی الفروض ہونے کی بناء پر نہیں تو پھر ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم انہیں اخیافی بھائی بہنوں کے متعین اور مقررحصے میں داخل کرکے ان کے ساتھ شریک کردیں۔ کیونکہ ظاہر آیت اس کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کہ آیت نے ان کے لیے دو اور ایک کی نسبت میں جو مال واجب کیا وہ عصبہ ہونے کی بناء پر ہے۔ فرض یعنی متعین حصے کی بناپر نہیں۔- اب جو کوئی انہیں فرض کی بناپر کوئی حصہ دے گا تو اس کا یہ اقدام آیت کے دائرے سے خارج ہوگا۔ یعنی وہ آیت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ اس پر حضو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے۔ (الحق الفرائض باھلھافماابقت الفرائض فلاولی عصبۃ ذکر، فرائض یعنی متعین حصے ان کے حق داروں کو دلاؤ۔ متعین حصوں کے بعد باقی رہ جانے والامال سب سے قریبی مذکرعصبہ کو مل جائے گا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد میں ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی رہ جانے والے مال کا عصبہ کو حق دارقراردیا۔ اب جو کوئی انہیں ذوی الفروض کے ساتھ شریک کرے گا جب کہ وہ عصبہ ہیں تو اس کا قدم اس حدیث کے خلاف ہوگا۔- اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ جب ماں کے نسب میں یہ شریک ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگا کہ باپ کی وجہ سے انہیں محروم نہ رکھاجائے۔ اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اگر مرنے والی شوہر، ماں، ایک اخیافی بھائی اور چندحقیقی بھائی بہن چھوڑجائے تو اس صورت میں اخیافی بھائی پوراچھٹاحصہ لے لے گا اور حقیقی بھائی بہنوں کو باقی چھٹاحصہ ملے گا اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو دسویں حصے سے بھی کم ترکہ ملے۔- لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ مجھے باپ کی وجہ سے محروم رکھاگیا جب کہ ماں میں ہم سب شریک ہیں بلکہ اخیانی بھائی کا حصہان میں سے ہر ایک کے حصے سے زیادہ ہوگا۔ اس وضاحت کی روشنی میں دو باتیں سامنے آئیں اول یہ کہ ماں میں شریک ہونے کی علت اس صورت میں قائم نہیں رہ سکی بلکہ منتقض ہوگئی دوم یہ کہ حقیقی بھائی بہنوں نے ترکہ میں جو کچھ لیاوہ فرض یعنی متعین حصے کی بناپر نہیں لیا۔ بلکہ عصبہ ہونے کی بناپرلیا۔- درج بالا اعتراض کے فسادیہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مرنے والی شوہر، ایک حقیقی بہن اور ایک علاتی بھائی اور بہن چھوڑجاتی توشوہرکونصف ترکہ اور حقیقی بہن کو نصف ترکہ مل جاتا اور علاتی بھائی بہن کو کچھ نہیں ملتا اس لیے کہ اس صورت میں وہ عصبہ تھے اور اس بناء پر وہ ذوی الفروض کے ساتھ ان کے حصوں میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔- اوریہ بات بھی درست نہیں تھی کہ علاتی بھائی کو کان لم یکن فرض کرلیا جاتاتا کہ علاتی بہن اپنے حصے کی حق داربن جاتی جوا سے بھائی کی غیرموجودگی میں تنہاء ہونے کی صورت میں مل سکتا تھا۔ لیکن عصبہ بن جانے کی وجہ سے وہ اس چھٹے حصے سے محروم رہ گئی جس کی وہ حق داربن سکتی تھی۔ ٹھیک اسی طرح عصبہ بن جانے کی بناپرحقیقی بھائی بہن اس تہائی حصے سے باہرہوکرمحروم ہوجاتے ہیں جس کی اخیافی بھائی بہنیں حق دارپاتی ہیں۔ واللہ اعلم۔- بیٹی کے ساتھ بہن کی میراث میں سلف کے اختلاف کا بیان - حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د، حضرت زیدبن ثابت (رض) اور حضرت معاذبن حیل (رض) سے اس شخص کے بارے میں کسی اختلاف رائے کی روایت نہیں ہے جس کی ایک بیٹی۔ ایک حقیقی بہن اور عصبہ پیچھے رہ گئے ہوں اس صورت میں بیٹی کو نصف ترکہ اور باقی ماندہ نز کہ بہن کو مل جائے گا۔ ان حضرات نے بہن کو بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ قراردیا۔- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) کا قول ہے کہ بیٹی کو نصف نز کہ مل جانے گا اور باقی ماندہ ترکہ عصبہ کو چلاجائے گا خواہ میت سے عصبہ کی رشتہ داری کتنی بعید ہی کیوں نہ ۔ بیٹی کی موجودگی میں بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) پہلے یہ فیصلہ کرتے تھے لیکن بعد میں آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔- ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ کہا گیا کہ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعو (رض) د اور حضرت زیدبن ثابت (رض) بیٹیوں کی موجودگی میں بہنوں کو عصبہ قراردے کر انہیں میراث کا بچاہواحصہ دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تھا : تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ اس کا تو ارشاد ہے (ان امرؤ ھلک لیس لہ ولدولہ اخت فلھا نصف ماترک) اور تم بہن کو ولد کی موجودگی میں نصف ترکہ دیتے ہو۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول اول کے لیے دلیل کے طورپریہ قول باری پیش کیا جاسکتا ہے۔ (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون مماقل منہ اوکثرنصیبامفروضا۔ اس آیت کے ظاہر کا تقاضایہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن کو بھی وارث قراردیاجائے۔ اس لیے کہ اس کامرنے والا بھائی اس کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نیاقرباء کی میراث مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مقرر کی ہے۔- اس سلسلے میں ابوقیس الاودی کی روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جو انہوں ہزیل بن سرخبیل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مسئلے میں جس کیا ندرورثاء میں ایک بیٹی اور ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن تھی فیصلہ دیا تھا کہ بیٹی کو نصف نز کہ اور پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا اور اس طرح دوتہائی حصوں کی تکمیل ہوجائے گی اور باقی ماندہ ترکہ بہن کے حصے میں آئے گا۔- اس طرح آپ نے بہن کو بیٹی کے ساتھ عصبہ قراردے کر باقی ماندہ اسے عطاکردیاتھاجن حضرات کا اس بارے میں یہ استدلال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہن کو نصف ترکہ کا حق دار اس صورت میں قراردیا ہے جبکہ ولدموجودنہ اور ولد کی موجودگی میں اسے نصف ترکہ دیناجائز نہیں ہے تو یہ بات لازم نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولد کی عدم موجودگی میں بہن کے حصے کا ذکربطورنص کیا ہے۔ لیکن ولد کی موجودگی میں بہن کی میراث کی نفی نہیں کی ہے۔- نیز ولد کی عدم موجودگی میں بہن کے لیے نصف ترکہ متعین کردینا ولد کی موجودگی میں اس کے حق کے سقوط پر دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ اس صورت میں بہن کے لیے میراث کانہ نفیاتذکرہ ہے اور نہ ہی ایجابا۔ اس لیے اس صورت کا حکم اس کے متعلق پائی جانے والی دلیل پر موقوف۔ ہا۔ اس کے ساتھ ساتھ آیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو۔ اس کی دلیل سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری ہے (وھویرثھا) یعنی بھائی بہن کا وارث ہورہاہو۔- (ان لم یکن لہ ولد) سب کے ہاں اس کے معنی ہیں کہ اگر نرینہ اولاد نہ ہو۔ کیونکہ صحابہ کرام کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مرنے والی عورت اگر مونث ولد یعنی بیٹی اور ایک بھائی چھوڑ جائے توبیٹی کو نصف ترکہ اور بھائی کو باقی ماندہ ترکہ مل جائے گا۔- یہاں جس ولد کا ذکرہوا ہے آیت کے شروع میں ابتدائی طورپر بھی اس کا ذکرہوا ہے۔ نیز قول باری ہے۔ (ولابویھ لکل واحد منھماالسدس مماترک ان کان لہ ولد) سب کے ہاں اس کے معنی ہیں کہ اگر نرینہ ولدہوکیون کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیاناس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ماں باپ چھوڑکرماجائے توبیٹی کو نصف ترکہ اور ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ اس مسئلے کی صورت میں مؤنث ولد یعنی بیٹی کے ساتھ باپ کو چھٹے حصے سے زائدمل جائے گا۔- اوریہ کہ قول باری (ولابویہ لکل واحد منھما السدس مماترک ان کان لہ ولد) کو مذکرولدپر محمول کیا جائے گا۔ اس طرح اگر کوئی شخص باپ اور ایک بیٹی چھوڑکر انتقال کرجائے تو باپ اور بیٹی کے درمیان ترکہ نصف ، نصف تقسیم ہوجائے گا۔ اس طرح درج بالادونوں صورتوں میں باپ کو ولد کے ساتھ چھٹے حصے سے زائد ترکہ ہاتھ آئے گا۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ایک گروہ کا جس نے امت کے اجتماعی قول کو ترک کرکے علیحدہ قول اختیاکیا ہے، خیال ہے کہ اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہوتوسارامال بیٹی کو مل جائے گا۔ اس طرح اگر بیٹی اور بھائی ہو تو بھی ساراتر کہ بیٹی کا ہوگایہ قول ظاہر آیت اور اتفاق امت کے دائرے سے خارج ہے۔ ارشاد باری ہے۔ (یوصیکم اللہ فی اؤلاد کم للذکرمثل حظ الانثیین فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک وان کانت واحدۃ فلھا النصف)- آیت میں بیٹی کا حصہ نیز دوتہائی سے زائد کا حصہ منصوص طورپر مذکور ہے یعنی تنہا ہونے کی صورت میں اس کے لیے نصف ترکہ مقرر کیا اور اس کے ساتھ اور بیٹیاں ہونے کی صورت میں تمام کے لیے دو تہائی ترکہ مقرر کیا اب انہیں بغیر کسی دلالت کے اس سے زائد دینا جائز نہیں ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ گذشتہ سطور میں آپ کی وضاحت کے مطابق نصف اور دوثلث کا ذکر اس سے زائد کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے ظاہری طورپر اس سے زائد کی نفی موجود نہیں ہے۔ آپ کو تو صرف یہ چاہیئے کہ درج بالاقول کے قائل سے دوتہائی سے زائد کے استحقاق کے سلسلے میں دلیل طلب کریں اور بس۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) اس میں مذکورہ حصوں کے اعتبار سے امر اورحکم کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ وصیت کا مفہوم بھی دراصل امر اورحکم ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ آیت میں متعین حصوں میں سے ہر ایک کا اس کے تناظر میں اعتبارکرنا ضروری ہے نیزان میں کمی بیشی کی کسی طرح بھی گنجائش نہیں ۔- اس لیے یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ آیت میں مذکورہ متعین حصوں کے سلسلے میں صرف ان ہی ورثاء پر اقتصارکیاجائے جن کے لیے ان حصوں کا تعین ہوا ہے نہ ان میں کمی کی جائے اور نہ زدیادتی اللہ تعالیٰ نے اس بات کا خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائے خطاب میں ان حصوں کے اعتبار کے متعلق اس کی طرف سے حکم دیاجاچکا تھا۔ اس لیے ہمیں ان مقررہ حصول پر کوئی اضافہ کرنے سے روک دیا گیا البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی دلالت پیش کی جائے تو وہ اور بات ہوگی۔- قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان لاقربون) بیٹی کی موجودگی میں بھائی کو وارث قراردینے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کردہ حدیث (الحقوا الفرائض باھلھا فماابقت فلاولی عصبۃ ذکر) بھی دلالت کرتی ہے۔ آیت اور حدیث کے مجموعی مفہوم کی بناپراب یہ واجب ہے کہ ہم جب بیٹی کو نصف ترکہ دیدیں تو باقی ماندہ ترکہ بھائی کے حوالے کردیں اس لیی کہ وہی سب سے قریبی مذکرعصبہ ہے۔- دوچچازاد بھائیوں کی وراثت کے متعلق جن میں سے ایک اخیافی بھائی بھی ہوسلت میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) اور حضرت زیدبن ثابت (رض) کا قول ہے اخیافی بھائی کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی ماندہ پانچ حصے دونوں میں مساوی طورپر تقسیم ہوجائیں گے۔ فقہاء احصارکا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن مسعو (رض) دکاقول ہے کہ سارامال اخیافی بھائی کو مل جائے گا۔- ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ ذوی الفروض غیرذوی الفروض کے مقابلے میں زیادہ حق دارہوتا ہے۔ شریح اور حسن کا بھی یہی مسلک تھا اگر دواخیافی بھائیوں میں سے ایک چچاز ادبھی ہوتوان کے متعلق اختلاف رائے نہیں ہے۔ دونوں ماں کی نسبت سے ایک تہائی ترکہ کے حق دارہوں گے اور باقی ماندہ دوتہائی ترکہ اس بھائی کو مل جائے گا جو چچازادبھی ہے۔- اس مسئلے میں ان حضرات نے چچازاد میں ذوی الفروض اور عصبہ دونوں خصوصیتوں کے اجتماع کی بناپرا سے پورے ترکے کا حقدارقرار نہیں دیا۔ یہی حکم ان دوچچاز ادبھائیوں کا ہے کہ ایک ان میں اخیافی ہو اس اخیافی کو ذوی الفروض عصبہ ہونے کی بناپرساراتر کہ دے دینا جائز نہیں ہے حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن مسعو (رض) دنے اسے حقیقی اور علاتی بھائی کے مشابہ قراردے کرا سے پورے ترکہ کا حق دارٹھہرادیا۔- لیکن دوسرے حضرات کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اور درج بالامسئلے کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میت کے ساتھ ان دونوں بھائیوں کی نسبت صرف ایک جہت یعنی اخوت کی بناپر ہورہی ہے۔ اس لیے اس صورت میں اس بھائی کا اعتبارکیاجائے گاجومیت سے زیادہ قریب ہوگا اور یہ وہ بھائی ہوگاجس میں میت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کی قرابت میں اشتراک ہوگا۔ وہ ماں کے واسطے سے میت کے ساتھ قرابت کی بناپر اخیافی بھائی کے حصے کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ یہ قرابت صرف اخوت کے حکم کی مزیدتا کہ کید کردے گی۔- اس کے برعکس دوچچابھائیوں کے ساتھ یہ بات نہیں ہے جبکہ ان میں سے ایک اخیافی بھائی بھی ہو۔ کیونکہ اس صورت میں آپ ماں کی نسبت سے اخوت کے ذریعے ایسی رشتہ داری کی تاکید کرنا چاہیں گے جو درحقیقت اخوت کے ضمن نہیں آتی ہے۔- بلکہ یہاں اخوت کے سواتعلق کی بنیاد کسی اور سبب پر ہے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ اخوت کے ذریعے اس نسبت کی تاکید کی جائے۔ اس بات پر مزید روشنی اس طرح ڈالی جاسکتی ہے کہ میت کے ساتھ اس شخص کے چچازاد ہونے کی نسبت اس کی اس حصے کو ساقط نہیں کرتی جوا سے اخیافی بھائی ہونے کی جہت سے مل رہا ہوبل کہ وہ اخیافی بھائی ہونے کے ناطے اخیافی بھائی والے حصے کا وارث ہوگا اگرچہ وہ چچازادبھی ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مرنے والی دو بہنیں حقیقی ، شوہر اور ایک اخیافی بھائی چھوڑجائے جو اس کا عم زادبھی ہو تو اس صورت میں بہنوں کو دوتہائی ، شوہر کو نصف اور اخیافی بھائی کو چھٹا حصہ ملے گا اور چچازاد ہونے کی بناپر اس کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔ اگر مرنے والی شوہر، ماں اور ایک اخیافی بہن اور چندحقیقی بھائی چھوڑجائے توشوہرکونصف ترکہ، ماں کو چھٹا حصہ اخیافی بہن کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ حقیقی بھائیوں کو مل جائے گا۔- یہاں حقیقی بھائی ماں کی بناپر اخوت والے تعلق سے پیدا ہونے والے حصے کے حق دار نہیں ہوئے کہ ماں کی نسبت میں وہ اخیافی بہن کے ساتھ شریک ہیں بلکہ انہیں عصبہ ہونے کی بناپرحصہ ملا ہے۔ اس لیے ماں باپ کے ذریعے میت کے ساتھ ان کی قرابت صرف ان کے عصبہ ہونے کی تاکید کررہی ہے۔ اس لیے اس قرابت کی بنیادپر وہ ذوی الفروض بننے کے مستحق نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف چچازاد کی میت کے ساتھ ماں کے واسطے سے قرابت اسے اخیافی بھائی کی حیثیت سے ذوی الفروض بن کر اپنے حصے کے استحقاق سے خارج نہیں کرسکتی۔ نیز یہ صورت عصبہ ہونے کی جہت کی تاکیدپر کسی طرح اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ اگر یہ بات ہوتی تو یہ ضروری ہوجاتا کہ وہ یعنی اخیافی بھائی صرف عصبہ بن کر ہی ترکے میں کسی حصے کا حق دارہوسکتا جس طرح کہ حقیقی بھائی بہن عصبہ بن کر ہی ترکے میں حصہ پاتے ہیں اور ماں کے واسطے سے میت کے ساتھ اپنی قرابت کی بنیا دپراخیافی بھائی بہنوں کا حصہ نہیں پاتے۔- مرنے والے پر قرض ہو اور اس نے وصیت بھی کی ہو اس کے حکم کا بیان - ارشادباری ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین) حارث نے حضرت علی سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ، تم قرآن میں دین یعنی قرض سے پہلے وصیت کا ذکر پڑھتے ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کیا جراء سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ دیا تھا۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اسلام کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے وہ اس لیے کہ مذکورہ بالا ارشادباری کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں یعنی دین اور وصیت کے بعد میراث کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس مقام پر حرف اومذکورہ دونوں باتوں میں سے ایک کا فائدہ نہیں دے رہا ہے بلکہ دونوں کو شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ ارشاد باری اس جملے سے مستثنیٰ ہے جس کا میراث کی تقسیم کے سلسلے میں ذکرہوا ہے۔- اوریہ قاعدہ ہے کہ جب حرف اونفی پر داخل ہوتا ہے تو وہ حرف واؤ کے معنی میں ہوجاتا ہے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے۔ (ولاتطع منھم اثمااؤکفورا، ان میں سے کسی گنہگار اورناشکرے کی بات نہ مانیئے۔ ) اسی طرح قول باری ہے (حرمنا علیھم شحومھما الاماحملت ظھورھما اوالحوایا اؤمااختلط بعظم، اور گائے اور بکری کی چربی بھی ہم نے ان پر حرام کردی تھی بحز اس کے جوان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) ان مواقع میں حرف اؤحرف واؤ کی حیثیت رکھتا ہے۔- اسی طرح قول باری (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) چونکہ استثناء کے معنی میں ہے اس لیے گویا یوں فرمایا گیا، مگر یہ کہ میت کی کوئی وصیت یا اس پر کوئی قرض ہو اس صورت میں میراث کی تقسیم ان دونوں چیزوں کی ادائیگی کے بعدعمل میں آئے گی۔ قرض پر وصیت کے ذکر کی تقدیم سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرض ادا کرنے سے پہلے وصیت کے اجراء سے ابتداء کی جائے اس لیے کہ حرف اؤ ترتیب کو واجب نہیں کرتا۔- اللہ تعالیٰ نے میراث کے ذکرکے بعد ان دونوں چیزوں کا ذکر ہمیں یہ بتانے کے لیے کیا کہ قرض کی ادائیگی اور وصیت کے بموجب حصہ الگ کرنے کے بعد ورثاء کے حصے اداکیے جائیں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مرنے والا اپنے تہائی مال کی وصیت کرجائے توترکے سے تہائی حصہ الگ کرنے کے بعد ورثاء کے حصوں کا بقیہ مال میں اعتبار کیا جائے گا یعنی باقی ماندہ دوتہائی میں سے میت کی بیوہ کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ دیاجائے گا۔ اسی طرح بقیہ ورثاء کے حصے بھی بقیہ دوتہائی مال میں سے دیئے جائیں گے ان حصوں کا تہائی مال سے کوئی تعلق نہیں ہوگاجس کی مرنے والا وصیت کرگیا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتانے کے لیے دین اور وصیت کا ایک ساتھ ذکر فرمایا کہ ورثا کے حصوں کا اعتبار وصیت کے اجراء کے بعد وہوگاجس طرح کہ ان کا اعتبارقرض کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اگرچہ وصولی کے لحاظ سے وصیت کا حکم دین کے حکم سے مختلف ہے اس لیے کہ ترکے میں سے اگر کوئی حصہ ضائع ہوجائے تو اس ضیاع کی بناپرہونے والے نقصان کو ورثاء پر نیزان لوگوں پر ڈالا جائے گا جن کے حق میں میت نے وصیت کی ہے۔ لیکن قرض کا حکم ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر میت کے متروکہ مال کا کوئی حصہ ہلاک بھی ہوجائے توبقیہ مال میں سے اس پر عائد شدہ قرض کی پوری رقوم ادا کی جائے گی خواہ باقی ماندہ سارامال اس قرض کی ادائیگی میں صرف کیوں نہ ہوجائے۔- ایسی صورت میں ورثاء اور وصیت پانے والوں کا حق باطل ہوجائے گا۔ اس لیے وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ اس جہت سے ورثاء کی طرح ہوگا اور ایک جہت سے قرضخواہ کے مشابہ ہوگاوہ جہت یہ ہے کہ اہل میراث کے حصوں کا اعتباروصیت کے اجراء کے بعد کیا جاتاہ۔ جس طرح ان کا اعتبارقرض کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے۔- قول باری (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) سے یہ مراد نہیں ہے کہ موصی لہ، (جس کے لیے وصیت کی گئی ہو) وصیت کے تحت آنے والااپناحصہ ورثاء کو ان کے حصے دیئے جانے سے پہلے ہی حاصل کرلے گا بل کہ ان سب کو ان کے حصے ایک ساتھ اداکیئے جائیں گے۔ گویا موصی لہ اس لحاظہ سے ایک وارث کی طرح ہوگا اور تقسیم سے پہلے مال کا جو حصہ ضائع ہوجائے گا اس کے نقصان کو سب کے حصوں پر ڈالاجائے گا۔- جائزوصیت کی مقدارکابیان - قول باری ہے (من بعد وصیتۃ یوصی بھا اؤدین) اس کا ظاہرقلیل وکثیر مال کی وصیت کے جواز کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ لفظ وصیت کا ذکرنکرہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مال کے کسی خاص حصے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔- البتہ اس آیت کے سوا ایسی دلالت موجود ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد مال کے بعض حصے کی وصیت ہے کل مال کی وصیت نہیں۔ یہ دلالت قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والقربون مماقل منہ اؤکثر، میں موجود ہے۔ اس میں وصیت کا ذکرکیئے بغیر میراث کے ایجاب کو مطلق رکھاگیا ہے اگر قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا) پورے مال کی وصیت کا مقتضی ہوتاتو اس صورت میں قول باری (للرجال نصیب مماترک الولدان والاقربون) پورے مال کی وصیت کے جواز کی بناپر منسوخ ہوجاتا۔- اب جبکہ میراث کے ایجاب کے سلسلے میں اس آیت کا حکم ثابت اور غیر منسوخ ہے تو ضروری ہوگیا کہ اس آیت پر آیت میراث کو ساتھ ملاکرعمل کیا جائے۔ جس کی بناپریہ واجب ہوگیا کہ وصیت کو مال کے بعض حصے کے ساتھ محدود کردیاجائے اور باقی مال ورثاء کے حوالے کردیاجائے تاکہ دونوں آیتوں کے حکم پر عملدرآمدہوجائے اس پر قول باری (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافاخافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولواقولاسدیدا، لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خوداپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑتے تومرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیئے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں)- یعنی راستی کی بات یہ ہے کہ اپنے سارے مال کی وصیت کرنے والے کو ایسا کرنے سے روکیں جیسا کہ اس آیت کی تاویل کے سلسلے میں بیان کیا جاچکا ہے اس لیے مال کے بعض حصے کی وصیت کے جواز پر اس کی دلالت ہورہی ہے۔- کیونکہ زیربحث آیت میں مذکورلفظ وصیت میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے یعنی پورے مال کی وصیت کا بھی اور بعض حصے کی وصیت کا بھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں ایسی روایات منقول ہیں جنہیں امت نے قبول کیا اور تہائی مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں ان پر عمل بھی کیا۔ ایک روایت ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کی، انہیں ابوداؤدنے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ اور ابن ابی خلف نے، ان دونوں کو سفیان نے زہری سے انہوں نے عامربن سعید سے، اور انہوں نے اپنے والد سے کہ، میرے والدسخت بیمارہوگئے۔ رادی ابی ابن خلف نے جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مکہ میں بیمارہوگئے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی عیادت کے لیئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس ڈھیرسامال ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، میں دوتہای مال صدقہ میں نہ دے دوں ؟ آپ نے نفی میں جواب دیا، پھر میں نے عرض کیا، آدھادے دوں ؟ آپ نے پھر نفی میں جواب دیا اور فرمایا کہ تہائی مال صدقہ کردو، اور تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑجانا اس کی بہ نسبت بہت رہے کہ انہیں تنگدست چھوڑکرجاؤ اور وہ تمہارے بعد لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یادرکھو اس سلسلے میں تم جو بھی نفقہ کروگے اس کا تمھیں اجرملے گا حتی کہ اگر ازراہ محبت اپنے ہاتھ سے بیوی کو ایک لقمہ کھلادوگے تو بھی تم ماجورہوگے۔ میں نے عرض کیا : حضور میں اپنے دار ہجرت یعنی مدینہ منورہ سے پیچھے پ ہیں مکہ میں رہ جاؤں گا۔ (یعنی اس بیماری سے صحت یابی کی امید نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ سے اب مدینہ منورہ جا بھی نہیں سکتا) یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر تم میرے بعدزندہ رہے اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر کوئی نیکی کی تو اللہ کے نزدیک اس سے تمھارامرتبہ اور درجہ اور زیادہ بلند ہوجائے گا۔ پھر فرمایا : شاید تم میرے بعدزندہ رہوحتی کہ بہت سے لوگوں کو تمھاری ذات سے فائدہ پہنچے اور بہت سوں کو نقصان ۔- پھر آپ نے یہ دعافرمائی : اے میرے اللہ میرے صحابہ کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں واپس نہ لوٹا۔ البتہ بےچارہ سعدبن خولہ ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماکر دراصل سعدبن خولہ کے لیے افسوس کا اظہارکر رہے تھے کیونکہ ان کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی اور وہ دوبارہ مدینہ منورہ جا نہیں سکے تھے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں بہت سے احکام و فوائد ہیں۔- اول : یہ کہ تہائی مال سے زائد میں وصیت جائز نہیں ہے۔- دومـ: یہ کہ تہائی سے کم میں وصیت کرنا مستحب ہے، اسی بناپربعض فقہاء کا قول ہے تہائی سے کم مال کی وصیت مستحب ہے۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (والثلث کثیر) تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ )- سوم : یہ کہ اگر مرنے والا مال قلیل کا مالک ہو اور اس کے ورثاء فقیروتنگ دست ہوں تو ایسی صورت میں کسی قسم کی وصیت نہ کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ان تدع ورثتک غنیبء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس۔ اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑکرجانا اس کی بہ نسبت بہت رہے کہ انہیں تنگدست چھوڑکرجاؤ اور وہ تمہارے بعدلوگوں کے سامنے اپنے معاش کے لیئے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ )- اس روایت میں وارث نہ ہونے کی صورت میں پورے مال کی وصیت کے جواز کی بھی دلیل موجود ہے۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا ہے کہ تہائی سے زائد کی وصیت کی ممانعت ورثاء کی خاطر کی گئی ہے اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مرض کی حالت میں صدقہ وصیت کی طرح ہے۔ اس لیے تہائی سے زائد جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت سعد (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سارامال صدقہ کردینے کے متعلق دریافت کیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں کمی کرتے کرتے اسے تہائی تک پہنچادیا تھا۔- یہی روایت جریر نے عطاء بن السائب سے کی ہے، انہوں نے عبدالرحمن بن سلمی سے اور انہوں نے حضرت سعد (رض) سے کہ، میری بیماری کے دوران حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا کہ تم نے وصیت کی ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیاتو فرمایا، کس قدرمال ؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی راہ میں سارامال۔ فرمایا، اولاد کے لیے کیا چھوڑوگے ؟ میں نے عرض کیا، میری اولاد مال دا رہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : وسویں حصے کی وصیت کرجاؤ۔- اس کے بعد وصیت کے لیے میرے مال کے حصوں کی کمی بیشی کے سلسلے میں ہم دونوں میں سلسلہ کلام جاری رہاحتی کہ آپ نے : تہائی مال کی وصیت کو جائز اور تہائی بھی بہت زیادہ ہے کہا ابوعبدالرحمن کہتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی بناپرہم تہائی سے کم کی وصیت کو مستحب سمجھتے تھے۔- اس روایت میں حضرت سعد (رض) نے ذکر کیا ہے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ سارامال اللہ کی راہ میں وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ الفاظ پہلی روایت میں بیماری کے دوران صدقہ کے الفاظ کے منافی نہی ہیں۔ کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں تہائی سے زائد کی وصیت سے منع فرمایا تو حضرت سعد (رض) نے یہ خیال کیا ہو کہ بیماری کے دوران صدقہ کرنا جائز ہے، اس لیے صدقہ کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ج سے سن کر آپ نے انہیں فرمایا کہ تہائی مال تک محدودرکھنے کے سلسلے میں صدقہ کا حکم بھی وہی ہے جو وصیت کا ہے۔- یہ روایت حضرت عمران بن حصین کی اس روایت کی طرح ہے جس میں انہیں نے اپنی موت کے قریب اپنے چھ غلام ازاد کردیئے تھے۔ زیز بحث روایت کی ایک اور بات یہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال پر جو کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کا بھی اجرملتا ہے۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ہبہ کے طورپر کوئی چیزدے دے تو اسے واپس لے لیناجائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس ہبہ کی حیثیت صدقہ کی طرح ہے اس لیے کہ وہ اس ہبہ کی بناپرعنداللہ اجروثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس کی نظیروہ روایت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا اعطی الرجل امرأتہ عطیۃ فھی لہ صدقۃ، جب کوئی شخص اپنی بیوی کو کوئی عطیہ دے دے تو یہ اس شخص کے لیے صدقہ کی حیثیت رکھتا ہے۔- حضرت سعد (رض) کا یہ کہنا کہ، میں اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی موت مکہ مکرمہ میں واقع ہوگی جہاں سے انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھی، (چونکہ انہیں بیماری سے صحت یاب ہونے کی امید نہیں تھی اس لیے انہوں نے یہ کہا تھا، بیماری کی وجہ سے وہ مدینہ منورہ کا سفر بھی نہیں کرسکتے تھے) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین حضرات کو ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کے بعد مکہ مکرمہ میں تین دن سے زائد قیام کرنے سے منع فرمادیا تھا۔ آپ نے حضرت سعد (رض) کو یہ اطلاع دی تھی کہ وہ آپ کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ ان کی ذات سے بہت سوں کو فائدہ پہنچائے گا اور بہت سوں کو نقصان چناچہ ایساہی ہوا۔- حضرت سعد (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی زندہ رہے اور بلادعجم یعنی ایران وعراق کا علاقہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوا اور کسری کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ وہ غیب کی باتیں تھیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں تھا۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابوعبداللہ عبیداللہ بن حاتم عجلی نے، انہیں عبدالاعلی بن واصل نے، انہیں اسماعیل بن صبیح نے، انہیں مبارک بن حسان نے، انہیں نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (یا ابن آدم اثنتان نیست لک واحدۃ منھما جعلت لک نصیبا فی مالک حین اخذت بکظہک لاطھرک وازکیک وصلاۃ عبادی علیک بعد انقضاء اجلک۔- (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢) اور اگر تمہاری بیبیوں کے کسی قسم کی کوئی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ میں سے تم کو آدھا ملے گا۔- اور اگر ان کے کچھ اولاد ہو خواہ تم میں سے ہو یا کسی اور سے لڑکا ہو یا لڑکی تو پھر ترکہ میں سے تم کو چوتھائی ملے گا اور یہ تقسیم بھی میت کے قرض ادائیگی اور تہائی مال وصیت کے نافذ کردینے کے بعد ہوگی۔- اور ان کو واثت میں سے چوتھائی ملے گا اگر تمہارے کوئی اولاد نہیں ہوگی اور اگر تمہارے کچھ اولاد ہو خواہ ان ہی سے ہو یا کسی اور سے لڑکے ہوں یا لڑکی تو ان کو ترکہ میں سے تمہارے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد آٹھواں حصہ ملے گا۔- اور اگر کوئی میت خواہ وہ مرد ہو یا عورت ایسی ہو کہ جس کے نہ اصول ہوں اور نہ فروع جس کی میراث دوسروں کو ملے گی اور اس میت کے ایک بھائی یا ایک بہن اخیافی ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔- اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے جس میں مذکر ومونث سب برابر ہیں اور یہ میراث ثلث مال میں وصیت کے نافذ کرنے اور میت کے فرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ بشرطیکہ تہائی حصہ مال سے زیادہ وصیت کرکے کسی وارث کو نقصان نہ پہنچائے۔- اور میراث کا تقسیم کرنا اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیا ہے اور تقسیم میراث کو وہ بخوبی جاننے والا ہے کہ کس طریقہ سے لوگوں کی جانب اس میں خیانت کی جائے گی مگر وہ اپنی خاص حکمت کے سبب مہلت دیتا ہے اس پر جلدی انتقام نہیں لیتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ ( وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ ج) ۔- بیوی فوت ہوگئی ہے اور اس کے کوئی اولاد نہیں ہے تو جو وہ چھوڑ گئی ہے اس میں سے نصف شوہر کا ہوجائے گا۔ باقی جو نصف ہے وہ مرحومہ کے والدین اور بہن بھائیوں میں حسب قاعدہ تقسیم ہوگا۔ ِ - (فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ ) (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط) - اگر مرنے والی نے اولاد چھوڑی ہو تو موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے ادائے دَین و انفاذ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی حصہ ملے گا اور باقی تین چوتھائی دوسرے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔- (وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌج ) (فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ ) ( مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط) - اگر مرنے والے نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو ادائے دَین و انفاذ وصیت کے بعد اس کی بیوی کو اس کے ترکے کا چوتھائی ملے گا ‘ اور اگر اس نے کوئی اولاد چھوڑی ہے تو اس صورت میں بعد ادائے دَین و وصیت کے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر بیوی ایک سے زائد ہے تو بھی مذکورہ حصہ سب بیویوں میں تقسیم ہوجائے گا۔- (وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ ) ایسی ہی کلالہ وہ مرد یا عورت ہے جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ - (وَّلَہٗ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ ج ) (فَاِنْ کَانُوْآ اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ ) ّ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں کلالہ کی میراث کے حکم میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی (ماں شریک) بھائی اور بہن ہیں۔ رہے عینی اور علاتی بھائی بہن تو ان کا حکم اسی سورت کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ عربوں میں دراصل تین قسم کے بہن بھائی ہوتے ہیں۔ ایک عینیجن کا باپ بھی مشترک ہو اور ماں بھی ‘ جنہیں ہمارے ہاں حقیقیکہتے ہیں۔ دوسرے علاتیبہن بھائی ‘ جن کا باپ ایک اور مائیں جدا ہوں۔ اہل عرب کے ہاں یہ بھی حقیقی بہن بھائی ہوتے ہیں اور ان کا حکم وہی ہے جو عینیبہن بھائیوں کا ہے۔ وہ انہیں سوتیلا نہیں سمجھتے۔ ان کے ہاں سوتیلا وہ کہلاتا ہے جو ایک ماں سے ہو لیکن اس کا باپ دوسرا ہو۔ یہ اخیافیبہن بھائی کہلاتے ہیں۔ ایک شخص کی اولاد تھی ‘ وہ فوت ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی نے دوسری شادی کرلی۔ تو اب اس دوسرے خاوند سے جو اولاد ہے وہ پہلے خاوند کی اولاد کے اخیافی بہن بھائی ہیں۔ تو کلالہ کی میراث کے حکم میں یہاں اخیافی بھائی بہن مراد ہیں۔- (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِہَآ اَوْ دَیْنٍلا) - یہ دو شرطیں بہرصورت باقی رہیں گی۔ مرنے والے کے ذمے اگر کوئی قرض ہے تو پہلے وہ ادا کیا جائے گا ‘ پھر اس کی وصیت کی تعمیل کی جائے گی ‘ اس کے بعد میراث وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔- ( غَیْرَ مُضَآرٍّ ج) ۔- یہ سارا کام ایسے ہونا چاہیے کہ کسی کو ضرر پہنچانے کی نیت نہ ہو۔- (وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ط) یہ تاکید ہے اللہ کی طرف سے۔- (وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ ) ّاس کے حلم اور بردباری پر دھوکہ نہ کھاؤ کہ وہ تمہیں پکڑ نہیں رہا ہے۔ ع نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بےڈھب گرفت اس کی “ اس کی پکڑ جب آئے گی تو اس سے بچنا ممکن نہیں ہوگا : (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ ) (البروج) یقیناً تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :22 یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں ، اولاد ہونے کی صورت میں وہ 1 8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں 1 4 کی حصہ دار ہوں گی اور یہ 1 4 یا 1 8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :23 باقی 5 6 یا 2 3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا ، ورنہ اس پوری باقی ماندہ ملکیت کے متعلق اس شخص کو وصیت کرنے کا حق ہو گا ۔ اس آیت کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دوسرا ہو ۔ رہے سگے بھائی بہن ، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں ، تو ان کا حکم اسی سورہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :24 وصیت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں ۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محروم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو ، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محروم ہو جائیں ۔ اس قسم کے ضرار کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہل جنت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ یہ ضرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے ، مگر خاص طور پر کلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دور کے رشتہ داروں کو حصہ پانے سے محروم کر دے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :25 یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا ۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی صفت حلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل کرنا میراث کی تقسیم پر مقدم ہے، لیکن مرنے والے کو کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہئے جس کا مقصد اپنے جائز ورثا کو نقصان پہنچانا ہو، مثلا کوئی شخص اپنے وارثوں کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کی خاطر اپنے کسی دوست کے لئے وصیت کردے، یا اس کے حق میں قرضے کا جھوٹا اقرار کرلے، اور مقصد یہ ہو کہ اس کا پورا ترکہ یا اس کا کافی حصہ اس کے پاس چلا جائے اور ورثا کو نہ ملے یا بہت کم ملے تو ایسا کرنا بالکل ناجائز ہے، اور اسی لئے شریعت نے یہ قاعدہ مقرّر فرما دیا ہے کہ کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں ہوسکتی، نیز غیر وارث کے حق میں بھی ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کی جا سکتی۔