Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے ، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے ، ان کی بیوی یعنی حضرت حوا علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا ، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حضرت حوا کو پیدا کیا ، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لئے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لئے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے ۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو ، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حوا سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قسمیں صفتیں رنگ روپ بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے ، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا ، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت عبادت بجا لاتے رہو ، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو ، مثلاً یہ کہ ان میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو ، اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ارحام بھی ایک قرأت میں ہے یعنی اللہ کے نام پر اور رشتے کے واسطے سے ، اللہ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( واللہ علی کلی شئی شہید ) اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے ، صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے ، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو ، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، صحیح مسلم شریف کی ہو حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59 ۔ الحشر:18 ) کی تلاوت کی پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لئے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی یہ حدیث ، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 ایک جان سے مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی جان یعنی آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور آدم (علیہ السلام) سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں ؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رض) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔ 1۔ 2 والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] ایک جان سے مراد ابو البشر آدم ہیں۔ انہی سے آپ کی بیوی سیدہ حوا کو پیدا کیا گیا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میری وصیت مانو اور عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔ کیونکہ عورت کی خلقت پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی کے اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو ۔ تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہذا میری وصیت مانو اور ان سے اچھا سلوک کرو (بخاری : کتاب بدء الخلق، باب وإذ قال ربک للملائکۃ)- [٢] اس سورة کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جارہا ہے کہ اس سورة کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔- [٣] صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت :۔ قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان تعلقات کو بگاڑنا، خراب کرنا یا توڑنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رحم، رحمن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ )- ٢۔ فراخی رزق کا نسخہ :۔ نیز آپ نے فرمایا : جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے (بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم)- ٣۔ نیز آپ نے فرمایا قطعی رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا)- ٤۔ نیز آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے ؟ رحم نے کہا ہاں اے میرے رب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیری یہ بات منظور ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22؀) 47 ۔ محمد :22) ( سورة محمد، آیت : ٢٢) (بخاری و مسلم۔ حوالہ ایضاً )- ٥۔ آپ نے فرمایا بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ)- ٦۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔ (مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا)- ٧۔ سیدہ اسماء کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بےرغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج)- ٨۔ سیدنا ابو ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم)- ٩۔ آپ نے فرمایا : کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔ (ترمذی۔ ابو اب صفۃ القیامۃ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ : یعنی پوری نوع انسانی آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(قیامت کے دن) لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے، اے آدم آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( لقد أرسلنا ۔۔ ) : ٣٣٤٠، عن أبی ہریرہ (رض) ] ایک جان سے پیدا کرنے سے یہ توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ تم تمام انسان ایک شخص کی اولاد ہو، کوئی اور رشتہ داری نہ ہو تو یہ رشتہ داری کیا کم ہے، اس کا خیال ہی رکھو اور اپنے کمزوروں کی مدد کرتے رہو۔- 2 وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے، سو اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اس طرح فائدہ اٹھاؤ گے کہ اس میں برابر ٹیڑھا پن ہوگا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ٣٣٣١، ٥١٨٤، عن أبی ہریرہ (رض) ] بعض روایات میں ہے : ( وَ کَسْرُہَا طَلاَقُہَا ) ” اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔ “ [ مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء : ٥٩؍٧١٥۔ بخاری : ٥١٨٤ ]- قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ حواء[ آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ پسلی سے پیدا ہوئیں، اس کی کیفیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان نہیں کی۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ عورت میں کچھ ٹیڑھا پن رہتا ہی ہے، اس لیے اسے پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر قرآن کے صریح الفاظ کہ آدم سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، ان کے ساتھ حدیث ملائیں تو اس کا پسلی سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں، اس کی کجی بھی اپنی جگہ درست ہے۔ - تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ : یعنی جس اللہ کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اس اللہ سے ڈرو۔ ” وَالْاَرْحَامَ “ اس کا عطف لفظ ” اللہ “ پر ہے، یعنی ” وَاتَّقُوا الْأَرْحَامَ “ کہ قطع رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی سے بچو۔ ” الْاَرْحَامَ ‘ کو میم کے کسرہ سے پڑھنا غلط ہے اور قواعد نحویہ کی رو سے بھی ٹھیک نہیں، ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے، یعنی جس رشتہ داری کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (قرطبی) شوکانی (رض) فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت و لغت کا اتفاق ہے کہ ” الارحام “ سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے۔ دیکھیے سورة محمد (٢٢، ٢٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ “ [ بخاری، الأدب، باب إثم القاطع : ٥٩٨٤، عن جبیر بن مطعم (رض) ] اور فرمایا : ” جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کے نشان ( قدم) دیر تک رکھے جائیں وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب من بسط لہ فی الرزق۔۔ : ٥٩٨٣، عن أبی أیوب الأنصاری (رض) ]- رَقِيْبًا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠۔ مسلم : ٨، عن أبی ہریرۃ و عمر ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات و سورت - سورة آل عمران کی آخری آیت تقوی پر ختم ہوئی ہے اور یہ سورت بھی حکم تقوی سے شروع ہو رہی ہے، پہلی سورت میں بعض غزوات اور مخالفین کے ساتھ برتاؤ کرنے اور غزوات کے سلسلہ میں مال غنیمت حاصل ہونے پر خیانت کی مذمت اور بعض دیگر امور کا ذکر تھا، اس سورت کے شروع میں اپنوں سے میل جول یعنی حقوق العباد سے متعلق احکام ہیں، مثلاً یتیموں کے حقوق، رشتہ داروں اور بیویوں کے حقوق وغیرہ، لیکن حقوق کچھ تو ایسے ہیں جو قانون انضباط میں آسکتے ہیں اور ان کی ادائیگی بزور قانون کرائی جاسکتی ہے، جیسے عام معاملات بیع و شراء اجارہ و مزدوری کے ذریعہ پیدا ہونے والے حقوق، جو باہمی معاہدات اور صلح کے ذریعہ طے ہو سکتے ہیں، اگر کوئی فریق مقررہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو بزور حکومت بھی دلوائے جاسکتے ہیں، لیکن اولاد، والدین، شوہر اور بیویو یتیم بچے جو اپنی تحویل میں ہوں اور دوسرے رشتہ داران کے باہمی حقوق جو ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی کا مدار، ادب، احترام، دلداری، ہمدردی اور قلبی خیر خواہی پر ہے، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی کانٹے میں تولی نہیں جا سکتیں، اور معاہدات کے ذریعہ بھی ان کی پوری تعیین مشکل ہے، لہٰذا ان کی ادائیگی کے لئے بجز خوف خدا اور خوف آخرت کے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں، جس کو تقوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ تقوی کی طاقت حکومت اور قانون کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے اس سورت کو امر بالتقوی سے شروع فرمایا اور ارشاد ہوا :- یایھا الناس القواربکم، یعنی ” اے لوگو اپنے رب کی مخالفت سے ڈرو “ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو خطبہ نکاح میں پڑھا کرتے تھے اور خطبہ نکاح میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ خطاب یایھا الناس کے ذریعہ فرمایا گیا ہے جس میں تمام انسان شامل ہیں، مرد ہوں یا عورتیں اور نزول قرآن کے وقت موجود ہوں یا آئندہ قیامت تک پیدا ہوں، پھر حکم اتقوا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے لفظ رب کو اختیار کیا گیا جس میں امر تقوی کی علت اور حکمت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جو ذات تمہاری پرورش کی کفیل ہے اور جس کی شان ربوبیت کے مظاہر انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں مشاہدہ کرتا رہتا ہے، اس کی مخالفت اور سرکشی کس قدر خطرناک ہوگی۔- اس کے ساتھ ہی رب تعالیٰ کی ایک خاص شان کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنی حکمت و رحمت سے تم سب کو پیدا کیا، پھر پیدا کرنے اور موجود کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی تھیں، ان میں سے ایک خاص صورت کو اختیار فرمایا کہ سب انسانوں کو ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کر کے سب کو اخوة و برادری کے ایک مضبوط رشتہ میں باندھ دیا، علاوہ خوف خدا و آخرت کے اس رشتہ اخوة کا بھی یہی تقاضیٰ ہے کہ باہمی ہمدردی و خیر خواہی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اور انسان انسان میں ذات پات کی اونچ نیچ، نسلی اور لونی یا لسانی امتیازات کو شرافت و رذالت کا معیار نہ بنایا جائے، اس لئے فرمایا :- الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھاز وجھاوبت منھما رجالا کثیراً ونسآء یعنی ” اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے، آدم سے اس طرح پیدا فرمایا کہ پہلے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا، پھر اس جوڑے کے ذریعہ بہت سے مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔ “- غرض یہ پوری آیت ان احکام کی تمہید ہے جو آگے اس سورت میں آنے والے ہیں اس تمہید میں ایک طرف تو پروردگار عالم کے حقوق سامنے رکھ کر اس کی مخالفت سے روکا گیا، دوسری طرف تمام افراد انسانی کو ایک باپ کی اولاد بتلا کر ان میں محبت اور باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات کو بیدار کیا گیا، تاکہ اہل قرابت و یتیموں اور زوجین کے درمیان باہمی حقوق کی ادائیگی دل سے ہو سکے۔- اس کے بعد پھر اتقوا اللہ کا دوبارہ اعلان کیا ایک خاص عنوان سے فرمایا : واتقوا اللہ الذین تسآءلون بہ والارحام، یعنی ” اللہ تعالیٰ سے ڈر، جس کے نام پر تم دسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور جس کی قسمیں دے کر دوسروں سے اپنا مطلب نکالتے ہو۔ “ آخر میں فرمایا : والارحام، یعنی قرابت کے تعلقات خواہ باپ کی طرف سے ہوں خواہ ماں کی طرف سے، ان کی نگہداشت اور ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے بچو۔ - دوسری آیت میں یتیم بچوں کے حقوق کی تاکید اور ان کے اموال کی حفاظت کے احکام ہیں، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے :- خلاصہ تفسیر - اے لوگو اپنے پروردگار (کی مخالفت سے) ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار (یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، (کیونکہ سب آدمیوں کی اصل وہی ہیں) اور اس (ہی) جاندار سے اس کا جوڑا (یعنی ان کی زوجہ حواء کو) پیدا کیا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلائیں اور (تم سے مکرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کیا کرتے ہو (جس مطالبہ کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ خدا سے ڈر کر میرا حق دیدے، سو جب دوسروں کو خدا کی مخالفت سے ڈرنے کو کہتے ہو، تو معلوم ہوا کہ تم اس ڈرنے کو ضروری سمجھتے ہو تو تم بھی ڈرو) اور (اول تو تمام احکام الہیہ میں مخالفت سے بچنا اور ڈرنا ضرور ہے، لیکن اس مقام پر ایک حکم خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے) کہ قرابت (کے حقوق ضائع کرنے) سے بھی ڈرو، بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب (کے حالات کی اطلاع رکھتے ہیں (اگر مخالفت کرو گے مستحق سزا ہو گے) اور جن بچوں کا باپ مر جائے ان کے (مملوک) مال انہی کو پہنچاتے رہو (یعنی انہی کے خرچ میں لگاتے رہو) اور (جب تک تمہارے قبضہ میں ہو) تم (ان کے مال میں شامل کرنے کے لئے ان کی) اچھی چیز سے بری چیز کو مت بدلو (یعنی ایسا مت کرو کہ ان کی اچھی چیز تو نکال لی جاوے اور بری چیز ان کے مال میں ملا دی جاوے) اور ان کے مال مت کھاؤ اپنے مالوں ( کے رہنے) تک (البتہ جب تمہارے پاس کچھ نہ رہے تو بقدر حق الخدمت اپنے گذارہ کے لئے ان کے مال سے لینا درست ہے جیس آآگے آوے گا، ومن کان فقراً ) ایسی کارروائی کرنا (کہ بری چیز ان کے مال میں شامل کردی یا بلا ضرورت انکے مال سے منقطع ہوا) بڑا گناہ ہے (جس کی وعید آگے آئیگی ان الذین یا کلون اموال الیتامی الخ)- معارف و مسائل - یہ پہلا حکم ہے جو تمہید کے بعد ارشاد فرمایا گیا اور تمام تعلقات قرابت کی نگہداشت پر حاوی اور شامل ہے۔- صلہ رحمی کے معنی اور اس کے فضائل :۔- لفظ ارحام، رحم کی جمع ہے، رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے، چونکہ ذریعہ قرابت یہ رحم ہی ہے، اس لئے اس سلسلے کے تعقلات وابستہ رکھنے کو صلہ رحمی اور رشتہ داری کی بنیاد پر جو فطری طور پر تعلقات پید ہوگئے، ان کی طرف سے بےتوجہی و بےالتفاتی برتنے کو قطع رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔- احادیث شریفہ میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے، چناچہ ارشاد نبوی ہے۔- ” یعنی جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ “- اس حدیث سے صلحہ رحمی کے دو بڑے اہم فائدے معلوم ہوگئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی، دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔- عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے یہ تھے آپ نے فرمایا :- ” لوگو : ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو، اللہ کی رضا جوئی کے لئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو۔- جبکہ عام لوگ نیند کے مزے میں ہوں، یاد رکھو ان امور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے۔ “- ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) نے اپنی ایک باندی کو آزاد کردیا تھا، جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا :- ” اگر تم اپنے ماموں کو دیدیتیں تو زیادہ ثواب ہوتا۔ “- اسلام میں غلام باندی کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب ہے اور اسے بہترین کار ثواب قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود صلہ رحمی کا مرتبہ اس سے بہرحال اعلی ہے۔- اسی مضمون کی ایک اور روایت ہے، آپ نے فرمایا :- ” یعنی کسی محتاج کی مدد کرنا صرف صدقہ ہی ہے اور اپنے کسی عزیز قریب کی مدد کرنا دو امروں پر مشتمل ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔ “- صرف مصرف کے تبدیل کرنے سے دو طرح کا ثواب مل جاتا ہے۔- اس کے مقابلہ میں قطع رحمی کے حق میں جو شدید ترین وعیدیں روایات حدیث میں مذکور ہیں اس کا اندازہ دو حدیثوں سے بخوبی ہوسکتا ہے، آپ کا ارشاد ہے :- ” جو آدمی حقوق قرابت کی رعایت نہیں کرتا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ “- ” اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔ “- اخیر میں پھر دلوں میں ادا حقوق کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے فرمایا :- ان اللہ کان علیکم رقیباً یعنی ” اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے جو تمہارے دلوں اور ارادوں سے باخبر ہے۔ “ اگر رسمی طور پر شرما شرمی، بےدلی سے کوئی کام بھی کردیا مگر دل میں جذبہ ایثار و خدمت نہ ہوا تو قابل قبول نہیں ہے، اس سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ وہ سب پر ہمیشہ نگران ہے، قرآن کریم کا یہ عام اسلوب ہے کہ قانون کو محض دنیا کی حکومتوں کے قانون کی طرح بیان نہیں کرتا، بلکہ تربیت و شفقت کے انداز میں بیان کرتا ہے، قانون کے بیان کے ساتھ ساتھ ذہنوں اور دلوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝ ٠ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝ ١- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ، وقوله عزّ وجل : وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] إشارة إلى إيجاده تعالیٰ ما لم يكن موجودا وإظهاره إياه . وقوله عزّ وجلّ : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] أي : المهيّج بعد رکونه وخفائه .- وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] میں المبثوث سے مراد وہ پر وانے ہیں جو مخفی اور پر سکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو ۔ اور آیت نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدر بمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے جیسا کہ توذعنی الفکر کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- رحم ( المراۃ)- الرَّحِمُ : رَحِمُ المرأة، وامرأة رَحُومٌ تشتکي رحمها . ومنه استعیر الرَّحِمُ للقرابة، لکونهم خارجین من رحم واحدة ( ر ح م ) الرحم ۔ عورت کا رحم ۔ اور رحوم اس عورت کو کہتے ہیں جسے خرابی رحم کی بیماری ہو اور استعارہ کے طور پر رحم کا لفظ قرابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمام اقرباء ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس میں رحم و رحم دولغت ہیں - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سورة النساء - رشتوں کا احترام ضروری ہے - قول باری ہے (واتقواللہ الذی تساء لون بہ والارحام۔ اس خدا سے ڈروجس واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور راستہ و قرابت کے تعلقات ہورکاڑنے سے پرہیزکرو) حسن، عابد اورابراہیم کا قول ہے کہ آیت کا وہی مفہوم ہے جو اس قول کا ہے، اسالک باللہ وبالرحیم (میں تجھ سے اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں) ابن عباس (رض) ۔ قتادہ، سدی اور ضحاک کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے ، رشتہ و قرابت کے تعلقات کو ٹوڑنے اور بگاڑنے سے پرہیزکرو آیت میں اللہ کے نام پر اور اس کا واسطہ دے کر سوال کرنے کے جواز پر دلالت موجود ہے۔ لبیث نے مجاہد سے انھوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من سال باللہ فاعصوہ، جو شخص اللہ کا واسطہ دے کر اور اس کا نام لے کر سوال کرے اس کا سوال پوراکردیاکرو) معاویہ بن سوید روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا، ان میں سے ایک بات قسم کا پوراکرنا بھی تھی۔ اس روایت کی بھی اسی مفہوم پر دلالت ہورہی ہے جس پر سابقہ روایت دلالت کرتی ہے۔ قول باری (والارحام) میں رشتہ داری کی عظمت اور اہمیت بیان کی گئی ہے نیز اسے بگاڑنے یاتوڑنے کی مانعت کی تاکید بھی ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا (فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعوا ارحامکم، اگر تم وگردانی کروگے تو اس کے بعد عین ممکن ہے کہ زمین میں فساد برپا کرتے پھرو اور رشتہ دری کے تعلقات کو بگاڑ تے چلے جاؤ) اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے ساتھ قطع رحمی کو مقرون کرکے اس جرم کی سنگینی کو واضح کردیا ہے۔- قول باری ہے (لایرقبون فی مومن الاؤالاذمۃ کسی مومن کے بارے میں نہ یہ لوگ کسی قرابت داری کا پ اس کرتے ہیں اور نہ قول وقرارکا) لفظ، الا کے متعلق قول ہے کہ اس سے مراد قرابت داری ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتاما والمساکین والجارذی القربی۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاذکرو، قرابت داروں اور یتیمیوں اور مسکینوں اور پڑوسی رشتہ دار سے حسن سلوک کرو) رشتہ داری کی حرمت کی عظمت کے بیان میں قرآن مجید کی تائید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایات منقول ہیں۔ سفیان بن عینیہ نے زہری سے۔ انھوں نے ابومسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یقول اللہ اناالرحمن وھی الرحم شققت لھا من اسمی فمن وصھا وصلتہ من قطعھا بتتہ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ہیہ انام رحمن ہے اور رشتہ داری کا نام رحم ہے، میں نے اپنے نام سے اس کا نام نکالا ہے اس لیے جو شخص رشتہ داری کا پ اس کرے گا، میں بھی اس کا پ اس کروں گا اور جو شخص رحمی کرے گا میں کلبی اس سے قطع تعلق کروں گا)- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انھیں بشربن موسیٰ نے، انھیں ان کے ماموں حیان بن بشرنے، انھیں محمد بن الحسن نے امام ابوحنفیہ سے، انھیں ناصح نے یحییٰ بن کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریر (رض) ہ سے، انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے ذمایا مامن شئی اطیع اللہ فیہ اعجل ثوابا من صلۃ الرحم ومامن عمل عصی اللہ بہ اعجل عقیبۃ من البغی والیمین الضاجرۃ۔ اللہ کی اطاعت میں کوئی عمل صلہ رحمی سے بڑھ کر نہیں ہے جس کی جزاجلداز جلدمل جاتی ہو اور اللہ کی نافرمانی میں بغاوت اور جھوٹی قسم سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں جس کی سزاکم سے کم وقت میں مل جاتی ہو)- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انھیں بشربن موسیٰ نے، انھیں خالدبن خداش نے، انھیں صالح المری نے، انھیں یزید رقاشی نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الصلہ قدوصلۃ الرحم یزید اللہ بھما فی العمرویدفع بھما میتۃ السوء ویدفع اللہ بھما المحذوروالمکروہ، عذفہ خیرات اور صلہ رحمی کے ذریعے اللہ تعالیٰ عمہ میں برکت دیتا ہے اور بری موت کا خطرہ رورکردیتا ہے۔ نیزڈروالی بات اور تکلیف میں مبتلا کرنے والی ناپسندیدہ چیزکو بھی ہٹادیتا ہے۔- ہمیں عبدالباقی سے روایت بیان کی انھیں بشربن موسیٰ انھیں حمیدی نے انھیں سفیان نے زہری سے انھوں نے حمیدبن عبدالرحمن بن عوف سے انھوں نے اپنی ماں ام کلثوم نبت عقبہ سے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا (افصل الصدقۃ علی ذی الرحم الکاشح، بہترین صدقہ وہ ہے جو دشمنی رکھنے والے رشتردارپرکیاجائے) حمیدی نے الکاشخ کے معنی دشمن کے بیان کیے۔ اسی روایت کو سفیان نے زبہ ی سے، انھوں نے ایوب بن بشیہ سے، انھوں نے حکیم بن حزام سے اور انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا (افصل الصدقۃ علی ذی الرحم الکاشح حفصہ نبت سیرین نے رباب سے، انھوں نے سلمیان بن عامر سے ، انھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رہ ایت کی ہے آپ نے فرمایا (الصدقۃ علی المسلمین صدقۃ وعلی دی الرحم اثنتان لانھا صدقہ وصلۃ مسلمانوں پر صدقہ کرنا صرف ایک صدقے کے ثواب کا ھامل ہوتا ہے اور رشتہ دارپرصدقہ کرنا دوصدقوں کے ثواب کا سمامل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دوسری صورت صدقہ اور صلہ رحمی کی دونیکیوں پر مشتمل ہوتی ہے) ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ کتاب وسنت کی دلالت کی روشنی میں صلہ رحمی کا وجوب اور اس پر ثواب کا استحقاق ثابت ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشتہ دارپرصدقے کو صدقہ اور صلہ رحمی کی دونیکیاں قراردیں اور یہ تباز یا کہ صدقہ کے ثواب کے استحقاق کے ساتھ ساتھ ایسا شخص صلہ رحمی کی بناپر بھی ثواب کا مستحق ہوگا۔ اس سے ایک اور مسئلے پر دلالت ہوگئی کہ محرم رشتہ دارکو کوئی چیزہبہ کرنے کے بعد نہ اس میں رجوع درست ہوتا ہے اور نہ فسخ ہی خواہ ہبہ کرنے والا باپ ہویا کوئی اور۔ کیونکہ ایساہبہ اس حیثیت سے صدقہ کی طرح ہوگیا کہ اس میں اللہ کی خوشنودی اور ثواب کا استحقاق مطلوب ہوتا ہے جس طرح کہ صدقے کا مقصد بھی قرب الٰہی اور ثوا ب کا استحقاق ہوتا ہے جس کی بناپر اس میں رجوع کرلینا درت نہیں ہوتا۔ یہی حیثیت محرم رشتہ دارکوصدقہ کرنے کی ہوئی ہے۔ اس دلالت کی بناپرباپ کے لیے اپنے بیٹے کو کیے ہوٹے ہبہ میں رجوع کرنا درست ہے جس طرح کہ بیٹے کے علاوہ کسی اور محرم رشتہ دارکوکیے ہوئے ہبہ میں رجوع کرنا درست نہیں کیونکہ اس کی حیثیت صدقہ صبیسی ہوتی ہے۔ البتہ اگر باپ ضرورتمند ہو تو ایسی صورت میں ہبہ کی ہوئی چیز بیٹے سے واپس لے لینا اسی طرح درست ہے جس طرح بیٹے کی اور دوسری چیزیں لے لینا درست ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ کتاب وسنت میں صلہ رحمی کے وجوب کے سلسلے میں محرم رشتہ دار اور غیرمحرم رشتہ دار کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اس بناپریہ واجب ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو خواہ وہ محرم نہ ہوں مثلا چچازادبھائی یا دور کے رشتہ دار وغیرہ کو ہبہ کی ہوئی چیز میں رجوع کرنے کی حمانعت ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس معاملے میں اکرہم دو شخصوں کے درمیان صرف نسبی تعلق کا اعتبار کریں تو پھر کل نبی آدم کا اس میں اشتراک واجب ہوجائے گا، اس لیے کہ تمام انسان ہبہ کرنے والے سے نسبی تعلق رکھتے ہیں، ان سب کا سلسلہ نسبت حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان سے قبل حضرت آدم (علیہ السلام) پر اختتام پذیرہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات سرے سے غلط ہے۔ اس بناپریہ ضروری ہے کہ جس رشتہ داری کے ساتھ اس حکم کا تعلق ہو وہ ایسی ہو کہ طرفین میں ایک کو مرد اور دوسرے کو عورت فرض کرلیں تو ان دونوں کے ، بین نکاح درست نہ ہو۔ اس لیے کہ ایسے رشتہ داروں کے علاوہ باقی ماندہ رشتہ داروں میں یہ بات نہیں پائی جاتی جس کے کی بناپر ان کی حیثیت اجنبیوں کی سی ہوتی ہے۔- زیدبن علاقہ نے اسامہ بن شریک سے روایت کی ہے وہ ذماتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ اس وقت منی میں خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ آپ نے فرمایا ٠ امک وایاک وختک واخاک ثم ادناک فادناک۔ پہلے اپنی ماں، اپنے باپ اور اپنے بھائی بہنوں نے ساتھ صلہ رحمی کرو، اس کے بعد ان رشتہ داروں کے ساتھ جو درجہ بدرجہ تم سے قریب ہوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہمارے بیان کردوبات کی صحت پر دلالت کررہا ہے۔ تاہم اس کے باوجودا سے اپنے دور کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا بھی حکم دیاگیا ہے جن کے ساتھ قرب نہ ہونے کی بناپرمضبوط رشتہ داری نہ ہو جس طرح کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاگیا ہے لیکن اس حکم کی وجہ سے تحریم نکاح یارجوع فی الہیہ کا کوئی حکن متعلق نہیں ہوتابعینہ یہی صورت غیر محرم رشتہ داروں کی بھی ہے، ان کے ساتوحسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن چونکہ اس کی وجہ سے تحریم نکاح کا کوئی حکم لاحق نہیں ہوتا اس لیے ان کی حیثیت اجنبیوں جیسی ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالعسواب۔- یتیموں کو ان کا اصلی مال واپس کردینا اور وصی کو اس مال کے صرف کردینے کی ممانعت

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) اس مقام پر حکم عام ہے اور کبھی خاص بھی ہوتا ہے، اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں صرف نفس آدم (علیہ السلام) سے توالد وتناسل کے ذریعہ پیدا کیا اور حضرت حوا کو بھی ان سے پیدا کیا پھر ان دونوں سے بذریعہ توالد بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا کیں۔- اسی کی اطاعت کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا کرتے ہو، اور حقوق قرابت کے ضائع کرنے سے بھی ڈرو، اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت وفرمانبرداری کرو اور جن باتوں کا تمہیں کو حکم دیا گیا جیسا کہ اطاعت خداوندی اور صلہ رحمی وغیرہ ان سب کے متعلق تم سے پوچھ گچھ ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) - دیکھئے معاشرتی مسائل کے ضمن میں گفتگو اس بنیادی بات سے شروع کی گئی ہے کہ اپنے خالق ومالک کا تقویٰ اختیار کرو۔- (وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) - نوٹ کیجیے کہ یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اس نے تمہیں ایک آدم سے پیدا کیا اور اسی (آدم) سے اس کا جوڑا بنایا ‘ بلکہ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (ایک جان) کا لفظ ہے۔ گویا اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ عین آدم ( علیہ السلام) ہی سے ان کا جوڑا بنایا گیا ہو ‘ جیسا کہ بعض روایات سے بھی اشارہ ملتا ہے ‘ اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آدم کی نوع سے ان کا جوڑا بنایا گیا ‘ جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے۔ اس لیے کہ نوع ایک ہے ‘ جنسیں دو ہیں۔ انسان ( ) نوع ( ) ایک ہے ‘ لیکن اس کے اندر ہی سے جو جنسی تفریق ( ) ہوئی ہے ‘ اس کے حوالے سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔ - (وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج) ۔- مِنْہُمَاسے مراد یقیناً آدم و حوا ہیں۔ یعنی اگر آپ اس تمدن انسانی کا سراغ لگانے کے لیے پیچھے سے پیچھے جائیں گے تو آغاز میں ایک انسانی جوڑا (آدم و حوا) پائیں گے۔ اس رشتہ سے پوری نوع انسانی اس سطح پر جا کر رشتۂ اخوت میں منسلک ہوجاتی ہے۔ ایک تو سگے بہن بھائی ہیں۔ دادا دادی پر جا کر کا حلقہ بن جاتا ہے۔ اس سے اوپر پڑدادا پڑدادی پر جا کر ایک اور وسیع حلقہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح چلتے جایئے تو معلوم ہوگا کہ پوری نوع انسانی بالآخر ایک جوڑے (آدم و حوا) کی اولاد ہے۔ - (وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط) ۔- تقویٰ کی تاکید ملاحظہ کیجیے کہ ایک ہی آیت میں دوسری مرتبہ پھر تقویٰ کا حکم ہے۔ فرمایا کہ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ فقیر بھی مانگتا ہے تو اللہ کے نام پر مانگتا ہے ‘ اللہ کے واسطے مانگتا ہے ‘ اور اکثر و بیشتر جو تمدنی معاملات ہوتے ہیں ان میں بھی اللہ کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں کو جب نمٹایا جاتا ہے تو آخر کار کہنا پڑتا ہے کہ اللہ کا نام مانو اور اپنی اس ضد سے باز آجاؤ تو جہاں آخری اپیل اللہ ہی کے حوالے سے کرنی ہے تو اگر اس کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ جھگڑے ہوں گے ہی نہیں۔ اس نے اس معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق معین کردیے ہیں ‘ مثلاً مرد اور عورت کے حقوق ‘ رب المال اور عامل کے حقوق ‘ فرد اور اجتماعیت کے حقوق وغیرہ۔ اگر اللہ کے احکام کی پیروی کی جائے اور اس کے عائد کردہ حقوق و فرائض کی پابندی کی جائے تو جھگڑا نہیں ہوگا۔ ّ - مزید فرمایا کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ رحمی رشتوں کا اوّلین دائرہ بہن بھائی ہیں ‘ جو اپنے والدین کی اولاد ہیں۔ پھر دادا دادی پر جا کر ایک بڑی تعداد پر مشتمل دوسرا دائرہ وجود میں آتا ہے۔ یہ رحمی رشتے ہیں۔ انہی رحمی رشتوں کو پھیلاتے جایئے تو کل بنی آدم اور کل بنات حوا سب ایک ہی نسل سے ہیں ‘ ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔- ( اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ) ۔- یہ تقویٰ کی روح ہے۔ اگر ہر وقت یہ خیال رہے کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ‘ میرا ہر عمل اس کی نگاہ میں ہے ‘ کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں ہے تو انسان کا دل اللہ کے تقویٰ سے معمور ہوجائے گا۔ اگر یہ استحضار رہے کہ چاہے میں نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں اور پردے گرا دیے ہیں لیکن ایک آنکھ سے میں نہیں چھپ سکتا تو یہی تقویٰ ہے۔ اور اگر تقویٰ ہوگا تو پھر اللہ کے ہر حکم کی پابندی کی جائے گی۔ - یہ حکمت نبوت ہے کہ اس آیت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبۂ فکاح میں شامل فرمایا۔ نکاح کا موقع وہ ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان رشتۂ ازدواج قائم ہو رہا ہے۔ یعنی آدم کا ایک بیٹا اور حوا کی ایک بیٹی پھر اسی رشتے میں منسلک ہو رہے ہیں جس میں آدم اور حوا تھے۔ جس طرح ان دونوں سے نسل پھیلی ہے اسی طرح اب ان دونوں سے نسل آگے بڑھے گی۔ لیکن اس پورے معاشرتی معاملے میں ‘ خاندانی معاملات میں ‘ عائلی معاملات میں اللہ کا تقویٰ انتہائی اہم ہے۔ جیسے ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) کی تاکید فرمائی گئی۔ اس لیے کہ اگر تقویٰ نہیں ہوگا تو پھر خالی قانون مؤثر نہیں ہوگا۔ قانون کو تو تختہ مشق بھی بنایا جاسکتا ہے کہ بظاہر قانون کا تقاضا پورا ہو رہا ہو لیکن اس کی روح بالکل ختم ہو کر رہ جائے۔ سورة البقرۃ میں اسی طرزعمل کے بارے میں فرمایا گیا کہ : (وَلَا تَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًاز) (آیت ٢٣١) اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنالو “۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :1 چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں ، اس لیے تمہید اس طرح اٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں ۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی ۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسل انسانی پھیلی ۔ ”اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“ ، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ( تلمود میں اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا ) ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے ۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جب دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بکثرت یہ کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لئے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔