Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اپنے دلوں میں جھانکو مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں ۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا ( لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک ) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے ۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے ۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہاہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں ۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں ۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں ۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں ۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری ۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو ۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے ۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے ۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

281یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہوجائیں تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہوجائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں ؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انھیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ 282یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو ؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انھیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا ۔283کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی یہ مثال تمہارے حسب حال ہے جس سے بات باسانی تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے۔ مثال یہ ہے کہ فرض کرو تمہارے کچھ غلام ہیں۔ کیا تم ان غلاموں میں اپنا مال و دولت تقسیم کرسکتے ہو کہ وہ تمہارے ہمسر بن جائیں۔ تم تو اس بات سے اس طرح خائف ہوجاؤ گے جیسے تم اپنے ان بھائی بندوں سے ڈرتے ہو جو تمہاری جائیداد میں پہلے سے شریک ہیں۔ اگر تم اس مشترکہ جائیداد میں کچھ تصرف کرنے لگو تو وہ تمہیں روک بھی سکتے ہیں۔ تمہارا محاسبہ بھی کرسکتے ہیں اور مشترکہ جائداد کو تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ اب اگر تم اپنے غلاموں کو اپنی جائیداد میں برابر کا شریک بنالو۔ تو ان کے تمہارا غلام ہونے کے باوجود تمہیں ضرور ان سے ایسے ہی خطرات لاحق ہوجائیں گے اور تم یہ کام کبھی گوارا نہ کرو گے۔ حالانکہ تمہارے یہ علام انسانیت کے لحاظ سے تمہارے بھائی بند اور برابر درجہ کے لوگ ہیں۔ اب جو بات تم اپنے لئے گوارا نہیں کرسکتے وہ اللہ کے لئے کیسے گوارا کرلیتے ہو کہ اللہ کی مخلوق کو جو نوع کے لحاظ سے بھی اس کے مساوی نہیں بلکہ اس کی مخلوق اور مملوک ہے، اللہ کے اختیارات میں شریک قرار دے دیا جائے ؟ یہ کیسی دھاندلی کی تقسیم ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۔۔ : یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا آ رہا تھا، اب خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرک کے باطل ہونے کی مثال خود تمہاری ذات سے بیان فرمائی، تاکہ تمہیں کہیں دور نہ جانا پڑے۔ اپنے بارے میں یہی غور کرلو کہ تمہارے غلام جو تمہاری ملکیت میں ہیں، کیا ان میں سے کوئی بھی اس رزق میں تمہارا شریک ہے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے کہ وہ اور تم اس کے مالک ہونے میں برابر ہوجاؤ اور اپنے اس غلام سے اسی طرح ڈرو جیسے تم آزاد لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے ہو ؟ جواب ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں، غلام آقا کے اور مملوک مالک کے برابر کبھی نہیں ہوسکتا۔ تو پھر جب تم مانتے ہو کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود ہر مخلوق، فرشتے، انسان، جنّ ، انبیاء، اولیاء اور صلحاء، حجر، شجر اور بت وغیرہ سب کا مالک اللہ ہے اور وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں اور تم خود اپنے غلاموں کو (جو انسان ہونے میں تمہارے برابر ہیں) اپنے اختیارات دے کر اپنے شریک اور اپنے برابر بنانے کے لیے تیار نہیں تو تم نے مخلوق کو خالق کا اور مملوک کو مالک کا شریک کیسے بنا لیا جو اللہ تعالیٰ کے کسی بھی طرح برابر نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے لیے یہ مثال اس لیے بیان فرمائی کہ وہ اپنے بنائے ہوئے معبودوں کو بھی اللہ ہی کی ملکیت مانتے تھے۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ) ” حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ( وَیْلَکُمْ ، قَدْ قَدْ ) ” تم پر افسوس بس کرو، بس کرو۔ “ مگر وہ کہتے : ( إِلاَّ شَرِیْکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَ مَا مَلَکَ ) [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صف تھا ۔۔ : ١١٨٥ ] ” مگر تیرا ایک شریک ہے جس کا مالک تو ہے اور ان چیزوں کا بھی جن کا وہ مالک ہے۔ “ - كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : یعنی ہم ایسے ہی مثالوں کے ساتھ اور خوب کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ (شرک کو مذموم و باطل ثابت کرنے کے لئے) تم سے ایک مضمون عجیب تمہارے ہی حالات میں سے بیان فرماتے ہیں (وہ یہ کہ غور کرو) کیا تمہارے غلاموں میں کوئی شخص تمہارا اس مال میں جو ہم نے تم کو دیا ہے شریک ہے کہ تم اور وہ (باعتبار اختیارات کے) اس میں برابر ہوں جن کا تم (تصرفات کے وقت) ایسا خیال کرتے ہو جیسا اپنے آپس (کے شریک وسہیم آزاد خود مختار کا) خیال کیا کرتے ہو (اور ان سے اجازت لے کر تصرفات کیا کرتے ہو یا کم از کم اندیشہ مخالفت ہی ان سے رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ غلام اس طرح شریک نہیں ہوتا۔ پس جب تمہارا غلام جو نوع بشر اور بہت سی چیزوں میں تمہارا شریک ہے اور تمہیں جیسا ہے، فرق صرف ایک چیز میں ہے کہ تم مال و دولت کے مالک ہو وہ نہیں، اس کے باوجود جب وہ تمہارے خاص حق تصرف میں تمہارا شریک نہیں ہوسکتا تو تمہارے قرار دیئے ہوئے معبودات باطلہ جو کہ حق تعالیٰ کے غلام ہیں اور کسی کمال ذاتی یا وصفی میں اللہ تعالیٰ کے مماثل نہیں، بلکہ بعض تو ان میں سے مخلوقات الہیہ کے مصنوع ہیں۔ یہ معبودین حق تعالیٰ کے خاص حق معبودیت میں کس طرح اس کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہم نے جس طرح یہ دلیل شافی کافی بطلان شرک کی بیان فرمائی، ہم اس طرح سمجھداروں کے لئے دلائل صاف صاف بیان کرتے رہتے ہیں (اور مقتضا یہ تھا کہ وہ لوگ حق کا اتباع اختیار کرلیتے اور شرک چھوڑ دیتے مگر وہ حق کا اتباع نہیں کرتے) بلکہ ان ظالموں نے بلا (کسی صحیح) دلیل (کے محض) اپنے خیالات (فاسدہ) کا اتباع کر رکھا ہے سو جس کو (اس کی ہٹ دھرمی اور عناد و اصرار علی الباطل کی وجہ سے) خدا (ہی) گمراہ کرے اس کو کون راہ پر لاوے (اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ معذور ہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ غم نہ کریں آپ کا جو کام تھا وہ آپ کرچکے، اور جب ان گمراہوں کو عذاب ہونے لگے گا تو) ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا اور جب اوپر کے مضمون سے توحید کی حقیقت واضح ہوگئی) تو (مخاطبین میں سے ہر ہر شخص سے کہا جاتا ہے کہ) تم (ادیان باطلہ سے) یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین (حق) کی طرف رکھو ( اور سب) اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس (قابلیت) پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (مطلب فطرة اللہ کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں خلقۃً یہ استعداد رکھی ہے کہ اگر حق کو سننا اور سمجھنا چاہے تو وہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کے اتباع کا مطلب یہ ہے کہ اس استبعداد اور قابلیت سے کام لے اور اس کے مقتضا پر عمل کرے غرض اس فطرت کا اتباع چاہئے اور) اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا چاہئے پس سیدھا (رستہ) دین (کا) یہی ہے لیکن اکثر لوگ (اس کو بوجہ عدم تدبر کے) نہیں جانتے ( اس لئے اس کا اتباع نہیں کرتے غرض) تم خدا کی طرف رجوع ہو کر فطرت الہیہ کا اتباع کرو اور اس (کی مخالفت اور مخالفت کے عذاب) سے ڈرو اور (اسلام قبول کر کے) نماز کی پابندی کرو (جو توحید کا عملی اظہار ہے) اور شرک کرنے والوں میں سے مت رہو، جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا (یعنی حق تو یہ ایک تھا اور باطل بہت ہیں انہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی مختلف راہیں اختیار کرلیں، یہ ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے کہ ایک نے ایک راہ لے لی دوسرے نے دوسری اور بہت سے (مختلف) گروہ ہوگئے ( اور اگر حق پر رہتے تو ایک گروہ ہوتے اور باوجود اس کے کہ ان حق کے چھوڑنے والوں میں سب کے طریقے باطل ہیں، مگر پھر بھی غایت جہل سے ان میں) ہر گروہ اپنے اس طریقے پر نازاں ہیں جو ان کے پاس ہے اور (جس توحید کی طرف ہم بلاتے ہیں باوجود اس کے انکار اور خلاف کرنے کے اضطرار کے وقت عام طور پر لوگوں کے حال و قال سے اس کا اظہار و اقرار بھی ہونے لگتا ہے جس سے مضمون توحید کے فطری ہونے کی بھی تائید ہوتی ہے، چناچہ مشاہد کیا جاتا ہے کہ) جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے (اس وقت بےقرار ہو کر) اپنے رب (حقیقی) کو اسی کی طرف رجوع ہو کر پکارنے لگتے ہیں (اور سب معبودین کو چھوڑ دیتے ہیں مگر) پھر (قریب ہی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ) جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنی طرف سے کچھ عنایت کا مزہ چکھا دیتا ہے تو بس ان میں سے بعض لوگ (پھر) اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جو (آرام و عیش) ان کو دیا ہے اس کی ناشکری کرتے ہیں (جو عقلاً بھی قبیح ہے) سو (خیر) چند روز اور حظ حاصل کرلو پھر جلدی تم (حقیقت) معلوم کرلو گے (اور یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں خصوصاً اقرار توحید کے بعد تو ان سے کوئی پوچھے کہ اس کی کیا وجہ ہے) کیا ہم نے ان پر کوئی سند (یعنی کوئی کتاب) نازل کی ہے کہ وہ ان کو خدا کے ساتھ شرک کرنے کو کہہ رہی ہے (یعنی ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نقلی بھی نہیں اور مقتضائے ہدایت عقل کے خلاف ہونا خود ان کی تسلیم سے حالت اضطرار میں ظاہر ہوجاتا ہے، پس سرتاسر باطل ٹھہرا) اور (آگے مضمون بالا کا تتمہ ہے اور وہ یہ ہے کہ) ہم جب (ان) لوگوں کو کچھ عنایت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس سے (اس طرح) خوش ہوتے ہیں ( کہ خوشی میں مست ہو کر شرک کرنے لگتے ہیں جیسا اوپر ذکر آیا) اور اگر ان کے اعمال (بد) کے بدلے میں جو پہلے اپنے ہاتھوں کرچکے ہیں ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو بس وہ لوگ ناامید ہوجاتے ہیں (اس مقام میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تتمہ میں اصل مقصود پہلا جملہ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ ہے کہ اس میں ان کے مبتلائے شرک ہونے کا سبب بدمست اور غافل ہونا مذکور ہے، دوسرا جملہ محض تقابل کی مناسبت سے ذکر کردیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں حالتوں میں اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بہت کم اور ضعیف ہے، ذرا ذرا سی چیز اس تعلق کو فراموش کردیتی ہے۔ آگے اسی کی دوسری دلیل ہے کہ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں تو) کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جس کو چاہے کم دیتا ہے (اور مشرکین کے نزدیک یہ مسلم بھی تھا کہ روزی کا گھٹانا بڑھانا اصل میں خدا ہی کا کام ہے، لقولہ تعالیٰ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ اس (امر) میں (بھی توحید کی) نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں (یعنی وہ سمجھتے ہیں اور دوسرے بھی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ جو شخص ایسا قادر ہوگا مستحق عبادت کا وہی ہوگا) پھر (جب دلائل توحید میں معلوم ہوا کہ رزق میں بسط و قبض اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی کہ بخل کرنا مذموم ہے، کیونکہ بخل کرنے سے جتنا رزق مقدر ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتا، اس لئے نیک کاموں میں خرچ کرنے سے بخل نہ کیا کر بلکہ) قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو بھی (ان کے حقوق دیا کر جن کی تفصیل دلائل شرعیہ سے معلوم ہے) یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور (ہم نے جو یہ قید لگائی کہ یہ مضمون بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی رضا کے طلبگار ہوں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مطلق مال خرچ کردینا موجب فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ) جو چیز تم (دنیا کی غرض سے خرچ کرو گے مثلاً کوئی چیز) اس غرض سے کسی کو دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں (شامل ہو کر یعنی ان کے ملک و قبضہ میں) پہنچ کر (تمہارے لئے) زیادہ ہو (کر آ) جاوے (جیسا نوتہ وغیرہ رسوم دنیویہ میں اکثر اسی غرض سے دیا جاتا ہے کہ یہ شخص ہمارے موقع پر کچھ اور زائد شامل کر کے دے گا) تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا (کیونکہ خدا کے نزدیک پہنچنا اور بڑھنا اس مال کے ساتھ خاص ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کیا جائے جیسا آگے آتا ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ ایک تمرہ مقبولہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں یہ نیت تھی نہیں لہٰذا نہ مقبول ہوا نہ زائد ہوا) اور جو زکوٰۃ (وغیرہ) دو گے جس سے اللہ کی رضا طلب کرتے ہو گے تو ایسے لوگ (اپنے دیئے ہوئے کو) اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہیں گے (جیسا ابھی حدیث کا مضمون گذرا اور یہ مضمون اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت رزاق پر دلالت کرنے کی وجہ سے توحید کی تاکید کا ذریعہ ہے اس لئے یہ تبعاً آ گیا، اصل مقصود توحید کا بیان ہے، اسی لئے آگے پھر اسی توحید کا ذکر ہے۔ )- اللہ ہی وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تم کو موت دیتا ہے پھر (قیامت میں) تم کو جلائے گا (ان میں بعض امور تو مخاطبین کے اقرار سے ثابت ہیں اور بعض دلائل سے، غرض کہ وہ ایسا قادر ہے، اب یہ بتلاؤ کہ) کہ تمہارے شرکاء میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرسکے (اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں، اس لئے ثابت ہوا کہ) وہ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 7- ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝ ٢٨- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے کفار مکہ اللہ تعالیٰ تم سے ایک عجیب مضمون تمہارے جیسے انسانوں میں سے بیان کرتا ہے۔- شان نزول : هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ (الخ)- طبرانی نے ابن عساکر سے روایت کیا ہے کہ مشرکین اس طرح تلبیہ پڑھا کرتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک۔ اس کے بعد کہا کرتے تھے الا شریکا ھو لک تملکہ ومالک یعنی نعوذ باللہ تیرا صرف ایک شریک ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ھل لکم (الخ) یعنی کیا تمہارے غلاموں میں کوئی تمہارا اس مال میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے شریک ہے اور جبیر نے بواسطہ داؤد بن ابی ہند اور ابو جعفر محمد بن علی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ) ” - ظاہر ہے کوئی آقا اپنے کسی غلام کو کبھی بھی اپنی ملکیت اور اپنی جائیداد میں اس طرح تصرف کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا حق اور اختیار خود اس کے برابر ہوجائے۔ گویا یہ امر محال ہے۔- (تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ط) ” - یعنی کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے خدشات اور اندیشے تم اپنی ذات اور اپنے مال و اسباب کے بارے میں رکھتے ہو ان لونڈی غلاموں کے بارے میں بھی تمہیں ایسے ہی اندیشے لاحق ہوئے ہوں ؟ تم لوگ اپنے آپ ‘ اپنی اولاد ‘ اپنی ملکیت کے بارے میں تو ہر وقت متفکرّ رہتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘ ویسا نہ ہوجائے ‘ مگر کبھی تمہیں اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی سوچوں نے پریشان کیا ہے ؟ - (کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ” - یعنی تم لوگ اگر کچھ بھی عقل رکھتے ہو تو تمہیں اس مثال سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جب تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے برابر بٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر تم یہ کیسے سوچ لیتے ہو کہ اللہ اپنی مخلوق کو اپنے برابر کرلے گا ؟ تم لوگ خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ بڑا معبود اللہ ہی ہے اور تمہارے بنائے ہوئے شریک چھوٹے معبود ہیں تو تم چھوٹے معبودوں کے بارے میں کیسے گمان کرلیتے ہو کہ اللہ انہیں اپنے اختیارات کا مالک بنا دے گا اور ان کی سفارش اللہ کو مجبور کر دے گی ؟ تمہارے یہ من گھڑت معبود چاہے ملائکہ میں سے ہوں یا انبیاء اور اولیاء اللہ میں سے ‘ وہ سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور مخلوق میں سے یہ لوگ خالق کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 39 یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان ملا جلا چل رہا تھا ۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائل یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہورہا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 40 مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے ، اس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھہراتے تھے ، اور ان سے دعائیں مانگتے ، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے ، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے ۔ ان بناوٹی شریکوں کے بارے میں ان کا اصل عقیدہ اس تلبیہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے ۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبیک اللھم لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک ( طبرانی عن ابن عباس ) میں حاضر ہوں ، میرے اللہ میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرا اپنا ہے ، تو اس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے ۔ اللہ تعالی اس آیت میں اسی شرک کی تردید فرما رہا ہے ۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پاسکتے ، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ النحل حاشیہ 62 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: کوئی بھی شخص یہ گوارا نہیں کرتا کہ اُس کا غلام اُس کی اَملاک میں اُس کے برابر ہوجائے اور کوئی کام کرتے وقت اُس سے اسی طرح ڈرنا پڑے جیسے دو آزاد آدمی جو کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہوں، ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ اگر یہ بات یہ مشرک لوگ اپنے لئے گوارا نہیں کرتے تو اﷲ تعالیٰ کی خدائی میں دوسروں کو کیسے شریک ٹھہرا دیتے ہیں؟