[٤٤] اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن ایام میں حضرت مریم ہیکل کے حجرہ میں مقیم رہ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کرتی تھیں ان دنوں فرشتے ان سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔ فرشتوں ہی نے حضرت مریم کو اطلاع دی کہ اس کا پروردگار اس پر کس قدر مہربان ہے اور اس نے حضرت مریم کو سارے جہان کی عورتوں پر فضیلت اور ترجیح دی ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : مردوں میں تو بہت سے باکمال لوگ ہو گزرے ہیں مگر عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوا۔ بجز مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب قولہ تعالیٰ (وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ 42) 3 ۔ آل عمران :42) ساتھ ہی ساتھ فرشتوں نے حضرت مریم کو یہ ہدایت بھی کی وہ بطور شکریہ اللہ تعالیٰ کی مزید فرمانبردار بن کر رہے اور اس مسجد میں جو جماعت ہوا کرتی تھی، وہ بھی اس میں شامل ہو کر نماز باجماعت کا اہتمام کرے۔
وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ : مریم [ چونکہ بیت المقدس کے ساتھ محراب میں رہتی تھیں اور بیت المقدس کی خادمہ تھیں، اس لیے انھیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔
(وارکعی مع الراکعین) یہاں ارکعی کے ساتھ مع الراکعین کی قید ذکر کی گئ، لیکن واسجدی کے ساتھ مع السجدین کی قید ذکر نہیں کی گئی، اس سے بظاہر اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ رکوع کرنے میں لوگ عموما اہتمام نہیں کرتے بلکہ معمولی سا جھک کر اٹھ جاتے ہیں، اس قسم کا رکوع قیام کے قریب زیادہ ہوتا ہے، اس لئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راکعین کی قید ذکر کر کے لوگوں کے لئے ایک نمونہ بتلادیا کہ تمہارا رکوع کامل رکوع کرنے والوں جیسا ہونا چاہئے۔
يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ٤٣- قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه - ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں
طویل قیام والی نماز افضل ہے - قول باری ہے (یامریم اقنتی لربک واسجدی وادکعی مع الراکعین، اے مریم اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ اس کے سامنے سجدہ ریزہوجا اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جا) سعید کا قول ہے۔ اپنے رب کے لیے مخلص ہوجا۔ قتادہ کا قول ہے۔ ہمیشہ اپنے رب کی اطاعت پر کمربستہ رہ۔ مجاہد کا قول ہے۔ نماز میں طویل قیام کر۔ قنوت کے اصل معنی کسی چیزپردوام کرنا ہیں۔ مذکورہ بالاتمام وجوہ میں حضرت مریم کے حال کی زیادہ مناسب وجہ نماز میں طویل قیام کا حکم ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (افضل الصلوہ طول القضوت، افضل ترین نماز وہ جس میں طول قنوت ہو اس پر قول باری (واسجدی وارکعی) کا عطف بھی دلالت کرتا ہے۔ حضرت مریم کو قیام رکوع اور سجود کا حکم دیا گیا اور تینوں باتیں ارکان صلوۃ ہیں۔ اسی بناپرتمام اہل مقامات قرار پائے اس لیئے کہ یہاں سجدہ کے ذکرکے ساتھ رکوع اور قیام کا بھی ذکر ہے اس لیے یہ نماز کا حکم قرارپایا۔ یہاں اس بات پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حرف واؤ ترتیب کو واجب نہیں کرتا اس لیے کہ معنی کے لحاظ سے رکوع سجدے پر مقدم ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں الفاظ میں سجدے کو مقدم کردیاگیا ہے۔
(٤٣) لہٰذا اس چیز کے شکر ادا کرنے کے لیے اپنے پروردگار کی اطاعت کرتی رہو، یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ اس چیز کے شکریہ میں نمازیں خوب لمبی پڑھو اور خشوع و خضوع والی اور نماز والوں کے ساتھ نماز میں رکوع و سجدہ میں یعنی اٹھتے بیٹھتے بھی عبادت میں مصروف رہو۔
آیت ٤٣ (یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ (وَا سْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ )- یعنی نماز باجماعت کے اندر شریک ہوجایا کرو۔