41۔ 1 بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوشخبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اور نشانی معلوم کرنی چاہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین دن تیری زبان بند ہو جائیگی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہوگی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر تاکہ اس نعمت الٰہی کا جو تجھے ملنے والی ہے شکر ادا ہو یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کا شکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔
[٤٣] چناچہ اللہ تعالیٰ نے زکریا کی دعا قبول فرمائی۔ ایک دفعہ جب محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے تو فرشتوں نے آپ کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کا نام یحییٰ بھی خود تجویز فرما دیا اور اس کی صفات بھی بیان فرما دیں جو یہ تھیں :- (١) اس کا نام اللہ تعالیٰ نے خود یحییٰ رکھا اور بتلایا کہ پہلے آج تک کسی انسان کا یہ نام نہیں رکھا، (٢) کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرے گا، (٣) وہ بنی اسرائیل کا سردار ہوگا اور اس قوم کی خراب حالت کی اصلاح کرے گا ( ، ٤) وہ حصور ہوگا، یعنی اس کی نہ تو عورتوں کی طرف کچھ رغبت ہوگی اور نہ گناہ کے کاموں کی طرف۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ (٥) وہ نبی ہوگا اور پاک بازلوگوں میں سے ہوگا۔- چناچہ جب حضرت زکریا نے فرشتوں کی زبانی ایسے شان والے فرزند ارجمند کی بشارت سنی تو مسرت واستعجاب کے ملے جلے جذبات سے اللہ کے حضور وہی مانع حمل اسباب بتلا دیئے جن کی وجہ سے آپ اب اولاد سے مایوس ہوچکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مانع حمل اسباب کے باوجود اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ جیسے چاہے کرسکتا ہے۔ اب زکریا کا اگلا سوال یہ تھا کہ اس استقرار حمل کی کوئی علامت بتلا دی جائے، جب یہ عجیب غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا علامت یہ ہے کہ آپ لوگوں سے مسلسل تین دن تک بات چیت نہ کرسکیں گے، پس ہاتھ، آنکھ اور ابرو کے اشارہ سے کلام چلائیں گے ان دنوں تمہاری زبان صرف اللہ کے ذکر پر چل سکے گی۔ لہذا ان دنوں میں صبح و شام زیادہ سے زیادہ اللہ کی تسبیح اور ذکر اذکار کرتے رہنا۔- واضح رہے کہ وحی الٰہی کی سب سے معروف صورت تو یہ ہے کہ جبریل امین نبی کے دل پر نازل ہو کر وحی کا القاء کرتا ہے۔ یا بعض اوقات کبھی انسان کی صورت میں آکر نبی سے بات چیت کرتا ہے اور یہ ایسی وحی ہوتی ہے جس کا تعلق صرف نبی سے نہیں امت سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک فرشتہ کی بجائے الملائکہ (فرشتے) کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ وحی کی ایک خاص قسم ہے اور اس کا تعلق صرف مخاطب سے ہوتا ہے۔ یعنی فرشتوں کا مخاطب سے مکالمہ ہوتا ہے ایسے مخاطب کا نبی ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی وحی کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ چناچہ ایسا ہی مکالمہ فرشتوں نے حضرت مریم سے بھی کیا۔ حالانکہ وہ نبی نہیں تھیں۔ ایسی وحی کی کیا کیفیت ہے ؟ اس قسم کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی تصریح نہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ انسان کی عقل اسے سمجھنے سے اور زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے تو بالکل درست ہوگا۔
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ ۔۔ : زکریا (علیہ السلام) کا تعجب اس حد تک بڑھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی نشانی کی درخواست کردی، فرمایا کہ تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک صحیح سالم ہونے کے باوجود (ہاتھ یا ابرو وغیرہ کے) اشارے کے سوا لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے، لہٰذا اس دوران تم اپنا سارا وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر و شکر اور تسبیح میں صرف کرو۔
(قال ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا) حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نشانی معلوم کرنے سے مقصود یہ تھا کہ ہمیں جلدی ہو، اور بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شکر میں مشغول ہوں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نشانی عطا کی کہ آپ تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے کوئی کلام نہیں کرسکیں گے۔- اس نشانی میں لطافت یہ ہے کہ نشانی کی درخواست سے جو ان کا مقصود تھا کہ شکر ادا کریں، نشانی ایسی تجویز کی گئ کہ بجز اس مقصود کے دوسرے کام ہی کے نہ رہیں گے، سو (١٠٠) نشانیوں کی ایک نشانی ہوگئی، اور مقصود کا مقصود بدرجہ اتم حاصل ہوگیا۔ ( بیان القرآن) - (الا رمزا) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب کلام کرنا متعذر ہو تو اشارہ قائم مقام کلام کے سمجھا جائے گا، چناچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گونگی باندی سے سوال کیا کہ (این اللہ) " اللہ کہا ہے ؟ " تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ باندی مسلمان ہے۔ (قرطبی)
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْٓ اٰيَۃً ٠ ۭ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰــثَۃَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا ٠ ۭ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ ٤١ ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - رمز - الرَّمْزُ : إشارة بالشّفة، والصّوت الخفيّ ، والغمز بالحاجب، وعبّر عن کلّ کلام كإشارة بالرّمز، كما عبّر عن الشّكاية بالغمز قال تعالی: قالَ : آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزاً [ آل عمران 41] ، وما ارْمَازَّ ، أي : لم يتكلّم رمزا، وكتيبة رَمَّازَةٌ: لا يسمع منها إلّا رَمْزٌ من کثرتها - ( ر م ز ) الرمز ( ن ) ہونٹ کے ساتھ اشارہ کرنے یا ہلکی سی آواز کے ہیں ۔ اور ابرو کے ساتھ اشارہ کرنے کو غمز کہا جاتا ہے پھر استعمال میں ہر وہ کلام جو اشارہ کی طرح ہو رمز کہلاتی ہے جیسا کہ شکایت کو غمز کہہ دیتے ہیں : ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزاً [ آل عمران 41] نشانی ( جو تم مانگتے ہو ) یہ ہے کہ تین روز تک لوگوں سے بات نہ کرو مگر اشارہ سے ۔ اور ما ارماز کے معنی ہیں اس نے اشارہ سے بھی بات نہ کی اور کتیبۃ رمازۃ بڑے لشکر کو کہتے ہیں کیونکہ بوجہ کثرت ازدحام کے اس میں آواز سنائی نہیں دیتی اور صرف اشاروں سے کام لیا جاتا ہے - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- بكر - أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً.- وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر - بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب - وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل :- أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] ، قال الشاعر - يا بکر بكرين ويا خلب الکبد - «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها .- ( ب ک ر )- اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔
راتوں کے شمار میں دن اور دنوں کے شمار میں راتیں خودبخود آجاتی ہیں۔- قول باری ہے (قال رب اجعل لی ایۃ قال ایتک الاتکلہ الناس ثلثۃ ایام الارمزا، عرض کیا، مالک پھر کوئی نشانی میرے لیے مقررفرمادے، کہا نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرسکوگے) کہاجاتا ہے کہ حضرت زکریاعلیہ السلام نے وقت حمل کے لیئے نشانی طلب کی تاکہ خوشی کے حصول میں عجلت ہوجائے، انہیں یہ نشانی دی گئی کہ ان کی زبان رک گئی۔ اور وہ اشارہ کے سوالوگوں سے گفتگو کرنے کے قابل نہ رہے۔ حسن بصری ربیع اور قتادہ سے یہی مروی ہے۔ اس آیت میں قول باری ہے (ثلثۃ آیام) اور سورئہ مریم میں بعینہ اس واقعہ کے سلسلے میں ارشاد ہے۔- (ثلث لیال سویا۔ تین پوری راتیں) اللہ تعالیٰ نے اس مدت کو کبھی دنوں کے ذکر سے تعبیر کیا اور کبھی راتوں کے ذکر سے۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ رات اور دن کی تعداد میں سے جس کسی کا بھی علی الاطلاق ذکر ہوگا۔ دوسرے وقت کی تعدادخودبخود سمجھ میں آجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اللہ تعالیٰ نے راتوں اور دنوں کے درمیان فرق کرنا چاہاتو دونوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا۔ ارشادہوا (سبع لیال وثمانیۃ ایام حسوما، منحوس سات راتیں اور آٹھ دن) اس لیے کہ اگر پہلے عدد کے ذکرپراقتصارہوتا تو دوسرے وقت سے بھی اسی جیسا مفہوم سمجھ میں آجاتا۔
(٤١) حضرت زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میری بیوی کے حمل ٹھہرجانے پر کوئی ظاہری نشانی مقرر فرما دیجیے، ارشاد باری ہوا کہ تمہاری بیوی کے حاملہ ہونے پر تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے کچھ عرصہ تک بات نہ کرسکو گے اور اس میں گونگے ہونے کا کوئی عیب نہ ہوگا، سوائے ہونٹوں، آنکھوں اور ہاتھوں سے اشارہ کرنے کے یا یہ کہ زمین وغیرہ پر لکھ کر وضاحت کرنے کے۔- سو اپنے رب کو دل اور زبان سے بکثرت یاد کیجیے اور صبح وشام نماز پڑھتے رہنا جیسا کہ پڑھتے ہو۔
آیت ٤١ (قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْ اٰیَۃً ط) ۔- مجھے معلوم ہوجائے کہ واقعی ایسا ہونا ہے اور یہ کلام جو میں سن رہا ہوں واقعتا تیری طرف سے ہے۔ - (قَالَ اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ الاَّ رَمْزًا ط) ۔- یعنی ان کی قوت گویائی سلب ہوگئی اور اب وہ تین دن کسی سے بات نہیں کرسکتے تھے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :41 یعنی ایسی علامت بتادے کہ جب ایک پیر فرتوت اور ایک بوڑھی بانجھ کے ہاں لڑکے کی ولادت جیسا عجیب غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہو تو اس کی اطلاع مجھے پہلے سے ہو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :42 اس تقریر کا اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں ۔ تمہید میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح علیہ السلام کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اسی طرح ان سے چھ ہی مہینہ پہلے اسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دوسری طرح کے معجزے سے ہو چکی تھی ۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیٰی علیہ السلام کو ان کی اعجازی ولادت نے الٰہ نہیں بنایا تو مسیح علیہ السلام محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔
16: حضرت زکریا (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ کوئی نشانی معلوم ہوجائے جس سے یہ پتہ چل جائے کہ اب حمل قرار پاگیا ہے تاکہ وہ اسی وقت سے شکر ادا کرنے میں لگ جائیں اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتلائی کہ جب حمل قرار پائے گا تو تم پر ایسی حالت طاری ہوجائے گی کہ تم اللہ کے ذکر اور تسبیح کے سوا کسی کسے کوئی بات نہیں کرسکوگے اور بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تواشاروں سے کرنی ہوگی۔