Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

172۔ 1 جب مشرکین جنگ احد سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے تو ایک سنہری موقع ضائع کردیا۔ مسلمان شکست خوردنی کی وجہ سے خوف زدہ اور بےحوصلہ تھے ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر بھرپور حملہ کردینا چاہیے تھا تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سر زمین (مدینہ) سے ہی نیست و نابود ہوجاتا۔ ادھر مدینہ پہنچ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پلٹ کر آئیں لہذا آپ نے صحابہ کرام کو لڑنے کے لئے آمادہ کیا اور صحابہ کرام تیار ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے 8 میل واقع حمراء الاسد پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا چناچہ ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی بجائے مکہ واپس چلے گئے، اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء بھی مدینہ واپس آگئے۔ آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ و رسول کی تعریف کی گئی ہے۔ بعض نے اس کا سبب نزول حضرت ابو سفیان کی اس دھمکی کو بتلایا ہے کہ آئندہ سال بدر صغریٰ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ (ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جس پر مسلمانوں نے بھی اللہ و رسول کی اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کرلیا۔ (ملخص از فتح القدیر و ابن کثیر مگر یہ آخری قول سیاق سے میل نہیں کھاتا)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٠] حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر سے فرمایا : (اے میرے بھانجے تیرے والد اور تمہارے نانا) ابوبکر صدیق (رض) بھی انہیں لوگوں میں سے تھے، جب احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو صدمہ پہنچنا تھا، پہنچ چکا اور مشرکین (مکہ کو) لوٹ گئے تو آپ کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں واپس آکر پھر نہ حملہ آور ہوں۔ لہذا آپ نے فرمایا کہ کون ان کافروں کا تعاقب کرتا ہے۔ آپ کا یہ ارشاد سن کر ستر آدمی تعاقب کے لیے تیار ہوگئے جن میں ابوبکر صدیق (رض) اور زبیر بھی تھے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب ( اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ ١٧٢؁ۚ ) 3 ۔ آل عمران :172) اس آیت کی تشریح کے لیے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ١٣٧ ملاحظہ فرمائیے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ حمراء الاسد، یعنی جنگ احد سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ احد سے پلٹ کر جب مشرکین چند منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کا پوری طرح خاتمہ کیے بغیر واپس چلے آئے۔ چناچہ وہ مدینے پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے، ادھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی تو آپ نے مسلمانوں کو مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا، تاکہ وہ واقعی پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کردیں۔ اس وقت اگرچہ شرکائے احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے تھے لیکن اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد (نامی جگہ) پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انھوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں، اگلے سال پھر آئیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ چناچہ آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کو بشارت ہے۔ (ابن کثیر)- عائشہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا : ” اے میرے بھانجے تیرے دونوں باپ زبیر (والد) اور ابوبکر (نانا) بھی ان میں شامل تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احد میں وہ تکالیف پہنچیں جو پہنچیں اور مشرکین واپس چلے گئے تو آپ نے خوف محسوس کیا کہ وہ پلٹ نہ آئیں تو فرمایا : ” ان کے پیچھے کون جائے گا ؟ “ تو ان میں سے ستر آدمیوں نے لبیک کہا، ان میں ابوبکر اور زبیر بھی تھے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب ( الذین استجابوا للہ والرسول ) : ٤٠٧٧، عن عائشۃ (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جن لوگوں نے اللہ و رسول کے کہنے کو (جبکہ ان کو تعاقب کفار کے لئے بلایا گیا) قبول کرلیا بعد اس کے کہ ان کو (ابھی تازہ) زخم (لڑائی میں) لگا تھا ان لوگوں میں جو نیک اور متقی ہیں (اور واقع میں سب ہی ایسے ہیں) ان کے لئے (آخرت میں) ثواب عظیم ہے، یہ ایسے (مخلص) لوگ ہیں کہ (بعض) لوگوں نے (یعنی عبدالقیس والوں نے جو) ان سے (آکر) کہا کہ ان لوگوں (یعنی اہل مکہ نے) تمہارے (مقابلہ کے) لئے (بڑا) سامان جمع کیا ہے، سو تم کو ان سے اندیشہ کرنا چاہئے تو اس (خبر) نے ان کے (جوش) ایمان کو اور زیادہ کردیا اور (نہایت استقلال سے یہ) کہہ (کر بات کو ختم کر) دیا کہ ہم کو حق تعالیٰ (مشکلات کے لئے) کافی ہے اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لئے اچھا ہے (اسی سپرد کرنے کو توکل کہتے ہیں) پس یہ لوگ خدا کی نعمت اور فضل سے (یعنی ثواب اور نفع تجارت سے) بھرے ہوئے واپس آئے کہ ان کو کوئی ناگواری پیش نہیں آئی اور وہ لوگ (اس واقعہ میں) رضائے حق کے تابع رہے (اس کی بدولت اپنی دنیوی نعمتوں سے سرفراز ہوئے) اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے (مسلمانو ) اس سے زیادہ کوئی (قابل اندیشہ) بات نہیں کہ یہ مخبر (فعلاً ) شیطان ہے کہ اپنے (ہم مذہب) دوستوں سے (تم کو ڈرانا (چاہتا ہے، سو تم ان سے کبھی مت ڈرنا اور صرف مجھ ہی سے ڈرنا اگر تم ایمان والے ہو۔ - معارف ومسائل - ربط آیات اور شان نزول :- اوپر غزوہ احد کے قصہ کا ذکر تھا، مذکورہ آیات میں اسی غزوہ سے متعلق ایک دوسرے غزوہ کا ذکر ہے، جو غزوہ حمرا الاسد کے نام سے مشہور ہے، حمرالاسد مدینہ طیبہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے۔ واقعہ اس غزوہ کا یہ ہے کہ جب کفار مکہ احد کے میدان سے واپس ہوگئے، تو راستے میں جا کر اس پر افسوس ہوا کہ ہم غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس لوٹ آئے، ہمیں چاہئے تھا کہ ایک ہلہ کر کے سب مسلمانوں کو ختم کردیتے اور اس خیال نے کچھ ایسا اثر کیا کہ پھر واپس مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارداہ کرنے لگا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر رعب ڈال دیا اور سیدھے مکہ مکرمہ کو ہو لئے، لیکن بعض مسافروں سے جو مدینہ کی طرف جا رہے تھے یہ کہہ گئے کہ تم جا کر کسی طرح مسلمانوں کے دل میں ہمارا رعب جماؤ کہ وہ پھر لوٹ کر آ رہے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم ہوگئی، اس لئے آپ ان کے تعاقب میں حمرا الاسد تک پہنچے (ابن جریر کذافی الروح)- تفسیر قرطبی میں ہے کہ احد کے دور سے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مجاہدین میں اعلان فرمایا کہ ہمیں مشرکین کا تعاقب کرنا ہے، مگر اس میں صرف وہی لوگ جاسکیں گے جو کل کے معرکہ میں ہمارے ساتھ تھے، اس اعلان پر دو سو مجاہدین کھڑے ہوگئے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا کہ کون ہے جو مشرکین کے تعاقب میں جائے تو ستر حضرات کھڑے ہوگئے جن میں ایسے لوگ بھی تھے جو گزشتہ کل کے معرکہ میں شدید زخمی ہوچکے تھے، دوسروں کے سہارے چلتے تھے، یہ حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین کے تعاقب میں روانہ ہوئے، مقام حمراء الاسد پر پہنچنے تو وہاں نعیم بن مسعود ملا، اس نے خبر دی کہ ابوسفیان نے اپنے ساتھ مزید لشکر جمع کر کے پھر یہ طے کیا ہے کہ پھر مدینہ پر چڑھائی کریں اور اہل مدینہ کا استیصال کریں، زخم خوردہ ضعیف صحابہ اس خبر و وحشت اثر کو سن کر یک زبان ہو کر بولے کہ ہم اس کو نہیں جانتے حسبنا اللہ و نعم الوکیل یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہتر مددگار ہے۔- اس طرف تو مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے یہ خبر دی گئی اور مسلمان اس سے متاثرہ نہیں ہوئے، دوسری طرف معبد خزاغی بنی خزاعہ کا ایک آدمی مدینہ سے مکہ کی طرف جا رہا تھا یہ اگرچہ مسلمان نہ تھا مگر مسلمانوں کا خیر خواہ تھا، اس کا قبیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف تھا، اس لئے جب راستہ میں مدینہ سے لوٹے ہوئے ابوسفیان کو دیکھا کہ وہ اپنے لوٹنے پر پچھتا رہا ہے اور پھر واپسی کی فکر میں ہے تو اس نے ابوسفیان کو بتایا کہ تم دھوکے میں ہو کہ مسلمان کمزور ہوگئے، میں ان کے بڑے لشکر کو حمرا الاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں، جو پورے ساز و سامان سے تمہارے تعاقب میں نکلا ہے، ابوسفیان پر اس کی خبر نے رعب ڈال دیا۔ اسی واقعہ کا بیان مذکورہ تین آیتوں میں فرمایا گیا ہے، پہلی آیت میں ارشاد ہے کہ غزوہ احد میں زخم خوردہ ہونے اور مشقتیں برداشت کرنے کے باوجود جب ان کو دوسرے جہاد کی طرف اللہ اور اس کے رسول نے بلایاتو وہ اس کے لیے بھی تیار ہوگئے، اس مقام پر ایک امر قابل غور ہے وہ یہ کہ یہاں جن مسلمانوں کی تعریف بیان کی جا ری ہے ان کے دو وصف بیان کئے گئے، ایک تو من بعد ما اصابھم القرح یعنی اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر تیار ہونے والے وہ لوگ جن کو احد میں زخم پہنچ چکے تھے اور ان کے ستر نامور بہادر شہید ہوچکے تھے اور ان کے جسم بھی زخموں سے چور تھے، لیکن جب ان کو دوسری دفعہ بلایا گیا تو وہ فوراً جہاد کے لئے تیار ہوگئے۔- دوسرا وصف للذین احسنوا منھم واتقوا میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ عملی جدوجہد اور جاں نثاری کے عظیم کارناموں کے ساتھ یہ حضرات احسان وتقوی کی صفات کمال سے بھی آراستہ تھے اور یہ مجموعہ ہی ان کے اجر عظیم کا سبب ہے۔ اس آیت میں لفظ منہم سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ یہ سب لوگ احسان وتقوی کے حامل نہیں، بلکہ ان میں سے بعض تھے، اس لئے کہ یہاں حرف من ” تبعیض کے لئے نہیں بلکہ بیانیہ ہے جس پر خود اسی آیت کے ابتدائی الفاظ الذین استجابوا شاہد ہیں کیونکہ یہ استجابت و اطاعت بغیر احسان وتقوی کے ہو ہی نہیں سکتا اس لئے اکثر مفسرین نے اس جگہ ” من “ کو بیانیہ قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سب لوگ جو احسان وتقویٰ کی صفات سے آراستہ تھے ان کے لئے اجر عظیم ہے۔- کسی کام کے لئے صرف جدوجہد اور جاں نثاری کافی نہیں جب تک اخلاص نہ ہو :۔- البتہ اس خاص عنوان سے ایک اہم فائدہ یہ حاصل ہوا کہ کوئی کام کتنا ہی نیک ہو اور اس کے لئے کوئی شخص کتنی ہی جاں نثاری دکھلائے اللہ کے نزدیک وہ موجب اجر اسی وقت ہوگی، جب کہ اس کے ساتھ احسان وتقوی بھی ہو، جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کے لئے ہو ورنہ محض جاں نثاری اور بہادری کے واقعات تو کفار میں بھی کچھ کم نہیں۔- حکم رسول درحقیقت حکم خدا ہے :- اس واقعہ میں مشرکین کے تعاقب میں جان کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا، قرآن کی کسی آیت میں مذکور نہیں، مگر اس آیت میں جب ان لوگوں کی اطاعت شعاری کی مدح فرمائی تو اس حکم کو اللہ اور رسول دونوں کی طرف منسوب کر کے الذین استجابوا اللہ والرسول فرمایا گیا جس نے واضح طور پر ثابت کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حکم دیتے ہیں وہ اللہ کا حکم بھی ہوتا ہے، اگرچہ اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو۔ - جو بےدین حدیث کا انکار کرتے ہیں اور رسول کی حیثیت صرف ایک قاصد کی بتلاتے ہیں (معاذ اللہ) ان کے سمجھنے کے لئے یہ جملہ بھی کافی ہے کہ رسول کے حکم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی حکم قرار دیا جس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ رسول خود بھی اپنی صواب دید پر مصلحت کے مطابق کچھ احکام دے سکتے ہیں اور ان کا وہی درجہ ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے دیئے ہوئے احکام کا ہے۔- احسان کی تعریف :۔- احسان کی تعریف حدیث جبرئیل کے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمائی ہے :” یعنی تم اپنے پروردگار کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر یہ حالت پیدا نہ ہو تو کم از کم یہ حالت تو ہو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ “- تقویٰ کی تعریف :۔- تقویٰ کی تعریف متعدد تعبیرات سے کی گئی، لیکن سب سے زیادہ جامع تعریف وہ ہے جو حضرت ابی بن کعب (رض) نے حضرت عمر (رض) کے سوال کرنے پر فرمائی، حضرت عمر نے پوچھا تھا کہ تقوی کیا ہے ؟ حضرت ابی بن کعب نے فرمایا کہ امیر المومنین : کبھی آپ کا ایسے راستہ پر بھی گذر ہوا ہوگا جو کانٹوں سے پر ہو، حضرت عمر نے فرمایا، کئی بار ہوا ہے، حضرت ابی بن کعب نے فرمایا ایسے موقع پر آپ نے کیا کیا، حضرت عمر نے فرمایا کہ دامن سمیٹ لئے اور نہایت احتیاط سے چلا، حضرت ابن بن کعب نے فرمایا کہ بس تقوی اسی کا نام ے، یہ دنیا ایک خارستان ہے، گناہوں کے کانٹوں سے بھری پڑی ہے، اس نئے دنیا میں اس طرح چلنا اور زندگی گذارنا چاہئے کہ دامن گناہوں کے کانٹوں سے نہ الجھے اسی کا نام تقوی ہے، جو سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، حضرت ابوالدردا (رض) یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے۔ - ” یعنی لوگ اپنے دنیوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، حالانکہ تقوی سب سے بہتر سرمایہ ہے۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۝ ٠ۭۛ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝ ١٧٢ۚ- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - صوب - الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، - وذلک علی أضرب :- الأوّل :- أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان .- والثاني :- أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ - فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» .- والثالث :- أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور .- والرّابع :- أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ- ( ص و ب ) الصواب - ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں - (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ - (2) مستحسن چیز کا قصد کرے - لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ - (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ - ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ - قرح - القَرْحُ : الأثر من الجراحة من شيء يصيبه من خارج، والقُرْحُ : أثرها من داخل کالبثرة ونحوها، يقال : قَرَحْتُهُ نحو : جرحته، وقَرِحَ : خرج به قرح «4» ، وقَرَحَ قلبُهُ وأَقْرَحَهُ الله، وقد يقال القَرْحُ للجراحة، والقُرْحُ للألم . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] ، إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران 140] ( ق ر ح ) القرح ( بفتح القاف ) کسی خارجی اثر سے ہونے والے زخم کو قرح کہا جاتا ہے اور اندرونی طور پیدا ہونے والے زخم ( جیسے پھنسی وغیرہ کا زخم کو قرح قرحتہ ( ف ) کے معنی زخمی کرنے کے ہیں مگر کبھی لازم بھی آتا ہے جیسے قرح قلبہ ( اس کا دل زخمی ہوگیا واقربتہ ( اسے زخمی کیا وقرح کیا وقرح زخمی ہوجانا کبھی قرح کا لفظ زخم اور قرح اس دور دوا الم پر بولا جاتا ہے زخمی کی وجہ سے ہو قرآن میں ہے مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] باوجود زخم کھانے کے ۔ إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ [ آل عمران 140] اگر تمہیں زخم ( شکشت لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٢) بدر صغری لڑائی کے لیے تمام صحابہ کرام (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانے پر فورا کمر بستہ ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اسی کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ جن حضرات نے باوجودیکہ ان کو احد میں زخم لگا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانے پر بدر صغری کے لیے فورا تیار ہوگئے، ایسے حضرات جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچیں ان کے لیے جنت میں بڑا ثواب ہے۔- شان نزول : الذین استجابوا للہ والرسول “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عوفی کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ احد کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا وہ مکہ مکرمہ لوٹا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابوسفیان تم لوگوں سے گھبرا گیا ہے اور مکہ وہ جس وقت لوٹا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور احد کا واقعہ شوال میں پیش آیا تھا اور تاجر ذی قعدہ میں مدینہ منورہ آتے تھے اور راستہ میں بدر صغری میں قیام کرتے تھے، چناچہ وہ احد کے واقعہ کے بعد آئے اور مسلمان زخمی اور تھکے ہوئے تھے۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں اعلان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلیں، شیطان نے آکر اپنے دوستوں کو ڈرایا کہ کفار نے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور کچھ لوگوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنے سے انکار کروا دیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں جہاد کے لیے ضرور جاؤں گا اگرچہ میرے ساتھ کوئی بھی نہ جائے۔- اس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، حضرت عثمان غنی (رض) ، حضرت علی مرتضی (رض)، حضرت زبیر، حضرت سعد (رض) حضرت طلحہ (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت حذیفہ بن یمان (رض) ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) غرض کہ ستر صحابہ کرام (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنے پر لبیک کہی چناچہ یہ حضرات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ابوسفیان کی تلاش میں نکلے تاآنکہ مقام صغری پر پہنچے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- نیز امام طبرانی (رح) نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب مشرکین احد سے واپس ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم نے قتل کیا اور نہ لڑکیوں کو تم نے قید کیا تم تو بہت ہی ناکامی کے ساتھ واپس آرہے ہو پھر لوٹو، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس گفتگو کی اطلاع ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) میں جہاد کا اعلان کیا، سب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان پر لبیک کہا، چناچہ سب روانہ ہو کر حمرارالاسد یا ابوعتبہ کے کنوئیں پر پہنچے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، “ کہ جن حضرات نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان پر لبیک کہی اور ابوسفیان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ گیا تھا کہ آئندہ سال میدان بدر میں جدھر تم نے ہمارے ساتھیوں کو مارا تھا مقابلہ ہوگا، چناچہ بزدل تو ڈر کر بھاگ گئے، اور بہادر لڑائی اور تجارت کی تیاری کی وجہ سے چلے گئے۔- غرض یہ کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) کے ساتھ اس مقام پر پہنچے تو وہاں کوئی بھی نہ ملا، صحابہ کرام (رض) نے اس مقام پر بازار لگایا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ” فانقلبوبنعمۃ من اللہ “۔ (الخ)- اور ابن مردویہ نے ابو رافع سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کی قیادت میں ایک جماعت ابو سفیان کے تعاقب کے لیے روانہ فرمائی راستہ میں ان کو ایک عرابی ملا اور کہنے لگا مکہ والوں نے تم لوگوں کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے، انہوں نے کہا (آیت) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان حضرات کے بارے میں یہ کلمات نازل فرمائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٢ (اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْم بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ ط) ۔- یہ آیت سابقہ آیات کے تسلسل میں آئی ہے۔ یعنی اس اجر عظیم کے مستحق وہ لوگ ٹھہریں گے کہ احد کی شکست کا زخم کھانے کے بعد بھی ان کے عزم و ایمان کا یہ حال ہے کہ جونہی اللہ اور رسول کی جانب سے انہیں ایک تازہ مہم کے لیے پکارا گیا وہ فوراً تیار ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :122 جنگ احد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دور چلے گئے تو انہیں ہوش آیا اور انہوں نے آپس میں کہا یہ ہم نے کیا حرکت کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت کو توڑ دینے کا جو بیش قیمت موقع ملا تھا اسے کھو کر چلے آئے ۔ چنانچہ ایک جگہ ٹھیر کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر فوراً ہی دوسرا حملہ کر دیا جائے ۔ لیکن پھر ہمت نہ پڑی اور مکہ واپس چلے گئے ۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر نہ پلٹ آئیں ۔ اس لیے جنگ احد کے دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا کہ کفار کے تعاقب میں چلنا چاہیے ۔ یہ اگرچہ نہایت نازک موقع تھا ، مگر پھر بھی جو سچے مومن تھے وہ جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ اس آیت کا اشارہ انہی فدا کاروں کی طرف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani