دنیا کے حسن اور آخرت کے جمال کا تقابل اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دنیا کی زندگی کو طرح طرح کی لذتوں سے سجایا گیا ہے ان سب چیزوں میں سب سے پہلے عورتوں کو بیان فرمایا ، اس لئے کہ ان کا فتنہ بڑا زبردست ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے بعد مردوں کیلئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ، ہاں جب کسی شخص کی نیت نکاح کرکے زنا سے بچنے کی اور اولاد کی کثرت سے ہو تو بیشک یہ نیک کام ہے اس کی رغبت شریعت نے دلائی ہے اور اس کا حکم دیا ہے اور بہت سی حدیثیں نکاح کرنے بلکہ کثرت نکاح کرنے کی فضیلت میں آئی ہیں اور اس امت میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ بیویوں والا ہو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا کا ایک فائدہ ہے اور اس کا بہترین فائدہ نیک بیوی ہے کہ خاوند اگر اس کی طرف دیکھے تو یہ اسے خوش کردے اور اگر حکم دے تو بجا لائے اور اگر کہیں چلا جائے تو اپنے نفس کی اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے ۔ دوسری حدیث میں ہے مجھے عورتیں اور خوشبو بہت پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب عورتیں تھیں ، ہاں گھوڑے ان سے بھی زیادہ پسند تھے ، ایک اور روایت میں ہے گھوڑوں سے زیادہ آپ کی چاہت کی چیز کوئی اور نہ تھی ہاں صرف عورتیں ۔ ثابت ہوا عورتوں کی محبت بھلی بھی ہے اور بری بھی ۔ اسی طرح اولاد کی اگر ان کی کثرت اس لئے چاہتا ہے کہ وہ فخر و غرور کرے تو بری چیز ہے اور اگر اس لئے ان کی زیادتی چاہتا ہے کہ نسل بڑھے اور موحد مسلمانوں کی گنتی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادہ ہو تو بیشک یہ بھلائی کی چیز ہے ۔ حدیث شریف میں ہے محبت کرنے والیوں اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو ، قیامت کے دن میں تمہاری زیادتی سے اور امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔ ٹھیک اسی طرح مال بھی ہے کہ اگر ان کی محبت گرے پڑے لوگوں کو حقیر سمجھنے اور مسکینوں غریبوں پر فخر کرنے کیلئے ہے تو بیحد بری چیز ہے ، اور اگر مال کی چاہت اپنوں اور غیروں سے سلوک کرنے ، نیکیاں کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے ہے تو ہر طرح وہ شرعاً اچھی اور بہت اچھی چیز ہے ۔ قنطار کی مقدار میں مفسرین کا اختلاف ہے ، ماحصل یہ ہے کہ بہت زیادہ مال کو قنطار کہتے ہیں ، جیسے حضرت ضحاک کا قول ہے ، اور اقوال بھی ملاحظہ ہوں ، ایک ہزار دینار ، بارہ ہزار چالیس ہزار ساٹھ ہزار ، ستر ہزار ، اسی ہزار وغیرہ وغیرہ ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے ، ایک قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہے اور ہر اوقیہ بہتر ہے زمین و آسمان سے ، غالباً یہاں مقدار ثواب کی بیان ہوئی ہے جو ایک قنطار ملے گا ( واللہ اعلم ) حضرت ابو ہریرہ سے بھی ایسی ہی ایک موقوف روایت بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ اسی طرح ابن جریر میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابن عمر سے بھی مروی ہے ، اور ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو الدرداء سے مروی ہے کہ قنطار بارہ سو اوقیہ ہیں ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں سو اوقیہ آئے ہیں لیکن وہ حدیث بھی منکر ہے ، ممکن ہے کہ وہ حضرت ابی بن کعب کا قول ہو جیسے اور صحابہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص سو آیتیں پڑھ لے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے سو سے ہزار تک پڑھ لیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قنطار اجر ملے گا ، اور قنطار بڑے پہاڑ کے برابر ہے ، مستدرک حاکم میں ہی اس آیت کے اس لفظ کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہزار اوقیہ ، امام حاکم اسے صحیح اور شرط شیخین پر بتلاتے ہیں ۔ بخاری مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ، طبرانی وغیرہ میں ہے ایک ہزار دینار ، حضرت حسن بصری سے موقوفاً یا مرسلاً مروی ہے کہ بارہ سو دینار ، حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے ، ضحاک فرماتے ہیں بعض عرب قنطار کو بارہ سو کا بتاتے ہیں ، بعض بارہ ہزار کا ، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں بیل کی کھال کے بھر جانے کے برابر سونے کو قنطار کہتے ہیں ۔ یہ مرفوعاً بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوفاً ہے ، گھوڑوں کی محبت تین قسم کی ہے ، ایک تو وہ لوگ جو گھوڑوں کو پالتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ان پر سوار ہو کر جہاد کرنے کیلئے نکلتے ہیں ، ان کیلئے تو یہ بہت ہی اجر و ثواب کا سبب ہیں ۔ دوسرے وہ جو فخر و غرور کے طور پر پالتے ہیں ، ان کیلئے وبال ہے ، تیسرے وہ جو سوال سے بچنے اور ان کی نسل کی حفاظت کیلئے پالتے ہیں اور اللہ کا حق نہیں بھولتے ، یہ نہ اجر نہ عذاب کے مستحق ہیں ۔ اسی مضمون کی حدیث آیت واعدولھم الخ ، کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ ۔ مسومہ کے معنی چرنے والا اور پنج کلیان ( یعنی پیشانی اور چار قدموں پر نشان ) وغیرہ کے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر عربی گھوڑا فجر کے وقت اللہ کی اجازت سے دو دعائیں کرتا ہے ، کہتا ہے اے اللہ جس کے قبضہ میں تو نے مجھے دیا ہے تو اس کے دِل میں اس کے اہل و مال سے زیادہ میری محبت دے ، انعام سے مراد اونٹ گائیں بکریاں ہیں ۔ حرث سے مراد وہ زمین ہے جو کھیتی بونے یا باغ لگانے کیلئے تیار کی جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہی انسان کا بہترین مال زیادہ نسل والا گھوڑا ہے اور زیادہ پھلدار درخت کھجور ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دنیاوی فائدہ کی چیزیں ہیں ، یہاں کی زینت اور یہاں ہی کی دلکشی کے سامان ہیں جو فانی اور زوال پالنے والے ہیں ، اچھی لوٹنے کی جگہ اور بہترین ثواب کا مرکز اللہ کے پاس ہے ، مسند احمد میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا اے اللہ جبکہ تو نے اسے زینت دے دی تو اس کے بعد کیا ؟ اس پر اس کے بعد والی آیت اتری کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اس سے بہترین چیزیں بتاتا ہوں ، یہ تو ایک نہ ایک روز زائل ہونے والی ہیں اور میں جن کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں وہ صرف دیرپا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی ہیں ، سنو اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے جنت ہے جس کے کنارے کنارے اور جس کے درختوں کے درمیان قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ، کہیں شہد کی ، کہیں دودھ کی ، کہیں پاک شراب کی ، کہیں نفیس پانی کی ، اور وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی کان نے سنی ہوں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں نہ کسی دِل میں خیال بھی گزرا ہو ، ان جنتوں میں یہ متقی لوگ ابدالآباد رہیں گے نہ یہ نکالے جائیں نہ انہیں دی ہوئی نعمتیں گم ہوں گی نہ فنا ہوں گی ، پھر وہاں بیویاں ملیں گی جو میل کچیل سے خباثت اور برائی سے حیض اور نفاس سے گندگی اور پلیدی سے پاک ہیں ، ہر طرح ستھری اور پاکیزہ ، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رضامندی انہیں حاصل ہو جائے گی اور ایسی کہ اس کے بعد ناراضگی کا کھٹکا ہی نہیں ، اسی لئے سورۃ برات کی آیت میں فرمایا ورضوان من اللہ اکبر اللہ کی تھوڑی سی رضامندی کا حاصل ہو جانا بھی سب سے بڑی چیز ہے ، یعنی تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت رضائے رب اور مرضی مولا ہے ۔ تمام بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون مہربانی کا مستحق ہے ۔
14۔ 1 شَھَوَات سے مراد یہاں مشتبھات ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں اس لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے میرے بعد جو فتنے رونما ہونگے ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے اگر اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مزموم۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت صلہ رحمی صدقہ و خیرات اور امور پر خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر اور غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہونگی۔ خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فروانی اور کثرت اور وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں یا جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)
[١٥] اس آیت میں جن جن اشیاء کا نام لیا گیا ہے۔ ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جاگزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں فیل ہی ہوتی رہی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو۔ اور ان سے محبت کرنا بھی ایک فطری امر ہے اور فطری امر بھی بذات خود برا نہیں ہوتا۔ اگر ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں نہ ڈالی جاتی تو اس دنیا کی رنگینیاں، یہ لہلہاتے کھیت اور باغات اور تہذیب و تمدن کے نظارے کچھ بھی نظر نہ آتا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو یہ چیزیں بذات خود بری ہیں اور نہ ہی ان سے محبت اور ان کا حصول بری چیز ہے۔ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی محبت اور حصول میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت موجود ہوتی ہے۔ وہ انہیں چیزوں کو اسی طرح حاصل کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انہی چیزوں سے دنیا کی راحت و سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزوں اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اس طرح ہی انسان کو بہتر ٹھکانا میسر آسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔
الشَّهَوٰتِ ” یہ ” شَھْوَۃٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ” کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھچ جانا “ یہاں ” الشَّهَوٰتِ “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبیعت کو مرغوب ہیں، یعنی مصدر بمعنی اسم مفعول ” مُشْتَھَیَاتٌ“ ہے اور ” مِنَ النِّسَاۗءِ “ میں ” مِنْ “ بیانیہ ہے، یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ ” َالْقَنَاطِيْرِ “ کا واحد ” قِنْطَارٌ“ ہے، اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں، مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو ” قِنْطَارٌ“ کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ ” خزانے “ ہوسکتا ہے۔” مَتَاعُ “ اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر اللہ اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انھیں تفاخر و زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور و تکبر پر اتر آئے تو یہ تمام چیزیں مذموم ہیں، ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعۂ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ مذموم و مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب و محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے، اس لیے حدیث میں ایک طرف تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے : ” میرے بعد مردوں کے لیے کوئی فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں۔ “ [ بخاری، النکاح، باب ما یتقی من شؤم المرأۃ ۔۔ : ٥٠٩٦، عن أسامۃ (رض) ] اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا : ” دنیا متاع (فائدہ اٹھانے کا سامان) ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔ “ [ مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا ۔۔ ١٤٦٩، عن ابن عمرو ] اور یہ بھی فرمایا : ” دنیا میں سے عورت اور خوشبو میرے لیے پسندیدہ بنادی گئی ہیں۔ “ [ نسائی، عشرۃ النساء، باب حب النساء : ٣٣٩١، عن أنس قال الألبانی حسن صحیح ] آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دے کر دنیاوی زندگی سے بےرغبتی اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)- ” وَالْخَيْلِ “ یہ اسم جمع ہے، ” خُیَلاَءٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی تکبر ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک طرح کا تکبر پایا جاتا ہے۔ ” الْمُسَوَّمَةِ “ یہ ” سِیْمَا “ یا ” سِیْمِیَاءُ “ سے مشتق ہو تو نشان لگائے ہوئے اور ” سَوْمٌ“ سے مشتق ہو تو چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے گھوڑے ۔” َالْاَنْعَامِ “ یہ ” نَعَمٌ“ کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بکریاں وغیرہ اور اکثر اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - ربط آیات - پہلی آیتوں میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور ان کے مقابلہ میں جہاد کا ذکر تھا، اور ان آیات میں اسلام و ایمان کی مخالفت اور تمام بد اعمالیوں کی اصل منشاء کو بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ حب دنیا ہے، کوئی جاہ و مال کے لالچ میں حق کی مخالفت اختیار کرتا ہے کوئی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اور کوئی اپنی آبائی رسوم کی محبت کے سبب حق کے مقابلہ پر کھڑا ہوجاتا ہے، اور ان ساری چیزوں کا خلاصہ ہے حب دنیا، مختصر تفسیر ان آیات کی یہ ہے۔- خوشنما معلوم ہوتی ہے ( اکثر) لوگوں کو محبت مرغوب چیزیں (مثلا) عورتیں ہوئیں بیٹے ہوئے، لگے ہوئے ڈھیر ہوئے سونے اور چاندی کے، نشان لگے ہوئے گھوڑے ہوئے ( یا دوسرے) مویشی اور زراعت ہوئی ( لیکن) یہ سب استعمالی چیزیں ہیں دنیوی زندگانی کی اور انجام کار کی خوبی (کی چیز) تو اللہ ہی کے پاس ہے ( جو بعد موت کے کام آوے گی جس کی تفصیل اگلی آیت میں آتی ہے) آپ (ان لوگوں سے یہ) فرما دیجئے کیا میں تم کو ایسی چیز بتلادوں جو (بدرجہا) بہتر ہو ان ( مذکورہ) چیزوں سے ( سو سنو) ایسے لوگوں کے لئے جو ( اللہ تعالیٰ سے) ڈرتے ہیں ان کے مالک ( حقیقی) کے پاس ایسے باغ ہیں ( یعنی بہشت) جن کی پائین میں نہریں جاری ہیں ان ( بہشتوں) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان کے لئے) ایسی بیبیاں ہیں جو ( ہر طرح) صاف ستہری کی ہوئی ہیں (اور ان کے لئے) خوشنودی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب دیکھتے ( بھالتے) ہیں، بندوں ( کے حال) کو ( اس لئے ڈرنے والوں کو یہ نعمتیں دیں گے، آگے ان ڈرنے والوں کی بعض تفصیلی صفات ذکر کی جاتی ہیں (یہ) ایسے لوگ ( ہیں) جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو آپ ہمارے گناہوں کو معاف کردیجئے، اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیجئے (اور وہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) فروتنی کرنے والے ہیں اور ( نیک کاموں میں مال کے) خرچ کرنے والے ہیں اور اخیر شب میں (اٹھ اٹھ کر) گناہوں کی معافی چاہنے والے ہیں۔- معارف و مسائل - دنیا کی محبت فطری ہے مگر اس میں غلو مہلک ہے : حدیث میں ارشاد ہے (حب الدنیا راس کل خطیئة) یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کا سرچشمہ ہے۔ پہلی آیت میں دنیا کی چند اہم مرغوب چیزوں کا نام لے کر بتلایا گیا ہے کہ لوگوں کی نظروں میں ان کی محبت خوشنما بنادی گئی ہے، اس لئے بہت سے لوگ اس کی ظاہری رونق پر فریفتہ ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھتے ہیں، جن چیزوں کا نام اس جگہ لیا گیا ہے وہ عام طور پر انسانی رغبت و محبت کا مرکز ہیں، جن میں سب سے پہلے عورت کو اور اس کے بعد اولاد کو بیان کیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں انسان جتنی چیزوں کے حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے ان سب کا اصلی سبب عورت یا اولاد کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد سونے چاندی اور مویشی اور کھیتی کا ذکر ہے، کہ یہ دوسرے نمبر میں انسان کی رغبت و محبت کا مرکز ہوتے ہیں۔ خلاصہ و مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی محبت طبعی طور پر انسان کے دلوں میں ڈل دی ہے، جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر انسان طبعی طور پر ان چیزوں کی طرف مائل اور ان سے محبت کرنے والا نہ ہوتا تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا، کسی کو کیا غرض تھی کہ کھیتی کرنے کی مشقت اٹھاتا، یا مزدوری و صنعت کی محنت برداشت کرتا، یا تجارت میں اپنا روپیہ اور محنت صرف کرتا، دنیا کی آبادی اور بقا اس میں مضمر تھی کہ لوگوں کی طبائع میں ان چیزوں کی محبت پیدا کردی جائے جس سے وہ خود بخود ان چیزوں کے مہیا کرنے اور باقی رکھنے کی فکر میں پڑجائیں، صبح اٹھ کر مزدور اس فکر میں گھر سے نکلتا ہے کہ کچھ پیسے کمائے، مالدار اس فکر میں گھر سے نکلتا ہے کہ پیسے خرچ کر کے کوئی مزدور لائے جس سے اپنا کام نکالے، تاجر بہتر سے بہتر سامان مہیا کر کے گاہک کے انتظار میں بیٹھتا ہے کہ پیسے حاصل کر ے، گاہک سو کوششیں کر کے پیسے لے کر بازار پہنچتا ہے کہ اپنی ضروریات کا سامان خریدے غور کیا جائے تو سب کو دنیا کی انہیں مرغوبات کی محبت نے اپنے اپنے گھر سے نکالا، اور دنیا کے تمدنی نظام کو نہایت مضبوط و مستحکم اصول پر قائم کردیا ہے۔- دوسری حکمت یہ بھی ہے کہ اگر دنیوی نعمتوں سے رغبت و محبت انسان کے دل میں نہ ہو تو اس کو اخروی نعمتوں کا نہ ذائقہ معلوم ہوگا نہ ان میں رغبت ہوگی، تو پھر اس کو کیا ضرورت کہ وہ نیک اعمال کی کوشش کر کے جنت حاصل کرے، اور برے اعمال سے پرہیز کر کے دوزخ سے بچے۔- تیسری حکمت اور وہی اس جگہ زیادہ قابل نظر ہے یہ ہے کہ ان چیزوں کی محبت طبعی طور پر انسان کے دل میں پیدا کر کے انسان کا امتحان لیا جائے کہ کون ان چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھتا ہے اور کون ہے جو ان چیزوں کی اصل حقیقت اور ان کے آنی فانی ہونے پر مطلع ہو کر ان کی فکر بقدر ضرورت کرے اور ان کو آخرت کی درستی کے کام میں لگائے، قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام میں خود اس تزیین کی یہی حکمت بتلائی گئی ہے۔ ارشاد ہے : ( انا جعلنا ما علی الارض زینة لھا لنبلوھم ایھم احسن عملا : یعنی ہم نے بنایا جو زمین پر ہیں زمین کی زینت، تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے) - اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ دنیا کی ان مرغوب چیزوں کو انسان کے لئے مزین کردینا بھی ایک فعل خداوندی ہے، جو بہت سی حکمتوں پر مبنی ہے، اور بعض آیات جن میں اس قسم کی تزیین کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جیسے (زین لھم الشیطان اعمالھم ٨: ٨٤) ان میں ایسی چیزوں کی تزیین مراد ہے جو شرعا اور عقلا بری ہیں، یا تزیین کا وہ درجہ مراد ہے جو حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے برا ہے، ورنہ مباحات کو مزین کردینا مطلقا برا نہیں، بلکہ اس میں بہت سے فوائد بھی ہیں، اس لئے بعض آیات میں اس تزیین کو صراحة حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جیسے ابھی بیان کیا گیا ہے۔- خلاصہ کلام : یہ ہے کہ دنیا کی لذیذ اور مرغوب چیزوں کو حق تعالیٰ نے اپنے فضل و حکمت سے انسان کے لئے مزین فرما کر ان کی محبت اس کے دل میں ڈال دی، جس میں بہت سی حکمتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ ان سرسری اور ظاہری مرغوبات اور اس کی چند روزہ لذت میں مبتلا ہونے کے بعد وہ اپنے اور ان سب چیزوں کے رب اور خالق ومالک کو یاد رکھتا ہے اور ان چیزوں کو اس کی معرفت اور محبت کا ذریعہ بناتا ہے یا انہی کی محبت میں الجھ کر اصلی مالک و خالق کو اور آخرت میں اس کے سامنے پیشی اور حساب و کتاب کو بھلا بیٹھتا ہے، پہلا آدمی وہ ہے جس نے دنیا سے فائدہ اٹھایا اور آخرت میں بھی کامیاب رہا، دنیا کی مرغوبات اس کے لئے سنگ راہ بننے کے بجائے سنگ میل بن کر فلاح آخرت کا ذریعہ بن گئیں، اور دوسرا شخص وہ ہے جس کے لئے یہی چیزیں حیات آخرت کی بربادی اور دائمی عذاب کا سبب بن گئیں، اور اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ چیزیں دنیا میں بھی اس کے لئے عذاب ہی بن جاتی ہیں، قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کو متعلق ارشاد ہے : (فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوۃ الدینا : ٩: ٥٥) " یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کے مال اور اولاد سے متعجب نہ ہوں کیونکہ ان نافرمانوں کو مال، اولاد دینے سے کچھ ان کا بھلا نہیں ہوا بلکہ یہ اموال و اولاد آخرت میں تو ان کے لئے عذاب بنیں گے " یہی دنیا میں بھی رات دن کی فکروں اور مشاغل کے باعث عذاب ہی بن جاتے ہیں۔- الغرض دنیا کی جن چیزوں کو حق تعالیٰ نے انسان کے لئے مزین اور مرغوب بنادیا ہے، شریعت کے مطابق اعتدال کے ساتھ ان کی طلب اور ضرورت کے موافق ان کو جمع کرنا دنیا و آخرت کی فلاح ہے، اور ناجائز طریقوں پر ان کا استعمال یا جائز طریقوں میں اتنا غلو اور انہماک جس کے سبب آخرت سے غفلت ہوجائے باعث ہلاکت ہے مولانا رومی (رح) نے اس کی کیا اچھی مثال بیان فرمائی ہے - آب اندر زیر کشتی پشتی است - آب در کشتی ہلاک کشتی است - یعنی دنیا کا سازوسامان پانی کے مانند ہے، اور اس میں انسان کا قلب ایک کشتی کی طرح ہے، پانی جب تک کشتی کے نیچے اور اردگرد رہے تو کشتی کے لئے مفید اور معین اور اس کے مقصد وجود کو پورا کرنے والا ہے، اور اگر پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو یہی کشتی کی غرقابی اور ہلاکت کا سامان ہوجاتا ہے، اس طرح دنیا کے مال و متاع جب تک انسان کے دل میں غلبہ نہ پالیں، اس کے لئے دین میں معین و مددگار ہیں، اور جس وقت اس کے دل پر چھا جائیں تو دل کی ہلاکت ہیں، اسی لئے آیت متذکرہ میں چند خاص مرغوبات دنیا کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے : (ذلک متاع الحیوۃ الدنیا واللہ عندہ حسن الماب) " یعنی یہ سب چیزیں دنیوی زندگی میں صرف کام چلانے کے لئے ہیں، دل لگانے کے لئے نہیں، اور اللہ کے پاس ہے اچھا ٹھکانا، " یعنی وہ ٹھکانا جہاں ہمیشہ رہنا ہے، اور جس کی نعمتیں اور لذتیں نہ فنا ہونے والی ہیں نہ کم یا ضعیف ہونے والی۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ٠ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ٠ ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ١٤- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- قطر - القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، - والقَطِرَانُ :- ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة .- ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارش برسنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔- القطران - کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔- ذهب ( سونا)- الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا،- ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔- فِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔- خيل - الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل :- كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل - ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔- سام - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل :- ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر :- له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» - ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں - نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- حرث - الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] ، - وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ، يتناول الحرثین .- ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔- متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔
مرغوبات نفس کیسے خوش آیئند ہیں - قول باری ہے (زین للناس حب الشھوات، لوگوں کے لیئے مرغوبات نفس بڑی خوش آیئندبنادی گئی ہیں) حسن بصری کا قول ہے کہ شیطان نے انہیں خوش آیئندبنایا ہے۔ اس لیئے کہ ان مرغوبات کی ان کے خالق نے جتنی مذمت کی ہے کسی اور نے اتنی مذمت نہیں کی۔ بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح خوش ائیند بنادیا کہ انسانوں کی طبیعتوں میں ان کے حصول کے لیئے ایک دوسرے سے الجھنے کا جذبہ رکھ دیا۔ جس طرح کہ قول باری ہے (اناجعلنا ماعلی الارض زینۃ لھا، ہم نے زمین پر پائی جانے والی تمام اشیاء کو زمین کوزینت بنادی ہے) بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ مرغوبات میں سے جو اچھی ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے اور جو بری ہیں انہیں شیطان نے خوش آئیند بنایا ہے۔- انبیاء اور داعیان حق کا قاتل سب سے بڑامجرم ہوگا
(١٤) اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان دنیاوی نعمتوں کو بیان فرماتے ہیں جو کفار کو بھلی معلوم ہوتی ہیں، ان لوگوں کی محبت مرغوب چیزوں کے ساتھ تھی، مثلا باندیاں اور عورتیں غلام اور لڑکے اور مالوں کے انبار سونے اور چاندی کے سکے۔- اور قناطیر تین اور مقنطرہ نوکو بولتے ہیں اور نشان لگائے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور اونٹ گائے بکریاں اور کھیتیاں یہ سب چیزیں ان کو خوشنمامعلوم ہوتی ہیں۔- مگر یہ تمام چیزیں محض دنیاوی زندگی میں فائدہ مند ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں بیان کی ہیں۔ پھر بالآخر ان کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ ان مذکورہ چیزوں کی بقا اور زندگی کی مثال گھر کے سامان رکابی اور پیالہ وغیرہ کی طرح ہے اور جو ان تمام چیزوں میں دل لگانا چھور دے اس کے لیے حقیقی خوبی آخرت یعنی جنت ہے۔
آیت ١٤ ( زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ ) - مرغوبات دنیا میں سے پہلی محبت عورتوں کی گنوائی گئی ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک بھی انسانی محرکات میں سب سے قوی اور زبردست محرک ( ) جنسی جذبہ ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے لیے پیٹ کا مسئلہ فوقیت اختیار کرجاتا ہے اور معاشی ضرورت جنسی جذبے سے بھی شدید تر ہوجاتی ہے ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین کشش انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے : - (مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) (١)- میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔- ان کی محبت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ بلعام بن باعورہ یہود میں سے ایک بہت بڑا عالم اور فاضل شخص تھا ‘ مگر ایک عورت کے چکر میں آکر وہ شیطان کا پیرو بن گیا۔ اس کا قصہّ سورة الاعراف میں بیان ہوا ہے۔ بہرحال عورتوں کی محبت انسانی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کو بیٹے بہت پسند ہیں کہ اس کی نسل اور اس کا نام چلتا رہے ‘ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ - (وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ) (وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ ) - عمدہ نسل کے گھوڑے جنہیں چن کر ان پر نشان لگائے جاتے ہیں۔- (وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط) - پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں چوپاؤں کو مال کہا جاتا ہے۔ یہ جانور ان کے مالکوں کے لیے مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ - (ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج ) - بس نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ جان لو یہ ساری چیزیں اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا سازوسامان ہیں۔ اس زندگی کے لیے ضروریات کی حد تک ان سے فائدہ اٹھانا کوئیُ بری بات نہیں ہے۔- (وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ) ۔- وہ جو اللہ کے پاس ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایمان بالآخرت موجود ہے تو پھر انسان ان تمام مرغوبات کو ‘ اپنے تمام جذبات اور میلانات کو ایک حد کے اندر رکھے گا ‘ اس سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شے کی محبت بھی اتنی زوردار ہوگئی کہ آپ کے دل کے اوپر اس کا قبضہ ہوگیا تو بس آپ اس کے غلام ہوگئے ‘ اب وہی آپ کا معبود ہے ‘ چاہے وہ دولت ہو یا کوئی اور شے ہو۔