جہنم کا ایندھن کون لوگ؟ فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں ، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی ، ان پر لعنت ہے ، اور ان کیلئے برا گھر ہے ، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی ، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ، جیسا اور جگہ فرمایا آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے ، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی ، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے ، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے ، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں ، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) 21 ۔ الانبیاء:98 ) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے ، لوگو کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ؟ لوگو کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا ؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا ، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا ، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے ، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے ( پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر ) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں ، عالم ہیں ، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی ، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی ، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی ۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے ، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے ، جیسا نہر اور نہر ، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں ، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا ، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے ، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے ، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے ، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے ، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب ۔
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ اس کی ترکیب کے لیے دیکھیے سورة انفال (٥٢، ٥٤) یعنی جس طرح کا عذاب قوم فرعون اور پہلی امتوں کو رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے دیا گیا، اسی طرح کا عذاب ان اموال و اولاد والے کفار کو دیا جائے گا۔ یہاں ان کفار سے مراد وفد نجران، یہود، مشرکین عرب اور دوسرے تمام کفار بھی ہوسکتے ہیں۔ (شوکانی)
خلاصہ تفسیر - بالیقین جو لوگ کفر کرتے ہیں ہرگز ان کے کام نہیں آسکتے، ان کے مال (دولت) اور نہ ان کی اولاد اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی ایسے لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے ( ان لوگوں کا معاملہ ایسا ہے) جیسا معاملہ تھا فرعون والوں کا اور ان سے پہلے والے (کافر) لوگوں کا ( وہ معاملہ یہ تھا) کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو ( یعنی اخبار و احکام کو) جھوٹا بتلایا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر دارو گیر فرمائی ان کے گناہوں کے سبب اور اللہ تعالیٰ ( کی دارو گیر بڑی سخت ہے کیونکہ ان کی شان یہ ہے کہ وہ) سخت سزا دینے والے ہیں ( اسی طرح معاملہ ہوگا کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی، سو ان کو بھی ایسی ہی سزا ہوگی اور) ان کفر کرنے والے لوگوں سے ( یوں بھی) فرما دیجئے کہ ( تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ دارو گیر صرف آخرت میں ہوگی، بلکہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ ہوگی، چناچہ دنیا میں) عنقریب تم (مسلمانوں کے ہاتھ سے) مغلوب کئے جاؤ گے اور ( آخرت میں) جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے، اور (جہنم) ہے برا ٹھکانا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ ١٠ ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
(١٠) کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی یا ابوجہل اور اسکے ساتھی ہرگز ان کے اموال اور اولاد کی زیادتی عذاب الہی کے مقابلہ میں فائدہ مند نہیں ہوسکتی بلآخر یہ لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔
آیت ١٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط) - اب یہ ذرا تحدی اور چیلنج کا انداز ہے۔ زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپ نے نوٹ کرلیا کہ یہ سورة مبارکہ ٣ ھ میں غزوۂ احد کے بعد نازل ہورہی ہے ‘ لیکن یہ رکوع جو زیر مطالعہ ہے اس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ یہ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوا۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو بڑی زبردست فتح حاصل ہوئی تھی تو مسلمانوں کا بہت بلند تھا۔ لیکن ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ جب مسلمان بدر سے غازی بن کر ‘ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو مدینہ منورہ میں جو یہودی قبیلے تھے ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسلمانو اتنا نہ اتراؤ۔ یہ تو قریش کے کچھ ناتجربہ کار چھوکرے تھے جن سے تمہارا مقابلہ پیش آیا ہے ‘ اگر کبھی ہم سے مقابلہ پیش آیا تو دن میں تارے نظر آجائیں گے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ تو اس پس منظر میں یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں کہ صرف مشرکین مکہ پر موقوف نہیں ‘ آخر کار تمام کفار اسی طرح سے زیر ہوں گے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ (وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (یوسف)
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :8 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ١٦١ ۔ ( سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ) ”کفر“ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اصولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔