8۔ 1 بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔
[٨] اب کفار مکہ کے ایک بنیادی اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ یہ نبی ہم ہی جیسا ایک بشر ہے۔ سب بشری کمزوریاں اور بشری تقاضے اس میں بھی موجود ہیں جو ہم میں ہیں۔ وہ ہماری طرح ہی کھانے پینے اور چلنے پھرنے کا محتاج ہے اور ہماری طرح نکاح شادیاں بھی کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اسے نہ تو کوئی دنیی جاہ چشم میسر ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ان سب باتوں کا انھیں جواب یہ دیا گیا کہ تم لوگ جو اہل کتاب سے پوچھ پوچھ کر اس نبی سے کئی طرح کے سوال اور کئی طرح کے اعتراض کرتے ہو تو ایک سوال یہ بھی پوچھ لو کہ آیا موسیٰ (علیہ السلام) بشر تھے یا نہیں ؟ ان کے جواب سے تمہیں تسلی ہوجائے گی کہ موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی اور ان کے علاوہ دوسرے تمام انبیاء بھی سب کے سب بشر ہی تھے۔ سب بشری تقاضے ان کے ساتھ بھی لگے ہوئے تھے۔ کھانے پینے کے علاوہ وہ سب کے سب موت سے بھی دوچار ہوئے اور آج ان میں سے کوئی بھی زندہ موجود نہیں ہے۔ (نیز دیکھئے سورة نحل کا حاشیہ ٤٤۔ الف)
وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا ۔۔ :” جَسَدًا “ کا معنی بےجان جسم ہے، یہ جثہ کا ہم معنی ہے۔ محقق ائمۂ لغت کا یہی قول ہے، جیسا کہ ابو اسحاق زجاج نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ) [ طٰہٰ : ٨٨ ] کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ [ التحریر والتنویر ] یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے : ( مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ) [ الفرقان : ٧ ] ” اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ “ اس کے ساتھ ہی ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا : (هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ) [ الأنبیاء : ٣ ] ” یہ تمہارے جیسا ایک بشر ہی تو ہے۔ “ ان اعتراضوں کے ساتھ مطالبہ یہ تھا : (فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْن) [ الأنبیاء : ٥ ] ” پس یہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جس طرح پہلے رسول بھیجے گئے۔ “ ” فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ “ کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں دوسرے دونوں اعتراضوں کا جواب دیا کہ اس سے پہلے تمام رسول جو ہم نے بھیجے، بشر تھے فرشتے نہ تھے، مرد تھے عورتیں نہ تھے۔ اسی طرح وہ بےجان جسم نہ تھے جو نہ کھاتے ہوں اور نہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہوں، بلکہ وہ کھاتے پیتے بھی تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ (فرقان : ٢٠) ان کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی۔ (رعد : ٣٨) جیسے تمہارے جد امجد ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے جد امجد یعقوب، اسحاق اور ابراہیم۔ تو جب ان سب کو بشر ہونے، کھانے پینے، بازاروں میں چلنے پھرنے اور صاحب آل و اولاد ہونے کے باوجود رسول مانتے ہو تو نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول کیوں نہیں مانتے ؟- 3 مشرکین خواہ پہلے زمانے کے ہوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے، سب کا ذہن یہی ہوتا ہے کہ بزرگ کھانے پینے سے بےنیاز اور بیوی بچوں سے مستغنی ہوتے ہیں اور دنیا کے دھندوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی نگاہ میں بزرگ اور پیر بننے والے حضرات کمائی وغیرہ چھوڑ کر کٹیاؤں اور خانقاہوں میں ڈیرے لگا لیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعض عقیدت مند ان کے متعلق عجیب و غریب قصے مشہور کردیتے ہیں، جن کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو ” تذکرۃ الاولیاء “ پڑھ لیں، مثلاً فلاں بزرگ نے پہلے ایک دن کھانے کا ناغہ کیا، پھر ایک ماہ کا، پھر ایک سال کا اور پھر ساری عمر کا۔ پنجاب کے ایک بزرگ کے متعلق ان کے عقیدت مندوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ انھوں نے بارہ سال کچھ کھائے بغیر جنگل میں عبادت کرتے ہوئے گزار دیے، صرف ایک لکڑی کی روٹی ان کے پاس تھی، جسے کبھی کبھار وہ دانتوں سے کاٹتے تھے۔ پھر بارہ سال انھوں نے ایک کنویں میں الٹے لٹک کر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے گزار دیے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ الٹا لٹکنا کون سی عبادت ہے ؟ اور اس عرصے کی نمازیں، روزے اور وضو و غسل سب کہاں گئے ؟ ان لوگوں کے ہاں یہ بزرگی ہے، جب کہ وہ تین صحابہ، جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ ساری ساری رات قیام کیا کروں گا، کبھی سوؤں گا نہیں، دوسرے نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا اور تیسرے نے کہا تھا کہ میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا : ( وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ لٰکِنّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَ أُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ) ” اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے رکھتا ہوں کبھی نہیں بھی رکھتا اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جس نے میرے طریقے سے بےرغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔ “ [ بخاري، - النکاح، باب الترغیب في النکاح : ٥٠٦٣ ]- وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ : یہ بھی کفار کے ایک غلط عقیدے کا رد ہے کہ اللہ کے رسول اور خاص بندے مرتے نہیں۔ کئی جاہلوں نے ایک عبارت بنا رکھی ہے جسے وہ قرآن کی آیت قرار دے کر سناتے ہیں : ” أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاء اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنَّھُمْ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ یَنْتَقِلُوْنَ “ ” یاد رکھو اللہ کے ولی مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ “ اگر کوئی شخص کہہ بیٹھے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا فلاں بزرگ فوت ہوگئے ہیں تو یہ لوگ اسے گستاخ قرار دے کر اس پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ پہلے گزرے ہوئے رسول ہمیشہ رہنے والے نہ تھے، بلکہ اپنی طبعی زندگی گزار کر فوت ہوگئے۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٤ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مرجائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زمر (٣٠، ٣١) ۔
وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ٨- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- جسد - الجَسَد کالجسم لكنه أخصّ ، قال الخلیل رحمه اللہ : لا يقال الجسد لغیر الإنسان من خلق الأرض «3» ونحوه، وأيضا فإنّ الجسد ما له لون، والجسم يقال لما لا يبين له لون، کالماء والهواء . وقوله عزّ وجلّ : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] ، يشهد لما قال الخلیل، وقال : عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ، وقال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] . وباعتبار اللون قيل للزعفران : جِسَاد، وثوب مِجْسَد : مصبوغ بالجساد «4» ، والمِجْسَد : الثوب الذي يلي الجسد، والجَسَد والجَاسِد والجَسِد من الدم ما قد يبس .- ( ج س د ) الجسد - ( اسم ) جسم ہی کو کہتے ہیں مگر یہ جسم سے اخص ہے خلیل فرماتے ہیں کہ جسد کا لفظ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر نہیں بولا جاتا ہے نیز جسد رنگدار جسم کو کہتے ہیں مگر جسم کا لفظ بےلون اشیاء مثلا پانی ہوا وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] کہ ہم ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھاتے ہوں ۔ سے خلیل کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ نیز قرآن میں ہے ۔ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ایک بچھڑا یعنی قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] اور ان ک تخت پر ہم نے ایک دھڑ ڈال دیا چناچہ انہوں نے خد ا کی طرف رجوع کیا اور لون کے اعتبار سے زعفران کو جساد کہا جاتا ہے اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے ثوب مجسد کہتے ہیں ۔ المجسد ۔ کپڑا جو بدن سے متصل ہو الجسد والجاسد والجسد ۔ خشک خون ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
(٨) اور اسی طرح ہم نے ان انبیاء کرام کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور پانی نہ پیتے ہوں اور نہ وہ حضرات دنیا میں ہمیشہ رہنے والے ہوئے بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور پانی بھی پیتے تھے اور ان انبیاء کرام نے وفات بھی پائی ہے، یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔
آیت ٨ (وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ ) ” - پہلے جو انبیاء آئے تھے وہ سب عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی ابدی زندگی لے کر نہیں آیا تھا۔ چناچہ ان میں سے ہر ایک پر موت کا مرحلہ بھی آیا۔