قدر ناشناس لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر ومنزلت پر رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے ، تمہارا دین ، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں ۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو؟ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ 44 ) 43- الزخرف:44 ) تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی ابھی سوال کئے جاؤگے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے ۔ اور آیت میں ہے ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کردیں ۔ اور آیت میں ہے کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کردیا ، بھس اڑا دیا ، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی ۔ ان کے ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں ۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے ۔ تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے ۔ لگے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے ۔ اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش وعشرت کے سامانوں میں پھر آجاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں؟ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا ۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے صاف کہیں گے کہ بیشک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بےنفع ہے ۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہوجائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں ۔ ان کا چلنا پھرنا آنا جانا بولنا چالنا سب ایک قلم بند ہوجائے ۔
[١٠] یعنی اس میں کوئی نرالی داستانیں اور عجیب و غریب ملک کے حالات نہیں ہیں بلکہ تم ہی جیسے لوگوں کے حالات مذکور ہیں۔ تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیربحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت، آغاز اور انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے اچھے اور برے اخلاق کے فرق کو نمایاں کرکے دکھایا جارہا ہے اس کتاب میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے کہ اگر تم کچھ بھی غور و فکر کرو تو اس میں تمہارے لئے نصیحت اور تمہارا بھلا ہی بھلا ہے۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا ۔۔ : اس آیت میں کفار کی ان تمام پریشان کن باتوں کا اکٹھا جواب ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے متعلق کہتے تھے کہ یہ خوابوں کی پراگندہ باتیں ہیں، یا من گھڑت باتیں ہیں، یا جادو ہے، یا شاعری ہے، تو فرمایا کہ قرآن کا ان میں سے کسی بات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ہم نے تو تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، تمہارے ہی حالات اور زندگی کے معاملات پر بحث کی گئی ہے اور انھی کے متعلق تمہاری راہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں خواب، جادو یا شاعری کی کون سی بات ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ ” فِيْهِ ذِكْرُكُمْ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں یہ کتاب ساری دنیا میں تمہاری ناموری، شہرت اور عز و شرف کا باعث ہے، جیسا کہ دوسری جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا : (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ) [ الزخرف : ٤٤ ] یعنی بیشک یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے عز و شرف کا باعث ہے۔ ذکر کا ایک معنی نصیحت بھی ہے، جیسے فرمایا : (وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ الذاریات : ٥٥ ] ” اور نصیحت کر، کیونکہ یقیناً نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔ “ تو آیت کا ترجمہ یہ ہوگا ” بلاشبہ یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت کا سامان ہے۔ “ آیت میں ذکر کے تینوں معنی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان میں کوئی باہمی تعارض نہیں۔
قرآن کریم عربوں کے لئے عزت و فخر ہے :- كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ، کتاب سے مراد قرآن ہے اور ذکر اس جگہ بمعنے شرف و فضیلت اور شہرت کے ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ قرآن جو تمہاری زبان عربی میں نازل ہوا تمہارے لئے ایک بڑی عزت اور دائمی شہرت کی چیز ہے تمہیں اس کی قدر کرنا چاہئے جیسا کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ اہل عرب کو حق تعالیٰ نے قرآن کی برکت سے ساری دنیا پر غالب اور فاتح بنادیا اور پورے عالم میں ان کی عزت و شہرت کا ڈنکا بجا اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ عربوں کی مقامی یا قبائلی یا لسانی خصوصیت کی بناء پر نہیں بلکہ صرف قرآن کی بدولت ہوا۔ اگر قرآن نہ ہوتا تو شاید آج کوئی عرب قوم کا نام لینے والا بھی نہ ہوتا۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ١٠ۧ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(١٠) اور ہم تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اگر تم اس پر ایمان لے آؤ تو اس میں تمہاری عزت و شرافت ہے کیا پھر بھی اپنی عزت و شرافت کی تصدیق نہیں کرتے۔
آیت ١٠ (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) ” (- یہاں ” ذِکْرُکُمْ “ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ اس میں تمہارے حصے کی نصیحت اور تعلیم ہے (یعنی ذکرٌ لکم) اور دوسرا یہ کہ ” اس میں تمہارا اپنا ذکر بھی موجود ہے “۔ اس دوسرے مفہوم کی وضاحت ایک حدیث سے ملتی ہے ‘ جس کے راوی حضرت علی (رض) ہیں۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ) ” آگاہ ہوجاؤ عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہوگا “ فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ ” تو میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا ؟ “ یعنی اس فتنے سے بچنے کی سبیل کیا ہوگی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ، فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ ) (١) ” للہ کی کتاب اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں ‘ تمہارے بعد آنے والوں کے احوال بھی ہیں اور تمہارے باہمی مسائل و اختلافات کا حل بھی ہے “۔ ان معانی میں یہاں ذِکْرُکُمْ سے مراد یہی ہے کہ تمہارے ہر دور کے تمام مسائل کا حل اس کتاب کے اندر موجود ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی ہمیں ہر قسم کی صورت حال میں قرآن مجید سے راہنمائی مل سکتی ہے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :12 یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے ، یہ ساحری ہے یہ پراگندہ خواب ہیں ، یہ من گھڑت افسانے ہیں ، وغیرہ ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو ، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو ۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے ۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیر بحث ہیں ۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے ۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں ۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو ؟
4: اس آیت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے ہی ذکر خیر کا سامان ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب عربی زبان میں نازل کی گئی ہے جس کے براہ راست کا مخاطب تم عرب لوگ ہو، اور یہ تمہارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخر کلام تم پر تمہاری زبان میں نازل فرمایا، اور اس سے رہتی دنیا تک دنیا کی ساری قوموں میں تمہارا ذکر خیر جاری رہے گا۔