قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے ۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے ۔ شعر ( الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن ) موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے ۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی ۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں ۔ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے ۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے ۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں ۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں ۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی ، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی ۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے ۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے ، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے ۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے ۔ پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے ۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا ۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے ۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے ۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96ۙ ) 10- یونس:96 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں ، ایمان قبول نہ کریں گے ۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مجمع مسجد میں تھا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا ۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابو بکر تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام اونٹنی لائے ، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رونے لگے ۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو ۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو ۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے ۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں ۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں ۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے ۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے ۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے ۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران وپریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا ۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی ۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے ۔
1۔ 1 وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔ 1۔ 2 یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بیخبر ہیں۔
[١] یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی آخرالزمان کی بعثت ہی اس بات کی علامت ہے کہ زمین میں بنی آدم کی آبادی کا آخری دور ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : میں اور قیامت ایسے ہی جیسے یہ دو انگلیاں (بخاری : کتاب الرقاق، باب بعثت انا والساعہ کھاتین۔۔ ) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں : ایک یہ کہ جتنی لمبائی شہادت کی انگلی کی ہے۔ یہ حضرت آدم سے لے کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کا زمانہ ہے اور جتنی وسطی انگلی شہادت کی انگلی سے بڑی ہے یہ مجھ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً پانچ حصے عرصہ گزر چکا ہے اور ایک حصہ باقی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ اسی طرح میرے بعد تاقیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قریب قیامت کی علامت ہوئی۔ نیز اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کا حساب اور جزاء و سزا کام سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ حساب اور جزاء و سزا کا سلسلہ قیامت کی نسبت بہت ہلکے پیمانہ پر ہوگا اور اس مطلب پر دلیل آپ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص مرگیا، اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ)
اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ : ” اِقْتَرَبَ “ ” قَرِبَ یَقْرَبُ “ (ع، ک) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بہت قریب آگیا۔ “ ” غَفْلَةٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری غفلت “ کیا گیا ہے۔ - ” اَلنَّاسُ “ کا لفظ عام ہے، یعنی سب لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا، اس کے باوجود انھیں اس کی کچھ فکر نہیں، بلکہ وہ بھاری غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی دنیا کی دلچسپیوں میں محو ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” فِيْ غَفْلَةٍ “ کی تفسیر ” غَفْلَۃُ أَھْلِ الدُّنْیَا “ (دنیا والوں کی غفلت) فرمائی ہے۔ [ بخاري : ٤٧٣٠ ] دیکھیے سورة مریم (٣٩) ۔- حِسَابُهُمْ : حساب کے لفظ میں دنیا و آخرت دونوں کا محاسبہ شامل ہے۔ دنیا میں محاسبہ جیسا کہ کفار قریش کو بدر اور فتح مکہ کی صورت میں پیش آیا اور ہر انسان کو سال میں ایک دو دفعہ پیش آتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٦ ] ” اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ “ دنیا کے محاسبے کے فوراً بعد موت کی صورت میں محاسبہ پیش آئے گا، فرشتے کفار کی جانیں نکالتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے : (اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) [ الأنعام : ٩٣ ] ” نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔ “ موت کے بعد قبر کے سوال و جواب کی صورت میں محاسبہ اور آخر میں قیامت کے دن حساب ہوگا۔ حساب کے لفظ میں یہ تمام محاسبے شامل ہیں مگر یوم حساب کے طور پر قیامت کا دن مشہور ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کے یہ تمام مرحلے بالکل قریب ہیں۔ حساب کی کچھ صورتیں تو زندگی ہی میں ہر روز پیش آتی رہتی ہیں، پھر موت کے قرب میں کسی کو شک نہیں، رہی قیامت تو اگرچہ وہ لوگوں کو دور دکھائی دیتی ہے مگر ہر آنے والی چیز قریب ہے، خواہ کتنے انتظار کے بعد آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا ۙوَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا ) [ المعارج : ٦، ٧ ] ” بیشک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ “ نیز دیکھیے سورة نحل (١) ، حج (٤٧) اور قمر (١) اس لحاظ سے بھی یوم حساب بہت قریب آگیا ہے کہ دنیا کی مدت کا اکثر حصہ گزر چکا۔ اب آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ یَعْنِيْ إِصْبَعَیْنِ )” میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجے گئے ہیں۔ “ [ بخاري، الرقاق، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : بعثت أنا والساعۃ کھاتین : ٦٥٠٥، عن أنس (رض) ]- مُّعْرِضُوْن : یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ” اَلنَّاسُ “ کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقیناً مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کرکے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقیناً ہونا ہے مگر وہ اس لیے بےپروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابوالعتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے - اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلاَتِھِمْ- وَ رَحَی الْمَنِیَّۃِ تَطْحَنُ- ” لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - ان (منکر) لوگوں سے ان کا (وقت) حساب نزدیک آپہنچا (یعنی قیامت وقتاً فوقتاً نزدیک ہوتی جاتی ہے) اور یہ (ابھی) غفلت (ہی) میں (پڑے) ہیں (اور اس کے یقین کرنے اور اس کے لئے تیاری کرنے سے) اعراض کئے ہوئے ہیں (اور ان کی غفلت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت تازہ (حسب حال ان کے) آتی ہے (بجائے اس کے ان کو تنبہ ہوتا) یہ اس کو ایسے طور سے سنتے ہیں کہ (اس کے ساتھ) ہنسی کرتے ہیں (اور) ان کے دل (اصلاً ادھر) متوجہ نہیں ہوتے اور یہ لوگ یعنی ظالم (اور کافر) لوگ (آپس میں) چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں (اس لئے نہیں کہ ان کو اہل اسلام کا خوف تھا کیونکہ مکہ میں کفار ضعیف نہ تھے بلکہ اس لئے کہ اسلام کے خلاف خفیہ سازش کر کے اس کو مٹائیں) کہ یہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض تم جیسے ایک (معمولی) آدمی ہیں (یعنی نبی نہیں اور یہ جو ایک دلکش و دلربا کلام سناتے ہیں اس پر اعجاز کا شبہ اور اس اعجاز سے نبوت کا خیال نہ کرنا کیونکہ وہ حقیقت میں سحر آمیز کلام ہے) تو کیا (باوجود اس بات کے) پھر بھی تم جادو کی بات سننے کو (ان کے پاس) جاؤ گے حالانکہ تم (اس بات کو خوب) جانتے (بوجھتے) ہو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کا حکم ہوا اور انہوں) نے (موافق حکم کے جواب میں) فرمایا کہ میرا رب ہر بات کو (خواہ) آسمان میں ہو اور (خواہ) زمین میں ہو اور خواہ ظاہر ہو یا خفی ہو خوب) جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے (سو تمہارے ان اقوال کفریہ کو بھی جانتا ہے اور تم کو خوب سزا دے گا اور انہوں نے کلام حق کو صرف جادو کہنے پر اکتفا نہیں کیا) بلکہ یوں (بھی) کہا کہ یہ (قرآن) پریشان خیالات ہیں (کہ واقع میں دلکش بھی نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر نے) اس کو (قصداً و اختیاراً اپنے دل سے) تراش لیا ہے (اور خواب کے خیالات میں تو انسان قدرے بےاختیار اور معذور اور مبتلائے اشتباہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ افتراء کچھ قرآن ہی کے ساتھ خاص نہیں) بلکہ یہ تو ایک شاعر شخص ہیں (ان کی تمام باتیں ایسی ہی تراشیدہ اور خیالی ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ رسول نہیں ہیں اور بڑے مدعی رسالت کے ہیں) تو ان کو چاہئے کہ ایسی کوئی (بڑی) نشانی لاویں جیسا پہلے لوگ رسول بنائے گئے (اور بڑے بڑے معجزات ظاہر کئے اس وقت ہم رسول مانیں اور ایمان لائیں اور یہ کہنا بھی ایک بہانہ تھا ورنہ انبیاء سابقین کو بھی نہ مانتے تھے حق تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ) ان سے پہلے کوئی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ہے (باوجود ان کے فرمائشی معجزات ظاہر ہوجانے کے) ایمان نہیں لائے سو کیا یہ لوگ (ان معجزات کے ظاہر ہونے پر) ایمان لے آویں گے ( اور ایسی حالت میں ایمان نہ لانے پر عذاب نازل ہوجاوے گا اس لئے ہم وہ معجزات ظاہر نہیں فرماتے اور قرآن معجزہ کافی ہے) اور (رسالت کے متعلق جو ان کا یہ شبہ ہے کہ رسول بشر نہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے آپ سے قبل صرف آدمیوں ہی کو پیغمبر بنایا ہے جن کے پاس ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو ( اے منکرو) اگر تم کو (یہ بات) معلوم نہ ہو تو اہل کتاب سے دریافت کرلو (کیونکہ یہ لوگ اگرچہ کافر ہیں مگر خبر متواتر میں راوی کا مسلمان یا ثقہ ہونا شرط نہیں، پھر تم ان کو اپنا دوست سمجھتے ہو تو تمہارے نزدیک ان کی بات معتبر ہونی چاہئے) اور (اسی طرح رسالت کے متعلق جو اس شبہ کی دوسری تقریر ہے کہ رسول فرشتہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے ان رسولوں کے (جو کہ گذر چکے ہیں) ایسے بدن نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہیں (یعنی فرشتہ نہ بنایا تھا) اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کے انتظار میں خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ کذا فی المعالم، یہ وفات بھی منافی نبوت نہیں کیونکہ) وہ (گزشتہ حضرات (بھی دنیا میں) ہمیشہ رہنے والے نہیں ہوئے (پس اگر آپ کی بھی وفات ہوجاوے تو نبوت میں کیا اعتراض لازم آیا، غرض یہ کہ جیسے پہلے رسول تھے ویسے ہی آپ بھی ہیں اور یہ لوگ جس طرح آپ کی تکذیب کرتے ہیں اسی طرح ان حضرات کی بھی اس زمانے کے کفار نے تکذیب کی) پھر ہم نے جو ان سے وعدہ کیا تھا ( کہ مکذبین کو عذاب سے ہلاک کریں گے اور تم کو اور مؤمنین کو محفوظ رکھیں گے ہم نے) اس (وعدہ) کو سچا کیا ان کو اور جن جن کو (نجات دینا) منظور ہوا ( اس عذاب سے) ہم نے نجات دی اور (اس عذاب سے) حد (اطاعت) سے گزرنے والوں کو ہلاک کیا ( سو ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے اے منکرو اس تکذیب کے بعد تم پر دنیا و آخرت میں عذاب آوے تو تعجب نہیں کیونکہ) ہم تمہارے پاس ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اس میں تمہاری نصیحت (کافی) موجود ہے کیا (باوجود ایسی تبلیغ موعظت کے) پھر بھی تم نہیں سمجھتے (اور نہیں مانتے) ۔- معارف و مسائل - سورة انبیاء کی فضیلت :- حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ سورة کہف اور مریم اور طہ اور انبیاء یہ چاروں سورتیں نزول کے اعتبار سے ابتدائی سورتیں اور میری یہ قدیم دولت اور کمائی ہیں جن کی ہمیشہ حفاظت کرتا ہوں (قرطبی)- اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ ، یعنی وہ وقت قریب آگیا جبکہ لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جاوے گا مراد اس سے قیامت ہے اور اس کا قریب آجانا دنیا کی پچھلی عمر کے لحاظ سے ہے کیونکہ یہ امت آخر الامم ہے اور اگر حساب عام مراد لیا جائے تو حساب قبر بھی اس میں شامل ہے جو ہر انسان کو مرنے کے فوراً بعد دینا ہوتا ہے اور اسی لئے ہر انسان کی موت کو اس کی شخصی قیامت کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامتہ، یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی اس معنے کے اعتبار سے حساب کا وقت قریب ہونا تو بالکل ہی واضح ہے کہ ہر شخص کی موت خواہ کتنی ہی عمر ہو کچھ دور نہیں خصوصاً جبکہ عمر کی انتہا نامعلوم ہے تو ہر دن ہر گھنٹہ موت کا خطرہ سامنے ہے۔- مقصود اس آیت سے غفلت شعار لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جس میں سب مومن و کافر داخل ہیں کہ دنیا کی خواہشات میں مشغول ہو کر اس حساب کے دن کو نہ بھلائیں کیونکہ اس کو بھلا دینا ہی ساری خرابیوں اور گناہوں کی بنیاد ہے۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ١ۚ- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(١) کتاب اللہ میں جس عذاب کا ان مکہ والوں سے وعدہ کیا ہے، ان کے اس عذاب کا وقت قریب ہے اور یہ ابھی اس سے غافل ہیں اور اس کو جھٹلا رہے ہیں اور انہوں نے اس کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
سورة الْاَنبیَآء حاشیہ نمبر :1 مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثتُ انا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتینِ ، میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔