Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5 ۔ المائدہ:44 ) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا ، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا ، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے ۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26 ۔ الشعرآء:193 ) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا ابو ہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر ۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمھارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشوتں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ) 42 ۔ الشوری:52 ) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 آیت ( وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بالرُّسُلِ ) 2 ۔ بقرہ :87) کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوگیا (بَیِّنَاتِ ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49؀ۚ ) 003:049 میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی) ۔ 87۔ 2 جیسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی (علیہما السلام) کو قتل کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے انبیاء :۔ ان میں سے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ (بہ ترتیب زمانی) ہارون، ذی الکفل، الیاس الیسع، داؤد، سلیمان، لقمان، (اختلافی) عزیر، یونس، زکریا۔ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) جنہیں سریانی زبان میں یسوع کہتے ہیں۔- [١٠١] معجزات سیدنا عیسیٰ :۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ کوڑھی اور اندھے کو فقط ہاتھ لگا کر تندرست کردیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتا تھا اور آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور کیا کچھ گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان تمام کاموں میں روح القدس یعنی جبریل (علیہ السلام) کی تائید آپ کے شامل حال رہتی تھی۔- [١٠٢] یہود اور انبیاء کا قتل :۔ جیسے ان لوگوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اور سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ (علیہما السلام) کو قتل کردیا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو مروا ڈالنے کے درپے ہوچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے انہیں اوپر اپنے ہاں اٹھا لیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن مجید میں آیا ہے وہ ہارون، ذوالکفل، الیاس، الیسع، داؤد، سلیمان، عزیر، یونس، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ہیں، حدیث میں یوشع بن نون (علیہ السلام) کا ذکر بھی آیا ہے۔ لقمان (علیہ السلام) کے نبی ہونے میں اختلاف ہے۔ بہت سے رسولوں کا تذکرہ قرآن میں نہیں کیا گیا، دیکھیے سورة مؤمن ( ٧٨) ۔- (الْبَيِّنٰت) اس سے مراد معجزے ہیں، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیے گئے، جیسے مردوں کو زندہ کرنا، مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں روح پھونکنے سے پرندہ بن جانا، اندھے اور برص کے مریض کو تندرست کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورة آل عمران ( ٤٩) اور مائدہ (١١٠) میں آیا ہے۔ - (بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ ) اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ زمخشری (رض) نے فرمایا : ” بِالرُّوْحِ الْمُقَدَّسَۃِ کَمَا تَقُوْلُ حَاتِمُ الْجُوْدِ وَ رَجُلُ صِدْقٍ “ گویا ” روح “ موصوف ہے، جو اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور ” قدس “ مصدر ہے، جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی پاک روح، جیسا کہ ” حاتم “ کو اس کی صفت ” اَلْجُوْدُ “ کی طرف مضاف کیا گیا، جبکہ مصدر بمعنی ” اَلْجَوَادُ “ ہے، یعنی سخی ” حاتم “ اور ” رَجُل “ کو اس کی صفت ” صدق “ کی طرف مضاف کیا گیا، جو ” صادق “ کے معنی میں ہے، یعنی سچا آدمی۔ (الکشاف) بعض اہل علم نے فرمایا : ” الْقُدُسِ ۭ“ اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ وہ سراسر پاک ہے، روح اس کی طرف مضاف ہے، گویا روح القدس کا معنی ہوا روح اللہ، اگرچہ تمام روحوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، مگر جبریل (علیہ السلام) کی خصوصی عزت افزائی کے لیے انھیں روح اللہ کہا گیا، جیسا کہ ” بیت اللہ “ اور ” ناقۃ اللہ “ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ سب گھروں کا مالک اللہ ہی ہے اور سب اونٹنیاں اللہ ہی کی ہیں، مگر کعبہ کو اور صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ان الفاظ کے ساتھ خاص شرف عطا ہوا۔ - اس بات کی دلیل کہ روح القدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہی ہیں، یہ ہے کہ سورة شعراء (١٩٣) میں جبریل (علیہ السلام) کو ” الروح الامین “ فرمایا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان (رض) کے متعلق فرمایا : ( اَللّٰھُمَّ أَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) ” اے اللہ اس کو روح القدس کے ساتھ قوت بخش۔ “ [ بخاری، الصلوۃ، باب الشعر فی المسجد : ٤٥٣ ] - ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ سے جنگ والے دن حسان (رض) سے فرمایا : ( اُھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَإِنَّ جِبْرِیْلَ مَعَکَ ) ” مشرکین کی ہجو کر کیونکہ یقیناً جبریل تیرے ساتھ ہے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب مرجع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب : ٤١٢٤ ] معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل ہی ہیں۔ - اگرچہ تمام انبیاء کو بینات عطا ہوئے اور جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے سے وحی ہوئی، مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ معجزوں اور روح القدس کی تائید کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا کہ یہود نے اتنے برگزیدہ پیغمبر کو بھی جھٹلا دیا، بلکہ انھیں اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا، پھر اسے اپنا فخریہ کارنامہ قرار دیا : ( وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاع الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا) [ النساء : ١٥٧ ] ” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنادیا گیا اور بیشک وہ لوگ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، یقیناً اس کے متعلق بڑے شک میں ہیں، انھیں اس کے متعلق گمان کی پیروی کے سوا کچھ علم نہیں اور انھوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا۔ “- (وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْن) دیکھیے سورة بقرہ آیت (٦١) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے (اے بنی اسرائیل تمہاری ہدایت کے لئے ہمیشہ سے بڑے بڑے سامان کئے سب سے اول) موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (توراۃ) دی اور (پھر) ان کے بعد (درمیان میں) یکے بعد دیگرے (برابر مختلف) پیغمبروں کو بھیجتے رہے اور (پھر اس خاندان کے سلسلہ کے اخیر میں) ہم نے (حضرت) عیسیٰ بن مریم کو (نبوت کے) واضح دلائل (انجیل اور معجزات) عطا فرمائے اور ہم نے ان کو روح القدس ( جبرئیل علیہ السلام) سے جو تائید دی (سو الگ جو بجائے خود ایک دلیل واضح تھی تو) کیا (تعجب کی بات نہیں کہ اس پر بھی تم سرکشی کرتے رہے اور) جب کبھی بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسے احکام لائے جن کو تمہارا دل نہ چاہتا تھا (جب ہی) تم نے (ان پیغمبروں کی اطاعت سے) تکبر کرنا شروع کردیا سو (ان پیغمبروں میں سے) بعضوں کو تو (نعوذباللہ) تم نے جھوٹا بتلایا اور بعضوں کو (بیدھڑک) قتل ہی کر ڈالتے تھے،- فائدہ : قرآن و حدیث میں جابجا حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو روح القدس کہا گیا ہے جیسے قرآن کی اس آیت میں نیز قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ (١٠٢: ١٦) میں اور حدیث میں حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعر - وجبریل رسول اللہ فینا، وروح القدس لیس لہ کفاء - اور جبریل (علیہ السلام) کے واسطے سے عیسیٰ (علیہ السلام) کئی طریقوں سے تائید ہوئی اول تو ولادت کے وقت مس شیطان سے حفاظت کی گئی پھر ان کے دم کرنے سے حمل عیسوی قرار پایا پھر یہود چونکہ کثرت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالف تھے اس لئے جبرئیل (علیہ السلام) حفاظت کے لئے ساتھ رہتے تھے حتٰی کے آخر میں ان کے ذریعہ سے آسمان پر اٹھوالئے گئے یہود نے بہت سے پیغمبروں کی تکذیب کی حتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی اور حضرت زکریا و حضرت یحییٰ ٰ (علیہم السلام) کو قتل بھی کیا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 11- وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ۝ ٠ ۡوَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝ ٠ ۭ اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ۝ ٠ ۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ۝ ٠ ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۝ ٨٧- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قفا - القَفَا معروف، يقال : قَفَوْتُهُ : أصبت قَفَاهُ ، وقَفَوْتُ أثره، واقْتَفَيْتُهُ : تبعت قَفَاهُ ، والِاقْتِفَاءُ : اتّباع القفا، كما أنّ الارتداف اتّباع الرّدف، ويكنّى بذلک عن الاغتیاب وتتبّع المعایب، وقوله تعالی: وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] أي : لا تحکم بالقِيَافَةِ والظنّ ، والقِيَافَةُ مقلوبة عن الاقتفاء فيما قيل، نحو : جذب وجبذ وهي صناعة وقَفَّيْتُهُ : جعلته خلفه . قال : وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] . والقَافِيَةُ : اسم للجزء الأخير من البیت الذي حقّه أن يراعی لفظه فيكرّر في كلّ بيت، والقَفَاوَةُ : الطّعام الذي يتفقّد به من يعنی به فيتّبع .- ( ق ف و ) القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفرتہ کے معنی کسی کی گدی پر مارنا اور کسی کے پیچھے پیچھے چلنا یہ دونوں محاورہ ہے استعمال ہوتی ہے قفوت الژرہ واقتفیتہ کے معنی کیس کے پیچھے چلنے کے ہیں دوسرے کا مصدر اقتفاء ہے ۔ جس کے اصل معنی کسی کی قفا کا اتباع کرنے کے ہیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر کیس کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] اور ( اے بندے ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ یعنی محض قیافہ اور ظن سے کام نہ لو بعض کے نزدیک قیافہ کا لفظ بھی اقتفاء سے مقلوب ہے ۔ جیسے جذب وحیذا ور یہ ( قیافہ ) ایک فن ہے ۔ اور قفیتہ کے معنی کیس کو دوسرے کے پیچھے لگانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے ، القافیۃ مصر عہ کے جز وا خیر کو کہا جاتا ہے جس کے حرف روی کی ہر شعر میں رعایت رکھی جاتی ہے ۔ القفاوۃ وہ کھانا جس سے مہمان کی آؤ بھگت کی جائے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے - الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔- (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔- (2) بنی آدم فی انفسہم۔- (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ - (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔- (5) القران - (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان)- ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔- ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔- ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ - مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ - قدس - التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ- [ البقرة 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس .- وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة .- وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة .- ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] تو بھائیو تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعا سے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٧) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی اور ان کے بعد مسلسل رسولوں کو بھیجا اور عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) کو امر و نہی عجائب و علامات عطا کیے اور جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سے ان کو طاقت دی۔ اے یہودیوں کی جماعت کیوں تمہارے دل اور تمہارا دین موافقت نہیں کرتا اور تم رسول پر ایمان لانے سے اعراض کرتے ہو ایک جماعت نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلادیا اور تم ہی میں سے بعض لوگوں نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ (وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز) - ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں لفظ الرُّسُل انبیاء کے معنی میں آیا ہے۔ نبی اور رسول میں کچھ فرق ہے ‘ اسے اختصار کے ساتھ سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ وہ تینوں مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوجاتے ہیں اور اپنا علیحدہ علیحدہ مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ضمن میں علماء کرام نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا یعنی جب (ایک جوڑے کے) دونوں لفظ اکٹھے استعمال ہوں گے تو دونوں کا مفہوم مختلف ہوگا ‘ اور جب یہ دونوں الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک معنی میں استعمال ہوجائیں گے۔ ان میں سے ایک جوڑا اسلام اور ایمان یا مسلم اور مؤمن کا ہے۔ عام طور پر مسلم کی جگہ مؤمن اور مؤمن کی جگہ مسلم استعمال ہوجاتا ہے ‘ لیکن سورة الحجرات میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں تو ان کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ فرمایا : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا۔۔ ) (آیت ١٤) بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔۔ اسی طرح جہاد اور قتال کا معاملہ ہے۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم جدا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کی جگہ بھی آجاتے ہیں۔- اس ضمن میں تیسرا جوڑا نبی اور رسول کا ہے۔ یہ دونوں لفظ بھی اکثر ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں ‘ لیکن ان میں فرق بھی ہے۔ ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘ البتہ ہر رسول لازماً نبی ہوتا ہے۔ یعنی نبی عام ہے رسول خاص ہے۔ نبی کو جب کسی خاص قوم کی طرف معینّ طور پر بھیج دیا جاتا ہے تب اس کی حیثیت رسول کی ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت انتہائی اعلیٰ مرتبہ پر فائز ایک ولی اللہ کی ہے ‘ جس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عام ولی اللہ میں اور نبی میں فرق یہی ہے کہ نبی پر وحی آتی ہے ‘ ولی پر وحی نہیں آتی۔ لیکن کسی نبی کو جب کسی معین قوم کی طرف مبعوث کردیا جاتا تھا تو پھر وہ رسول ہوتا تھا۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا : (اِذْھَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی) (طٰہٰ ) تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ ‘ یقیناً وہ سرکشی پر اتر آیا ہے۔ اسی طرح دوسرے رسولوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مثلاً (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا) (الاعراف : ٨٥) اور مدین کی طرف بھیجا ہم نے ان کے بھائی شعیب ( علیہ السلام) کو۔ یہ فرق ہے نبی اور رسول کا۔ محض سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کر رہا ہوں کہ جیسے آپ کے یہاں خصوصی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے ‘ ان میں سے کوئی ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے ‘ کسی کو جائنٹ سکریٹری کیّ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ‘ تو کوئی بطور . . خدمات انجام دیتا ہے ‘ لیکن اس کا کا ڈر ( ) برقرار رہتا ہے۔ اسی اعتبار سے ہر نبی ہر حال میں نبی ہوتا تھا ‘ لیکن اسے رسول کی حیثیت سے ایک اضافی ذمہ داری اور اضافی مرتبہ عطا کیا جاتا تھا۔- نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں ایک بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ نبیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے ‘ جبکہ رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ (لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط) (المُجادلۃ : ٢١) لازماً غالب رہیں گے َ میں اور میرے رسول۔ چناچہ جب بھی کسی قوم نے کسی رسول ( علیہ السلام) کی جان لینے کی کوشش کی تو اس قوم کو ہلاک کردیا گیا اور رسول ( علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ نبیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) نبی تھے ‘ قتل کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول تھے ‘ لہٰذا قتل نہیں کیے جاسکتے تھے ‘ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ‘ جو قیامت سے قبل دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے کی شدید تمنا تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس تمنا اور آرزو کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے :- (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ) (٩)- قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں تو اس میں قتل کردیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں - لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں نوٹ کیجیے کہ اگرچہ یہاں لفظ رسول آگیا ہے لیکن یہ نبی کے معنی میں آیا ہے : (وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز) اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد لگاتار پیغمبر بھیجے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہی ہیں ‘ درمیان میں جو پیغمبر ( ) ہیں یہ سب انبیاء ہیں۔ - (وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ ) - حسِّی معجزات جس قدر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دیے گئے ویسے اور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ان کا تذکرہ آگے چل کر سورة آل عمران میں آئے گا۔ - (وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط) ۔ - حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کی خاص تائید و نصرت حاصل تھی۔ معجزات کا ظہور کسی نبی یا رسول کی اپنی طاقت سے نہیں ہوتا ‘ اسی طرح کرامت کسی ولی اللہ کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی ‘ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا ظہور فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ - (اَفَکُلَّمَا جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لاَ تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ط) ۔ - انبیاء و رسل کے ساتھ یہود نے جو طرز عمل روا رکھا ‘ خاص طور پر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ جو کچھ کیا ‘ یہاں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر آیا تو تمہاری روش یہی رہی کہ تم نے استکبار کیا اور سرکشی کی ‘ وہی استکبار اور سرکشی جس کے باعث عزازیل ابلیس بن گیا تھا۔ - (فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْز وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ۔ - اللہ کے رسول چونکہ قتل نہیں ہوسکتے لہٰذا یہاں نبیوں کا قتل مراد ہے۔ مزید برآں ایک رائے یہ بھی دی گئی ہے کہ یہاں ماضی کا صیغہ قَتَلْتُمْ نہیں آیا ‘ بلکہ فعل مضارع تَقْتُلُوْنَ آیا ہے اور مضارع کے اندر فعل جاری رہنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ گویا تم ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ بعض رسولوں کی تو جان کے درپے ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :93 ” روح پاک“ سے مراد علم وحی بھی ہے ، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ روح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا ۔ ”روشن نشانیوں“ سے مراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالبِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: ’’ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃ نحل 102:16) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جب جبرئیل (علیہ السلام) کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے